Homeآرٹیکلزٹارچرسیل کی کہانی۔ تحریر: گہرام اسحاق

ٹارچرسیل کی کہانی۔ تحریر: گہرام اسحاق

ّحامد، ایک کمسن مظلوم نوجوان،جو کچھ سالوں پہلے خونخوار مارخور کے ہاتھوں ظلم و جبر کا شکار رہا۔زنجیروں میں بندھ گیا،سیاہ زندان و کھوٹیوں کی نذر رہا۔

اپنے نا کردہ جرم و گناہ کی سزائیں کاٹ کر، غلامی کے پندھے کو توڑ کر آج اس کی آزاد فضاؤں میں آزادی سے اڑان برنے کی خواب کی تعبیر ہوگئی۔

جب میری ملاقات حامد سے ہوئی تو میں نے پوچھا:
حامد تم مجھے ذرا تفصیل سے بتاؤ کہ ٹارچرسیل میں کیا کیا ہوا؟

حامد کو واپس اسی خوفناک و تاریک کمرے اور ان ظالموں کی یاد دلا دی کہ وہ گہری سانس لے کر کہنے لگا۔
میں اپنی چھٹیاں گزارنے یونیورسٹی سے کراچی واپس اپنے گھر کی طرف آ رہا تھا کہ راستے میں بس رک گیا ،بلکہ روکا گیا۔
میری آنکھون کے سامنے بس کے تمام مسافروں کو ایک ایک کرکے بس سے اتار دیا اور پھر ایک نقاب پوش سرخ آنکھوں والا آدمی آیا اور میری طرف اشارہ کرکے خوفناک و سخت لہجے سے بولا۔حامد۔
پھر مارخوروں نے چاروں اطراف سے مجھے گھیرے میں لیا۔ کسی نے مجھے بازو سے پکڑا تو کسی نے ٹانگ سے ۔۔۔۔انھوں نے میرے ہاتھ پاؤں کس کر باندھ دیئے اور آنکھوں پر سیاہ پٹی چڑھا کر گھسیٹتے ہوئے مجھے گاڑی میں بیٹھا دیا۔

میری سانسیں رک گئی تھیں، میرا دم گھٹ رہا تھا ،ایسے لگ رہا تھا کہ میرا گلا گھونٹ رہے ہوں۔
اگر میں ایک چھوٹی سے حرکت کرتا تو لاتوں کی بوچھاڑ ہوتی مجھ پر۔طویل سفر طے کرنے کے بعد میرے سر پر سے سیاہ نقاب ہٹا دیا گیا۔ جب چاروں طرف اپنی نگاہ پھیلائی تو ہر طرف اندھیرا تھا ۔مجھے تاریکیوں میں دفن کیا گیا تھا۔ میرے سامنے چار موٹے مارخور کھڑے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں بندوق تو دوسرے کے ہاتھ میں پانسی کا پندھا یا خنجر تھا۔ مجھے خوف دلاتے رہے۔ میں بہت سہما اور گھبرایا ہوا تھا۔

تمھار نام حامد ہے ان چاروں میں سے ایک نے پوچھا؟
میں لرزتے کانپتے ہوئے بول پڑا جی ہاں

اچھا کافی چالاک ہو ، دوسرے نے کہا
میں نے مختصراً جی نہیں میں سر ہلایا !

چہرے پر زوردار تھپڑمار کر پر سے مجھے نقاب میں ڈھک دیاگیا۔ اور اذیتیں اور تشدد کرنے لگے۔ کبھی ہتھوڑی سے میرے ہاتھوں میں قیل ٹوکتے تو کبھی ڈرل مشین میرے نازک جسم میں ڈالتے۔
میں اپنی بےبسی میں چیختا چلاتا رہا۔ مجھ پر نیم بےہوشی طاری ہوتی تو ان سرد راتوں میں مجھ ہر پانی کے چھینٹے مار کر مجھے ہوش میں لانے کے بعد تشدد کا مزا لیتے۔

اففففف!

میری حالت ایسی ہوگئی کہ مجھے لگا اب میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہوں۔ اب میری روح میرے جسم کو الوداع کہہ کر رخصت ہوجائے گی۔ میرے دل و دماغ میں بس ہمیشہ مظلوموں کی درد بھری صداہیں، چیخ پُکار کی آوازیں آتی رہیں۔

ڈرل مشیں اور ہتھوڑی ٹوکنے کی خوفناک آوازیں ان کے زوردار قہقہے۔

میں تشدد اور قرب میں مبتلا اپنے بےبسی پر رو پڑتا کہ ان ظالموں نے مزید میرے درد و رنج میں اضافہ کردیا۔

جب وہ بول اٹھے کہ آج رات تمھارے بیوی کو ننگا کرکے لایا جائےگا اور تمھارے سامنے اس کی آبرور یزی کی جائے گی، پھر دیکھیں گے تم کیسے نہیں بتاتےکہ تمھارے ساتھی کہاں چھپے ہوئے ہیں۔

انھوں نے مجھے ایک سال چار دن ٹارچرسیل میں رکھا اور بالآخر میرے لیے اندھیروں سے آزادی کی روشنی پھوٹ پڑی اور میں تاریکیوں سے رہا ہوگیا۔

حامد کی باتیں سن کر میں اپنے ہوش گنوا ںبیٹھا اور پریشانی کی حالت میں گھر لوٹ آیا یہ سوچتے ہوئے کہ اگر میں بھی گرفتار و لاپتہ کردیا گیا اور میری بھی بیوی کو ننگا کرکے میرے سامنے لایاگیا تو میں کہیں ٹوٹ تو نہیں جاؤں گا؟

Exit mobile version