کوئٹہ (ہمگام نیوز) علی اصغر کی طویل جبری گمشدگی کے خلاف انکے بیٹے غلام فاروق نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کمیپ میں چیرمین نصراللہ بلوچ، ماما قدیر، حوران بلوچ اور علی اصغر کے بڑے بھائی داد محمد کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انکے والد علی اصغر کو فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں پہلی مرتبہ جون 2000 میں حفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جبری لاپتہ کردیا اور 14 دن کے بعد انکے والد کو چھوڑ دیا علی اصغر کو دوسری مرتبہ 18 اکتوبر 2001 کو محمد اقبال کے ساتھ ڈگری کالج کے سامنے سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے غیر قانونی گرفتاری کرکے جبری لاپتہ کردیا محمد اقبال کو 24 دن کے بعد چھوڑ دیا اور علی اصغر تاحال خفیہ اداروں کی حراست میں ہے یعنی اس 18 اکتوبر کو انکے والد کی جبری گمشدگی 22 سال مکمل ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ 22 سالوں میں ہم والد کی بازیابی کے لیے انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں اور مختلف حکومتوں کے دروازوں پر دستک دینے کے ساتھ ساتھ پرامن احتجاج بھی کرتے آرہے ہیں عدالت اور کمیشن کے سامنے یہ ثابت ہوا کہ علی اصغر کو حفیہ اداروں نے حراست میں لیا ہے لیکن اسکے باوجود بھی انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں نے انہیں ملکی قوانین کے تحت انصاف فراہم کرانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا بلکہ انکے والد کے کیس کو خراب کرنے علی اصغر کے کیس میں قانونی پیچیدگیاں پیدا کی جاتی رہی ہے لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیشن نے رواں سال دوبارہ انکے والد کے کیس پر از اسر نو تحقیقات شروع کی ہے یعنی اب انہیں دوبارہ والد کی بازیابی کے لیے از اسر نو قانونی جنگ لڑنی پڑے گی۔
غلام فاروق کا کہا تھا کہ والد کی جبری گمشدگی کی وجہ سے انکے خاندان کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے وہ اور انکے بہن بھائی والد کی شفقت سے محروم ہونے اور طویل آئینی و پرامن جد و جہد کے باوجود انہیں انصاف نہ ملنے کی وجہ سے کرب اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں اور انکا مستقبل تباہ ہو چکا ہے انہوں نے کہا کہ انکے خاندان کے ان تمام حالات کے زمے دار ریاست، ریاستی ادارے اور عدلیہ ہیں انہوں نے کہا کہ وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ریاست، ریاستی ادارے سمیت ریاست کے انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے تمام ادارے انکے خاندان کے مجرم ہے وہ انہیں معاف نہیں کرینگے۔
انہوں نے ایک دفعہ پھر ریاست، ریاستی اداروں اور انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں سے اپیل کی کہ انسانی ہمدردی کے بنیاد پر انہیں صرف یہ معلومات فراہم کیا جائے کہ علی اصغر زندہ ہے یا انہیں دوراں حراست شہید کیاگیا ہے؟
آخر میں انہوں نے انسانی حقوق کی اداروں سمیت سیاسی پارٹیوں، طلباء تنظیموں اور مکاتب فکر کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ علی اصغر سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔