تہران(ہمگام نیوز) ایران میں سیاسی انتقام کے تحت شہریوں کو ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارے جانے کے واقعات کے جلو میں انکشاف ہوا ہے کہ  شورش زدہ مغربی بلوچستان میں ایرانی فورسز نے ایک گاؤں کے تمام مردوں کو پھانسی دے کر قتل کر دیا ہے۔

عرب میڈیا نے ایرانی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے صدر کی معاون خصوصی برائے خواتین اور عائلی امور شہیندخت مولاوردی کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ جوڈیشل حکام نے  بلوچستان کی ایک بستی کےتمام مرد موت کے گھاٹ اتار دیے ہیں۔ مولا وردی کا دعویٰ ہے کہ قتل کیے گئے تمام افراد منشیات کے دھندے میں ملوث بتائے جاتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان تمام افراد کو منشیات کیسز میں نہیں بلکہ سیاسی انتقامی کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ایران کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں طویل عرصے سے احساس محرومی کے خلاف وہاں کی سنی اکثریتی آبادی اپنے حقوق اور آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ معاشی ابتری اور سماجی عدم مساوات کے شکار بلوچ شہریوں کے خلاف ایرانی فورسز طاقت کا وحشیانہ استعمال کرنے کے ساتھ ملک کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے الزامات کے تحت بڑی تعداد میں وہاں کے کارکنوں کو تختہ دار پرلٹکا جا چکا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد ان کے علاوہ ہیں۔

گوکہ ایرانی صدرکی خاتون معاون خصوصی نے اس بستی کا نام ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد کی شناخت ظاہر کی ہے۔ تاہم انہوں نے ریاستی اداروں کی جانب سے پھانسی دے کرہلاک کردہ شہریوں کے ورثاء کے لیے امدادی پروگرامات ختم کرنے پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پھانسی دے کر ہلاک کیے گئے افراد کے بچوں کی امداد بند کرکے مستقبل میں انہیں انتقامی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

خبر رساں ایجنسی ’’مہر‘‘ کے مطابق مسز مولا وردی نے ایرانی پولیس اور جوڈیشل حکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طورپر بلوچستان کے ایک شہری کو جانتی ہوں جسے جیل میں ڈالا گیا۔ جیل میں ڈالے گئے ملزم کی تمام جائیداد حتیٰ کہ اس کا مکان بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے جہاں اس کی بیوی اور تین کم سن بچے رہائش پذیرتھے۔

مولا وردی نے استفسار کیا ہے کہ حکومت کی قانونی ذمہ داریاں کہاں ہیں۔ اس خاتون اور اس کے تین بچوں کی کفالت کا کون ذمہ دار ہے جن کا اکلوتا سرپرست اٹھا کر جیل میں ڈالا دیا گیا اور ان کی تمام جائیداد بھی ضبط کرلی گئی ہے۔ کیا ایرانی حکام کو اس خاتون اور اس کے بچوں کی احساس محرومی کا اندازہ ہے؟۔

انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانی جوڈیشل حکام کو شہریوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈالنے اورانہیں پھانسی دینے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے اگرکوئی شخص منشیات جیسے غیرقانونی دھندے کی جانب جانے پرمجبور ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ ایسے لوگوں کو پھانسیاں دینے سے قبل حکومت کو اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہیے۔