ڈاکٹر اﷲ نذر نے، چینیوں کی پاکستانیوں کی مدد سے بلوچستان میں داخل ہونے کی کوششوں سے لیکر بھارت بلوچستان میں جو کردار ادا کر سکتا ہے، تفصیل کیساتھ کئی مسائل پر بات کی ہے ۔

ون انڈیا: کیا پاکستان کی آئی ایس آئی بلوچ عوام پر اپنا جبر جاری رکھا ہوا ہے؟ ڈاکٹر اﷲنذر: اس میں کوئی شک نہیں۔ بدمعاش آئی ایس آئی بے دردی سے بلوچ تحریک آزادی کو کچل رہا ہے اور بلوچستان میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ہزاروں بلوچوں کوقتل اور ہزاروں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ ہزاروں مکانات فوجی کارروائیوں میں جلائے گئے ہیں۔ دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بمشکل ہی اس مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں اور حتیٰ کہ بلوچستان ان کی فہرستوں میں جگہ تک نہیں بنا پاتا۔ 14 فروری 2015 کو ڈاکٹر ثناء اللہ بلوچ کو ان کے زیر حراست لاپتہ بیٹے صدام، جوکہ ایک پولیس اہلکار ہے، کی رہائی کیلئے آواران میں فوجی کیمپ آنے کیلئے کہا گیا۔ 18 فروری کو ڈاکٹر ثناء اللہ کی مسخ شدہ لاش سڑک کے کنارے پائی گئی۔ سینکڑوں دیہاتی انہی کیمپوں میں اسی فوج کی تحویل میں ہیں۔ یہ آئی ایس آئی کے جبر کی ایک سادہ سی مثال ہے۔ لیکن بین الاقوامی برادری اور میڈیا مجرمانہ طور پر خاموش ہیں۔ ون انڈیا: حال ہی میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے صوبوں پر زور دیا ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد کریں۔ اس پر آپکے خیالات کیا ہیں؟ ڈاکٹر اﷲنذر: جی ہاں۔ طالبان، لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ پاکستان کے اسٹراٹیجک اثاثے ہیں۔ پاکستان کا نیشنل ایکشن پلان اور فوجی عدالتیں بلوچ کیخلاف بنائے گئے ہیں۔ اب تک بلوچستان سے 152 مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے ہیں۔ اس کا انحصار دنیا پر ہے کہ وہ اسے کس طرح سے دیکھتے ہیں۔ ون انڈیا: بلوچستان میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کی اطلاعات ہیں۔ آپ ہمیں اس بارے میں مزید بتا سکتے ہیں؟ ڈاکٹر اﷲنذر: ظاہر ہے کہ بلوچستان میں چین کا کردار سامراجی ہے۔ یہ بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے پاکستان کی فوجی اور مالی لحاظ سے مدد کررہا ہے۔ اسوقت چینی فوج کا ایک بڑا یونٹ گوادر میں موجود ہے۔ پاکستان نے گوادر میں چین کو تین ہزار ایکڑ زمین الاٹ کی ہے۔ لہٰذا بلوچ قوم چین کو قابض کا ایک حصہ دار سمجھتا ہے۔ بلوچ قوم دونوں کیخلاف مزاحمت کریں گے۔ ون انڈیا: کیا بلوچستان میں ایران پاکستان کے ساتھ ملکر کام کرنا جاری رکھا ہوا ہے؟ ڈاکٹر اﷲنذر: ایران پاکستان کی طرح ایک مذہبی ریاست ہے۔ دونوں اسلام کے مختلف فرقوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ لیکن بلوچ کے حوالے سے ان کا رویہ یکساں ہے۔ ون انڈیا: آپ بلوچستان میں کس کی موجودگی کو زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں؟ چین کی یا ایران کی؟ ڈاکٹر اﷲنذر: چینی فوج کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کیساتھ چین بلوچستان میں موجود ہے جوکہ بلوچ نسل کشی میں براہ راست ملوث ہیں۔ یہ نہ صرف بلوچ کیلئے بلکہ پورے خطے اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت کیلئے بھی ایک خطرہ ہے۔ اب چین پاکستان سے نئی قانون سازی کا مطالبہ کررہا ہے۔ پاکستان اپنے اس غلیظ کھیل کے حصے کے طور پر چین کو یہ سب کچھ آئینی تحفظ کیساتھ دینے کیلئے تیار ہے۔ بلوچ کیلئے یہ قابل قبول نہیں ہے۔ میں اس بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ چین گوادر پورٹ کو ایک بحری اڈے کے طور پر بھی استعمال کر رہا ہے۔ چونکہ گوادر آبنائے ہرمز کے بہت قریب ہے۔ امریکہ اور بھارت اس کے بعد آنیوالے بھیانک نتائج کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ون انڈیا: بھارت بلوچ عوام کی جدوجہد کیلئے کس طرح سے مددگار رہا ہے؟ ڈاکٹر اﷲنذر: بھارت مددگار ہوسکتا ہے لیکن بھارت اور باقی دنیا پاکستان کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا بلوچ دہشت گردی اور نسل کشی کا شکار ہیں اور دنیا خاموش ہے۔ بلوچ کے ہمسایہ ملک کے طور پر یہ بھارت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچ کی حمایت کرے۔ ون انڈیا: کیا آپ کو لگتا ہے کہ گزشتہ حکومت کے مقابلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے تحت بھارت کی نئی حکومت بلوچستان کے عوام کیلئے کچھ کرے گی؟ ڈاکٹر اﷲنذر: دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر بھارت اور مہذب دنیا کو ایک آزاد بلوچستان کی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے۔ بھارت ایک آزاد بلوچ ریاست کے بغیر بحری برتری حاصل نہیں کر سکتا۔ ون انڈیا: حالیہ رپورٹوں کے مطابق داعش پاکستان کے کئی حصوں میں ڈیرے جمارہی ہے۔ کیا داعش بلوچستان میں بھی مسئلہ پیدا کررہی ہے؟ ڈاکٹر اﷲنذر: داعش بلوچستان میں لشکر جھنگوی، لشکر خراسان، لشکر طیبہ، انصار الاسلام کے نام پر موجود ہے۔ ان تمام انتہا پسند مذہبی تنظیموں کو بدمعاش پاکستانی آئی ایس آئی کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان عناصر کی بلوچ تحریک کا مقابلہ کرنے اور تحریک آزادی سے توجہ ہٹانے کیلئے پرورش کی جارہی ہے اور انہیں پروان چڑھایا جارہا ہے۔ لیکن بلوچ ان انتہا پسندوں کو قوم پرستی کے نظریے کے ذریعے شکست دینے کیلئے پر عزم ہیں۔ ون انڈیا: بین الاقوامی برادری بلوچستان کے عوام کی کس حد تک حامی رہی ہے؟ ڈاکٹر اﷲنذر: بین الاقوامی برادری اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہے۔ لیکن بین الاقوامی برادری بلوچ قوم کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ ایک آزاد بلوچستان پوری مہذب دنیا کے مفاد میں ہے۔ ون انڈیا: کیا چیکوسلوواکیا طرز کا ایک حل آپ کی جدوجہد کیلئے مدد گار ہوگا؟ ڈاکٹر اﷲنذر: حل چاہے جو بھی ہو بلوچ ایک آزاد ملک چاہتے ہیں، خواہ یہ حل چیکوسلوواکیا طرز کا ہو یا بنگلہ دیش کی طرح کا۔ ہم تمام ریاستی مظالم اور اسکے پٹھوؤں کا سامنا کرنے کیلئے بالکل پرعزم ہیں، خواہ وہ اس کے جہادی ہوں یا قاتل دستے۔

بشکریہ: ون انڈیا ڈاٹ کام تاریخ اشاعت : پیر، 23 فروری، 2015 ترجمہ ۔لطیف بلیدی