کچھ دنوں سے فیس بک پر گردش کرنے والے ان جعلی تصاویر کے پیچھے کا مقصد کیا ہے؟ 
کیا روہنجیا مسلمان وہ بنگالی غدار تو نہیں جنکو پاکستانی فوج بنگلہ دیش کے آزادی کے بعد بے یارو مددگار بنگلہ دیش میں چھوڑ آیا تھا؟؟ پاکستان آرمی کے شکست کے بعد جو پاکستان پرست بنگالی غدار اپنی جان بچانے کےلئے بنگلہ دیش سے فرار ھو کر برما میں پناہ لے چکے تھے کئی یہ روہنجیا مسلمان وہی بنگالی غدار تو نہیں ؟ ؟؟
جہنیں برمیوں نے اس وقت سے لیکر آج تک قبول نہیں کیا 
آج پاکستانی حکومت کا یہ بیان کہ ان دس لاکھ روہنجیا مسلمان مہاجرین کو کراچی میں پناہ دے کر آباد کیا جائے گا. 
کئی ایسا تو نہیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے جعلی تصاویر کے ذریعے آئی ایس آئی ان لوگوں کے آباد کاری کےلئے راہموار کرنے کی کوششیں کررہا ھے .
اس سے قبل بنگلہ دیشی غداروں کے لئے مشرف دور حکومت میں پاکستان آرمی نے پوری کوشش کی کہ کسی بھی طرح ان کو گوادر اور بلوچ ساحلی پٹی پر آباد کیا جائے لیکن بلوچ مزاحمتی لہر اور آباد کاروں پر حملوں نے ان عزائم کے تکمیل میں رکاوٹ پیدا کی. 
ایسا تو نہیں کہ آج بھی روہنجیا مسلمانوں پر جعلی مظالم کے قصوں کے پیچھے بلوچ سرزمین پر بنگالی غداروں کی آباد کاری کی سازش تو کار فرما نہیں؟ ؟؟؟
ان تصاویر میں ایسے تصویر بھی شامل ہیں جو تامل ٹائیگرز کے خلاف ھونے والے آپریشن کے ہیں جس آپریشن میں پاکستان آرمی برائے راست ملوث تھا یہ تصاویر اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان تمام مظالم میں پاکستانی فوج ملوث رہا ھے کیونکہ یہ تصویری کہانی تاملوں پر ھونے والے مظالم کی سچائی بیان کرتے ہیں ..
تاملوں پر انسانیت سوز مظالم کرکے انکے مظلومیت کے بل بوتے پر ایک مرتبہ پھر سےاپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنا پوری انسانیت کی توہین ھے لیکن دیکھا جائے تو انسانیت کی توہین پنجابی آرمی کا پیشہ رہا ھے 
مجھے لگتا ھے کہ اس سازش کو پوری طرح سے سمجھنے کے لئے بلوچوں کو بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ھے 
……… روہنجیا مسلمانوں کے متعلق بی بی سی کی رپورٹ …..
گذشتہ ماہ میانمار سے بھاگ کر سمندر میں پھنسے بے یار و مددگار روہنجیا مسلمانوں کی حالتِ زار ٹی وی سکرینوں، اخبارات اور دیگر میڈیا کا موضوع رہی لیکن آن لائن پر دکھائی جانے والی سبھی تصاویر وہ نہیں تھیں جو دراصل ہمیں دکھائی جا رہی تھیں۔
روہنجیا مسلمانوں کا ایک نسلی گروہ ہیں جو زیادہ تر میانمار یعنی برما میں رہتا ہے۔
روہنجیاؤں سے 1982 میں برما کی شہریت چھین لی گئی اور بدھ مت کی اکثریت والے اس ملک میں ان کو جور و ستم کا سامنا رہتا ہے۔
برمی ریاست انہیں بنگالی سمجھتی ہے اور بنگلہ دیش انہیں برمی کہتے ہیں اور وہ شہری آبادی سے دور بہت ہی بری حالت میں پرہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔
میانمار میں اور وہاں سے بھاگ کر سمندروں میں پھنسے ہوئے روہنجیاؤں کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے اس کے متعلق دکھائی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز بہت پریشان کن ہیں۔
بغیر خوراک اور پانی کے سمندر میں کشتیوں پر بے یار و مددگار روہنجیاؤں کی بہت سی تصاویر تو اصلی ہیں لیکن بی بی سی ٹرینڈنگ کو معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے آن لائن پر دکھائی جانے والی اکثر تصاویر کسی اور تباہی اور کسی اور واقعے کی بھی ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر تصاویر بہت پریشان کن اور دل ہلا دینے والی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ بودھ راہب انسانی جسموں کے ڈھیر کے اوپر کھڑے ہیں۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر شیئر کی گئی اس تصویر میں روہنجیاؤں کے خلاف بودھ بھکشوؤں کا تشدد دکھایا گیا ہے۔
لیکن یہ تصویر برما کی نہیں بلکہ یہ اپریل 2010 میں چین میں آنے والے زلزلے کے بعد کی تصویر ہے۔
برما کیپشن: تصویر کے کیپشن میں اردو میں لکھا ہے 146برما کے مسلمان145۔۔۔ اصل میں یہ انڈیا میں اس سٹنٹ کے متعلق اے ایف پی کی ایک تصویر ہے جسے 2009 میں بی بی سی نے رپورٹ بھی کیا تھا
ایک اور تصویر میں جلتے ہوئے ایک شخص کو سڑک پر بھاگتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ فیس بک پر ایک گروہ کہتا ہے کہ اس شخص کو خوفناک اذیت کا شکار بنایا گیا اور اسے زندہ جلا دیا گیا لیکن حقیقی کہانی بالکل مختلف ہے۔
اصل میں یہ تصویر تبت کے سرگرم کارکن جمفیل یشی کی ہے جنھوں نے 2012 میں انڈیا کے دارالحکومت دلی میں چینی صدر کی آمد کے خلاف احتجاج کے طور پر خود سوزی کی تھی۔
اس کے علاوہ بچوں کی بھی بہت سی پریشان کن تصاویر گردش کر رہی ہیں۔
ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک کھمبے کے ساتھ ایک لڑکا بندھا ہے جس کے چہرے پر تشدد کے نشانات ہیں۔
اگرچہ آن لائن پوسٹ میں اسے روہنجیا مسلمان بتایا گیا ہے لیکن اصل میں یہ ایک تھائی بچہ ہے جسے اس سال کے آغاز میں اس کے ایک رشتہ دار نے مٹھائی یا ٹافیاں چرانے کے الزام میں سزا دی تھی۔
اس کے علاوہ ایک اور تصویر کو بہت زیادہ شیئر کیا گیا ہے، خصوصاً انڈیا اور پاکستان میں۔ اس تصویر میں ایک شخص زمین پر لیٹے ہوئے لڑکے اور لڑکیوں کے بازوؤں کے اوپر سے موٹر سائیکل گزارتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ جنوبی انڈیا کے ایک مارشل آرٹس کے ماہر کا سٹنٹ ہے۔
دیگر تصاویر بھی ہیں۔ ایک تصویر میں زمین پر بہت سے لوگ لیٹے ہوئے دکھائی گئے ہیں۔ دراصل یہ تصویر 2004 میں تھائی لینڈ میں احتجاجی مظاہروں کی ہے۔
اسی طرح ایک تصویر میں جلی ہوئی لاشیں دکھائی گئی ہیں جو کہ 2010 میں کونگو میں ایک آئل ٹینکر کو آگ لگنے کے بعد کا خوفناک منظر ہے۔
اسی طرح کی ایک تصویر خون میں لت پت کپڑوں میں ملبوس بچوں کی بھی ہے جو کہ بظاہر سری لنکا کی ہے۔ اس طرح کی تصاویر فیس بک پر لگا کر بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ روہنجیا کے مسلمانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
برطانیہ میں مقیم روہنجیا مسلمانوں کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن اور بلاگر جمیلہ ہنان کہتی ہیں کہ 146ہم سب لوگوں کی تشویش کی قدر کرتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ان تصاویر کو شیئر کرنے سے پہلے ان کی تصدیق کر لے۔145
انھوں نے بی بی سی ٹرینڈنگ کو بتایا کہ 146روہنجیا کے بہت سے المناک مناظر کی تصاویر حقیقی ہیں، اس لیے انھیں جعل سازی سے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب سے زیادہ المناک تصاویر حقیقی تصاویر ہیں۔