تحریر :- پی کے بلوچ

ھمگا کالم

_________________________

بلوچستان میں مختلف اقسام کی معدنیات (قدرتی وسائل) وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔ قدرتی وسائل کے تناظر میں بلوچستان ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان سے ہر ہفتے میں لاکھوں ٹن کوئلہ نکل جاتاہے۔ مگر یہ مفلس بلوچ کے قسمت کو نا بدل سکے۔ بلوچستان کے علاقے ہرنائی،شارغ، مچھ، پیراسمعیل، انڈیسہ، اور کوہلو سے متصل علاقے چمالنگ اور دکی میں حکومتی نگرانی کے رجسٹرڈ درجنوں کول کمپنیاں کام کررہے ہیں۔ متذکرہ بالا علاقوں میں پینتیس ہزار کے لگ بھگ ھالج چل رہے ہیں۔ہر ھالج سے ہر ہفتہ ایک سو پچاس ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ بیش بہا دولت بیمار بلوچوں کیلئے پیناڈول ٹیبلیٹ تک نہیں دے سکتے۔ یہاں سے ہر ہفتہ کروڑوں روپیہ ٹیکس جمع ہوتا ہے۔ ان سب چیز کے باوجود پسماندہ بلوچستان وہی کا وہی ہے۔ یہ درآمد شدہ کوئلہ پنجاب کے شہر لاہور اور پنڈی میں لے جایا جاتا ہے۔

کوہلو سے متصل علاقے چمالنگ میں کوئلہ کو قابض پاکستان آرمی کے زیرنگرانی میں نکالا جارہا ہے۔اور یہ ٹیکس بھی آرمی خود وصول کررہی ہے۔ اسی رقم کو آرمی کے جنرلز چوری کرکے اپنے لیئے یورپ میں جائیدادیں خریدتے ہیں۔ چمالنگ کی کوئلے کو چوری کرنے کیلئے آرمی نے ڈی جی خان سے براستہ فورٹ منرو،رکنی اور رکنی سے میختر اور میختر سے چمالنگ تک اعلیٰ ترین روڈ تعمیر کیا گیا۔تاکہ مال غنیمت کو باآسانی منزل تک لے جائے جاسکے۔

واضح رہے کوہلو (چمالنگ)کے کوئلہ کو پرویز مشرف نے کوہلو کے سرکاری حمایت یافتہ مصنوعی لیڈر محبت خان مری سے خفیہ ڈیل کرکے پراجیکٹ کا افتتاح کردیا۔ اور یہ سودا پاک آرمی کے حق میں اہمیت کا حامل رہا۔