دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ بہن نجمہ کا قتل اور بے حس آواران

بلوچ بہن نجمہ کا قتل اور بے حس آواران

تحریر ــ ڈاکٹر شکیل بلوچ

            ہمگام آرٹیکل

خودکشی یا قتل ؟ بحرحال نیلی آنکھوں والی نڈر اور بہادر بلوچ لڑکی نے اپنے آنے والے نسل کا دفاع کرتے ہوئے سرخم تسلیم کرنے اور اپنی ضمیر کا سودہ لگانے کی جگہ خود کو قربان کرکے شہادت کو ترجیح دی۔

آواران گیشکور کی زمین پر جنم لینے والی یہ رونق مختصر عرصے میں طلوع آفتاب ہونے کے بعد اس بے حس سماج کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہتے ہوئے غروب ہوئی۔

جب سماج مردہ ضمیروں سے بھری پڑی ہو تو روزانہ انسانیت سوز اور لرزہ خیز واقعات اخبارات کی شہ سرخیوں پر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں کے بدبخت باسیوں پر ہونے والے ظلم و جبر کی کہانیوں کو بھی اخبارات کے صفحوں میں جگہ نہیں۔ دیگر اقوام اور علاقوں میں اسکول، روڈ، ہسپتال اور دیگر ترقیاتی کاموں اور کامیابیوں کی خبریں اخبارات کے ہیڈ لائنز پر موٹے موٹے الفاظ میں لکھے ہوئے پڑھنے کو ملتے ہیں، جنہیں پڑھ کر یہ احساس ابھرتا ہے کہ ہماری بدبخت اور بد قسمت عوام اتنی بے بس اور لاچار کیوں ہے جنہیں انسان اور ایک مہزب شہری کا درجہ بھی حاصل نہیں، طاقتور لوگ جو چاہیں اپنی مرضی سے جو کریں لیکن اس بدبخت عوام کا کوئی پوچھنے والا کوئی نہیں۔

بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع آواران جہاں آج کل مختلف پارٹیاں سرگرم ہیں، مختلف نعروں اور دعوؤں کو بلند کرکے سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ الیکشن قریب آتے ہی موسمی پرندے کی طرح انوکھی روپ دھار کر انوکھے چہرے ائیریکنڈیشن کی سرد اور پر لزت ہوا سے بازیاب ہوکر عوام کے درمیان دکھنے کو ملتے ہیں جو خود کو قوم پرست لیڈر کہہ کر بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں جب الیکشن اختتام ہوتی ہے تو یہ فوراََ منظرنامے سے غائب ہو کر لاپتہ ہوجاتے ہیں۔

یہاں میں کسی ایک پارٹی کو تنقید کی زد میں نہیں لا رہا ہوں، میرے کہنے کا مقصد یہ تمام پارٹیاں محض دعوے کرتے ہیں لیکن اصل میں انہیں عوام کی جان، مال، عزت اور آبرو پر کوئی سروکار نہیں، لوگ بھوک سے مریں، بیماری سے مریں، قدرتی آفات اور زلزلے سے مریں، ان پر چور ڈکیت، اور چار ٹکّے کے لوگ ظلم اور جبر کے پہاڑ گرائیں، انہ سے اپنی من کے مطابق جو چاہیں وہ کام کروائیں لیکن ان نام نہاد موسمی لیڈروں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔

مصنوعی اور قدرتی آفت زدہ علاقے جہاں محض زندہ رہنا بھی ایک خوش قسمتی سمجھی جاتی ہے، اسکول، روڈ، ہسپتال اور دیگر ترقیاتی کاموں کیلئے مطالبات اپنی جگہ یہاں کے لوگ صرف عزت سے اپنی زندگی گزارنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن انکے لئے باعزت زندہ ہونے کی سہولت بھی میسر نہیں۔ آواران گیشکور کی سرزمین پر پرورش پانے والی روشن خیال لڑکی جن کے دل میں یہ آرزو تھی کہ میں مفت میں گاؤں کے بچوں کو پڑھاؤں، انہیں تعلیم دوں، نہ وہ کوئی پیسے اور مراعات کی ڈیمانڈ کر رہی تھی اور نہ ہی وہ کوئی تنخواہ کی طلبگار تھی، 2017 سے وہ اپنے گاؤں کے بچّوں کو مفت میں پڑھا رہی تھی کہ علاقے میں ایک درندہ صفت نوربخش نامی لیویز اہلکار مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن علم و شعور سے لبریز قوم کی لڑکی انکی چالاکیوں اور مزموم عزائم کا ادراک کرتے ہوئے باآسانی انکے جھال میں نہیں پھنستی، ہر روز مزکورہ کردار نئے حکمت عملی کے ساتھ بلوچ بہن کو اپنی چنگل میں پھسا کر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن بانک نجمہ بلوچ کی شعور کے سامنے مزکورہ کردار کی طاقت اور ناپاک عزائم زمین بھوس ہوکر خاک میں ملتے ہیں مگر یہ درندہ صفت لیویز اہلکار بار بار انہیں مختلف طریقوں سے تنگ کرتا ہے بالآخر نیلی آنکھوں والی نڈر اور بہادر بلوچ لڑکی اپنے آنے والے نسل کا دفاع کرتے ہوئے سرخم تسلیم کرنے اور اپنی ضمیر کا سودہ لگانے کی جگہ خود کو قربان کرکے شہادت کو ترجیح دیتی ہے اور آواران گیشکور کی تاریک سرزمین پر جگمگاتی ہوئی یہ رونق خود کو بھسم کرکے بے حس سماج اور نام نہاد لیڈروں کی وجود اور کردار پر ایک سوالیہ نشان ہمیشہ کیلئے چھوڑ جاتی ہے۔ لیکن اس بہادر اور نڈر لڑکی کی شہادت کو بے حس سماج خودکشی کا نام دے رہا ہے کیونکہ انکے دماغ کو ان تاریکیوں نے اس قدر دھند بنائی ہے کہ وہ قتل اور خودکشی کے درمیان تفرق پیدا نہیں کرسکتے، یہ ایک خود کشی نہیں بلکہ طاقت کی آڑ میں مدہوش کرداروں کے ہاتھوں ایک نوجوان لڑکی کی بے رحمانہ اور ظالمانہ اندازِ قتل ہے، اگر اس قتل کے محرکات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ خودکشی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا قتل ہے جو روز بانک نجمہ جیسی لڑکیاں اس طریقہ کار سے قتل کئے جا رہے ہیں۔ اور ایسے لرزہ خیز واقعات کو زیادہ تر علاقوں میں دبایا جاتا ہے۔ اگر کوئی باضمیر انسان ان علاقوں کا جائزہ لینے کی زحمت کرے تو بسا اوقات ایسی واردات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن روزانہبکی بنیاد پر رونما ہونے والی انسانیت سوز واقعات کو کون دیکھے اور کون سنے ؟ یہ الگ بات ہے کیونکہ اس بے حس سماج کے باسی اس قدر بے حس ہوچکے ہیں جن کو قدرت کے دیئے گئے حواس میں کوئی ایک حس بھی نہیں جو ان واقعات کو سنیں اور دیکھیں۔ حواس کا تعلق ضمیر سے ہوتا ہے جب ضمیر کو خوف، ڈر، زاتی مفادات اور مراعات کی مرض لگ جاتی ہے تو حواس بھی کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں۔ آواران میں یہ بیماری عام ہوچکی ہے یہاں ان معاملات کو نہ کوئی دیکھ اور سن سکتا ہے اور نہ ہی انکے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے۔ کیونکہ انہیں یہ ڈر ہے کہ انکی مفادات کوئی ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔ باضمیر انسان کبھی بھی مفادات اور مراعات کی آڈ میں آکر خوف اور ڈر کا شکار نہیں رہتا اور نہ ہی وہ اپنی عزت کا سودہ لگا سکتا ہے۔ یہ بلیک میلنگ کی آگ جو گاؤں اور دیہات میں پھیلتی جا رہی ہے یہ آگ ان میر و معتبروں اور نام نہاد موسمی لیڈروں کے گھروں کی چوکٹ تک پہنچ جائے گی۔ اس آگ کا نشانہ صرف نجمہ نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ آگ پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیکر بھسم کردے گی۔

آواران کا عوام کب تک خاموشی رہے گا ؟ یہ تمام واقعات کا زمہ دار ہماری خاموشی اور بے حسی ہے، ہمیں اپنی خاموشی توڑ کر ان کرداروں کے خلاف آواز اٹھا کر عملی اقدام اٹھانا ہوگا، بصورت دیگر ہم روز اسطرح کے لرزہ خیز واقعات کا سامنا کریں گے اور روزانہ نجمہ بلوچ خودکش نما صورت میں قتل کئے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز