دمشق (ہمگام نیوز) شام کے جنگی امور کو مانیٹر کرنے والے ادارے نے اتور کے روز زوردار دھماکوں کی اطلاعات دی ہیں۔ یہ دھماکے دارالحکومت دمشق کے مضافات میں بشار الاسد رجیم کے دور میں قائم کردہ اسلحہ ڈپوؤں میں کیے گئے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ‘آبزرویٹری’ کے مطابق دھماکے دمشق کے جنوب میں کسوہ کے قریب کیے گئے۔
‘آبزرویٹری’ نے ان دھماکوں کی وجہ اسرائیلی بمباری کو بہت محتاط طریقے سے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے ہوئے ہوں۔ واضح رہے جب سے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے، شام کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج کی جارحانہ بمباری ایک معمول اختیار کر چکی ہے اور کسی بھی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر اسرائیلی فوج جہاں چاہتی ہے بمباری کرتی ہے۔
تاہم اسرائیلی فوج نے یروشلم میں بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دمشق کے قریبی ہتھیاروں کے مراکز پر اس نے حملے نہیں کیے ہیں۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی ‘آبزرویٹری’ کے مطابق اس کے نمائندوں نے ان دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔ جنہوں نے بڑے حصے کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ ‘آبزریویٹری’ کے ذرائع کے مطابق یہ دھماکے بشار رجیم کے ہتھیاروں کے ڈپوؤں پر کیے گئے ہیں۔
تاہم اس علاقے میں آسمان پر گہرا دھواں چھایا رہا۔ جس سے بعض اوقات چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے میں بھی دقت ہوئی۔
یاد رہے اسرائیل کی طرف سے آٹھ دسمبر 2024 کے بعد شام پر بمباری اور حملوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوچکی ہے۔ اسرائیل دعویٰ رکھتا ہے کہ وہ شام کے ہتھیاروں کو اس لیے تباہ کر رہا ہے کہ وہ اس کے دشمنوں کے ہاتھوں میں نہ لگ جائیں۔
‘آبزرویٹری’ کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نے جمعہ کے روز حلب کے نزدیک شامی فوج کے مراکز پر حملے کیے تھے۔ اب تک اسرائیلی بمباری سے مرنے والے شامیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی خاص رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے کہ بمباری کے سینکڑوں واقعات کے نتیجے میں شامیوں کا جانی نقصا
ن کتنا ہوا ہے۔