Homeخبریںمقبوضہ بلوچستان میں ’بلڈی فرائیڈے‘ کے موقع پر مظاہرے جاری ایران میں...

مقبوضہ بلوچستان میں ’بلڈی فرائیڈے‘ کے موقع پر مظاہرے جاری ایران میں عوام کا ہر طبقہ تبدیلی چاہتا ہے، سعودی اخبار الجریدہ ریاض

رپورٹ: آرچن بلوچ

11/11/2022

زاھدان (ھمگام ںیوز) ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں آج کی جمعہ کے نماز کے بعد بھی ایرانی جابر حکمرانوں کے خلاف بلوچستان کے کئی شہروں میں وسیع پیمانے پرامن مظاہرے کئے گئے، موصولہ رپورٹوں کے مطابق بلوچستان کے تقریبا تمام چھوٹے بڑے شہروں جن میں کیپٹل سٹی دوزآپ، ایرانشھر، چابھار،لاشار، بمپور، نیکشھر، خاش، پیشین، راسک، جاشک، سراوان اور دشتیاری شہر شامل ہیں، زاھدان اور خاش شھر میں آج پھر آئی آر جی سی کے کے فائرنگ سے کئی لوگ زحمی ہوئے ہیں اور زاھدان ہی کے شھر میں تین بلوچ شہریوں کو خفیہ ادارے اٹھا کرلے گئے ہیں۔

دوسری طرف عالمی میڈیا خصوصا عرب میڈیا میں بلوچستان کی مظاہروں کو حاصی اچھی طرح کی کوریج دی ہے۔ الجریدہ الریاض میں نظام مير محمدي اپنے آرٹیکل میں لکھتےہیں کہ خاش اور زاہدان کے خونی جمعے کے شہداء کی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بلوچ انقلابیوں اور بلوچستان کے عوام نے ایران کے دیگر خطوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے۔ العربیہ یو کے نیوز لکھتےہیں کہ جمعہ کو ایرانی بلوچستان میں شھداء کے چھلم کے موقع پر سیکڑوں افراد نے مظاہرہ کیا جس میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

کرد حزب اختلاف کی جماعتوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ہم ایران اور کردستان کے تمام لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خونی جمعہ کے دن بلوچوں کے قتل کی ہر ممکن طریقے سے مذمت کریں اور بلوچستان میں مرنے والوں کے خاندانوں کے ساتھ اپنے احتجاج اور یکجہتی کا اظہار کریں۔

جبکہ عالمی سطح پر امنسٹی انٹرنشنل اور اقوام متحدہ انسانی حقوق کے ماہرین نے ایرانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ احتجاج میں حصہ لینے والے افراد کے خلاف سزائے موت کے الزامات عائد کرنا بند کریں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بلوچستان اور ایران میں مظاہرین کے قتل کو روکنے کے لیے فوری بین الاقوامی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ” اقوام متحدہ کے ایک درجن سے زیادہ آزاد ماہرین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہم ایرانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ احتجاج کو کچلنے کے لیے سزائے موت کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا بند کریں، اور ان تمام مظاہرین کی فوری رہائی کے اپنے مطالبے پر زور دیتے ہیں جنہیں من مانی طور پر ان کی آزادی سے محروم رکھا گیا ہے

جبکہ دوسری طرف امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے روس کی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نکولائی پیٹروشیف کے دورہ ایران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی عوامی بغاوت کو دبانے کے لیے روس کی جانب سے تہران کی ممکنہ مدد پر امریکی حکومت کو تشویش ہے۔

پرائس نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو “بدقسمتی سے جبر کا کافی تجربہ ہے پرائس نے کہا کہ حالیہ برسوں میں روس اور ایران کے درمیان گہرے تعلقات کی پیش رفت پر پوری دنیا کو تشویش ہونی چاہیے اور اسے ایک گہرے خطرے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ پرائس نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ ایران اور روس سے الگ الگ یا مشترکہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ جبکہ ایران کے دوران روسی رہنما نکولائی پیٹروشیف نے قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی۔ ایرانی رہنمارئیسی نے ملاقات کے دوران کہا: “ایران اور روس مختلف شعبوں میں اسٹریٹیجک تعلقات کی سطح کو بلند کرنے کے خواہاں ہیں۔ ایرانی رہنما نے روسی اہلکار کے ساتھ اپنی ملاقات میں، “پابندیوں کا مقابلہ کرنے اور پابندیوں کے خلاف بین الاقوامی اداروں کی صلاحیت کو فعال کرنے کے لیے مشترکہ اور مربوط اداروں کے قیام پر زور دیا۔

دراین اثنا غیر ملکی سفارت کاری کی سطح پر، جرمن وزیر خارجہ نے جمعے کے روز اپنے ایرانی ہم منصب کی اس شکایت کو مسترد کر دیا کہ جرمنی ایران میں ہونے والے مظاہروں میں “مداخلت” کر رہا ہے، اور مضبوط ردعمل کے اپنے وعدے کو مسترد کر دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے جمعرات کو اپنی جرمن ہم منصب اینالینا بیربوک کو مخاطب کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ “اشتعال انگیز، دخل اندازی اور غیر سفارتی پوزیشن عقلمندی کی نشاندہی نہیں کرتی۔”

ادھر برطانوی حکومت نے جمعے کے روز ایک سینئر ایرانی سفارت کار کو طلب کر کے برطانیہ میں مقیم صحافیوں کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ سکریٹری خارجہ جیمز کلیورلی نے ٹویٹر پر لکھا کہ “میں نے آج ایرانی ناظم الامور کو اس وقت طلب کیا جب برطانیہ میں کام کرنے والے صحافیوں کو ایران کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔”میں نے آج ایرانی ناظم الامور کو طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنے ملک میں رہنے والے غیرملکی افراد کے خلاف دھمکیوں کو برداشت نہیں کرتے۔

Exit mobile version