Homeآرٹیکلزساڑھے چھ دہائیوں کی بے جھنڈا تنظیم

ساڑھے چھ دہائیوں کی بے جھنڈا تنظیم

سلسلہ وار مضمون

 گذشتہ سے پیوستہ

 (پانچویں قسط)

انضمام کا مکتوبی اور ملفوظی مواد، بی ایس او کی بلوچ سیاست کو سب سے بڑی دین ہے۔ جس میں بہت مفصل حال ابحاث ہوئے، جن میں کئی لایعنی ہیں، لیکن ان میں اپنے عہد کی سیاسی فکری حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جن میں سے اک یہ تھی کہ انضمام کن بنیادوں پہ ہونی چاہیئے یعنی وہ کیا وجوہات ہو سکتی ہیں جنہیں انضمام حل کر سکتا ہے۔

استار اور مشعل کی تقسیم کے اس سلسلے میں ذیلی کیڈر کو ایمان کی حد تک سجایا گیا تھا کہ روشنی کا ایک مخزن فطری ہے اور دوسرا حادثِ انسانی ہے۔ ایک قنوطی ہے اور تو دوسری روشن ضمیر سرخ ہے۔ ایک جامد ہے تو دوسری متحرک ہے۔ یہ تقسیمات خیالات کے ہیں، نظریات کے ہیںجو حالات دو دہائیوں میں سیاسی میدان میں آئی تھیں ان پہ منحصر ہیں۔ اگر انضمام ہوگا تو انضمام محض نظریہ ضرورت یا افادی قیاسات کی بنا پہ نہیں ہوسکتا بلکہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ذیلی حالت یا ممبران میں تبدیلی لائی جائے۔یعنی انضمام بالائی سطح کے فیصلوں سے واقع ہو رہی تھی۔ جب بالائی ممبران نے دس سال میں تمام گالم گلوچ، اوچے بیانات اور طنزیہ طبع کے ذرایع استعمال کر کے اپنی اپنی تنظیم کی حقانیت کی جو بنیادیں فراہم کی تھیں وہ سب اس تقسیم کا جائز ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

ہماری سیاسی تنظیمیں اپنی فکری اور لکھتی یا تشہیری صورت میں جیسی بھی ہوں۔ لبرل، بردبار، ایماندار، خودغرضی سے پاک، اخلاق اور احترام کے جینے مرنے تک کے دلدادہ،پر معروضی اور عملی صورتِ حال ایسی بالکل بھی نہیں ہے۔ جب انضمام جیسے یا کوئی تنظیمی ابحاث ہوتے ہیں لیکھک اور پڑھنے والے ہمیشہ ان بنیادی مسائل کو غیر افادی یا بیانیے کی فیشن سے باہر رکھ کے بات کرتے ہیں۔ جن قوی مقدار اس خوف کا ہوتا ہے کہ کم و بیش عوام تک جو بیانیہ پہنچے وہ ایک سلجھی ہوئی تنظیم کا بیانیہ ہو۔ یا کم از کم کوئی تنظیم سے یا اندر ہم پر اچھلی کیچڑ کے چھینٹوں کی پہچان نہ کرائے۔

بلوچوں میں تنظیمیں جو کم و بیش بنی ہیں اس کا ٹوٹکا کچھ یوں ہے۔ چند گروہ ملتے ہیں کچھ خاص بنیادی سیاسی مسئلے یا مصلحت کے تحت، انہیں گمان ہوتا ہے کہ ان کو سیاسی تنظیم بنانی چاہیئے۔ یا عمومی کچھ خارجی اثرات یا اشخاص چند لوگوں کو رائے دیتے ہیں کہ ان چند لوگوں کو جارجی اشخاص کے ایما کو پورا کرنے کے لیے ایک تنظیم بنانی چاہیئے۔ یہاں دو گروہ ہوئے وہ جو تنظیم بنوانا چاہتے اور وہ جو تنظیم بناتے ہیں۔ بنانے والوں کو داخلی کارکن اور بنوانے والوں خارجی کارکن کہہ لو۔

کبھی کبھی تصورِ تنظیم داخلی کارکنان کا ہوتا ہے اور خارجی کارکن کا صرف دستِ شفقت ان پہ ہوتا، کبھی کبھی تصور الف تا یے خارجی ہوتا ہے اور داخلی کارکن صرف خارج کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ ڈور خارجیوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس رشتے میں ایک کلیدی حالت یہ ہے کہ تنظیم کے تشہیری بیانات اس رشتے کی موجودگی کو چھپاتے تاکہ تنظیم کو آزادانہ حکمتِ عملی کے سے بیانیوں میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ تنظیم کا نظریہ ابتداء میں ان دو گروہوں سے جنم لیتا ہے۔

تصور کیجیے کہ نظریہ اپنے اندر ایک خاص مطالبہ رکھتی ہے، مطالبہ کچھ بھی ہوسکتا ہے: سوئی کی گیس کے پیسے عوام کے اکاؤنٹس میں منتقل کیے جائیں، سرداروں کی زمینیوں کا جایز تفتیش ہو اور جو ان کی ضروریات سے زیادہ ہیں وہ ان چھین لیے جائیں اور عوامی بہبود کے لیے استعمال ہوں، یا فوجی چھاؤنیاں کم ہوں وغیرہ۔ داخلی کارکناں اس گشت کر کے اشتہاری مہم کرکے اپنے خیالات کی تبلیغ کرتے ہیں۔ کچھ نئے لوگوں کو سبز باغ دکھا کے، کچھ کو فکری لحاظ سے قائل کرکے، کچھ دھونس اور دھمکا کے، تنظیم میں شامل کر کے ایک کابینا بنایا جاتا ہے۔ اب یہاں تین گروہ ہوئے ایک خارجی اور دو داخلی۔ تیسرا کیڈر ہیں۔ کیڈر دو قسم کے ہیں ایک وہ ہیں جو نئے نئے تنظیم آئے ہیں اور ان کی تنظیمی تعلیم چل رہی ہوتی ہے اور دوسرے وہ جو تنظیم میں نہیں پر ہمدردی رکھتے ہیں۔ یہ ایک تنظیم کا موٹا موٹا خاکہ ہے۔

خارجی ایک پروجیکٹ لے کر آتے ہیں تاکہ اس کو ایک خاص طریقہ سے نبھایا جائے جس سے ان کے مقاصد کی تکمیل ہو۔ پر چونکہ وہ خود تنظیم کا حصہ نہیں ہوتے تو وہ عوماً تنظیم کے داخلی رائیوں سے سروکار نہیں رکھتے اور اگر رکھتے بھی ہوں تو انہیں کلاً اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اور داخلی کارکنان کے معروضی وجوہات اور خلائق کا خاصہ ترتیب ان حالات سے جنم لینا شروع کرتا ہے جس میں وہ کام کر رہے ہیں۔ ایسی صورتوں میں جب بھی داخلی کارکنان کو لگتا ہے کہ تنظیم میں کچھ عوامل کو بدلنے کی ضرورت ہے جو تنظیم کے داخلی مسائل کو سلجھا سکتی ہے۔ پر وہ متبادل راستہ شاید خارجی گروہ کے حق میں نہ ہو تو تنظیم میں ایک کھینچا تھانی شروع ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ چند ابحاث کو تنظیم کے اندر جنم دے۔ اور جو کسی بھی تنظیم میں کچھ عرصہ گزار چکا ہو بخوبی واقف ہوگا کہ کیسے ایک چھوٹی سی اختلاف ابھرتی ہے اور اسے بالائی کارکن بھانپ لیتے ہیں کہ خوارج اس کے حامی نہ ہوں گے تو وہ اس اختلاف کو دبانے کی کوش کریں گے اور وہی ادنیٰ بحث کبھی تنظیمیں تھڑوا دیتی ہے۔

اس حساب سے اب ذرا سوچیں کہ خارجی تنظیم سرداروں کی زمینیں ہڑپنے نے چکروں میں ایک انٹی سردار-پوسٹ کولونیل لینڈ ریفارم کی بنیاد پہ ایک تنظیم قایم کراتے ہیں۔ تنظیم کو شاید سرکاری سپورٹ یا مالی امداد کرتے ہوں۔ پر جب بیانیہ جاری ہونگے ان میں سرداروں پہ کیچڑ اچھالنے، ان کے قبضہ گیریت کے قصے، بیگاری کے معاملات، سماج کو نابرابر کرا کے اپنی ہٹ دھرمی کی حفاظت وغیرہ جیسے رجحانات ابھریں گے۔ اسی ضمن میں سردار وغیرہ اپنی کوئی کٹ پتلی تنظیم بنا لیں جس کا مقصد اس تنظیم کو کاؤنٹر کرنے کا ہو۔ وہ شاید منکشف کریں کہ “جی دیکھیں وہ جو خارجی لوگ ہیں انہیں سرداروں سے مسئلہ نہیں بلکہ وہ خود سردار بننا چاہتے ہیں؛ اور یہ تنظیم انہی کے من مانی پہ قایم ہے اگر انہیں جایز کام کرنا ہوتا تو ویسا ویسا کرتے، اور وہ سرداروں کی تعریف اور ان کی عظمت کے بول بالا کریں گے یا اس جیسے اور معماملات کہ کیسے یوسف مگسی بھی سردارزادہ تھے وہ عمدہ تھے، مری قبائلی ہونے کے سبب نوآبادی فوج پہ حاوی ہوسکے وغیرہ”۔

یہ دونوں تنظیموں میڈیا میں میں روپ صاف شفاف نظریاتی طرز میں دکھایا جاتا ہے۔ اخباروں میں یہ ایک دوسرے کی سیاسی رویوں کی گلی اڑھاتے ہیں۔ مجلس میں ان کے ساتھ بیٹھتے نہیں۔ باقاعدہ اپنے منشوروں میں رقم کرتے ہیں کہ ان سے تعلقات رکھنے سے آپ کا تنظیم سے دانہ پانی بند کرا دیا جائے گا۔ انہی جیسے لوگوں کو قنوطی، رجعت پسند، انقلابی مہم جوئی کے القابات دئے جاتے ہیں۔ یوں سوچیں ایک تنظیم کا نظریاتی وجود دوسرے کے اختلاف پر قایم ہے۔ ان کا کوئی خاص نظریہ نہیں ہے ماسوائے اس اختلاف کے۔ اسی وجہ سے ان میں کوئی ٹھوس نظریاتی یا معقول اختلاف بھی نہیں۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ خارج ابتدا میں مخالف تھے، اس اختلاف نے دو مخالف تنظیموں کو وجود دیا۔

اسی میڈیائی جھوٹے روپ میں جسے نظریہ کا چادر اوڑھ کے دکھایا جاتا ہے۔ انضمام کا فیصلہ ایک ایسے اختلاف کو درغور اعتنا جان کے کیا گیا جا رہا تھا۔ جب بلوچ سیاست میں نظریاتی اختلاف کی بات ہوتی ہے تو اس کے بطن میں یہی اختلاف کارفرماں ہوتی ہے۔ نظریہ اختلاف سے روگردانی کی جاسکتی ہے پر اس سے نہیں۔ جس کی وجہ انضمام مخالف اسی کی درستگی کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔

اب سوچیں انہیں دو تنظیموں کی عمر دس سال ہوگئی ہو۔ تو کتنے نئے مسائل، یونٹ، زون، کابینا، اشتہار، بیانات، اختلافی سیاسی سرکل، جلسے، میٹنگ، اخباری قصے، شاعری، اور جانے کیا کچھ پیدا ہوگا؛ ان دونوں گروہوں کی جداگانہ تشخص کو قایم رکھے۔ انہی کے اندر ایک اور گروہ کا بھی قیام وجود میں آتا ہے وہ ہے پرانے کابینا یا پرانے کارکن جو شاید اب تنظیم میں نہ ہوں اگر طلبہ تنظیم ہے تو، پر ان کی داخلی دین ان تنظیموں میں قایم رہتی ہے۔

اب اس تنظیم کی موجودہ کابینا کوئی مشین تو ہوتی نہیں کہ محض بٹن دبانے سے آئینی اقدار کے اندر ہمیشہ قایم رہ سکے۔ تنظیمیں داخلی اور خارجی لوبیوں ہی چلا کرتی ہیں۔ چاہے وہ ظاہر کریں یا نہ کریں، چاہے وہ قومی محاذ کے لیے ہوں یا قوموں کو لوٹنے کے لیے۔ اس لحاظ سے کوئی تنظیم کتنا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو اس میں دوسروں کو متاثر کرنے کی قوت ہوتی جو اسکی جانب دوسروں کے کشش کا باعث بنتی ہے۔ کابینائین اپنی اگلی اور پچھلی کابیناؤں کا سوچ کے چلتی ہیں۔ کیوں کہ اگر کچھ غلط ہوا اور انہیں اس سے بچھنا ہو، یا کوئی قاعدہ جس کو وہ قایم کرنے کی کسی بھی حد تک جا نے کے مہم کا سوچیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ اگلا کابینا کوئی ایسا ہو جو پچھلے کے نظام کو قایم رکھ سکے۔ کئی ہیروؤں پہ قایم تنظیمیں انہیں وجوہات کو لے کر تباہ بھی ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ بانی تنظیم نے یا تو کسی اور کو پیدا نہیں کیا ہوتا یا بعد میں آنے والے کارکنان تنظیم میں رہنا چاہتے پر بانی سے انہیں اختلاف ہوتا۔ ایسی صورتوں میں تنظیمیں جمہوریت کے نام پہ ایک آمرانہ کابینا کا قیام کرتے ہیں اور سب پر لازم ہوتا ہے کہ اسی کو ہمیشہ جتایا جائے، یا کوئی ایسا ہوتا ہی نہیں جس میں ایسی تنظیم کارانہ طبیعت۔

انہی کابیناؤں کے لابی بعد میں ایک اور خارجی قوت اور سبب بنی بی ایس او کے خارجی کارکنان بننے کا اور چلتے چلتے ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔

مخالف تنظیمیں دوسروں کے کابیناؤں تک کو متاثر کرتی ہیں اور کبھی کبھار یہ مخالف ہی اپنی تعداد اتنا بڑھا دیتی ہیں کہ جہاں انضمام کے مخالفت کی اکثریت ہو وہاں تمام ووٹ انضمام کے حق میں آ جاتے ہیں۔

اب تمام فضا میں اگر جارجی گروہ کا من بدل جائے اور وہ ایک ہوجائیں۔ سرخ اور سردار سیاسی کارکن دونوں ہی کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ تو جہاں سے اختلاف کی اسس تھی وہ ماند پڑ جاتی ہے۔ وہیں سے موجودہ کابینائیں ہی ان دونوں کے بیچ یکجاہ بیٹھیں ہوں تو جو خارجی فیصلہ کنندگان ہیں وہ محض ضرورت کے تحت قومی اتحاد کے قیام کے اسی تنظیم کو استعمال کریں گے کیوں کہ ان کی اتنے عرصے کی چپکلشیں اگر قومی کٹھہرے میں متحد ہوتی نظر آئیں تو کیا خوب لگے گا۔ وہاں بیٹھے اشخاص ایسا سوچنا بھول جاتے ہیں کہ ذیلی حلقوں میں اختلاف کچھ اور روپ لے چکی ہے۔

پر چند سالوں تک پہاڑوں میں رہ کے بی ایس او کے اعلی عہداران شاید زمینی حقائق کو یا تو فرآموش کر گئے کہ وہ جہاں کے لیے فیصلہ کرتے ہیں وہاں وہ نہیں ہیں؛ چاہے ان کے قاصد اور خطوط آتے جاتے رہیں پر عوام میں رہنا ایک اور سیاسی طبیعت ہے اور عوام سے پرے رہنا اور ہے۔ جو جہاں ہو وہاں کے حالات کو درست کرے اور وہیں کی سیاست کرے۔ جب دو مختلف طرز کے سیاسی انداز ایک دوسرے میں ٹانگ اڑاتے ہیں تو وہ کسی کو کام کرنے نہیں دیتے۔ یہی ہوا انضمام ہی کے دوران انضمام پر تنقید کرنے والوں کا بھی ایک گروہ اٹھ کھڑا ہوا اور انہیں ان انضمام حمایتوں کا انضمام کے بعد بھی تعصبات کا نشان ہونا پڑا۔

بی ایس او خارجی لحاظ سے جیسی بھی مایا ناز سرخیت دکھاتی رہی ہو۔ اس کے اندرونی سیاست ایسی ہی رہی ہے اور انہی یچیدگیوں سے تنظیمی فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ اب اگر تنظیم اس طرح کی ہیں تو دوسرا معاملہ آتا ہے جن پر فیصلوں کا ملبہ پڑنا ہے۔ یعنی کیڈر دونوں تنظیموں کی۔

بی ایس او کی کیڈر سازی دونوں تنظیموں میں ان کے تقسیم کے قیام کو مدِ نظر رکھ کے کی گئی تھی۔ تو جب تک دونوں تنظیمیں کیڈر سازی میں بدلاؤ نہ لاتیں تب تک کوئی بھی اتحاد ممکن نہیں تھا۔ کیوں کہ جو گروہ مل بیٹھنے کو ہی تیار نہیں انہیں محض ایک کال پہ متحد کر بھی لیا جائے تو اس سے حاصل کچھ نہیں ہو سکتا۔

ہمیشہ تنظیمیں فیصلہ بالائی سطح سے زیریں میں ہوتی ہے۔ مگر کوئی یوں نہیں سوچتا کے جداگانہ تنظیموں کے اختلافات اتنے سادہ نہیں ہوتے۔ اگر جایز راستہ لینا ہے تو پیٹ پیچے افواہ اور عجیب طرز کے اختلاف کو روکھنا ہوتا ہے۔ جس کی ایک وجہ ہے کہ اگر ذیلی کارکنان کو دونوں جانب کام کرنے دیا جاتا تو وہ آہستگی سے ان میں ایک پختہ ہم آہنگی کی بنا پڑنی شروع ہوتی۔ پر اصل مسئلہ ان تنظیموں کی یہ ہے کہ یہ کسی نہ کسی طریقے سے دونوں ہی شخصیت پرست بن چکے تھے۔ رازاق و جالب کا نعرہ انٹرنیشنل مزدور سے زیادہ بلند بانگ ہو چکا تھا۔ خیرجان بی ایس او سے ایک بلندتر وجود بن چکا تھا۔ اور لیڈران شاید خود تو آہستہ آہستہ اتنا بڑا مان بھی لیتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کے نعرے کارکنان کی عاجزانہ لوث سے ابھرتی ہیں یوں نہیں کہ انہیں لگتا ہو کہ لیڈر انسان میں ایسا افضل جنس ہے کہ فیصلہ کا حق اور عقل محض اس کے پاس ہے۔ جب ان لیڈران کو دکھائی دینی شروع ہوتی ہے۔ تو وہ خود اتنے خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ باقاعدہ اپنی حمایت کہ پارٹی پالیسی بنا لیتے ہیں۔

اور یوں کرکے فیصلے آسانی سے پہاڑوں اور افغانستان سے بہتے بہتے میدان میں آتے رہے اور میدان والوں کو وہ تمام لیڈران اپنی رعایہ ماننا شروع ہوئی اور حکما نما وہ لونڈے کچھ دیکھ ہی نہ پائی کہ کہاں مسئلہ ان کی اپنی سمجھ سے بالاتر ہوچکی ہے۔

(جاری ہے)

Exit mobile version