Homeخبریںمیں صرف حسیبہ نہیں رہی، میں فرزانہ ہوں، میں ماہ رنگ ہوں،...

میں صرف حسیبہ نہیں رہی، میں فرزانہ ہوں، میں ماہ رنگ ہوں، میں برمش ہوں، میں بلوچستان ہوں: حسیبہ قمبرانی

کوئٹہ(ہمگام نیوز) وئس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے زیر اہتمام مظاہرے میں حسیبہ بلوچ نے بات کرتی ہوئے کہا کہ میرا دکھ کرب عظیم ہے۔ میں ایک ایسے بلوچستان سے تعلق رکھتی ہوں جہاں ہر تیسرا گھر اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں میرے بچے کو لیکر تو نہیں جائیں گے؟ ہر دوسرے گھر میں ہمارا بچہ ہمارا بھائی لاپتہ ہے۔ ہر پہلے گھر میں ایک مسخ شُدہ لاش موصول ہوئی ہے۔ میں اس پہلے گھر سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں خود ایک متاثرہ فرد ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پہلے بھی میرا ایک بھائی شہید ہوچکا ہے۔ انہوں نے (قابض فوج اور خفیہ اداروں) میرے بھائی کو اغواء کرنے کے بعد تشدد کرکے شہید کردیا اور اس کی مسخ شُدہ لاش پھینک دی۔ اب میرے دیگر بھائی حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی کو 14 فروری 2020 کے دن جبری طور پر اغواء کیا گیا۔ ابھی تک ان کا کوئی بھی پتہ نہیں چل سکا۔ میں نے ایف آئی آر کٹوائی، میں در در گئی۔

حسیبہ قمبرانی نے درد بھری اور سسکتی آواز میں مزید کہا کہ میں جب گھر سے نکلتی ہوں، مجھے لوگوں کی نظریں چُھبتی ہیں۔ ہم ایسے ہی شوق سے اپنے گھروں سے اُٹھ کر باہر نہیں آجاتیں، ہم بُہت تکلیف میں ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے بھائیوں کو رہا کیا جائے، ان کو بازیاب کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ذاکر جان کو 11 سال ہوگئے ہیں۔ اس کی ماں انتظار میں کس قدر تڑپ رہی ہوگی۔ ہمارا ہر گھر، بلوچستان کا ہر دوسرا گھر اسی صدمے میں مبتلا ہے۔ یہی تکلیف ہمیں کھائے جاتی ہے کہ ہمارا بھائی کب گھر آئے گا۔ ہماری خوشیاں ملیا میٹ ہوچکی ہیں۔ ہم خوشیاں نہیں مناتے، ہم اپنے بھائیوں کا سوگ کرتے ہیں۔

انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ہماےمیرے بھائی کو رہا کیا جائے۔ میرا بھائی پرسٹن یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا وہ ایک طالب علم تھا۔ یہ ریاست ہمارے بھائیوں کو چھان چھان کر لے جارہی ہے۔

ہم اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بھائیوں کو پڑھاتے ہیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر با شعور ہو اور اپنی قوم کا نام روشن کرسکے۔ آپ لوگ ان کو چھان چھان لے جاتے ہو۔ ہمارے گھر میں لے دے کے ایک دو مرد ہوتے ہیں ان کو یا تو آپ منشیات میں مبتلا کرکے جیتے جی مار دیتے ہو یا پھر عقوبت خانوں کے حوالے کردیتے ہو۔ ہمارے بھائیوں کو ہمیں واپس لوٹا دو۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ میں کہاں جاؤں، کس سے درخواست کروں، کس سے بولوں کہ میرے بھائی کو لیکر آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں اکیلی ہوں، میں سراپا احتجاج ہوں، میں صرف حسیبہ نہیں رہی، میں فرزانہ ہوں، میں مہرنگ ہوں، میں برمش ہوں، میں بلوچستان ہوں۔ میرے بھائیوں کو لوٹا دو۔ میری امی تڑپ تڑپ کر روتی ہے، میرے ابو سکتے کی حالت میں ہیں، وہ بول نہیں سکتے۔ خدارا میرے بھائی کو لوٹا دیں۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ راشد کی ماں، جہانزیب کی ماں اور دیگر جبری اغواء کے شکار بیٹوں کو ان کی ماؤں کے پاس لوٹا دو۔

Exit mobile version