شال (ہمگام نیوز ) بلوچ رہنما اور بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر وحیدبلوچ نے بلوچستان میں ریاستی جبر ،بلوچ نسل کشی وجبری گمشدگیوں کیخلاف عوامی جاری تحریک پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک تفصلی بیان میں کہا ہے کہ ایسے وقت میں جب بلوچ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری لانگ مارچ اپنے لئے عوامی ہمدردی اور یکجہتی سمیٹتے ہوئے جانبِ منزل رواں دواں ہیں۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ایما پر بلوچستان میں مزدوروں کے قتل کی کہانی چھیڑ دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان سوال کنندگان کیلئے عرض ہے کہ لانگ مارچ کے قائدین اور شرکا ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کا خود شکار ہیں۔ خود سوالی اور فریادی بن کر پوچھ رہے ہیں کہ ریاست پاکستان ان کے خاندانوں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کر رہی ہے۔ جن کے گھر لُٹ چکے ہیں۔ جن کی اُمیدیں ماند پڑ چکی ہیں۔ جن کے آہوں اور آنسوہوں کوکوئی محسوس نہیں کرتا۔ جن کے درد اور غم کا کوئی مداوا نہیں۔ جن کی ارباب اختیار کے ہاں شنوائی نہیں ہوتی۔ جو بے بسی اور بے توقیری کی علامت ہیں۔ ان سے یہ سوال پوچھنا ان کے زخموں کو کُرچ کر نمک اور مرچ لگانے جیسا ہے۔

سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک ہے۔ جنگ زدہ علاقہ ہے۔ جہاں عام مزدوری کی نہ صرف قلت ہے بلکہ ناپید ہے۔ بلوچ خود مزدوری کیلئے ہمسایہ عرب ممالک جاتا ہے یا پھر زمباد گاڑیوں کے ذریعے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر سرحدی علاقے میں مزدوری کرتا ہے۔یہ ریاستی بیانیہ ہے جب بھی بلوچ کی تحریک زور پکڑتی ہے وہ چند بے گناہ لوگوں کو اپنی ظلم اور جبر کو چھپانے کے لئے موت کے گھاٹ اتار کر پنجاب میں عوامی رائے کو اپنے لئے ہموار کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کو شہید کرنے کے بعد فوج نے ایسی ہی خونی کاروائیاں کرکے بلوچستان کے دسیوں بے گناہ اور معصوم پنجابی آبادکاروں کا قتل کرکے بلوچوں کے سر ڈالا اور جب بلوچ اپنے پر ڈھائے گئے ظلم اور جبر پر احتجاج کرتے تو فوراً سرکاری و غیرسرکاری دانشور اور صحافی ان کے بیان کے اثر کم کرنے کیلئے ان بلوچستان کے مقامی پنجابیوں کے قتل کا ذکر کرکے سوال اٹھاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج نے اپنے صدر ضیاالق ،جرنیلوں امریکی سفیر کواپنے مفادات کے لئے قتل کیا، لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کو عین لوگوں کے سامنے گولی مارکرقتل کیا۔ بنگالیوں پر وہ ظلم ڈھائے کہ الامان و الحفیظ۔ حتیٰ کہ محمد علی جناح کے گاڑی میں پیٹرول نہ ڈال کر سنسان بلوچستان کی کچی سڑک پر بے دردی سے قتل کیا۔تو کیا یہ فوج چند مزدور اور چند بلوچستان کے مقامی پنجابیوں کو قتل کرکے ان کا بلوچوں پر تھونپنے میں عار محسوس کر ے گا؟ وہ پاکستان میں اپنے اختیار اور قدرت کو قائم رکھنے کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔

وحید بلوچ نے کہا کہ تحریک انصاف کے لیڈر اور دوسال پہلے ان کی پسندیدہ شخص عمران کی عزت، حرمت اور وقار کے ساتھ کونسا گھناؤنا کھیل نہیں کھیل رہے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ چند مہینے پہلے تک ہوتا رہا وہ اپنی مثال آپ ہے۔اس ملک میں فوج نے کس پر ہندوستان کے ایجنٹ ہونے کا الزام نہیں لگا۔ کس کی عزت اور پگڑی نہیں اچھالی گئی۔ یہ تو اس ملک کا چلن اور نافذ آئین ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی سیاست، ثقافت اور تاریخ، امن بھائی چارے اور آزادی کی امین ہے جملہ انسانی شرف ، اقدار اور اصولوں پر مبنی معاشرہ ہے۔ وہ کسی بے گناہ، کمزور اور معصوم کو زیر عتاب نہیں لاتا۔

اسلئے بلوچستان میں جو بھی قتل ہورہے ہیں چاہے وہ بلوچ کا ہے یا غیر مقامی باشندوں کا۔ اس کے پیچھے خونی ہاتھ پاکستانی فوج اور اس کے ذیلی اداروں کا ہے اس کا اعتراف تو پاکستان عارضی وزیراعظم نے خود کہا کہ

“تشدد کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے”

آخر میں انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں خصوصاً اور پاکستان میں جہاں بھی تشدد کے واقعات ہوتے ہیں جن میں معصوم جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ جن کو نا معلوم، انڈیا اور افغانستان کے کھاتے میں ڈال کر جان چھڑائی جاتی ہے ان کے پس پشت پاکستان کے خفیہ کے ہاتھ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی پکڑے نہیں جاتے۔ اور جن کو پکڑا جاتا ہے۔ وہ بالاچ ہوتے ہیں وہ منظور پشین ہوتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر دین محمد ہوتے ہیں۔ وہ ذاکر مجید و دیگر ہزاروں ہوتےہیں۔