Homeآرٹیکلزفطرت کبھی نہیں بدلتا تحریر:سیم زہری

فطرت کبھی نہیں بدلتا تحریر:سیم زہری

دوستو چند دن پہلے سردار ثنا اللہ زرکزئی نے اپنے کچھ وفادار درباریوں کو اپنے باپ دادا کے زمانے کے کچھ پنچی گرکی بندوق تھما کر انھیں بلوچ سرمچار ظاہر کیا پھر ایک اسٹیج سجا کر میڈیا کے سامنے اپنے دیئے گئے اسلحہ واپس لیکر بلوچ سرمچاروں کی جانب سے اسلحہ پھینکنے کا ڈرامہ رچایا، اسی طرح انیس سو اٹھاون کے دور میں ثناءاللہ زرکزئی کے والد دودا اول نے بھی پاکستانی حکومت کی دلالی کرتے ہوئے اپنی جیبیں گرم کرتے ہوئے بابو نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو قرآن مجید کا واسطہ دے کر دھوکے سے پہاڑوں سے اتارا تھا، پھر بعد میں ان سرمچاروں کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ بہت سے کردار نسلی منتقل ہوتے ہیں اسی ریت پر چلتے ہوئے آج دودا کی جگہ اسکے بیٹے وہی کام کر کے پنجابی کی جی حضوری میں مگن ہیں۔ چونکہ وہ دور دوسرا تھا تب سردار دودا نے پنجابی کی خدمت گزاری کرتے ہوئے بلوچ سرمچاروں کو قرآن کے نام پر دھوکہ دیا لیکن آج دور بدل گیا تو ان کے انداز بھی بدل گئے، آج ان کو کوئی اور ہاتھ نہیں لگا تو اپنے ہی ٹکڑوں پر پلنے والے کچھ لوگوں سے یہی کام کروایا۔
ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ لوگ کون ہیں جو ان سرداروں کے ہاتھوں سستے داموں فروخت ہورہے ہیں کیونکہ جس نے ایک فکر و نظریے کے تحت اسلحہ اٹھایا ہے وہ کسی ایرے غیرے سردار کے ہاتھوں اسے پھینکنے والا نہیں اور نہ ہی کوئی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے پر رضامند ہو گا،اور اگر کسی نے ہتھیار ڈال بھی دیئے تب بھی کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ جو کل بک سکتا وہ ایک دن پہلے بک جائے تو کیا ہوا لیکن اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو لوگوں سے ایسے کام کروانے کے لیے ہر وقت بیتاب رہتے ہیں؟
یہ سردار کیوں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کرتے ہیں؟
کیا یہ اتنے پاک صاف مسلمان ہیں جو اسلام کے نام نہاد قلعے پاکستان کو بچانے کے لیے بے چین ہیں؟
یا یہ اتنے بڑے محب وطن پاکستانی ہیں جنھیں جان سے زیادہ وطن عزیز ہے؟
جہان تک ہم سب کا مشاہدہ ہے تو خود پنجابی کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہ اپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے کسی بھی سہارے کی تلاش میں ہے چاہے وہ سہارا کسی تنکے کا کیوں نہ ہو۔ جبکہ ان سرداروں کو پاکستان سے زیادہ اپنی پڑی ہوئی ہے کہ اگر پاکستان نہ رہا یا بلوچستان آزاد ہوا اقتدار عام بلوچ کے ہاتھ میں چلا گیا تو ہمارا کیا بنے گا،یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، ایک کی موت دوسرے کی تباہی کا سامان ہے اور ان دونوں کی موت ہماری قومی بقا کا ضامن، ان کا جہاں تک بس چلے یہ پنجابی کو مضبوط کرینگے تاکہ اسکی چھاوں تلے وہ خود بھی زندہ رہ سکیں، ورنہ بے نام موت ان کا منتظر ہے ۔
آج انہی لوگوں کے کندھوں کو استعمال کرکے پنجابی ہمیں ختم کرنے کے درپے ہے جبکہ موقع پاتے ہوئے یہی کالے آقا کے غلام بھی ہمیں تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
میں اپنے زہری کے نوجوان سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہوں کہ ہم انیس سو اٹھاون سے کم از کم تین نسلوں سے جب ان لوگوں نے بابو نوروز خان کو دھوکہ دے کر پہاڑوں سے اتارا تھا کو اب تک بھگت رہے ہیں تو آگے ان سے کیا اچھائی کی امید ہو سکتی ہے؟ آج ان لوگوں نے میڈیا کے سامنے اپنے چند دلالوں کو سرنڈر کروایا کل میرا اور آپ کا انتہائی سستے داموں سودا بھی لگا سکتے ہیں، اندرونی طور پر نہ جانے کتنی بار، کتنوں کے پاس ان لوگوں نے ہمیں بیچا اور خریدا ہوگا، کیا اب بھی یہ لوگ قابلِ قبول ہیں؟ ہمارے ہست و بود کا مالک کہلا سکتے ہیں؟ کیا کہیں انہیں طاقت ور کرکے ہم خود کو کمزور تو نہیں کر رہے؟ کیا انہیں طاقتور کرکے ہم غیر دانستہ طور پر پنجابی کو مضبوط نہیں کر رہے؟ کیا اسی اُنس و تعلق کو جو ہم یا ہمارے باپ دادا ان کے ساتھ رکھتے آئے ہیں کل خاطر داری میں آکر ہم قومی محاذ پر لڑنے والے سپاہیوں کے خلاف یہی زنگیلا بندوق اٹھانے پر آمادہ ہونگے؟
پھر بوقت ضرورت انہی سرداروں کے کہنے پر پھر سے اسے پھینک کر کسی ڈرامے کا ڈراپ سین بن جائیں گے؟  دوستو اب بھی وقت ہے کہ ہم ان دشمنوں کے چالوں کو سمجھ لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔۔۔۔

Exit mobile version