Homeخبریںبلوچ جبری لاپتہ بلوچ اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4801...

بلوچ جبری لاپتہ بلوچ اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4801 دن ہوگئے، لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا سلسلہ جاری

کوئٹہ ( ہمگام نیوز) جبری گمشدہ بلوچ اور شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4801 دن ہوگئے ہیں، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے سابق چیئرمین اور قوم پرست رہنما میر مہیم خان بلوچ، این ڈی پی کے کنوینئر ایڈوکیٹ شاہ زیب بلوچ، نظر بلوچ ظفر بلوچ اور بلوچ خاتون وکیل صبا بلوچ، اور دیگر نے اظہار یکجہتی کی،
وی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور وی بی ایم پی کوئٹہ کے اعزازی کو آرڈینیٹر حوران بلوچ نے کہا ہے کہ آج ہم اپنی ایک پرانی روش کی طرف لوٹ رہے ہیں جہاں سے ہماری شروعات ہی ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے انا کی پرورش ذاتی پسند نا پسند کے خول میں رہنے شعور کی جگہ پر اپنا فیصلہ ٹھوسنا ہی تھا، بلوچ اپنے پاک لہو سے سڑکیں بیابان اور گلیوں کو سرخ کر رہے ہیں مائیں اپنے جوان سال بیٹوں کو جدوجہد میں زمین کی دفاع کے لیے کٹ مرنے کی تربیت دے رہے ہیں ہیں ـ
بوڑھے والدین اپنے جوان بیٹوں کی میتیں کندھا دے رہے ہیں، ہزاروں بچے یتیم ہو چکے ہیں ہزاروں کی تعداد میں بچوں کے باپ بہنوں کے بھائی زندہ درگور ہیں اور پتہ نہیں کتنی عورتیں بیوہ ہوچکے یا کچھ اور جن کے شوہر کئی سالوں سے جبری لاپتہ ہیں وہ لاشیں جو بیابانوں میں بے گور کفن پڑی ہیں ہم سے کیا مانگ رہے ہیں ہم کیوں بھول چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے حصے کا فرض ادا کیا ہے اب ہمیں کچھ کرنا ہے شہیدوں نے اپنے پاک لہو سے جس چراغ کو روشن کیا ہے اس کو جانبار جیالوں نے اسے آندھی اور طوفانوں سے بچا کے رکھا ہے آج ہماری آنا پرستی پسند نا پسند قبائلیت ہیروازم اور غیر شعوری عمل نے چراغ کو بجھانے کے لیے آندھی اور طوفان کی نظر کی ـ
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا ہے کہ ہم فخر کرتے تھے تو دل خون کے آنسوں روتا ہے میرے کاروان کے دوست موت کی نیند سو گئے بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑیں خون میں نہا گئیں بلوچستان کے فرزند اپنے ہی وطن میں بھوک سے مر رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں انسان یہ دعو کرسکتا ہے کہ وہ دنیا کا ذہن ہے مگر حقیقی دنیا جہاں ہر فعل روحانی اور مادی وجود پر اتر ہوتا ہے ہمارے ہاں آج کل میرے جیسا ایک دو کتاب پڑھ کر کچھ کالم لکھ کر اپنے آپ کو دانشور اور دنیا کا ذہین ترین شخص تصور کر رہے ہیں جب لکھتے ہیں یا بولتے ہیں تو یہ بھی خیال نہیں رکھتے کہ ہم کس کے خلاف لکھ رہے ہیں یا بول رہے ہیں اور کیا بول رہے ہیں کچھ سیاسی یتیم جن کو فارغ کیے ہیں آج وہ اپنا بدلہ قومی تحریک سے لینے کے لیے تنظیموں اور قومی لیڈروں کے خلاف لکھتے ہیں یہاں تک نہیں سوچتے کہ ہم اپنے انا کی خاطر قومی تحریک کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔

Exit mobile version