پیر, مئی 20, 2024
ہومآرٹیکلزجنوبی سوڈان اور بلوچ قومی تحریک، ایک تقابلی جائزہ ، تحریر: شبیر...

جنوبی سوڈان اور بلوچ قومی تحریک، ایک تقابلی جائزہ ، تحریر: شبیر بلوچ

 

ہمگام: اردو کالم

محمد علی پاشا جسے جدید مصر کا بانی کہا جاتا ہے جس کی خواہش تھی کہ مصر بحیرہ روم ،مشرق اور دنیا میں ایک طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ،اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسکی نظریں سوڈان پر گڑھی ہوئی تھی اور اس نے مناسب وقت پر یعنی 1820میں سوڈان پر قبضہ جمایا، شروع میں مصر نے شمالی علاقے قبضہ کئے وہاں اپنی کالونی بنائی لیکن بعد میں انھوں نے جنوبی سوڈان پر بھی اپنا قبضہ جما لیا، اور اسی دوران جنوب اور شمالی سوڈان کی تقسیم کا عمل شروع ہوا پھر مصر کے بعد جب سوڈان مصر اور برطانیہ کی کونڈومینیئم یعنی مشترکہ اختیاری قبضے میں رہا تو وہاں بھی مصر اور برطانیہ کی مشترکہ مقبوضہ حکومت نے شمال میں مہدی Mahdi,stباغیوں کی خطرہ سے نمٹنے کے لیے قبائلی سرداروں کی سرداری بحال کرتے ہوئے ان سے کاسہ لیسی کا کام لیا ۔

پہلی جنگ عظیم میں برطانوی پالیسی کے تحت شمالی سوڈان میں انتظامیہ فوجی قبضے سے سویلین قبضے کی جانب منتقل ہوئی ،دیہی علاقوں میں پولیس کو اختیارات دیئے گئے اورتمام برطانوی سویلین نمائندوں نے ملٹری گورنروں کی جگہ لی لیکن جنوبی سوڈان میں صورتحال یکسر مختلف تھی جہاں کو ئی بھی Mahdi,stنہیں تھا کہ جنکو ان سے الگ کیا جائے وہاں سے بغاوت کا خطرہ نہیں تھا سو اس لیے ان علاقوں پر توجہ نہیں دیاگیا ان کو اپنی وابستگی بدلنے کے لیے انعامات دینے کی گنجائش نہیں تھی پھر 1930میں سول سیکٹریٹ نے پالیسی جاری کیا اور جنوبی سوڈان کی سرکاری بندوبست اور انتظام عرب زون کے بجائے افریقی زون میں شامل کیاگیا تاکہ مستقبل میں جنوبی سوڈان کو برطانیہ کی سرکار مڈل ایسٹ کے بجائے مشرقی افریقی ممالک کی طرح ڈیل کرے۔
قابض نے شمالی سوڈان میں مزاحمت اور باغیانہ سرگرمیوں کو کاونٹر کرنے کی خاطر وہاں کاروبار اور دوسری چیزوں میں انھیں ترجیح دی اور بین القوامی کاٹن کی تجارت میں Gezaraاسکیم کے تحت شمالی سوڈان کے تاجروں کووہاں جانے کی اجازت دی لیکن جنوبی سوڈان والوں کے لیے یہ رعایت نہیں دی گئی۔ مہدی موومنٹ کی وجہ سے شمالی سوڈان کا جنوبی سوڈان پر معاشی ،سیاسی اور ترقی کے حوالے سے غلبہ رہا ، جس نے دونوں کے درمیان خلیج کو مزید وسعت دی۔ 1940میں برطانیہ نے جنوبی سوڈان کے Nilotic ،Dinka اور Nuerلوگوں کو قدامت پسند اور پسماندہ کہا جبکہ مغربی EquatoriaکےZande لوگوں کو ترقی پسند اور ترقی یافتہ قرار دیا۔ برطانیہ کا سوڈان پر رسمی قبضہ
،اینگلو مصری سوڈان 1899معاہدہ کے بعد ہوا ۔جس میں تسلیم کیا گیا کہ سوڈان مصر کی ملکیت ہے اور اس پر برطانیہ مصر کے بادشاہ کی جانب سے حکمرانی کرے گا ۔سوڈان میں گورنر جنرل کو برطانیہ کی سفارش پر مصری بادشاہ مقرر کرتا رہا اس وقت مصر خود برطانیہ کے قبضہ میں تھا اور اس وقت 1898سے لیکر 1924 تک سوڈانی گورنر جنرل مصری فوج کا کمانڈر اینڈ چیف تھا یہاں پر اقتدار اعلی کا مسئلہ بھی قابل بحث رہا کیونکہ بظاہر مصر سوڈان کی اقتدار اعلی کا مالک تھا لیکن پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے اپنی پوزیشن سوڈان میں مزید مضبوط بنانے کے لیئے سید عبدالرحمان المہدی جو انصار گروپ کا لیڈر اور مہدی کے بیٹے تھے کو اسکی سابقہ پوزیشن پر بحال کیاجو نظریاتی طور پر ترک اور مصر مخالف تھے۔ جنگ عظیم اول کے دوران مصر نے جنگ لڑتے ہوئے برطانیہ سے اپنی آزادی حاصل کر لی لیکن سوڈان میں مصر کی اثر و رسوخ کو آہستہ آہستہ محدود کردیا گیا اور 1924میں مصر کو سوڈان سے نکال باہر کیا گیا اور سوڈان مکمل طور پر مصر کی قبضے سے نکلتے ہوئے برطانیہ کے کنٹرول میں چلا گیا اور بعد میں جنوری 1956 کو سوڈان نے برطانیہ سے اپنی آزادی حاصل کر لی پھر جنوبی سوڈان اور شمالی سوڈان میں موجود اندورنی مسائل نے سر اٹھایا اور سوڈان حکومت نے جان بوجھ کر جنوب کے لوگوں کو محکوم بنانے کا فیصلہ کیا اس طرح جنوبی سوڈان کئی سالوں تک جنگ وجدل کا شکار رہا اور افریقہ کا سب سے طویل خانہ جنگی جنوبی سوڈان کی جنگ کی شکل میں قائم رہا ، یہاں سے سوڈان کے خلاف تحریک کا اعلان ہوا۔ سوڈان پیپلز لبریشن آرمی اور اس کی سیاسی ونگ سوڈان پیپلز لبریشن موومنٹ SPLA/Mنے کیا ،SPLA/Mکا بنیادی مقصد پورے سوڈان میں اصلاحات اور انقلاب لانا تھا بعد ازاں ان کی لیڈر کی موت کے بعد انقلاب سے یہ لوگ آزادی کی جانب مڑ گئے، 9جولائی 2011کو جنوبی سوڈان نے سوڈان سے مکمل آزادی حاصل کرلی ۔سوڈان جس نے خود قابض سے ۱جنوری1956کو آزادی حاصل کر لی تھی اپنی آزادی کے 55سال بعد اس سے جنوبی سوڈان نے آزادی حاصل کرلی ، شمالی سوڈان اورجنوبی سوڈان کے لوگوں کی پہلی خانہ جنگی 1972میں ہوئی جہاں جنوبی سوڈان کا الگ سے نام استعمال ہونا اور اس کا الگ سے شناخت شروع ہوا۔  اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور اس جنگ میں جنوبی سوڈان کے علاقے Equatoriaکے لوگوں نے زیادہ تر جنگجو اور لوگ فراہم کیے جنگ کا مقصد آزادی تھا لیکن یہ خودمختاری تک ختم ہوا جبکہ دوسری خانہ جنگی 1983اور2005 میں dinkaاور nuerنے بڑی تعداد میں فوجی دستہ فراہم کرکے یہ جنگ لڑی اس جنگ میں بھی چالیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے اور کئی ہزار مارے گئے ،لیکن اس کوبھی آزادی کی جنگ کے بجائے انقلابی جنگ کہا گیا کہ وہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات لائینگے۔ 2005 کے بعد ان کی سوچ فکر اور نظریہ میں تبدیلی آئی اور اس معاہدے کے بعد انھوں نے انقلاب اور جنوبی سوڈان خطے اور ریجن جیسے اصلاحات کو چھوڑتے ہوئے جنوبی سوڈان ریاست کی تشکیل کا مطالبہ شروع کیا اور الگ ریاست کی مانگ کی ، حالانکہ یہاں سے جو تین سوال ابھرتے ہیں وہ ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے ہیں پہلی جنگ جو شروع کیا گیا تھا وہ آزادی کا تھا لیکن ختم نیم خودمختاری پر ہوا ،دوسری جنگ انقلاب کے لیے شروع کیا گیا وہ آزادی پر ختم ہوا تیسرا سوال جوفطرتاََ خلاف قیاس سمجھا جاتا تھا کہ غربت بھوک افلاس جہالت اور لینڈلاک سرزمین اندرونی تناوُ اور بے چینی کا شکارہونے کے ساتھ ساتھ دشمنوں میں گھرا ہوا یہ علاقہ کس طرح آزاد ہو سکتا ہے ؟ جنوبی سوڈان کی آبادی 9ملین ہے جو زیادہ ترعیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اوریہاں قومیت زبان میں تنوع  diversity ہے ، یواین کے مطابق سوڈان اور جنوبی سوڈان میں 100،بولی ،50 نسل اور 600قبیلہ گروپ موجود ہیں ۔Dinkaاورعربی دو مشہور بھاشا ہیںNuer اور dink زبانیں زیادہ تر جنوبی سوڈان میں بولی جاتی ہیں جبکہ انگریزی دوسری بولی جانی والی زبان ہے ،سوڈان اور جنوبی سوڈان کے درمیان تنازع اور بحث مباحثہ ہمیشہ عرب بمقابلہ سیاہ ،سیکولرازم بخلاف مذہبی حکومت اور آخر میں شمال بمقابلہ جنوب کا رہا ،جنوبی اور شمالی سوڈان کے مسئلے کو سوڈان بددیانتی،دغابازی اور بین القوامی مداخلت قرار دیتا رہا جبکہ جنوب والے اسے نسلی اور مذہبی رنگ میں پیش کرتے تھے
بعد میں تحریک نے سوڈان کے خلاف جنگ لڑی جس میں SPLM/Aکلیدی کردار ادا کیا لیکن 1991میں بڑی نقصان اٹھانے کے بعد جہاں بہت سے لوگ ماردیئے گئے اور لوگوں کو قابض کی درندگی اور نقصان سے بچانے اور تحریک میں بہتری لانے کے حوالے سے تحریک دو گروپس میں تقسیم ہوا جہاں SPLAاور ان کے لیڈرجان گارانگJohn Garangتھے جبکہ انکے سب سے بڑے حریف Riek Macharریاک مشار بن گئے جنہوں نے 1984سے لیکر 1991 تک جان گارانگ کے کمان میں جدوجہد کیا لیکن بعد میں اس نے پارٹی توڑ کر اپنا الگ گروپ SPLM/A NASIR دھڑا بنایا اسکے جان گارانگ کے ساتھ اختلافات اصولی تھے جہاں جان گارانگ سوڈان میں ایک سیکولر اورجمہوری سوڈان کے لیے جدوجہد پر زور دیتے رہے اور سوڈان کے اندر رہتے ہوئے انقلابی جدوجہد کا حامی تھا جس کو ریاک مشار نے ردکرتے ہوئے پارٹی سے اسکو نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی تقسیم کیا اور اعلان کیا کہ وہ مکمل آزاد جنوبی سوڈان کے لیے جدوجہد کریں گے جہاں مصلحت پسندی کو قومی آزادی اور اپنے قومی پروگرام کے لیے نقصاندہ عمل قراردیا گیا ۔امریکہ اور انکے معاون اورمددگاروں نے بہت کوشش کی کہ ان کے درمیان آپس میں موافقت پیداکریں ستمبر1993میں کینیا کے صدراوراکتوبر 1993میں امریکی کانگریس نے میٹنگ کی تاکہ دونوں کے درمیان آپس میں اتفاق پیدا کیا جائے لیکن ریاک مشار نے اپنے موقف سے ہٹنے سے انکار کیا ،بعد میں ریاک مشارکی موومنٹ کا نام South Sudan Independence Movement/Army (SSIM/A).رہا ۔پھر آپس میں یہ دونوں گروپ خانہ جنگی کے شکار بھی رہے اور انکی آپسی جنگ میں بہت سے لوگ مارے گئے ۔جنوبی سوڈان کو برطانیہ نے آزادی کے وقت بھی شمال کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا اور برطانیہ کے زیادہ تر مذاکرات آزادی کے حوالے شمالی لیڈرشپ کے ساتھ رہے اور جنوب کے لوگوں نے کوشش کی کہ ان کی قومی شناخت،کلچر،مذہب،اور سیکولرسوچ محفوظ رہے اور وہ متحدہ سوڈان کے ساتھ یکجا ہوتے ہوئے رہنا چاہتے تھے لیکن پھر شمال نے انکا استحصال شروع کیا اور ان کا مذہبی،ثقافتی،ہرحوالے سے استحصال ہوتا گیا بلآخر تنگ آکر انھوں نے1970کے عشرے میں کمزور مزاحمتی تحریک شروع کی Anya-Nya)جسکے مہدی زبان Ma'di languageمیں معنی سانپ کا زہر snake venom"ہے جس میں جنوبی سوڈان خطے کےNuer, Lotuko, Madi, Bari, Acholi, Zande, Dinka,قبائل نے سوڈان حکومت کے خلاف بغاوت کی اوراس بغاوت کو سانپ کازہر کہا جانے لگا جو پہلی بغاوت تھی وہ 1972میں نیم خودمختاری پر ختم ہوا جہاں ادیس ابابا نے ان کی صوبائی اسمبلی کی منظوری دینے کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی اور ثقافتی آزادی کی تحفظ کو یقینی بنانے کا اعلان کیا ۔دوبارہ 1983میں جنوبی سوڈان نے جنگ کا اعلان کیا اور اس جنگ میں بھاری اور قابل لحاظ سے اہم کردار SUDAN PEOPLE LIBERATION ARMYنے ادا کیا جسکی قیادت جان گرانگ نے کی اس تنظیم کا جان گرانگ کی زندگی تک مقصد انقلاب تھا کتاب
to Independence South Sudan from Revolution
میں گرانگ کے حوالے لکھا ہے کہ ایس پی ایل اے کا بیانیہ سوڈان میں انقلاب لانا تھا جو کہ آزادی کے بجائے سوڈان میں مکمل تبدیلی لانا چاہتے تھے۔
یہ دوسری بغاوت کو جنوبی سوڈان سے وسعت دیکر مشرقی سوڈان اور دارفور تک پھیلاچکے تھے دوسری جنگ 9 جنوری2005 کو امن معاہدے کے ساتھ ختم ہوا جہاں سوڈان کی نمائندہ برسراقتدار پارٹی NCPنیشنل کانگرس پارٹی تھا جس کی سربراہی عمر حسن البشیر کے پاس تھی اور جنوبی سوڈان کی نمائندگی SPLAنے کی۔ اس معاہدے کے لیے مزاکرات دو سے ڈھائی سال تک ہوئے جس میں SPLA نے مطالبہ کیا کہ ان کے علاقے کے نام کو جنوب سوڈان سے تبدیل کرکے جنوبی سوڈان کہا جائے لیکن آخر میں CPA comprehensive peace agreement میں نام کی تبدیلی اور آزادی کے مطالبے کو قبول نہیں کیا گیاCPAنے جنوبی سوڈان کو خودمختار حکومت کا درجہ دیا اور {GONU} Government of national unity بنائی گئی جس میں SPLAکو اس حکومت میں جنوبی سوڈان کی سرکاری فوج کا درجہ دیا گیا کہ وہ اس علاقے میں امن بحال کریں اور جنوبی سوڈان میں مکمل مذہبی اور سیاسی آزادی کو یقینی بنایا گیا جبکہ شریعہ قانون صرف سوڈان کے عرب اور مسلم میں لاگو کیا گیا جبکہ جنوب میں زیادہ تر گرانگ کا عمل داری تھا اور باقی ماندہ ملک میں عمر حسن کا اثر تھا لیکن بعد میں گرانگ کی ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں موت واقع ہوئی اور اسکی جگہ Salva Kiir Mayarditلیڈر بنا جس کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہوگئے کتاب The Root Causes of Sudan's Civil Wars: Peace Or Truceمیں لکھا ہے کہ سوڈان میں امن قائم کرنے کے لیے امریکی ثالث Senator John Danforthنے کہا کہ سوڈان کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے عمل نے جنوبی سوڈان کی تحریک کو مدد دی اس نے کہا جنگ اب دونوں فریقوں کے لیے جیتنے کے قابل نہیں ہے اس لیے امن کو موقع دینا چاہیے۔ ۔NUBA کے پہاڑی خطے میں اس نے جنگ بندی کروائی ، انسانی بنیادوں پر امدادکے لیے اس نے راہ ہموار کیا ،بین القوامی مانیٹرزکو اجازت دلوائی کہ وہ عام عوام پر حملوں کی تحقیق کریں لیکن دوسری طرف امریکی سیکریڑی آف افریقہ Walter H. Kansteiner, IIIنے اپنی حکومت کی پوزیشن دھرایا کہ آزادی نہیں بلکہ صرف خودمختاری پیشکش پر ہے ۔لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مغرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور چین کی سوڈان اور خاص کر جنوبی سوڈان میں لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے جنوبی سوڈان کی آزادی کی حمایت کی ۔
کیونکہ چین کی تیل کی کمپنی China National Petroleum Corporation نے سوڈان میں تیل نکالنے کا کام 1995میں شروع کیا ۔
سوڈان میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے سوڈان میں اسلحہ اور فوجی سامان کی درآمد پر پابندی عائد کردی لیکن پابندی کے باوجود چینی حکومت نے سوڈانی حکومت کو اسلحہ اور سامان فراہم کیا جو کہ دارفور میں نسل کشی کے دوران استعمال ہوئے۔
کتاب Sudan Looks East: China, India & the Politics of Asian Alternativesمیں لکھا ہے کہ دارفور واقعہ نے چین کی جنوبی سوڈان میں کردار کو بے نقاب کیا ۔ کتاب کے مطابق امریکیوں نے خانہ جنگی اور نسل کشی کا الزام چین پر لگایا کہ چین جنوبی سوڈان کی تیل کے لیے نسل کشی پر سرمایہ لگارہا ہے۔ دنیا میں سوڈان حکومت کی سب سے زیادہ بین القوامی سطح پر حمایت چین نے کی اور نسل کشی کے دوران بھی چین سوڈان کی حمایت اور امداد کرتا رہا جس کی وجہ سے باقی چین کے مخالف ممالک نے جنوبی سوڈان کے تحریک کی حمایت چین کی مخالفت کی وجہ سے شروع کردی۔
پھر چین نے SPLM/Aکو سوڈان میں اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کیا Is China an Empire?کتاب میں بھی لکھا ہے کہ بڑے طاقتوں کی افریقہ میں ریس اور مقابلے کی وجہ سے چین مخالف قوتوں نے جنوبی سوڈان کی آزادی کی حمایت کی۔ G8کے ترقی یافتہ ممالک فرانس،جرمنی،برطانیہ،جاپان ،اٹلی،کینیڈا،روس،اور امریکہ،افریقہ میں اپنا اثررسوخ کھو رہے تھے اور افریقی ممالک چین کے نزدیک آرہے تھے اور چین کا سکہ وہاں زیادہ چلنے لگاتھا .عالمی سطح پر چین مخالفت کی وجہ سے جنوبی سوڈان کی آزادی کی تحریک کو اہمیت ملنا شروع ہوا اسکے باوجود ان کی تحریک میں بہت سے اندرونی مسائل تھے۔اندرونی طور پر جنوبی سوڈان کی دونوں مسلح تنظیموں نے اپنے ریلیف ونگ بنائے ہوئے تھے ،SPLA/mکی Toritدھڑے کی ریلیف آرگنSRRA Sudan Relief and rehabilitation Association تھا۔ جبکہ SPLA/m NASIRدھڑے جو بعد میں SPLA/M سے نام تبدیل کرکے SSIM/Aہوا جسکا ریلیف آرگن {RASS}Relief Association for South Sudan تھا ۔ڈاکٹر Timothy T. Tutlamجو پہلے SPLA/M گروپ میں تھا اس سے نکل کر اس نے SSIM/Aگروپ میں شمولیت کی جہاں اسے RASSکا رابطہ کار بنایا گیا پھر 1997 میں سوڈان حکومت اور جنوبی سوڈان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی پارٹیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے Khartoum peace agreement{KPA}کہا جاتا ہے۔ان مزاکرات میں سوڈانی حکومت اور جنوبی سوڈان کی پارٹیاں UDSF/SSIM/Aاور پانچ الگ دھڑے شامل تھے لیکن ان مزاکرات میں SPLA/M نے شرکت نہیں کی جس کی وجہ سے اس معاہدے کو عالمی سطح پر پزیرائی نہیں مل سکی۔ اس معاہدے کے بعد بھی پارٹیوں میں تقسیم درتقسیم کا عمل جاری رہا اور ایک اور گروپ کا اضافہ ہوا۔
،پارٹی Nuerکے انٹرا intra اندرونی تضادات کو حل نہ کرسکے انہی تضادات کی وجہ سے ایک اور نئی گروپ بن گئی ،Kerobino Kwan yinنے الگ ہوکر اپنا SPLM/A Bahr,el Ghazalبنائی جبکہ ڈاکٹر Lam Akol AJawin کو ڈاکٹر مشار نے پارٹی سے نکال دیا تو اس نے بھی الگ سے ایک دھڑا بنایا جس کا نام SPLM/united رکھا ۔لیڈرشپ کی کشمکش یہاں تک بھی نہیں رکا ۔ 1995میں William Nyuon نے کچھ کمانڈروں کے ساتھ اعلان کیا کہ انھوں نے اپنی پارٹی لیڈر ڈاکٹر مشار کو SSIM/Aکی لیڈرشپ سے ہی نکال دیا ہے ، مگر وہ اپنی اس مہم جوئی کی عمل میں کامیاب نہ ہوا لیکن اس نے انتشارکی فضاء کو مزید پروان چڑھایا، کتاب Liberating South Sudan one patient At time میں لکھا ہے کہ اتنے بحرانوں اور اندرونی چپقلش اور کمزوریوں کے باوجود SSIM/Aمیں کافی افرادی قوت تھی اور اس نے ایک بڑا علاقہ اپنے کنٹرول میں لیا ہوا تھا لیکن اس کو SPLA/Mکے مقابلہ میں کم خارجی اور غیرملکی حمایت حاصل تھی ۔ SSIM/Aکو باہر کی مدد کی سخت ضروت ہوئی یوگینڈا اورایریٹیریا اس کی دسترس سے باہر تھے کیونکہ وہ پہلے ہی سے اسکے حریف SPLA/Mکی مدد کررہے تھے پھر ڈاکٹر مشار وفد لے کر ایتھوپیاگیا لیکن ایتھوپیا نے شروع میں انکے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا کیونکہ اس کے سوڈان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لیکن بعد میں دونوں کے تعلقات اسلامی دہشت گردی کی وجہ سے خراب ہوئے کیونکہ حسنی مبارک پر 2005میں ایتھوپیا میں موجودگی پر حملے کی کوشش ہوئی جس کا ذمہ دار اسلامی دہشت گرد تھے اور ایتھوپیا نے سوڈان پر الزام لگایا کہ اس نے ان دہشتگردوں کو اپنے ہاں پناہ دیا ہوا ہے جس سے دونوں کے تعلقات خراب ہوئے ،ان خراب تعلقات کو SSIMکی لیڈرشپ نے موقع غنیمت اور بہترین موقع سمجھا اورچاہا کہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تعلقات ایتھوپیا سے مضبوط کریں انھوں نے پھر سے دوطرفہ تعلقات استوار کئے اور ایتھوپیا نے ان کی مدد کا بھی ارادہ کیا لیکن بعد میں ان کا ایک نمائندہ واپس جارہا تھا کہ اسے ایتھوپیا کی فوج نے گرفتار کیا اس واقعہ نے پھر دونوں کے درمیان غلط فہمیاں بڑھائی اور ریاک مشار نے اپنے لوگوں کو کہا کہ ہوسکتا ہے ان کے فوج کے اندر مسائل ہیں شاید ایک گروپ سپورٹ کرنا چاہتا ہے مگر دوسرے کسی گروپ نے مخالفت کی ہوگی اور اگر بڑے لوگ حمایت میں ہوتے تو یہ گرفتاری ممکن ہی نہ تھی لیکن اس نے اس مسئلے کو اٹھایا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ باہر کی طاقتیں اسکی مضبوطی کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے اس کی باہر کے ممالک سے تعاون کی امیدیں ختم ہویں اور اس نے زیادہ تر اپنے لوگوں پر تکیہ کیا اور اپنی پارٹی کو دوبارہ سے منظم کیا ۔پھر سوڈان کی حکومت نے دوبارہ اسے مزاکرات کی دعوت دی جس کو اس نے قبول کیا۔ سوڈانی حکومت خود بھی اندرونی مسائل کا شکار تھی جہاں ان کے اپوزیشن صادق المہدی جومنتخب وزیر اعظم تھا جس کو عمر بشیر نے 1989میں برطرف کیا تھا اسکے خلاف ایک مضبوط الائنس بنائی گئی جس میں ڈیموکریٹک یونین پارٹی نے SPLA/mکے ساتھ ملکر نیشنل ڈیموکریٹک اتحاد بنائی جس میں جنگ جنوب سے شمال کی جانب منتقل ہوا اور حکومت معاشی سیاسی اور ملٹری حوالے سے زیادہ دباومیں آگئی جبکہ ہمسایہ تمام ممالک کے ساتھ سوڈان کے تعلقات بھی خراب تھے ۔جنوب میں یوگینڈا کے ساتھ ان کے تعلقات LRA Lords Resistance Army کی حمایت کرنے کی وجہ سے خراب تھے شمال مشرق میں ان کے تعلقات ایریٹیریا
کے ساتھ خراب تھے کہ جنہوں نےSPLA/mکے لوگوں کو پناہ دیا ہوا تھا مشرق میں ان کے تعلقات ایتھوپیا کے ساتھ اچھے نہیں تھے کیونکہ اس نے مذہبی دہشت گردوں کو پناہ دیا ہوا تھا جو ایتھوپیا کی سرزمین میں کاروائیاں کررہے تھے شمالی ہمسایہ مصر کے ساتھ بھی مذہبی لوگوں کو پناہ دینے کی وجہ سے ان کے تعلقات خراب ہوئے جنہوں نے مصر کے صدر پر حملہ کیا تھا سوڈان ایک ایسا ڈوبتا ہوا بحری جہاز تھا جس کو دوستوں، مددگاروں اور بہی خواہوں کی اشد ضرورت تھی۔ ان تباہ کن حالات نے اسے مجبور کیا کہ وہ SSIM/A اور جنوبی سوڈان کے باقی دھڑوں کے ساتھ معاہدہ کریں یہ مذاکرات سوڈان کے نائب صدر زبیر محمد صالح اور ڈاکٹر مشار کے درمیان ہوئے یہ دونوں سنگین حالات میں ایک دوسرے کی پوزیشن کے بارے اچھی طرح باخبر تھے سوڈانی حکومت شریعہ قانون کو تمام ملک پر یکساں لاگو کرنے پر بضد اور قومی آزادی کے مطالبہ کو ماننے سے انکاری تھی جبکہ SSIM/Aجنوبی سوڈان کو شریعہ قانون سے مستشنی قرار دے چکے تھے آخر کار دونوں معاہدے پر راضی ہوئے جسے سیاسی چارٹر کہا جانے لگا SSIM/Aکی لیڈرشپ نے اس معاہدے کو امن اور آزادی کی ابتدا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ راستہ ہے جہاں سے وہ اپنے قومی آزادی تک پہنچ سکتے ہیں Humanist Magazineکو انٹرویو دیتے ہوئے ان کے ایک لیڈر نے کہا کہ امن رضامندی کا مطلب نہیں کہ وہاں امن ہوچکا ہے اور SSIM/Aنے جنوبی سوڈان کی قومی آزادی کی کے لیے جنگ ختم کیا ہوا ہے بلکہ اب ہماری اپنی قومی ترانہ ، بجھن اور قومی پرچم ہے اور بہت جلد ہمارا اپنا قومی پاسپورٹ بھی ہوگا لیکن SPLA/Mنے اس سیاسی چارٹر کو نہیں مانا جان گرانگ نے اسے سیاسی جھلک اور ٹائم پاس قرار دیا جبکہ SSIM/Aکی لیڈر مشار نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے پیشنگوئی کرتے ہوئے اسے A kind of booby trap for the government کہا اس KPAمعاہدے کی بہترین شکل یہی تھا کہ اس میں غیرملکی لوگ شامل تھے اور وہ اس کی نگرانی کررہے تھے SPLA /Mکے لیڈر جان گرانگ کی موت کے بعد سوڈان کو بڑا دھچکا لگا کیونکہ سوڈان کے ایک رہنما کے مطابق جان گرانگ ایک وفاق پرست اور سوڈان کی وحدانیت پر یقین کرنے والا شخص تھا بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ جان گرانگ ہی وہ گھڑی تھا جو آزادی کی الٹی گنتی کرتا تھا اور اسکی موت کے بعدسلواکیر Salva kiiir پارٹی SPLA/M کا سربراہ بنا اور بقول بی بی سی رپورٹ یہ سوڈان کے ساتھ سخت گیر موقف اپنا چکے تھے اور یہ جان گرانگ کے نسبت زیادہ جنگجو اور ایک آزاد جنوبی سوڈان پر یقین رکھنے والے رہنما تھے ۔ گرانگ جو سوڈان کے ساتھ رہتے ہوئے جدوجہد کا حامی تھا جبکہ سلواکیر کا سخت موقف تھا کہ دوسری درجے کا شہری بن کر جنوبی سوڈان کے ساتھ رہا جائے یا پھر آزاد انسان ہوکر اپنے آزاد وطن میں رہا جائے ،سلواکیر کی SPLA/Mکی لیڈرشپ ہاتھ میں آنے سے ان کی جدوجہد کو بہت زیادہ تقویت ملی اور ان کی آزادی یقینی ہوا ۔ جنوبی سوڈان میں اقوام متحدہ کے اسپیشل نمائندے Hilde Frafjord Johnsonنے اپنے کتاب South Sudan: The Untold Story - From Independence to Civil War میں لکھا ہے کہ سلواکیر کو محکم یقین تھا کہ ریفرنڈم کو کامیاب بنانے کے لیے اندرونی اتحاد اور اتفاق ضروری ہے عبوری حکومت کے لیے اس نے تمام جنگجووں اور منتشر و جداجدا گروپس کو یکجا کیا انھیں یقین تھا کہ نااتفاقی کا فائدہ صرف اور صرف قابض کو ہوتا ہے کیونکہ جب بھی وہ نااتفاق ہوئے تو اس نااتفاقی کو قابض نے خوب اپنے حق میں استعمال کیا سلواکیر کے بقول اگر وہ دانوں کی طرح بکھر گئے تو چوزا ان سب کو کھاجائیگا ۔
SPL باقی ماندہ لیڈروں کی طرح یہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے اسے سیاست،مذاکرات ،اور سفارتکاری میں کم دلچسپی تھی اس کی زیادہ فوجی معاملات پر توجہ مرکوز تھی ،غلط فہمیوں ،مایوسی کے باوجود وہ ڈاکٹر جان کے ساتھ وابستہ رہا اور اس کاساتھ نہیں چھوڑا، یہ بنیاد میں ملٹری انٹیلی جنس آفیسر تھے اور شک وشبہ نے اسے چوکس ،محتاط اور ہوشیار بنایا ہوا تھا 2005میں ڈاکٹر جان کی موت کے بعد اس نے اپنا گورنر ہاوس اسکی بیواہ کورہنے کے لیے دیا اور خود عام اور سادے سے گھر میں رہنے لگا شراب پینا مزاق کرنا ان کے مشغلے تھے اس نے یواین کے نمائندے کو کہا کہ ملک کو چلانے کا چلینج جنگ کرنے سے بہت زیادہ مشکل ہے ، فیصلہ لینے میں یہ بہت سست تھے جب کہ یہ بات عام تھی کہ وہ فیصلہ لینے میں سست رہے تھے اس نے بہت سے غلط فیصلے کئے جس کی ذمہداری اس کی ٹیم پر رہی کہ انھوں نے ان کو غلط مشورے دیے اور ان کے مشورہ دینے والوں پر بھی بہت زیادہ سوال اٹھے۔ ان کی پارٹی کے اندر بھی ایک لابی ان کے خلاف کام کرتا رہا اور وہ اس کی جگہ لینے کی خاطر ان پربے جا الزامات لگاتے تھے ۔ اسی کتاب میں یواین کے نمائندے نے ان کے حریف ریاک مشار کے بارے میں بھی لکھا کیونکہ یہ دونوں کے قریب رہا اور سوڈان کے معاملات ان دونوں کے ساتھ چلاتا رہا۔ کتاب کے مطابق ریاک مشار النویر سے تعلق رکھتا تھا یہ کرشماتی اور بہادر جنگی لیڈر اور اپنی مثال آپ تھے ۔یہ جلدی فیصلہ لینے والے لیڈر تھے اور ان کے فیصلے بہت ہوشیاری پر مبنی اور موزوں تھے
یہ عملی اور رہنمائی دینے کی صلاحیت کو دکھانے کے لیے بے چین تھے لیکن یہ بھی اختیار اور طاقت کا بھوکا تھا 1991میں Borنسل کشی میں اس نے النویر فورس کے ساتھ ڈینکا کے تقریباََ 2000لوگ مار دیئے ۔کسی نے کہا کہ اس کے ملک سے کم اور اپنی ذاتی مفادات سے زیادہ تر وفاداری ہے ان کی مسلح دستوں میں بھی ایک گروپ تھا جو کہ موقع پرست تھے اور بادلوں کی مانند کبھی ایک جگہ ہوتے تو کبھی دوسری جگہ لیکن ملک میں SPLM/Aایک مضبوط برانڈتھا یہاں بھی جہدکاروں کا ایک طبقہ پیدا ہوا جنھیں ملٹری اشرافیہ Military aristocracy کہا جانے لگا بقول جونسن خود ان کے رہنما اور کیڈر نشہ کی حالت میں اعتراف کرتے تھے کہ مالی وسائل کی انتظام کے معاملے میں ہماری نسل بھٹک چکی ہے اور صرف ان کی تنظیم میں موجود نئی نسل ان معاملات کو درست کرسکتی ہے۔SPLA/Mکے اندرونی جانچ پڑتال میں معلوم ہوا کہ ان کے چالیس ہزار گوسٹghost سپاہی ہیں یوکرائن میں ٹینک معاہدے میں بھی بڑی کرپشن پایا گیا اور تیل کی آمدنی کا دو فیصد یہ جنگجو ہڑپ کر جاتے تھے ۔ 1991تک ان کے کلچر اور ثقافت میں خواتین اور بچوں کو مارنا عیب سمجھاجاتا تھا اور ان کے کلچر میں ان کو مارنا خدا کے خلاف جانے کے مترادف عمل سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں جنگ کی وجہ سے یہ بھی معمول کا حصہ بن گیا زیادہ تر SPLAکے کچھ لوگوں کو عوام کی محافظ کے بجائے غارت گر اور عوام کش کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ۔
جنوبی سوڈان کے دس ریاستوں جو بعد میں27ریاستیں ہوئیں میں سے بڑی ریاست اور جنگ کا مرکز جونقلی رہا ہے ، اسی طرح دارفور ،نیل ارزک ریاستیں بھی مسلح جنگ میں نمایاں رہے جن کو سوڈان کے صدر نے بار بار دھمکیاں بھی دیں ایک دفع سوڈانی صدر بشیر نے مشرف اور راحیل شریف کی طرح فوجی وردی میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ
میں اب جنوبی سوڈان کے لوگوں کو آخری بار تنبیہ کرتا ہوں کہ ہم تمام تیل کے پائپ لائن کو ہمیشہ کے لیے بند کرینگے اگر وہاں کے لوگوں نے دارفور، جنوبی کوردوفان اور نیلے نیل میں غداروں کو سپورٹ کرنا بند نہیں کیا۔
ایک دفعہ اس نے کہا کہ جنوبی سوڈان کو کیڑے مکوڑوں سے آزاد کرلینا چاہیے اس بدزبانی اور باعث ذلت بیان کو تمام جنوبی سوڈانیوں نے اپنے لیے ہتک آمیز سمجھا
جنوبی سوڈان میں لوگ قوم سے قبائل اور قبائل سے چھوٹے قبیلہ اور یہاں سے براداری اور خاندان میں تقسیم ہونا شروع ہوئے لیکن آزادی کے بعد سلوکیر نے اس تقسیم کو روکنے کا اعلان کیا پھر بعد میں سوڈان کی حکومت نے ریفرنڈم کیلئے رضامندی ظاہر کی اورآخر کار وہ دن آیا جس کے لیے بے شمار جنوبی سوڈانی لوگوں نے اپنی زندگیاں قربان کیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ جس دن کے منتظر تھے وہ آزادی کا دن آگیا اور جنوبی سوڈان 9جولائی 2011 کو آزاد ہوا اور محکومی کے سیاہ بادل جنوبی سوڈان کی
سرزمین سے نکل گئے ۔ Salva kiiir Mayardit سلوا کیر نے عبوری آئین پر دسخط کرتے ہوئے اس کے پہلے صدر کی حیثیت سے منصب سنبھالا اور جنوبی سوڈان نے 25لاکھ لوگوں کی قربانی کے بعد آزادی حاصل کی لیکن آزادی کے بعد بھی ہیگلیجHegligتنازع زندہ رہا سوڈان اور جنوبی سوڈان دونوں اس پر دعوہ کررے تھے لیکن 12 اپریل 2012 کو جنوبی سوڈان نے اس پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا اور جنگ جاری تھا کہ بقول یواین کے نمائندہ کے انھوں نے سلوکیر کو حکم دیا کہ جنگ بند کریں اور اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں تو اس کے ردعمل میں سلوکیر نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یو این کا جنرل سکیٹری نے مجھے حکم دیا کہ ہیگلیج سے اپنی تمام فوجیں نکال دو ، تو میں نے ان سے کہا کہ میں تمہارے زیر کمانڈ نہیں ہوں اور ہم کبھی سرنڈر نہیں کریں گے۔ اس بات پر میں اپنی فوج کو انخلاکے لیے نہیں کہوں گا۔
سلوکیر نے بہت سے جگہ کرپشن کو لوگوں کی دُشمن قرار دیا اور کہا کہ جنگجووں اور سرکاری افسروں کے لیے کسی طرح کا بھی سوراخ نہیں ہونا چاہیئے جہاں سے وہ لوگوں کی وسائل کو غلط طریقہ سے استعمال کرسکیں ،اور یہاں کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہونا چاہئے سب پر یکساں طریقہ سے قانون لاگو کرنا چاہیے ،وہاں سارے عبوری دور سے لیکر آزادی تک گوسٹ کارکن حکومت کے لیے پیچیدہ مسائل اور تحریک کے لیے بوجھ رہے اور یہ لوگ کام کاج کے بغیر پہلے تحریک بعد میں قومی خزانہ سے پیسہ لیکر عیاشیاں کرتے رہے ۔کینیا ،روانڈا،برونڈی کو ملائیں تو بھی جنوبی سوڈان ان سے رقبہ کے حوالے سے بڑا ہے لیکن اس کی آبادی یوگینڈا کی آبادی کے دسویں حصے کے بھی برابر نہیں ہے اس کے پاس بے شمار قدرتی وسائل ہیں لیکن پھر بھی آزادی کے بعد پسماندہ ہے کیونکہ یہاں شوق لیڈری،سیاسی وژن کی کمی اور علاقہ پرستی،کرپشن ،ملک و قوم کے بجائے ذاتی مفادات کی ترجیح اور تقسیم درتقسیم اور آپسی جنگ نے ان کی روشن مستقبل کی راہیں مسدود کی ہوئی ہیں۔
بلوچستان کا جنوبی سوڈان سے موازنہ کیا جائے تو تاریخی طور پر بلوچ قوم خود ایک الگ قوم کی حیثیت سے الگ ملک بلوچستان پر حکمرانی کرتے آرہے ہیں ،بلوچ قوم کی الگ شناخت،تاریخ،نفسیاتی ساخت اور معاشی مفادات ہیں جو اس خطے میں باقی اقوام سے یکسر الگ ہیں ۔بلوچ قوم کی اپنی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے اور جس نے پانچ سوسال تک اپنے وطن پر حکمرانی کی لیکن ستم ظریفی ہے کہ آج سات دہائیوں پہلے بن جانے والی نومولودملک پانچ سوسال تک حکمرانی کرنے والی قوم پر قابض ہے ۔قوم بننے کے حوالے سے جس کی جڑیں تاریخی حوالے سے نہیں ملتی ہیں جس کا دیس ہندوستان، ہیروز سنٹرل ایشین اور ان کی زبان مہاجروں کی اور کلچر عربوں کی اور نفسیاتی ساخت گرگٹ کی ،ان تمام کی مرکب اور آمیزش سے چوھدری رحمت علی اور جناح  نے برطانیہ کی التجاسے راتوں رات خواب دیکھ کر ایک پاکستانی قوم بنائی اس قوم کی مثال ایسا ہے جیسا کہ بیٹا مختلف باپ سے ہو، برطانیہ نے اپنے سماجی اقدار کے تحت ایک ناجائز قوم کو پیدا کیا وہاں مغرب کی سماج میں بلے ہی یہ جائز ہو مگر یقیناًتمام مشرقی سماج میں وہ بیٹا ناجائز ہی کہا جائے گا ۔ اور اسی برطانیہ کی طرف سے بنائی گئی ناجائز قوم نے برطانیہ کی عطا کردہ زور،طاقت،اور فریب سے تین جائز قوموں کو اپنا غلام بنایا ۔ بلوچ قوم کے لیے فخر کی بات ہے کہ اسکا اپنا تاریخ ،کلچر،تہذیب،تمدن،ہیروز،نفیساتی ساخت اور مشترکہ معاشی مفادات ہیں قوموں کی صفوں میں بلوچ ایک باوقار اور صاف اور خالص قوم ہے جبکہ بلوچ کے لیے سوائے بلوچ ہونے اس کو پاکستانی کہنا ایک گالی کی مانند ہے دنیا کی تاریخ میں قوم کے ساتھ قومی ریاست ضروری ہوتا ہے آج قدیم جرمن قبائل سے نکلنے والی اقوام نے بہت سی ریاستیں بنائی ہیں جن میں جرمنی،آسٹریا،سویڈن،ناروے،پولینڈاور ڈنمارک شامل ہیں مشرقی یورپ میں سلاونے روس،چیکوسلاواکیہ اور یوگوسلاواکیہ جو بعد میں تقسیم ہوئے مغربی یورپ میں انگلوسیکسن نے برطانیہ،اور امریکہ بنائی لاطین نے فرانس ،اٹلی،اسپین ،پرتگال بنایا اسی طرح بلوچ قوم نے اپنا ملک بلوچستان بنایا اور اس پر بلوچ قوم نے صدیوں تک حکمرانی کی ہے ،کیونکہ کسی بھی قوم کی وجود کو برقرار رکھنے ،ترقی اور مستقبل کی تعمیر کے لیے قومی ریاست ایک مسلمہ حیثیت رکھتی ہے اور بعد میں انگریز نے سرزمین بلوچستان کی مٹی کو گندہ کرنے والے محمد حسن کی غداری سے بلوچستان پر قبضہ کرنے کا ارادہ کیا 3نومبر1839 کو میجر جنرل ولشائر نے ایک بڑی فوج قلات روانہ کرکے خان مہراب خان سے ہتھیار ڈالنے اور اسکی اطاعت قبول کرنے کا مطالبہ کیا بقول گل خان نصیر کے خان مہراب خان نے ان کے رزیل شرائط کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا اور کہا کہ اگر انگریز کوئٹہ سے آگے بڑھ کر قلات پر حملہ آ ور ہونے کی کوشش کرینگے تو وہ ایک بہادر بلوچ کی طرح اپنے وطن کی دفاع کرے گا ،خان مہراب خان نے پھر تمام سرداروں سے وطن کی دفاع کی خاطر مدد کی ا پیل کی لیکن کوئی بھی سردار تیار نہیں ہوا ،تاریخ کی جبر کہے یا سرداروں کی بے وفائی یا قومی ریاست کی ڈھیلی ڈھالی ساخت و تعمیر کہے کہ جب وطن کا سچا عاشق ریاست کا سربراہ مہراب خان سرزمین کی دفاع کی خاطر سب کچھ تیاگ کر جنگ کی تیار ی کررہا تھا تو سراوان کے سرداروں نے میجر ولشائر کا مستونگ میں خیرمقدم کرتے ہوئے اپنے لوگ اور اونٹ دیئے تاکہ وہ بلوچ کی سرزمین کو محکوم بنائے لیکن بعد میں بلوچستان کے بادشاہ نے وطن کی عزت ننگ اور غیرت کی خاطر جنگ کی جس میں انگریزکے 139لوگوں کا نقصان ہوا جبکہ خان محراب خان اسکے وزیر مال دیوان بچل مل سمیت بہت سے لوگ وطن کی دفاع میں تاریخ بلوچستان کے ہیرو بن گئے ۔پھر انگریز نے سوڈان اور باقی ماندہ علاقوں کی طرح یہاں بھی اپنی جبر مکاری اور لالچ سے بلوچ قبائلی نظام کو بدلا اور بلوچستان کو تقسیم کیا ،لیکن بلوچ قوم کے باقی ماندہ لوگوں نے مہراب خان کو اپنا ہیرو سمجھ کر اسکے نقش قدم پر چلتے ہوئے انگریز اور ایران کی قبضہ گیریت کو نہیں مانا ۔ شاہِ بلوچستان شیرجہاں بہرام خان ایران کی قاجار حکومت سے بھمپور کا علاقہ لیکر اس پر خود حکمرانی کرنے لگا اور اسکے بعد دوست محمد اس علاقے کا سربراہ مقرر ہوا اور اس نے ایرانی قبضہ کے خلاف جنگ لڑی اور پھر خان مہراب خان کی طرح اسے بھی شہید کیا گیا ۔مہراب خان اور دوست محمد کی دلیری اور قابض کے خلاف لڑنے کی بہادرانہ قاعدہ اور نمونہ کے بعد بہادر اور قوم دوست بلوچوں نے اتباع کرتے ہوئے قابض کے خلاف آزادی کی جنگ کو جاری رکھا جس میں نورا مینگل،خان محمد زرکزئی،خیربخش مری اول ،سمیت بہت سے بلوچوں نے انگریز کی متشددانہ ،جابرانہ اور قابضانہ پالیسیوں کے خلاف آزادی کا پرچم بلند رکھا ۔ انگریز کی بلوچستان اور برصغیر سے نکلنے کے بعد انگریزوں نے پنجابی کو اس کی دوسوسالہ باجگزاری اور خیمہ برداری کے عوض پاکستان کی شکل میں ایک ملک دیا تاکہ انگریز کی برصغیر سے نکلنے کی صورت میں وہ ا س خطے میں  اس کی چوکیداری کرسکیں ۔پاکستان وجود میں آنے کے بعد قابض کی شکل اختیار کر گیا اس نے بھی انگریز کی طرح چالاکی اور جبر کی بنیاد بلوچستان پر حملہ کیا اور قابض بن کر بلوچستان کو لوٹتا رہا اور ہنوز یہ لوٹ مار جاری ہے۔جنوبی سوڈان کی طرح یہاں بھی پہلے آزادی کی تحریک آغا عبدالکریم نے شروع کیا جو مکمل قومی آزادی کی تحریک تھی لیکن بعد میں پھر 1958,1968,1974اور 80کے عشرے میں بھی جو تحریک چلی سب کے سب قومی آزادی کے حوالے گول مول،ابہام کے شکار اور متذبذب شکل پیش کرتے تھے لیکن ان تحریکوں نے پاکستان کے خلاف مزاحمتی سوچ کو تقویت دی اور 1996میں سنگت حیربیار مری کی قیادت میں جو قومی تحریک آزادی کی تیاری شروع ہوئی اور جس نے 2000میں عملی شکل اختیار کی اس نے قومی تحریک کو ابہام،تذبذب ،گول مول کیفیات اور کنفیوژن سے نکال کر مکمل قومی آزادی کا صاف اور واضح پیغام دیا اور لوگوں نے اس پیغام پر لبیک کہتے ہوئے جدوجہد کا ساتھ دیا اور یہ تحریک واضح لائن کے ساتھ عوامی حمایت حاصل کرتا گیا انگریز دور سے لیکر پاکستانی قبضے تک یہ پہلا یلغار ہے کہ جو پورے بلوچستان میں پھیل گیا ہے ،اس جدوجہد کے دورانیے میں قومی تحریک نے ایسے دلکش اور قابل فخر نقوش اور لمحات چھوڑے کہ جن سے مستقبل کے لیے آنے والی نسل کی امیدوں اور آرزؤں کو سہارا مل سکتا ہے جبکہ دوسری طرف اس طویل عرصے نے بہت سے تلخ ، ناقابل برداشت اور غیرمتوقع واقعات چھوڑے جو آج کے حقیقی جہدکاروں اور آنے والی نسل کو سوگوار بنانے کے ساتھ ساتھ عبرت دلاتی ہیں۔بلوچ قومی تحریک میں اس دورانیے میں جو غلطیاں جنوبی سوڈان کی طرح سرزد ہوئی ہیں ان تمام واقعات کی مخلصانہ انداز میں چھان بین اور تفتیش اب تک نہیں ہوسکا ہے اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کی صحیح اسباب و علل دریافت کرنے میں اب تک نہ صرف ہم ناکام ہوئے ہیں بلکہ اب تک چھان بین اور تفتیشی عمل کو حقارت و ذلت کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں، کسی بھی طرح اپنی قوم اور لوگوں کو مایوسی اور ناامیدی میں مبتلا کرنا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی قوم کو غلط فہمیوں میں مبتلا کرکے تباہی اور بربادی کی طرف دھکیلنے سے نقصان دونوں صورتوں میں قومی پروگرام کا ہوتا ہے ،من گھڑت اور دروغ گو بیانات و تذکرہ اور افسانوں سے پاکستانی قوم اور تاریخ کی طرح بلوچ قوم ،جہدکاروں اور لوگوں کو بہلانے کے بجائے قومی تحریک میں موجود تلخ حقائق کا بھی خلوص نیت اور تعمیرکی خاطر اگر اظہار ہوتا تو آج قومی تحریک کی شکل مختلف ہوتی کیونکہ امید کے ساتھ ساتھ تلخ حقائق عبرت ،سبق آموز اور مشعل راہ بنتے ہیں بلوچ قومی تحریک 2008تک باضابطہ لوگوں کی دلکشی،ہمدردی اور تائید اور حمایت کے ساتھ مثالی طریقہ کے ساتھ چل رہا تھا لیکن بعد میں جنوبی سوڈان کی طرح یہ موومنٹ گروہ بندی ،علاقہ پرستی،شوق لیڈری،نمودونمائش،نظم وضبط سے عاری اصولوں سے روگردانی کا شکارہوا ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلح جد و جہد کامل خفیہ انداز کار ہے جہاں آپ کی طاقت اور برتری اسی ایک چیز میں ہے کہ محکوم اورکمزور ہونے کے باوجود آپ چھپ کر اس دشمن پر وار کرتے ہیں جو ہتھیار، وسائل، اور حربی قوت و تربیت میں آپ سے دسیوں ہزار گنا آگے ہے، اپنے آپ کو اس لیئے خفیہ رکھا جاتا ہے کہ طاقت و حربی دست رس کے اعتبار میں قابض ہمیشہ آگے رہتا اور ایک محکوم اس سے آمنے سامنے لڑنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے مگر کئی مجبوریوں کی وجہ سے وہ محکوم جنگ لڑ کر بھی قابض کے سامنے ایک نارمل انسان کی طرح گھومتے پھرتے ہیں یا جاکے کمین گاہوں میں چھپ جاتے ہیں گوریلا جنگ میں دشمن صرف تمھارے پیروں کے نشان دیکھ سکے ناکہ جنگجوؤں کا چہرہ، قد وکاٹ، اور ان کے ہاتھ میں تھامے ہوئے مختلف ساخت کے ہتھیار، یہی وہ چیز ہے جس نے ہماری تحریک کو نا قابل تلافی نقصان سے دوچار کیا ہے، ایک اچھے بھلے تحریک کو وشملے اسٹوڈیو اور محبوب پروڈکش بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے، جہاں ہر کس و ناکس اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ ایک گوریلا سپاہی ہے اور ایک جہد کا حصہ ہے ایک مقصد ہی تو ہے جو چیزوں کو ربط فراہم کرتا ہے اگر اس ربط سے ہٹ گئے تو کہاں کی جہد اور کہاں کی جہدکاری ؟ جنوبی سوڈان کی طرح بلوچ قومی تحریک میں بی ایل اے کا حالیہ ڈسپلن کے تحت جواب دہی پر معطل شدہ لوگوں کا جاہلانہ اور بچگانہ حرکت کرتے ہوئے مذید قوم کو انتشار اور تقسیم سے دوچار کرنا ثابت کرتا ہے کہ تمام تحریکوں میں اس طرح کے نابلد لوگ پیدا ہوئے جو اپنی ذات کو قانون، ڈسپلن اور تحریکی اصول و مفادات سے اعلی سمجھتے رہے ۔اسے لوگ خود اپنے ساتھ ساتھ مخلص دوستوں کو کچھ وقت کے لیے سبز باغ دکھاکر پھر مایوسی کا نزر کرتے ہیں ،کسی بھی مسلح جدوجہد میں کسی بھی معطل شدہ کمانڈر کا مستقبل صحیح نہیں ہوا ہے بلکہ فوجی لحاظ سے اسے شخص اور پارٹیوں کو صحیح نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا ہے ایسے لوگ اپنے وقتی جزبات اور شہرت اور سیاست کے لیے قومی تحریکوں میں کنفیوژن پھیلا سکتے ہیں لیکن ان کا قومی تحریک میں کوئی مثبت رول نہیں ہوتا ہے کچھ ایسے لوگوں نے مایوسی کے عالم میں خود کو دشمن کے سامنے مروایا اور بعض نے مایوس ہوکر سرنڈر کیا مشرقی تیمور میں شاناگوزماوُ نے اپنے کمانڈر Mauk Maurkمک مارک کو چار مزید کمانڈروں کے ساتھ معطل کیا تھا ان لوگوں نے سازش کی پروپیگنڈہ کیا لیکن بعد میں کچھ نے سرنڈر کیا کچھ نے مایوسی میں دشمن سے لڑتے ہوئے خود کو مروایا لیکن آج تک قومی تحریکوں میں انکا نام غلط طریقہ سے لیا جاتا ہے اور وہ اپنی جان کی قربانی دے کر قومی مسلح پارٹیوں کو تقسیم کرنے کی داغ کو نہیں مٹا سکے، مشرقی تیمور سمیت دنیا کی کی پوری جنگی تاریخ گواہ ہے کہ جنگی کمانڈروں کو جب ان کی غلط کارکردگی کی وجہ سے تنظیم سے معطل کرکے سزا کے طور پر اسے کچھ وقت یا حد تک جنگی میدان سے دور رکھا جاتا ہے یا پھر اس کی رینک اور قد میں کمی کی جاتی ہے تو وہ بغاوت پر اترنے کے بجائے اس امر کو دل سے تسلیم کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ نہ وہ پہلے کمانڈریا جہد کار ہیں نہ ہی آخری ہیں جو کہ اپنی کسی غلط کردار و عمل کی وجہ سے کسی تادیبی کاروائی کا شکار ہوا ہے بلکہ سنجیدہ حلقے اس امر کو تسلیم کرکے اپنی سزا پوری کرکے پھر سے تحریک سے جڑکر اپنے نام اور تاریخی کردار میں مزید نکھار و سدھار لاتے ہوئے قوم کی خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں، حضرت عمر کے دور میں ایک کمانڈر خالد بن ولید کو بھی اسی طرح عسکری محاسبے کا سامنا رہا لیکن اس نے بغاوت کرنے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کیا اور وہ آج چودہ سوسال بعد بھی ایک زیرک اور مدبر کمانڈر کی حیثیت سے یاد کیئے جاتے ہیں، لیکن جنہوں نے اس چیز کو منفی انا کا مسئلہ بنایا اور قومی تنظیموں سمیت جد و جہد کے صفحوں میں دراڑیں ڈالیں وہ آج تاریخ کے صفحوں میں گمنام ہیں یا اگر یاد کیئے جاتے ہیں تو منفی القابات کے ساتھ، کیونکہ قومی تحریکوں میں قربانیاں اور شہادت کسی بھی جہدکار کی تمام داغ دھوسکتی ہیں ماسوائے ان لوگوں کے جو ڈسپلن کے تحت معطل ہوئے اور جوابدہ ہونے کے بجائے جنھوں نے تنظیموں کو توڑنے کی کوشش کی ان کی شہادت اور قربانی بھی انکی داغ کو نہیں مٹا سکی اگر شہادت یہ داغ مٹا سکتی تو مشرقی تیمور کے مک مارک اور جنوبی سوڈان سمیت دنیا میں باقی تمام ایسے جہدکارقربانی کے باوجو د قومی تحریکوں کی تاریخ میں عبرت کا نشان نہیں بنتے بلوچ قومی تحریک میں حالانکہ ماسٹر سلیم اور ان کے دوستوں نے عام لوگوں پر طاقت کے غلط استعمال پر اپنی پارٹی سے اختلافات رکھا اور پارٹی کو توڑا ان کے ساتھ سیاسی اور مسلح حوالے سے بڑ ی تعداد میں لوگ تھے لیکن آخر کیا ہوا محمد بخش جگو جسکا پورا خاندان قومی تحریک کی خاطر وطن پر قربان ہوا لیکن وہ اس تقسیم کے بوجھ کو برداشت نہیں کرسکے اور ستار اور جگو نے مایوسی کے عالم میں سرنڈر کیا حالانکہ ان کے اوپر معطل ہونے کا  بھاری بوجھ بھی نہیں تھا لیکن بعد میں ماسٹر سلیم نے قومی تحریک میں اپنے الگ دھڑے کو ختم کرکے بی آر اے میں شمولیت کرکے قابل توصیف عمل کیا ،حالانکہ حمید شاھین جس کو مالک بلوچ نے ایک آرٹیکل لکھنے کی وجہ سے غلط طریقہ سے معطل کیا تو بی ایس او استار کے تمام دوستوں نے حمید شاہین سے کہا کہ بی ایس او متحدہ کو توڑ کر پھر سے بی ایس او استار کو بحال کردو لیکن اس نے اس طرح کی کسی بھی عمل سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مالک بلوچ مجھے بی ایس او سے نکلوا سکتا ہے مگر تحریک سے نکال نہیں سکتا اور مالک کی غلطی کی سزا نہ میں پوری بلوچ قومی تحریک کو دے سکتا اور نہ ہی تاریخی کا یہ کلنک اپنے اوپر لے سکتا ہوں۔ حمید شاہیں حق پر ہوتے ہوئے بھی اس لیے پارٹی توڑنے کے حق میں نہیں تھے کہ ان کے نزدیک انکا یہ عمل تحریک کو نقصان پہنچاتا اور تاریخی طور پر یہ عمل ہمیشہ کے لیے ان کے کردار پرسوالیہ نشان ہوتا ۔ حمید شاہین نے اپنا کردار بی ایل اے میں رہ کر ثابت کیا اور وطن کے لیے شہید ہوگیا ۔ دوسری طرف بی ایل اے کی لیڈرشپ کی طرف سے معطل کیے گئے لوگ تنظیم کے سامنے جوابدہ ہونے کی بجائے تنظیم کو توڑ نے کی شازش کا داغ اپنے ماتھے پر لیئے بی ایل ایف کی لیڈرشپ سے مل کر اب اتحاد کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں ۔اگر بلوچ قومی تحریک میں ہر ایک مک مارک کی طرح کسی پارٹی سے ڈسپلن کے تحت معطل ہوکر دوسرے مخالف پارٹی کا بی ٹیم بن کر اتحاد کے نام پر انتشار اورپُھوٹ کا سلسلہ شروع کریں تو بلوچ قومی تحریک انگولا اور بنانا ریپبلک جیسے بدترحالت کا نقشہ پیش کرے گا ۔ہاں اگر کوئی ایک اپنی پارٹی سے مطمئن نہیں ہے وہ اپنی سوچ اور فکر سے ہم آہنگ دوسری مسلح اور سیاسی پارٹی میں جاکر کام کریں یہ تمام دنیا کی قومی تحریکوں میں ہوا ہے لیکن اگر ہر پارٹی سے چار کمانڈر اپنے چالیس لوگوں کے ساتھ الگ الگ دھڑے بنانا شروع کریں تو یہ مسئلہ اس پارٹی کا مسئلہ نہیں ہوتا ہے جس سے یہ نکلے بلکہ ایک تحریکی مسئلہ بن جاتا ہے ۔کیونکہ بلوچ قومی تحریک تین مسلح تنظیموں کا بوجھ برداشت نہیں کرپارہا ہے اس میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ کسی پارٹی کی تقسیم کی صورت میں یا کہ سرداروں کی الگ گروپ بنانے کی صورت میں تحریک میں موجود پہلے سے بنی تنظیموں کو مضبوط بنانے کے بجائے فرمائشی مسلح اور سیاسی پارٹیاں بناکر ہر ایک دوسرے مخالف کو زیر کرنے کی بچگانہ کوششوں میں اپنے مخالف پارٹی یا تنظیم کے بجائے قومی تحریک کو انارکی کی طرف لے جائے اور ڈاکٹر مالک کی طرح بلوچ نیشنلزم کی قومی تحریک کو دُشمن اور قابض سے ہٹا کر قبائل مخالفت پر قوم کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے سرداروں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے لیکن ڈاکٹر مالک کی طرح جہاں اس نے سرداروں کی دس سال تک مخالفت کی اپنی سیاست کا مرکز نگاہ اور فوکس اینٹی سرداریت پر کیا لیکن بعد میں اقتدار کی خاطر اس نے زہری،بنگلزئی،شاہوانی سمیت تمام بلوچ قبائلی نواب اور سردار وں کو اپنی پارٹی میں لیکر انھیں وزیر اور مشیر بنایا اگر اس نے یہ سب کچھ کیا تو اس کا مقصد پارلیمانی الیکشن تھالیکن آزادی کی تحریک میں کچھ لوگ کچھ وقت سے اپنے نیشنلزم کی جدوجہد کے مرکز قومی یکجہتی میں پھوٹ ڈالنے کے لیے ڈاکٹر مالک کی نقش قدم پر چل کرایک طرف سرداروں اور اس نظام کے خلاف لکھ رہے ہیں اور پروپیگنڈا کررے ہیں تو دوسری طرف ڈومکی سردار کا اتحادی ہیں اور اس کو الگ سے قومی تحریک میں شناخت دے چکے ہیں ۔ڈومکی کو اپنی الگ شناخت کے بجائے تین مسلح پارٹیوں میں ایک پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے کام کرلینا چاہیے تھا لیکن اس کو الگ پارٹی کامالک بنایا گیا جبکہ سردار ڈومکی کے اتحادیوں کا بھی ڈاکٹر مالک کی طرح سردار ڈومکی کا اتحادی بن کر اس کی نوزائیدہ تنظیم کو الگ شناخت دیکر اسکی حمایت وکفالت کر نا جبکہ دوسری طرف باقی سرداروں اور قبائلی لوگوں کے خلاف کام کرنا ان کے قول وفعل کا چمکیلا اور صاف تضاد ہے ۔
ہمارے ہاں جنوبی سوڈان کی طرح قومی طاقت و قوت بھی قوم کے خلاف استعمال ہوا اور اگر جنوبی سوڈان کی مسلح گروپوں میں ملٹری اشرافیہ نکلا تو یہاں سے جنگی منافع خور ایک گروپ کا ظہور ہوا جنھوں نے اپنے چند اشرافیہ کی مفادات کی خاطر قومی تحریک کو داؤپر لگایا ۔ تحریک کومکمل fourth-generation warfareبنانے میں یہ گروپ رکاوٹ بنا ہوا ہے کتاب The Sling and the Stone: On War in the 21st Century میں Thomas X. Hammesلکھتا ہے کہ 4GWموجودہ تمام ،سیاسی،معاشی،سماجی اور فوجی نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے دشمن کے سیاسی پالیسی سازوں کو باور کرواتا ہے کہ ان کے اسٹریٹجک مقاصد کی حصول ناممکن ہے،جدوجہد کی مضبوطی سے ریاست کے ساتھ ساتھ اس گروپ کے مفادات کو بھی نقصان کا خدشہ ہوسکتا ہے ایک طرف اس کی نرم گوشی کا پتہ چلا سکتا ہے دوسری طرف ان کے تحریک کے نام پر ذاتی فوائد بند ہو سکتے ہیں دوسرا ابھی تک بلوچ قوم میں صیح معنوں میں دوست و دُشمن کا تعین نہیں ہوا ہے جسکا فائدہ قابض کے حمایت یافتہ اور جہدکاروں کو مارنے والے لوگ اٹھا رہے ہیں ۔پاکستانی ملاؤں کی طرح بلوچ قومی تحریک میں کچھ لوگوں کی طرف سے غداری ملک دُشمنی اور تحریک دُشمنی کی سرٹیفکٹ جاری کرنا معمول بن چکا ہے جس سے تحریک میں ہمدرد کم اور مخالف زیادہ بن رہے ہیں ،کچھ جہدکاروں کی قول وفعل میں تضاد اور اخلاقی اتھارٹی میں کمی مجموعی حوالے سے قومی تحریک کی یقین اور ساکھ پر منفی اثرات ڈال رہا ہے 2500سال پہلے سن زو نے خبردار کیا تھا کہ جنگ میں صرف تعداد فائدہ نہیں دیتا ہے بلکہ جنگی حکمت عملی اور جہدکاروں کی مورل اتھارٹی ہی شکست خوردہ جنگ کو کامیابی میں بدل سکتا ہے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی بلٹزکریج Blitzkriegاور حالیہ امریکہ کی عراق جنگ اسکی مثالیں ہیں قوم اور تحریک کے ہمدردوں نے ماضی اور حالیہ جدوجہد میں قدم قدم پر خطرناک ٹھوکریں کھائی ہیں بہت سے جہدکاروں نے انھیں جدوجہد سے مایوس کیا ہوا ہے ،جدوجہد کی حمایت کرنے والی اکثریت ابھی تک خاموش ہے اور جہدکاروں کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ قومی تحریک میں کس طرح سے اصلاحات اور اس میں بہتری لائینگے کیونکہ لوگوں کی ذہنی،فکری،ہم آہنگی اجتماعی احساس اور سمجھ بوجھ صحیح اور غلط میں فرق اور شعور سے نظام اور سسٹم میں بہتری لائی جاتی ہے ،انحطاط وانتشار سے بہتری نہیں بلکہ تباہی وبربادی آتی ہے جس طرح کے آزادی کے بعد جنوبی سوڈان میں آیا ہے کسی بھی تحریک میں جہدکاروں اور نظام کو تبدیل کرنے والے لوگوں میں بنیادی انداز فکر کا پیدا ہونا اس قوم کی سوئی ہوئی مقدر جاگ اٹھنے کی نشانی ہوتی ہے جب قوم وملک کی خاطر جدوجہد کرنے والے لوگوں کے جذبات ،احساسات ،فکر و عمل قومی و تحریکی سانچے میں ڈھل جائیں تو وہ ذاتی گروہی،علاقائی اور خاندانی مفادات کے بجائے قومی مفادات میں بہتر سے بہتر فیصلہ کرتے ہوئے تاریخ میں اپنی قوم کو بلندی اور اونچائی تک پہنچا سکتے ہیں ۔ آج بلوچ قومی تحریک میں فیصلے کا وقت ہے ،صحیع اور غلط میں فرق کرنے کا وقت ہے ،دوست و دشمن کی پہچان کا وقت ہے،غلطیوں سے سیکھنے کا وقت ہے ،آنے والی نسل کی خاطر قوم اور جہدکاروں کو بہتر سے بہترادارے دینے کا وقت ہے اور ان اداروں سے اقربا پروری ،کرپشن ،دور کرنے کا وقت ہے ۔ قابض شاطرانہ انداز سے لوگوں کو جس طرح لالچ،خوف دیکر جدوجہد سے دور کررہا ہے اور نت نئی حکمت عملی اپنا رہا ہے یہ سب کچھ باریک بینی سے غورو فکر کا متقاضی ہے۔ لیکن جس طرح اوپر بیان کیا گیا ہے کہ حقائق سے آنکھیں چرانا بھی کوئی عقل مندی نہیں ، ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب اقوام متحدہ کا انسانی حقوق سے متعلق ایک جائزہ وفد بلوچستان آیا تھا تو وہاں کیا کیا گل کاریاں ہوئی تھیں، ہر گروہ کا اپنی ایک پریم کتھا تھی اور سب کے اطوار و انداز الگ تھے، اعداد و شمار بھی سب کے الگ اور ایک نقطہ آزادی کی جد و جہد کرنے والے ایک ہی غاصب پاکستان کے غلام ہونے کے باوجود ہم سب کی دکھ درد اور ان کے انداز بیان الگ الگ تھے، اسکے بعد اقوام متحدہ سمیت کئی دیگر عالمی فورمز میں جب بلوچ و بلوچستان سے متعلق مختلف گروہوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے جو اعداد شماربناکر بھیجے جاتے ہیں وہ بھلے غلط نہ ہوں لیکن الگ الگ ضرور ہیں، یہ ایک المیہ ہے کہ ہم پھر انہی اداروں اور انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں سے اپیل بھی کرتے ہیں کہ وہ بلوچ مسئلے کے حوالے سے بلوچستان میں مداخلت کرلیں ۔تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدوجہد کرنے والے ایک گروپ یا طبقہ کی صرف انگشت نمائی سے جدوجہد میں موجود خرابیوں کا سدباب ممکن نہیں لیکن یہ حقیقت آج آشکار ہوچکی ہے کہ سب مسلح و سیاسی تنظیموں میں موجود ذمہداراں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی اور تحریکی مفادات کے بجائے ذاتی قدکاٹ کو بڑھایا ہے جس سے نقصان قومی تحریک کا ہوا جنوبی سوڈان کا لیڈر کمزور ، پسماندہ قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے علاقے سے یواین کے کہنے پر اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرتا لیکن دوسری طرف بلوچ قوم سے تعلق رکھنے والے تنظیموں کے چند سربراہ تعلقات ، پیسے اور ذاتی مفادات کے لیئے اپنی قومی مفادات پر سمجھوتہ کرتے ہیں
آج تک جدوجہد
Fourth -generation warfareکے بجائے second generation warfareمیں اسی لیے رُکا ہوا ہے کہ بہت سی جگہ قومی مفادات کے بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دی جارہی ہے جس نے تحریک کو ترقی سے روکا،حالانکہ جنوبی سوڈان کی طرح بین الاقوامی حالات مکمل طور پر بلوچ قوم کے حق میں ہیں اور سوڈان کی طرح پاکستان کے تمام ہمسایہ ،ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات دہشت گردوں کی پشت پناہی کی وجہ سے پاکستان سے خاصی حد تک کشیدہ ہیں پاکستانی منافقت امریکہ اور مغرب کے سامنے آشکار ہوچکا ہے اور پاکستان کے اندر بھی تقسیم زیادہ ہے، چاہے وہ فرقہ وارانہ ہو، مذہبی ہو، سیاسی ہو، علاقائی و لسانی و قومی ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا دہشت گردوں کی سرپرستی کرنا اور چین کا بھی جنوبی سوڈان کی طرح بلوچستان میں لوٹ کھسوٹ اور گوادر بندرگاہ پر موجودگی بلوچ کیس کو بین القوامی سطح پر مضبوط کرچکے ہیں اور بہت زیادہ حد تک پاکستان نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں کرکے آگ پر خود اپنا استحصالی جسم رکھ دیا ہے اور اس آگ کو سفارتی سیاسی اور عسکری و طریقے سے مزید تپش دینا اب بلوچوں کا کام ہے۔ جدوجہدکے گزشتہ17سال کے تجربات کے خزانہ سے براہ راست اور 60سال کے تجربات سے بالواسطہ ہمیں مجموعی حوالے سے سیکھتے ہوئے جدوجہد کو قومی تقاضوں کے عین مطابق استوار کرنا ہوگا اور جدوجہد میں ایک خفیہ منظم سیاسی اور سماجی موومنٹ بنانا ہوگا جو مسلح جدوجہد کی کامیابیوں سے استفادہ حاصل کرکے جدوجہد کو قومی بناتے ہوئے اسے fourth generation warfare میں بدل سکے ۔خلوص نیت ،ایمانداری اور قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصولی اور دیرپا بنیادوں پر اتحاد اور یکجہتی کرتے ہوئے قومی ریاست کی تشکیل کے مراحل کو ممکن بنانا ہوگا کیونکہ جنوبی سوڈان کی تقسیم در تقسیم اور پھر آزادی کے بعد خانہ جنگی نے دنیا کو اس طرح کی منتشر ،جدا جدا،بے ترتیب،تحریکوں کی حمایت کرنے سے بھی خوف زدہ کیا ہوا ہے اوراگر اس طرح کے رویوں سے آزاد بھی ہوئے تو ایک فلاحی ،ترقی یافتہ اور خوشحال ریاست کا خواب پورا نہیں ہوسکتا ہے جنوبی سوڈان کے لوگوں کے پاس بعداز آزادی کا کوئی پلان نہیں تھا اسی لیے وہ آزادی کے بعد اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہوگئے ۔ ہمیں آج کے عالمی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی قوم اور لوگوں کو پاکستانی درندگی اورجہنم سے نجات دلانا ہوگا ۔اس کے لیے ہر ایک قومی جہدکار کو قومی مفادات پر ذات،خاندان،گروہ،علاقہ،قبائل،مفادات،اور چھوٹی چھوٹی خواہشات کوقربان کرنا ہوگا جن ہزاروں شہدا نے جس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر اپنی جانیں قربانی کی آج وقت نے اسی مقصد سے بلوچ قوم کو نزدیک کیا ہوا ہے اور اس مقصد کی خاطر باقیوں کو بھی کچھ نہ کچھ تیاگ دینا ہی ہوگا تب جاکر بلوچ قوم کو مشرف ،کیانی،شریف اور باجوہ کی سوڈان کے صدر بشیر کی طرح مکا ،دھمکی،سازشیں ،سرنڈر،اور دیگر حربے زیر نہیں کرسکتے ہیں ۔ورنہ آج کے حالات وقت بلوچ قوم کے لیے ابھی نہیں کھبی نہیں جیسا ہے اگر اس وقت اور حالات سے فائدہ نہیں اٹھایا تو اپنی قوم کی غلامی اور بربادی کا ذمہدار ہم خود ہی ہونگے،کیونکہ ناکامی فقط ایک بہترین موقع ہے کہ اس دفع بہت ہی ذہانت سے دوبارہ شروع کیا جائے ۔کیونکہ اگر آپ خود نہیں جانتے کہ آپ کہاں جارہے ہو ،کس طرح آپ جان سکتے ہو کہ کب وہاں پہنچوگے،اس کے لیے بلوچستان لبریشن چارٹر کی طرح واضح روڈ میپ کے تحت قومی آزادی اور آزادی کے بعد کی تیاری پہلے کرلینا ہوگی(وضاحت :::: لبریشن چارٹر ویسے ہی مابعد آذادی کی تیاری کی ایک کڑی ہے، البتہ اس چارٹر کو مزید موثر جامع اور انکلوسیو بنایا جاسکتا ہے، لیکن وہ موجود ہے جسکی تیاری ایک بڑی حد تک ہوچکی ہے البتہ اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے اور رہیگی) تب جاکر جنوبی سوڈان کی طرح اندرونی چپقلش اور نقصان سے ہم اپنی قوم اور لوگوں کو بچاسکیں گے ۔قومی جدوجہد کی کامیابی کے امکانات جنوبی سوڈان کی طرح بہت زیادہ ہیں ،خطے کے حالات آزاد بلوچستان کے لیے موذوں ہیں ،اندرونی طور پر تمام تنظیموں اور پارٹیوں میں قومی جدوجہد کے حوالے ہوشمند،ایماندار ،مخلص،اور جدوجہدکو کامیاب کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو قومی جدوجہد کی کامیابی کے لیے ایمان اور یقین کی حد تک عقیدہ رکھتے ہیں اور وہ اصلاحات کے لیے بھی کوششیں کررہے ہیں۔ مگر دوسری طرف جنگی منافع خور گروپ بھی موجود ہیں بلکہ اب پارٹیوں کی نہیں بلکہ دو سوچوں دو خیالات فکراور رائے اور تصورات کی بحث بازی ہے ،ایک قومی تحریک کو first generation warfareسے نکال کر fourth generation warfareکی طرف منتقل کروانا چاہتا ہے جبکہ دوسرا اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنا چاہتا ہے ،ایک عوامی حمایت اور لوگوں کی قومی تحریک میں شمولیت کو مقدم سمجھتا ہے جبکہ دوسرا ان کو منصوبہ بندی کے تحت قومی تحریک سے دور کروانا چاہتا ہے ،ایک اصول،قاعدہ ڈسپلین اور تحریکی قانون کی عملداری چاہتا ہے تو دوسرا خودروئی،بے اصولی اور ذاتی عملداری چاہتا ہے ، یہ اب بلوچ قوم کے اندر موجود ان سلجھے ہوئے لوگوں کی زمہ داری ہے کہ وہ کس راستے کو اپنے لیئے بہتر سمجھ کر اس پر سفر کریں گے، کم از کم آج ہمارے پاس فیصلہ کرنے کے  لیئے سالوں کا تجربہ موجود ہے، ان تجربات میں کرداروں کے رنگ بھی موجود ہیں، اب ان میں سے مثبت اور منفی کردار کو تجربات و تاریخ کی کھسوٹی پر رکھ کر پرکھنا خود ہر ایک بلوچ کی زمہ داری ہے۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز