Homeانٹرنشنلایران میں اخلاقی پولیس کی واپسی، لیکن جبری اقدامات کی افادیت پر...

ایران میں اخلاقی پولیس کی واپسی، لیکن جبری اقدامات کی افادیت پر سوالیہ نشان؟

تہران (ہمگام نیوز) ایران نے گذشتہ اتوار کو اپنی اخلاقی پولیس کو دوبارہ فعال کرنے اوراس کے شہروں میں گشت کا اعلان کیا تھا۔اخلاقی پولیس گذشتہ سال ستمبر میں کرد خاتون مہسا امینی کی حراست کے دوران میں موت کے بعد سے گذشتہ کئی ماہ کے دوران میں غیرفعال رہی ہے۔

تہران میں اخلاقی پولیس نے بائیس سالہ مہسا امینی خواتین کے لیے سخت ضابطہ لباس کی مبیّنہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور اس کے تین روز بعد پولیس ہی کی حراست میں اس دوشیزہ کی موت واقع ہو گئی تھی۔

ان کی موت کی ردعمل میں کئی مہینے تک ایران میں مظاہرے جاری رہے تھے اور یہ احتجاجی تحریک حکومت کا تختہ الٹنے کے مطالبات میں تبدیل ہوہوگئی تھی۔کسی قیادت کے بغیر یہ احتجاجی تحریک ایران میں انقلاب کے بعد چار دہائیوں پر محیط ایرانی حکومت کے لیے سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک تھی۔

مہسا امینی کی موت کے بعد، اخلاقی پولیس کی بدنام زمانہ سفید اور سبز گاڑیاں ایران کی سڑکوں سے غائب ہو گئی تھیں۔ایک موقع پر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ایران کی جانب سے اخلاقی پولیس کو ختم کرنے کے بارے میں اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں لیکن یہ غلط ثابت ہوئی تھیں۔

واضح رہے کہ ایران میں 1979 کے انقلاب کے فوراً بعد حجاب کو خواتین کے لیے لازمی قراردیاگیا تھا اورایران کے شیعہ مذہبی حکمرانوں نے اسے اپنے لیے ایک سرخ لکیرقراردیا تھا اور یہ اب بھی ہے۔

یونیورسٹی آف ٹینی سی میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر سعید گولکر اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اسلامی جمہوریہ ایران تین بنیادی ستونوں پر قائم ہے: اخلاقی پولیس کاری، جس میں لازمی حجاب کے قانون کا نفاذ بھی شامل ہے، یہود دشمنی اور امریکا مخالفت۔انھوں نے العربیہ کو بتایا:’’حکومت ان تین ستونوں کو کمزور نہیں کر سکتی‘‘۔

گولکر کا ماننا ہے کہ اخلاقی پولیس کو واپس لانے کے اعلان کا وقت بے ترتیب نہیں ہے۔ اس ہفتے محرم الحرام کے آغاز کے ساتھ ہی ایران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کےنواسے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے سوگ کے ایام میں داخل ہو گیا ہے۔انھیں سنہ 680 ء میں 10 محرم الحرام کو عراق میں کربلا کے مقام پر شہید کردیا گیا تھا۔

گولکر نے وضاحت کی کہ اس عرصے کے دوران میں ،حکومت کی مذہبی بنیادوں میں مذہبی جذبات بہت زیادہ ہیں اور حکام اسے لازمی حجاب کے قانون کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مناسب موقع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

مہسا امینی کی موت کے بعد خواتین کی ایک غیر معمولی تعداد اپنے سرکو ڈھانپے بغیر عوامی مقامات پر نظر آنے لگی تھی جبکہ اخلاقی پولیس سڑکوں سے غائب تھی۔حکام نے قانون کے نفاذ کے لیے متبادل اقدامات کیے ، جیسے ان کاروباروں کو بند کرنا جن کا عملہ قواعد پر عمل نہیں کرتا تھا اور مجرموں کی شناخت کے لیے عوامی مقامات پر نگرانی کے کیمروں کی تنصیب۔

تاہم یہ اقدامات ایران میں خواتین کو حجاب کے لازمی قانون کی خلاف ورزی سے روکنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔ایران میں مقیم ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر العربیہ کو بتایا کہ اخلاقی پولیس کو دوبارہ متعارف کرانا اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اپنے حامیوں کو خوش کرنے کا ایک اقدام ہے۔انھوں نے حجاب کے قانون کے نفاذ میں اس کی افادیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ ’’حالات کبھی اس طرح واپس نہیں آئیں گے جیسے مہسا امینی کی موت سے پہلے تھے’، جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کا اپنے بالوں کو ڈھانپے بغیر عوامی مقامات پر نظر آنا ایک نئی حقیقت بن گیا ہے‘‘۔

اس ایرانی کہا کہ حکام امینی کی موت سے پہلے کے حالات پر واپس نہیں جا سکیں گے، جب خواتین کو عوامی مقامات پر سرپوش کے بغیر دیکھنا عام نہیں تھا۔ آج ایران میں نقاب نہ اوڑھنے والی خواتین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ حکام اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔

ایک تھنک ٹینک جوہری ایران کے خلاف متحد (یو اے این آئی) کے پالیسی ڈائریکٹر جیسن براڈسکی نے العربیہ کو بتایا کہ اگرچہ ایرانی قیادت اخلاقی پولیس کی واپسی کو خواتین کو حجاب کے لازمی قانون کو چیلنج کرنے سے روکنے کا ایک ذریعہ سمجھتی ہے، لیکن اس سے ایرانی عوام کے غیظ وغضب میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اس ہفتے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں جن میں ایران کے کئی شہروں میں لوگوں اور پولیس کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کو دکھایا گیا ہے۔براڈسکی کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران بیک وقت پراعتماد اور پاگل پن دونوں کا شکار ہے۔انھوں نے کہا کہ تہران کو لگتا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے کشیدگی میں کمی کے اشارے کی وجہ سے اسے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

بروڈسکی کا کہنا تھا کہ ’’اس کے علاوہ حکومت مہسا امینی پولیس کے زیرحراست موت کی پہلی برسی سے پہلے بدامنی کے امکانات پر گہری نظریں جمائے ہوئے ہے۔ نیزاخلاقی پولیس کی واپسی حکومت کی اصلاحات میں ناکامی کی نشان دہی بھی کرتی ہے‘‘۔

مشرق اوسط سے تعلق رکھنے والی بین الاقوامی سلامتی اور خارجہ پالیسی کی تجزیہ کار اور ورجینیا ٹیک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ شکریہ برادوست نے العربیہ کو بتایا کہ ایران میں برسراقتدار نظام خواتین کو اپنی مرضی کے مطابق لباس پہننے کی اجازت دینے کے بارے میں فکرمند ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس طرح کے اقدام سے ملک میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں آسکتی ہیں، جس سے وہ بچنا چاہتا ہے۔

انھوں نے کہا:’’ایران میں حکومت کی تبدیلی کے لیے حالیہ بغاوت کو لازمی حجاب کے خلاف خواتین کی مزاحمت نے بااختیار بنایا تھا، لیکن یہ احتجاج اس واحد مسئلے سے آگے بڑھ گیا۔ لہٰذا حجاب کے قانون پر کسی بھی قسم کی رعایت کو حکومت کی جانب سے ممکنہ اثر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو تہران میں حکومت کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے‘‘۔

شکریہ برادوست نے بھی اخلاقیات پر مبنی پولیس کے اپنے مشن میں کامیابی کے امکانات کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے بہت سے ایرانیوں میں پائے جانے والے جذبات کی طرف اشارہ کیا جو سمجھتے ہیں کہ دہائیوں کی اندرونی بدانتظامی اور بدعنوانی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی پابندیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شدید معاشی بحران جیسے عوامل کی وجہ سے ان کے پاس ’’کھونے کے لیے کچھ نہیں‘‘ہے۔

Exit mobile version