تحریر ۔ مرتضٰی بزدار

شال کی یادوں اسکے درد ؤ غم کو کبھی الوداع نہیں کیا جاسکتا۔ اگر بلوچ ہزار بار شال کو چھوڑنا چاہے وہ نہیں چھوڑ سکتا۔ ایک بلوچ جب حقیقی معنی میں شال کا ہوجاتا ہے پھر اس کیلئے ناممکن ہے کہ شال کو چھوڑ دے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک بلوچ اسٹوڈنٹ سے دیوان ہوا جو اسلام آباد کے کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے کہہ رہا تھا کہ سنگت جس دن ہم وہاں سے نکل کر شال کی طرف آرہے ہوتے ہیں یقین کرو ہمارے دل اس قدر خوش، پُرسکون،بہار، اور بے خوف ہوتے ہیں،

جیسا کہ ایک معصوم بچے کو ماں اپنی آغوش میں لیتی ہے۔ جو دنیا کے ہر خوف سے بے خوف ہوکر ماں کی گُود میں سکون کی نید میں سوجاتا ہے بلکل اسی طرح ہم بھی یہی محسوس کرتے ہیں کہ جیسے حقیقت میں ماں کی آغوش میں جارہے ہیں اور وہ ماں شال ہے ۔ گزشتہ سال جب مجھے اپنے کسی ذاتی کام سے شال کو چھوڑکر گھر جانا پڑا تو اُسی دن میں نے ایک تحریر لکھا تھا ۔ یقین کریں میں خود یہی کیفیت محسوس کررہا تھا کہ جیسے مجھ سے میری دنیا چھینا جارہا ہے۔ میری زندگی میرے ہاتھوں برباد ہورہا ہے ۔

انہی غمموں میں مبطلہ ھوکر میں نے وہ تحریر لکھا تھا کہ ”شال کو چھوڑنا احسان نہیں“ واقعی اس میں کوئی شک نہیں کہ شال سے دور ہونا زندگی اور موت کے برابر ہے۔ اس وقت بھی میں نے یہ امید کر رکھا تھا کہ شال مجھے ضرور واپس بلائے گا اور اپنی آغوش میں لے گا۔ پھر اَب تو شکر ہے کہ شال نے مجھے واپس اپنے سینہ میں جگہ دیا ہوا ہے اور میں شال کی پُرسکوں ؤ پُرامید ہواؤں سے لُطف اندوز ہو رہا ہیں۔ محبوب کی یادوں کو اپنے سینے میں لیے جی رہا ہوں، قدرت کا کرشمہ دیکھیں میں جب شال سے گھر جارہا تھا تب بھی اکتوبر تھا اور آج جب واپس شال کا شکریہ ادا کررہا ہوں یہ بھی اکتوبر ہے (شال من تئ منتوار انت)۔۔۔۔

شال بلوچ قوم کا دل اور بلوچ نوجوانوں کی جان ہے۔اسلیۓ جو نوجوان ایک بار شال کی خشک ہواؤں سے آغوش ہو جائے وہ زندگی بھر کیلیۓ اسی کا ہو کے رہتاہے۔کیو نکہ اپنی جان سے روح کا ملنا ایک مقدر یا پھر قدرت کا کرشمہ ہوتا ہے۔شال بلوچ نوجوانوں کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے۔اسلیۓ اپنی ماں کو درد ؤ تکلیف کی حالت میں کوئی نہیں چھوڑ کے جاسکتا ہےاور شال ہمیشہ تکلیف میں رہتا ہے۔

شال بلوچ نوجوانوں کی محبت ہے محبت ایک بار ہی ہوتی ہے۔ بس وہ پھر اس شال کی محبت کو اپنا دین ؤ ایمان مانتا ہے۔وہ کسی کی محبت سے بڑھ کرشال کی محبت کا دیوانا ہو جاتا ہے۔اور دیوانے ہمیشہ اپنے محبوب کے لیے جان کو لُٹا دیتے ہیں۔ یہ جان لُٹا کر عموماََ دیوانے پُرسکون ہو جاتے ہیں ۔ (جیسے پروانہ شمع پہ فدا ہوتی ہے) !

یہاں بےشمار دیوانوں نے اپنی جانیں واری ہیں۔اسکے کئ مثالیں ،ماضی میں موجود ہیں اور مستقبل میں بھی بہت سارے دیوانے ہوں گئے جو اپنے جانوں کا نظرانہ شال کے لیے دینے کو بلکل تیار ہیں۔ جب اتنی محبت انسان کے دل میں بس جائے تو اس دیوانگی اور چاہت میں انسان بہت کچھ کر سکتا ہے جو ایک دیوانے کو کرنا بھی چاہیئے۔ لیکن ایک عام انسان کے لیے یہ سب کچھ یہ شال کی دنیا،شال کی سیاست اور شال کی یادؤں سے نکلنا کہاں ممکن ہے ۔جو کہ نہ ختم ہونے والی چاہتاہے ۔ جسے شال اپنے بچوں کو ماں کی شکل میں دیتی ہے۔

پھر کئ بچے اس ممتا کی چاہت کو اپنا عشقِ حقیقی مانتے ہیں۔اور عشق کے لیے جان کو وارنا محبت کی اصولوں کا حصہ ہیں۔یہ دیوانے شال سے نکل کر کئ میل دور جاتے ہیں۔ کیونکہ محبوبہ سے دوری محبوبہ کی چاہت میں اور اضافہ کر دیتا ہے۔ وہ دیوانہ اسی چاہت کیلیے تڑپاتا ہے ۔ بےتاب ہو جاتا ہے ۔اپنی اس محبوبہ کو حاصل کرنے کی لیے ہر ممکن ؤ ناممکن کوشش بجاء لاتا ہے امید باندھتا ہے ۔کہ ایک نہ ایک دن ضرور وہ واپس اس چاہت ؤ محبت بھری شال کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطفُ اندوز ہوگا۔پھر آخر کار یہ اُمید اس کی جان تک لے کر رہتاہے ۔مگر وہ شال کا نوجوان پرُ امید پرُ سکو‌ں ہوکر شال کی مٹی سے اپنا مٹی مِلا دیتا ہے شال بلوچ نوجوانوں کیلیے ایک قبلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلوچ نوجوان شال کو اپنا سیاسی قبلہ کا درجہ دیتے ہیں ۔اور سیاست کی مذہب میں اسی کا پوجھا کرتے ہیں۔

بقولِ نواب اکبر خان بگٹی “شال بلوچ قوم کا یروشلم(juresalem ) ھے” یعنی بلوچ کا قبلہ اول شال ہے۔جس طرح مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدّس ہے۔ ہر بلوچ شال سے عقیدت رکھتا ہے ۔بلوچ شال کو ایک مقدس سرزمین کا درجہ دیتے ہیں۔ ہر کسی کا اپنا اپنا عقیدہ لیکن مجھے اسی‌ شال نے بنایا ھے میرا سیاسی استاد یہی شال ھے میں آج اگر چار ٹوٹے پھوٹے الفاظ قلم کے نوک پہ‌ لارہا ھوں تو وہ اسی شال کے مرہونِ منت ہیں شال میرا قبلہ شال میری ماں اور شال میرا استاد ھے شال میری جان شال میرے دل کی دھڑکن شال میری سرزمین ھے اسلیۓ شال کو چھوڑنا یوں آسان نہیں ۔۔۔

لیکن جب چند مجبوریوں کی بناءَ پر کو شال کو چھوڑنا پڑتا ہے تو یقین جانیں وہ دن ماتم کا دن ہوتا ہے ۔پھر اسی امید سے شال کو الوداع کہتے ہیں کہ (رخصت اَف آوارُن شال) یعنی دل کو یہی تسلی دیتے ہوئے شال سے جدا ہوتے ہیں کہ ”اے شال میں تم سے رخصت نہیں ہورہا میں تیرے ساتھ ہوں“ شال بھی ضروری اپنے اس دیوانے کو الوادع نہیں کرنا چاہتا پھر لازمی ایک نہ ایک دن وہ واپس شال آتا ہے اور اپنے کیے وعدوں کو وفا کرتا ہے۔

 شال تو آباد رہے مسکرتا رہے اور یوں ہی تیرے چرچے شاد رہیں۔ اے شال تیری کونسی کونسی یاد کو کونسے کونسے الفاظ میں بیان کروں، شال تو میرا دوسرا محبوب ہے ۔ اے شال مجھ ناچیز کے پاس وہ الفاظ نہیں کہ تیر حُسن کو بیان کرسکوں میں تو بس ”حُسن یوسف کی خریدارؤں میں اپنا نام شامل کرنا چاہتا ہوں“

 تو است ءُ آباد سبز باتءِ منی شال

 تئ داتگیں مہر سلامت باتاں منی شال

 تئ مہروانیں مڑدم سلامت باتاں شال

تئی سیاست سلامت بات شال ۔

تئی عبادت سلامت بات شال۔