اسلام آباد(ہمگام نیوز) چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی اور پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی کے درمیان ایک اجلاس کے دوران شدید تلخ کلامی ہوئی۔ مولانا طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ مولانا شیرانی نے ان کا گریبان پکڑا جبکہ مولانا شیرانی نے اس کی تردید کی اور کہا کہ صورتِ حال کو غلط انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق منگل کو ہونے والا اجلاس فرقہ وارانہ سمیت کئی دیگر مسائل پر بات چیت کے لیے بلایا گیا تھا۔
اجلاس میں احمدیوں کے مسئلے پر بات چیت کے دوران دونوں علما کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور انھوں نے ’ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لیے‘۔
اس ہنگامے کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
اجلاس کے بعد مولانا طاہر اشرفی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ اجلاس کے ایجنڈے میں قادیانیوں کے بارے میں ایک شق شامل کی گئی تھی جس کے بعد ملک میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی جیسے اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان چاہتے ہیں کہ جو ضابطہ اخلاق متفقہ طور پر بنا ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کا مسئلے کو بھی ازسر نو دیکھا جائے، اور مرتد کون ہوگا، ذمی کون ہوگا، کافر کسے کہا جائے اور کسے نہ کہا جائے۔
مولانا اشرفی کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے ایجنڈے کے حوالے سے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل سے وضاحت طلب کی تو مولانا محمد خان شیرانی نے ان کا ’گریبان پکڑ لیا‘۔
ان کا کہنا تھا ’اسی دوران مولانا شیرانی اپنی نسشت سے اٹھے اور انھوں نے میرا گریبان اپنے ہاتھوں سے پکڑا جو قابل شرم بات ہے۔‘
’میرا صرف ایک سوال ہے کہ کیا ایک ایسا شخص جو اختلاف رائے قبول کرنا تو دور کی بات، اپنے اراکین کا گریبان پکڑ لے اسے اسلامی، آئینی ادارے کا سربراہ ہونا چاہیے؟ گریبان پکڑنا، تشدد کرنا ان کی شرعی ذمہ داری ہے یا قانونی ذمہ داری ہے یا ان کے تعصب کی؟‘
مولانا طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعے سے ’علما کا تمسخر اڑے گا۔‘
مولانا محمد خان شیرانی نے بھی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احمدی آئین کی رو سے غیرمسلم ہیں اور آئین میں ترمیم سیاسی و مذہبی جماعتوں کی کوششوں سے شامل کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی مولوی اٹھے اور اسے تبدیل کر دے۔‘
انھوں نے طاہر اشرفی کے ساتھ دست گریباں ہونے کی بھی تردید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ صورت حال کو غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔‘