جمعه, آوریل 26, 2024
Homeآرٹیکلزمیڈیا و صحافیوں کو دھمکی، تحریر :داد شاہ بلوچ

میڈیا و صحافیوں کو دھمکی، تحریر :داد شاہ بلوچ

کچھ دنوں پہلے ایک بلوچ مسلح تنظیم کی جانب سے بلوچستان کے حالات پر جانبدار رویہ رکھنے اور یہاں کے حالات کی حقیقی تصویر کو پیش نہ کرنے کے حوالے سے بلوچستان کے صحافی برادری و میڈیا مالکان کے خلاف ایک تنبیہ جاری کی گئی تھی جس میں بلوچستان کے عوام سے اپیل بھی کی گئی تھی کہ وہ اس بائیکاٹ مہم کے لئیے خود کو تیار رکھیں، ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ دیکھنے کو نہیں ملا ہے، جن میں اخبارات کی بندش، ہاکرز کی تنبیہ، صحافیوں پر دباؤ اور ٹی وی چینلوں کی بائیکاٹ سمیت مختلف طریقوں سے اپنی موقف رکھنے کی کوششیں ہوئیں، تو اب ایسے بیانات کیا حقیقت میں اپنا رنگ روپ دکھا پائیں گے یا محض وقت گزاری اور فرصت سے بیزاری کی پیداوار ہوتے ہیں ایسی بیانات، کیونکہ ان مں فوائد و نقصانات کا تناسب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اور اس امر کا اس طرح کی مہم جوئیوں میں واقعی کوئی حل مضمر ہے یا ایسے بیانات حقیقت میں چیزوں کو بدلنے کے بجائے خود دشمن کے کام کو سھل بنانے کے ذریعہ بن سکیں گے، چونکہ دھونس دھمکیوں سے آپ دشمن کو حفظ ما تقدم پر تو راغب ضرور کرسکتے ہیں لیکن اسے اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے کیونکہ وہ سوچی سمجھی منصوبے کے تحت اور باقاعدہ سوچ و بچار اور مکمل حکمت عملی اور پیش بندی کے ساتھ اس طرح کا عمل کررہا ہوتا ہے، سب سے بڑی بات کہ وہ مرنے مارنے پر آمادہ رہتا ہے. اب یہاں دو باتیں ابھر سکتی ہیں کہ یا تو دھمکائے گئے سارے صحافی ریاستی آلہ کار و ہمنوا ہیں یا پھر وہ چکی کی دو پاٹوں میں نہیں بلکیں مختلف پاٹوں کے درمیاں رہ کر اور مجبوریوں کے سائے تلے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش کررہے ہیں،غداری یا مجبوری، آلہ کار یا پابند چونکہ ایک طرف ریاست اور اسکی قانون سازی و عملداری ہے، دوسری طرف میڈیا مالکان اور انکی دباؤ، تیسری طرف انکا اپنا ضمیر، میدان عمل کی حقیقی صورتحال اور سچائیاں ہیں، چوتھی طرف بلوچ سیاسی و مسلح تنظیموں کی دباؤ اور دھمکیاں ہیں.

سب سے پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ صحافی آپ اور ایک بلوچ سیاسی ورکر کی طرح موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں جی رہے، نہ وہ ہمارے ساتھ کسی عہد و پیماں کے پابند ہیں، نہ ہی وہ حلفیہ جہد آزادی کے رضاکار بنے ہیں، انکا ہمارے ساتھ ایک رشتہ ہے جسے اخلاقی مدد کی ڈوری سے مضبوط بنایا جاسکتا ہے، اگر ہم بحیثیت آزادی پسند اور من حیث القوم انکی مجبوریوں اور ریاست سے لاحق ان خطرات پر مزید دھمکی و تنبیہ دیں گے تو جو نرم گوشہ اور اخلاقی امداد کی سوچ موجود ہے وہ بھی جاتے رہنے کا قوی امکان ہے اور عالمی سطح پر مقبوضہ ریاستی تشدد کی طرح ہم پر بھی صحافتی حلقوں پر متشدد رہنے کا الزام الگ سے. اور ساتھ ہی ساتھ ریاست کے لیے موقع سے فائدہ اٹھانے کا دریچہ بھی نادانی میں ہی سہی کھل جانے کا بھی بھر پور امکان ہے، کیونکہ جس غیر فطری اور سفاک دشمن سے ہم کو سامنا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ہر معاملے کو اپنے مفاد میں موڑنے کی کوشش کرے گا اور ایک دشمن اور حریف ہونے کے ناطے اسے کرنا بھی یہی چاہیے سن زو کہتے تھے کہ ” جنگ میں جیت وہ نہیں جہاں آپ اپنے ہزاروں لوگ مروا کر جنگ جیت لیں بلکہ خون کا ایک قطرہ گرائے بغیر جنگ کا جنتنا اصل جیت ہے” گو کہ آج کی تاریخ میں آتش و بارود کی اس معیار پر ترقی پانے کے بعد یہ ممکن نہیں مگر غلطیاں اور عسکری محاز پر کمزوریاں چھوڑ کر دشمن کو ان سے فائدہ اٹھانے دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے.

مرے پہ سو درّے والی مثالیے کی طرح اس بیان و تنبیہ کے دیکھتے ہی دوسری تنظیموں کے مبینہ اور عجلت زدہ اتحاد کے خواہاں کچھ لے پالک طبع لوگوں نے موقع غنیمت جان کر نہ آو دیکھا نہ تاو اور شلوار کے پائچے اوپر کرکے کود گئے اور ایسے ہی نوعیت کے بیان جاری کردیئے، مقابلے بازی و خوشنودی کے حصول جیسے گھناؤنی حرکتیں آسمان کو چھوتی محسوس ہونے لگیں، ان بیانات میں کم از کم سوچ و بچار والی کوئی بات نہیں تھی، حب علی کہہ لیں یا بغض معاویہ لیکن ان تمام بیانات و تنبیہ میں ایک چیز جس کا کسی بھی طرح سے خیال نہیں رکھا گیا وہ تھا بلوچ قومی تحریک اور اس سے جڑے اجتماعی مفادات، ایسے لگنے لگا کہ بس دو دن میں پاکستانی میڈیا میں بلوچ و بلوچستان صورتحال کے حوالے اسٹوڈیوز کی دیواریں گونج اٹھیں گی، اور تمام سیاسی و عسکری پارٹیوں کی ترجمانوں کو بیپر پر لیا جائے گا. مگر ہائے افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور صحافی برادری کا کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرے کے بعد اس عسکری تنظیم کو اپنی اس مہم کو شروع کرنے سے قبل ایک اور وضاحتی بیان دینا پڑگیا. یعنی شروعات سے قبل منزل بارے غلطی اور رستے میں جھول کا احساس ہوگیا، جس میں اپنے حساب سے پہلے والے بیان کی سیاق و سباق کو مزید نکھار و وضاحت کے ساتھ سامنے رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن اس سارے تردید و وضاحتی اچھل کود میں ابھی تک تذبذب کا فضا اسی طرح برقرار ہے جیسے کہ پہلے تھا. کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے اور ریاست سے تحفظ کی اپیل والے جملوں سے مزین بینرز صرف ایک دفعہ کی احتجاجی مظاہرہ نہیں ہے بلکہ اب یہ ریاستی آلہ کاروں کی جانب سے بار بار اور گھما پھرا کے استعمال ہوتا رہیگا، کل کو کسی بھی وجہ سے بلوچستان میں کوئی صحافی اغوا، قتل یا غائب ہوجائے تو اس مظاہرے کو لے کر اور اس سے جڑے تصویروں سے ضرور نتھی کرنے کی سعی کی جائی گی، جو کہ بذات خود ایک طرح کی خاموش نقصان ہے بلوچ تحریک و ہمدردوں کے لیے اور ریاست و اسکے آلہ کاروں کے واسطے بے محنت کی غنیمت.

اجلتی بیان در بیان اور موقع پرستی کے لبادے میں لپٹی تضادات کے ڈھیر پر رکھی ہوئی اتحاد کی خواہشات اور اتباعی بیانات کا ماحصل کیا ہے اور رہے گا، عوام کے لئیے پہلے سے غلطیوں کی بھر مار میں ایک اور غلطی کا کرنا یا دہرانا ہر گز اچنبے کی بات نہیں ہے، لیکن یہاں ایک آدھ حقیقتوں سے پردہ اٹھانا لازم ٹھہرتا ہے.

قومی تحریک اور اس تحریک کے بارے بات کرنے اور احسن سوچ و رائے رکھنے کا ہر بلوچ کو حق حاصل ہے اور وہ یہ حق بھی محفوظ رکھتے ہیں اپنی رائے کو برملا پیش کرسکیں وہ الگ بات ہے کہ بوجوہ وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ تحریک پر کسی کا کوئی موروثی حق نہیں، اس میں ہر طبقے، علاقے اور عمر و قد کے لوگوں کا خون اور پسینہ شامل ہے، اس کو اس طرح غارت کرنے سے ان تمام لوگوں کی جذبات کو ضرور ٹھیس پہنچے گا جو اپنا آج حتی کہ اپنا کل بھی اس تحریک کی آبیاری پر وار چکے ہیں. میڈیا مالکان و صحافی برادری سے کیا زبردستی ( تشدد کی زبان میں) اپنی باتیں منوائی جاسکتی ہیں کیا، اور ایک غیر جانبدار میڈیا یا صحافی سے من پسند رپورٹنگ اور احوال نویسی کا توقع رکھنا کیا عبس نہیں؟ اور تشدد کی اہمیت و ضرورت کی حدیں پھلانگ کر کیا ہم دشمن کو یہ موقع مہیا نہیں کررہے کہ وہ اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے واسطے ثبوت و تاویل کی صورت میں وہ دھمکی آمیز بیان رکھ سکے، کیا ہماری دشمن اتنی رحمدل ہے یا پھر اسے ہم بیوقوف سمجھتے ہیں، اور کیا، اگر ہمیں معلوم ہے کہ صحافیوں پر ریاستی جابرانہ و آمرانہ بنیاد پر کچھ ضوابط مسلط کئے گئے ہیں اور ان سے ایک انچ ادھر ادھر جانے کا مطلب ریاست کی طرف سے موت و تشدد کو دعوت دینا ہے، ( مثال کے طور پر نیشنل ایکشن پلان، نوئے روز کی بے جا حراست اور میڈیا و صحافیوں کو پابند کرنے جیسے قوانین)، تو کیا اس میں ریاستی پالیسیوں کو عالمی سطح پر آشکار کرنا ہمارا کام ہونا چاہیے یا پھر ہم کو متشدد انداز میں اپنی بات ہر کسی پر تھونپنا چاہیے؟ تشدد مظلوم کی تب تک ہتھیار مانی جاسکتی ہے جب تک وہ اسے اپنے دفاع کے لیے موثر و ناگزیر ہتھیار کے طور پر استعمال کرے، عسکری اداروں اور ان کے زیر دست لوگوں کے خلاف تشدد کا استعمال دنیا بھر کے مقبوضہ ملکوں میں ایک نظیر کے طور پر موجود ہے جہاں دونوں طرف سے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور دونوں فریقین مسلح ہوتے ہیں، ان میں طاقت کا توازن اور اسکا استعمال کسی ایک فریق کی جیت کا اسباب پیدا کرتا ہے، لیکن کہیں پر بھی ایک نہتے اور عام و بے گناہ انسان پر زور آزمائی کرنا قابل قبول نہیں ہوتا، گو کہ ایسے نقصانات و حادثات دوران جنگ ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ پیشگی پالیسی پلان نہیں ہوتے، بلکہ تشدد کے ضمنی اسباب ہوتے ہیں، کسی بے گناہ کو نقصان پہنچانا تحریک کے لیے بدنما دھبہ بن کے رہ جائے گا، بھلے اس کا تعلق دشمن قوم سے ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ آپکے کام میں دخل نہیں دیتا، جب تک وہ آپکے عملداری میں موجود علاقوں میں آپکی حکم عدولی نہیں کرتا اسکا مارنا قابل قبول نہیں ہے، مسئلہ صحافی یا میڈیا مالکان کا نہیں مسئلہ کردار و عمل کا ہے، اگر کوئی شخص چاہے وہ قبضہ گیر کی قومیت سے ہو یا مقبوضہ قوم سے لیکن جب وہ آلہ کار بنے گا اور صحافت یا کسی اور شعبے کی لبادے کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرے گا تو بلاشبہ اسکے پیچھے جانا فرض ہے اور اسکے لیے کوئی پیشگی تنبیہ و دھمکی کی گنجائش نہیں ہوتی، بلوچستان کے اس جنگ آزادی میں اس طرح کے کئی نظیر موجود ہیں.

بات یہ نہیں کہ اس عسکری جدوجہد میں خون کے لکیروں سے ڈر کر مصلحت کا راستہ اختیار کیا جائے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس خون کی ہولی میں غیر منطقی و غیر ضروری بنیادوں پر ہاؤہو سے کیسے بچا جائے، قصوروار اور زمہ داروں کی تعین میں اس قدر اجلت پسندی کا نقصان و فائدہ کس کو حاصل ہے یا رہے گا، ایک مہم جو انداز بیان سے لیکر اسکی تردید و وضاحت آنے تک کے اس درمیانی لمحے میں اگر کچھ بد قسمت واقعات رونما ہوجاتے تو انکا زمہ دار کون ہوتا، اور اگر واقعی آپکی مخاطب فریق قصور وار ہے تو اسکی اس قصور و زمہ داری کو پہلی ہی فرصت میں کیوںکر طشت از بام نہیں کیا گیا، یا اسے ضرورت سے زیادہ پیش کرنے کی کوشش میں اگلی وضاحت دینی پڑگئی تو کیوں پہلی فرصت میں ایسے دھونس دھمکیوں سے کام چلایا جائے کہ آگے چل کر اپنے ہی تھوکے ہوئے کو چاٹنا پڑ جائے، یہ سوالات اپنی جگہ پر تشنہ ہیں اور بھر پور جواب کے متقاضی ہیں، اگر یہ خون سے سینچی گئی تحریک کسی کا زاتی وراثت ہے تو ہم چپ ہولیتے ہیں لیکن اگر یہ عمل اجتماعیت کی عکاس اور عوامی امنگوں کی حاصل کل ہے تو اس میں زاتی و گروہی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ مجموعی مفادات کے تناظر میں فیصلوں کا بنیاد رکھنا لازم ہے.

ہٹ دھرمی کا کوئی روک نہیں، جیسا کہ بے اصولی اصولوں کی حد سے ہمیشہ باہر رہتی ہے ویسے ہی بد انتظامی کو نظم و نسق سے کوئی سروکار نہیں، مسئلہ خون اور پسینہ بہانے کا نہیں مسئلہ خون اور پسینے کی رخ کے تعین کرنے کا ہے، بہاؤ کی رخ اور دھار اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس سے کسی بھی بندے، گروہ یا تنظیم کے عمل کا مقصدیت سے ہم آہنگی کا اندازہ ہوجاتا ہے، نہیں تو اندھا دھند بیان بازی، تقلیدی روش، ضد و عناد پر مبنی رویوں کا ما حصل تھکاوٹ بیزاری اور بالآخر مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ اس سے آپ یا کوئی اور کسی کو اپنی سوچ بدلنے پر مجبور نہیں کرسکتے بلکہ کردار و عمل سے کسی تیسرے فریق کی سوچ کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ وہ عمداً دشمن کا آلہ کار نہ بنے، ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں کسی حد تک بلوچ رائے کو اہمیت دیکر اسے کافی حد تک جگہ بھی دی گئی مگر رفتہ رفتہ یہ عمل کم سے کمتر ہوتا چلا گیا اسکی وجوہات پر کبھی اپنے حساب سے غور و خوض نہیں کیا گیا بلکہ اس خاموشی کو کلی اور یکطرفہ طور پر دشمن کی خوشنودی سے تعبیر کیا گیا اپنی کوتاہیوں کمزوریوں اور ناکامیوں کے اسباب پر غور کرتے اور شاید کوئی اور سبیل نکل آتی، صحافی برادری اور انکی تنظیمیں اس بات کو تسلیم کرچکی ہیں کہ ریاست کی طرف سے ہم پر بے پناہ دباؤ ہے، ہر مسئلے کا حل تشدد نہیں اور تحریک کے ہر پیمانے میں آپ تشدد کی جام نہیں چھلکا سکتے، عالمی و علاقائی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی بھی کوششیں کی جاسکتی ہیں.

اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ جو لوگ چاہے وہ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں اگر وہ ریاستی مفادات کو از خود ترجیح دیں اور مجرمانہ انداز میں مقامی و علاقائی حالات سے چشم پوشی اختیار کرکے ریاست کی بیانیے کو لیکر چلیں چاہے وہ کسی بھی شعبے سے ہوں، تدریس، طب یا مزدور و پوریاگر یا پھر صحافت ان پر کسی بھی قسم کی معافی حرام ہوگی لیکن سب کو ایک چھڑی سے ہانکنے کے نتائج جہاں وقتی انداز میں بھیانک ہونگے اور دشمن کے کارآسانی کا سبب بنیں گے وہیں عالمی سطح پر بلوچ تحریک کے حوالے خاصی بدگمانی کے اسباب کو جنم دیں گے، لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ مجموعی مفادات کی تحفظ کی خاطر اس طرح کی اجلت زدگی سے اجتناب کرتے ہوئے موقع پرستی کو فروغ دینے کی بجائے حقیقی بنیادوں پر ہر نقطے کے حوالے بھرپور سوچ سمجھ کے بعد کوئی قدم اٹھایا جائے تاکہ پھر اس اقدام کی کوئی حجت یا تاویل پیش کرنے کی ضرورت نہ پڑے.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز