Oplus_131072

دبئی (ہمگام نیوز) بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جانے کے بعد اسرائیلی حلقوں نے اس معاملے کو فوری طور پر رد کردیا۔ اب سب سے نمایاں سوال یہ ہے کہ اگلے مرحلے میں کیا ہوگا۔ اسرائیل اور اس کے ادارے گرفتاری کے احکامات سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟

اس بارے میں العربیہ چینل کے قانونی امور کے مشیر مجدی الحلبی نے وضاحت کی ہے کہ اسرائیل اور خطے کے سیاسی فورم اس بات پر متفق ہیں کہ ان احکامات پر عمل درآمد تقریباً ناممکن ہے لیکن پھر بھی یہ کم از کم نظریاتی طور پر ممکن ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہے اگر بین الاقوامی فوجداری قانون کو تسلیم کرنے والے ممالک نیتن یاہو کے طیارے کو اپنی فضائی حدود میں پرواز کرنے سے روک سکیں یا اسے گرفتار کرنے کے لیے بعض معاملات میں اسے لینڈ کرنے پر مجبور کر سکیں۔

مجدی الحلبی نے مزید کہا کہ وارنٹ گرفتاری کے اجرا سے اسرائیلیوں کو حیرت نہیں ہوئی۔ وہ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ خاص طور پر چونکہ عدالتی حلقے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے راستے سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے عدالتی مشیر غالی بہراب میارا نے نیتن یاہو کو ان نتائج سے خبردار کیا تھا اور تجویز پیش کی تھی کہ وہ اسرائیلی عدالت انصاف کے جج کی سربراہی میں ایک سرکاری تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کریں۔

تاہم وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہ سوچتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ انہیں کوئی چھو نہیں سکتا اور یہ کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت ان سے رجوع نہیں کرے گی۔ مجدی الحلبی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ عدالتی ادارہ گرفتاری کے وارنٹ میں شامل الزامات کی تردید کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اپیل دائر کرنے کا وعدہ کر رہا ہے لیکن نیتن یاہو کی قیادت میں سیاسی قیادت کا خیال ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں داخل ہو رہے ہیں جو نیتن یاہو کی سوچ کے مطابق فوجداری عدالت کو ختم کر دیں گے۔

سب سے اہم خطرہ

اس کے علاوہ مجدی الحلبی نے کہا کہ عدالتی اور فوجی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اسرائیل میں سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے جج نے ایسے اسرائیلی افسران، سکیورٹی شخصیات، وزراء اور کنیسٹ کے ممبران کے خلاف خفیہ احکامات جاری کیے ہیں جنہوں نے جنگی جرائم میں حصہ لیا یا بے گناہوں کے قتل کا مطالبہ کرتے ہوئے نسل پرستانہ بیانات دیے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل کے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک اور طریقہ بھی ہے کہ روم کے آئین کے آرٹیکل 16 کے تحت سلامتی کونسل عالمی امن کے قیام کے لیے سیاسی بنیادوں پر عالمی فوجداری عدالت کے احکام سے گریز کا اعلان کردے۔ یہ سلامتی کونسل میں اکثریت کی طرف سے کیا گیا فیصلہ ہو اور خاص طور پر چونکہ ایسے قانون میں ویٹو شامل نہیں ہے تو یہ ممکن ہوگا۔

جہاں تک اسرائیل کے سیاسی منظر نامے کا تعلق ہے مجدی الحلبی نے کہا ہے کہ عرب جماعتوں کے علاوہ تقریباً سبھی نے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وارنٹ گرفتاری کا خطرہ نیتن یاہو کے سینے پر موجود رہے گا۔ خاص طور پر چونکہ یہ انہیں سفر کرنے سے بھی روک رہا ہے۔ اس طرح ہزاروں افسران اور ریزرو فوجی شک میں رہ رہے ہیں۔ وہ بھی اس وقت تک سفر سے گریز کر رہے ہیں جب تک کہ گرفتاری کے خوف سے متعلق تصویر واضح نہ ہوجائے۔

تمام ممالک نفاذ کے پابند

واضح رہے بین الاقوامی فوجداری عدالت نے گذشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوو گیلانٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس بات پر یقین کرنے کی وجوہات ہیں کہ نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع نے جان بوجھ کر اور دانستہ طور پر غزہ میں شہریوں کو ان کی بقا کی چیزوں سے محروم رکھا۔ جواب میں باخبر ذرائع نے اطلاع دی کہ نیتن یاہو کی حکومت نے آئی سی سی کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے لیے دستیاب آپشنز کا مطالعہ شروع کر دیا ہے۔

ذرائع نے یہ بھی کہا ہے کہ تجویز کردہ آپشنز میں سے ایک یہ ہے کہ آیا اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی انسانی قانون کی تعمیل کی ہے یا نہیں اس کی سنجیدہ اور آزاد تحقیقات کا اعلان کردیا جائے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بین الاقوامی فوجداری چارٹر پر دستخط کرنے والے تمام 124 ممالک نیتن یاہو اور گیلنٹ کے خلاف گرفتاری کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ اسی وجہ سے اسرائیلی حکام کافی حد تک محصور ہو گئے ہیں۔ فرانس، ہالینڈ، بیلجیئم اور دیگر نے اس بات کی تصدیق کی ہے وہ ان احکامات کا احترام کرنے کے پابند ہیں۔ بہت سے ماہرین کے مطابق یہ فیصلے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی اخلاقی اور قانونی مذمت سے مشابہت رکھتے ہیں۔