جمعه, آوریل 26, 2024
Homeآرٹیکلزواحد بلوچ کو دنیا جانتی ہے لیکن۔۔! تحریر:عزت بلوچ

واحد بلوچ کو دنیا جانتی ہے لیکن۔۔! تحریر:عزت بلوچ

جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار،آؤ سچ بولیں۔۔۔۔۔۔
قلم کو تلوار سے زیادہ طاقت ور قرار دیا گیا ہے ۔ ایک انگریز دانشور کا تاریخی جملہ ’’The Pen is Mightier Than Swordُُُُ‘‘ کسی فلم کا مشہور ڈائیلاگ ہے جو دنیا بھر میں معروف ہے کہ ’’True This!Beneath the rule if Men Entirely Great The Pen Is Mightier Than Sword,Behold The arch Enchanters Wand Its Self is Nothing!Take away The Sword State Can be saved Without it!
قلم سے تحریر کئے ہوئے الفاظ ابدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ تقریر اور بیان میں کئے جانے والے الفاظ ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تحریری اعتبار سے آپ کسی کی تعریف یا تنقید کریں تو انتہائی محتاط انداز میں الفاظ کا انتخاب کیجئے کیونکہ آپ کی تحریر محققین اور آئندہ آنے والے افراد کے لئے ایک حوالے کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس میں دو رائے نہیں کہ قلم اور کتاب کی اہمیت سے دنیا آسمانوں میں کمندیں لگا رہا ہے کتاب اور قلم کا انسان سے رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگاہی کی تاریخ۔کتاب و قلم ہی ہے جس نے ستاروں پر کمندیں ڈالنے،سمندروں کی تہیں کھنگالنے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا شوق انسان کے رگ و پے میں خون کی طرح شامل کیا ہے۔
لیکن کیا کریں ہم جس دیس میں رہتے ہیں وہاں کے معمورانِ دیس کو کتابوں اور قلم کی اہمیت کا نا تو اندازہ ہے اور نا ہی ان کا کتابوں سے واسطہ پڑا ہے ان کا تو رشتہ ہمیشہ کشت و خون بندوق کی گھن گھناہٹ سے تھا اسی لئے ان کو ہر چیز کی اہمیت انہی چیزوں میں دکھائی دیتی ہے۔دنیا میں کتابوں سے محبت کرنے والوں نے ترقی کے منازل طے کئے ہیں اور آسمان پر زندگی کی راز تلاش رہے ہیں لیکن ہمارے سماج کے ان ہستیوں کو جیل کی کال کوٹریاں اور عقوبت خانوں میں اذیتیں دے کر ہمارے معمورانِ وطن سکون حاصل کرتے ہیں۔
گہارحانی غمزدہ نہ ہوں آپکی ابا اس ملک کے ان دہشت گردوں میں شامل ہے جنہوں نے کتاب سے محبت اور قلم سے پیار کرنے کا درس عام کیا تھا ۔کامریڈ واحد جیسے انسانوں کی سزا تو یہی ہے کہ انہیں کال کوٹریوں میں ڈالا جائے کہ وہاں وہ ان تکالیف کو سہیں کہ جس سے انہوں نے دوسروں کی تکالیف دور کرنے کی کوشش کی تھی۔غمزدہ نہ ہوں گہار کہ جن افراد کو کامریڈ نے بولنا سکھایا جن قلم کاروں کو قلم پکڑنا سکھایا جن لوگوں کی کینسر زدہ زخموں کو خود اپنے ہاتھوں سے صاف کرکے انہیں ہسپتال میں داخل کروایا جن کو ان کے اپنے عزیز ایک گلاس پانی دینے سے کتراتے تھے کہ کہیں ان کی جراثیم ہم پر حملہ آور نہ ہوں لیکن اس کامریڈ نے ان زخموں کو بغیر Glovesکے صاف کیا تھا۔جی ہاں کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کامریڈ ہسپتال سے منسلک فٹ پاتھ پر بیٹھے ان انجان لوگوں کے پاس جاکر بیٹھتا تھا جنہیں وہ جانتا تک نہیں لیکن ان کی تکالیف کو وہ محسوس کرتے تھے کیونکہ ان میں انسانیت تھی انسان سے پیار تھا۔ہاں کبھی وہ تو ہم پر ٹوٹ پڑتے تھے شاید تم پر بھی نالاں ہوتا ہوگا جب ہم اور تم کتابوں سے دور بھاگتے تھے !!!!!!
تم کسی بھی طرح غمزدہ نہ ہو۔۔۔۔۔کیونکہ وہ لوگ جنہوں نے کامریڈ کو کال کوٹریوں میں ڈالا ہے وہ خود انہیں زیادہ دیر تک ان تنگ و تاریک قید خانوں میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ کتاب اور قلم کے شیدائیوں نے دنیا کو ہمیشہ پیار سے جیتا ہے قلم کی جنبش اور کتاب کی اہمیت ہی اس ہستی کو واپس لے آئیں گے جن سے دنز و دھول میں پڑی ہوئی کتابوں کو رونک مل جاتی تھی۔ریگل چوک کے دھواں سے لپٹی اور کیڑوں کی کھائی ہوئی ان بوسیدہ کتابوں کے ان اوراق کی نکلی دعائیں کامریڈ کو واپس لے آئیں گی جن کو وہ چانٹتا تھا انہیں پڑھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم کیوں غمزدہ ہو گہار ھانی!!!!!کیا گھر میں رکھی ہوئی ان ہزاروں کتابوں کی صدائیں تمہیں سنائی نہیں دیتیں جو ہر لمحے کامریڈ کے لئے دعا گوں ہیں؟؟؟اس چھوٹی سی کمرہ میں رکھی ہوئی اس کمپیوٹر کو کبھی دیکھنا نا بھولیں جن کی کیبورڑ پر ہاتھ رکھکر کامریڈ نے ان کتابوں کو Composeکیا تھا ہر اس الگ بٹن سے یہی صدا آ رہی ہے کہ کامریڈ واپس آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان لوگوں کا کسی بھی طرح گلہ نہ کرنا کیونکہ کامریڈ کبھی بھی گلہ نہیں کرتے تھے بلکہ انہوں نے ہمیشہ محبت دوستی پیار سے اپنے روٹے ہوؤں کو بھی منایا اور اپنے کو گالیاں دینے والوں کو ہمیشہ گلے لگایا۔اس دیس میں جہاں کہیں بھی کتاب موجود ہیں جہاں کہیں بھی قلم سمیت سیاہیاں موجود ہیں وہ کامریڈ کے ساتھی ہیں کتابوں میں نبشتہ ہر لفظ کامریڈ کی بے گناہی کا کھلا نشان ہے قلم کی سیاہی سے سیاہ کی گئی ہر ورق کامریڈ کی بے گناہی کے لئے چلا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اگر انسان مرگئے ہیں تو کیا ہوا؟؟؟اگر ان لوگوں کی ضمیر سوچکی جو چھپ سادھے ہوئے ہیں تو کیا غم ۔۔۔۔۔۔۔۔کراچی سمیت بلوچستان کے ماہناموں رسالوں،شعراء کی شاعری ،ادیبوں کے نقاد سے بھری تحریریں سفید اوراق پر ڈالی گئی ان سیاہیوں کے رنگ تمہارے ساتھ ہیں اس کے باوجود آپ غمزدہ ہیں؟؟؟تا ابد حیات رہنے والی وہ تحریریں ،وہ شاعری،وہ نقاد سے بھری مکالمے اپنے ملنگ مرشد کے لئے صدائیں بلند کریں گے جن کی جنبش ان قید خانوں میں معمور چوکیداروں کی نیندیں حرام کردیں گی۔کامریڈ کو دنیا جانتی ہے لیکن ا س دیس کے معموران کو چنداں غلطی ہوئی انہیں پہچاننے میں کہ انسانیت کی درس دینے کتابوں سے محبت کرنے اور قلم سے پیار کرنے والے انسان کو مہذب دنیا پوجتی ہے نا کہ تنگ و تاریک قید خانوں کی باھوٹ کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کیا کریں انگھوٹا چاپ ایک چوکیدار کو کیا معلوم کہ کتاب کی کیا اہمیت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔گہار ھانی کبھی غم نہ کرنا کیونکہ کامریڈ نے کتابوں سے محبت کی ہے ان کی اہمیت کو سمجھا ہے ان کتابوں کا پیار ان میں رنگی ہوئی وہ نقوش ہی کامریڈ کے ساتھ صحیح سلامت واپس آجائیں گے اتنی جلدی کہ گھر میں رونقیں بحال ہونگی اور کتابوں پر لگی ان دھول کا خاتمہ ہوگا جو کامریڈ کی راہ تھک رہی ہیں۔اور ہاں اگر ان لوگوں میں تھوڑی بھی ضمیر باقی ہے جنہیں کامریڈ نے بولنا سکھایا انہیں چلنا پھرنا سکھایا وہ آکر سچ بولیں گے تمہارا ہاتھ تھامیں گے تمہارے ہم قدم ہونگے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز