شنبه, می 4, 2024
Homeانٹرویوزبلوچستان کے مشرقی حصے پر پاکستانی قبضہ کوئی الگ تھلگ جغرافیائی سیاسی...

بلوچستان کے مشرقی حصے پر پاکستانی قبضہ کوئی الگ تھلگ جغرافیائی سیاسی واقعہ نہیں تھا۔ جمال ناصر بلوچ کا انڈین نریٹیو کو انٹرویو

یہ انٹرویو 27 مارچ کوانڈین نریٹیو کے صحافی مارک کنرہ کی طرف سے انگریزی زبان میں شائع کیا گیا تھا۔ یہ انٹرویو ھمگام کے قارئین اور ان کی سہولت کیلئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

مارک کنرہ: 27 مارچ 1948 کو جب جنوبی ایشیا میں کئی قومیں اپنی آزادی حاصل کرچکی تھیں، ایک قوم پر پھر سے استعمار کی جا رہی تھی۔ بلوچستان نے 11 اگست 1947 کو ہندوستان اور پاکستان سے پہلے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ لیکن پاکستان اور برطانیہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست بنے اور بمشکل نو مہینوں میں پاکستان نے اس پر طاقت کے ذریعے قبضہ کیا۔

پاکستان اور برطانیہ دونوں نے دو معاہدوں پر دستخط کرکے بلوچستان کی خودمختار حیثیت کو تسلیم کرنے کے بعد بھی دھوکہ دیا۔ 4 اگست 1947 کو، قلات، پاکستان اور برطانیہ کے حکام نے فیصلہ کیا کہ قلات آزاد رہے گا اور دوسرا، 11 اگست 1947 کو، پاکستانی حکام نے قلات کو ایک آزاد خودمختار ریاست کے طور پر قبول کیا۔

آج بلوچستان پر قبضے کے 75 سال مکمل ہو رہے ہیں اور بلوچستان کی تاریخ اور مستقبل پر بات کرنے کے لیے میں جمال ناصر بلوچ کا انٹرویو کر رہا ہوں جو اس وقت فری بلوچستان موومنٹ (FBM) کے شعبہ خارجہ کے سربراہ ہیں۔ یہ ایک سیاسی جماعت ہے جس کی سربراہی نواب خیر بخش مری کے بیٹے حیربیار مری کرتے ہیں جو آزاد بلوچستان کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

انڈین نریٹیو : 27 مارچ کو پاکستان کے بلوچستان پر قبضے کے 75 سال مکمل ہوگئے۔ ایک بلوچ اور FBM کے نمائندے کے طور پر، آپ کو کیا لگتا ہے کہ حالات بلوچوں کے خلاف کہاں تک گئے؟

جمال ناصر بلوچ: بلوچستان کے مشرقی حصے پر پاکستانی قبضہ کوئی الگ تھلگ جیو پالیٹکل واقعہ نہیں تھا کیونکہ پاکستان نے برطانوی سلطنت کی مکمل حمایت اور رضامندی سے بلوچستان پر قبضہ کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے جب برطانیہ مالی طور پر ہندوستان کی نوآبادیات کو جاری رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکا تو اس نے مذہب کے نام پر ہندوستان کو تقسیم کیا اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد اسلام کے نام پر پہلی ریاستِ پاکستان تشکیل دی۔

اس وقت کے بلوچ حکمران اپنے خطے کی جیو پالیٹکس کو نہیں سمجھتے تھے، اور انہوں نے اپنے قانونی اور سیاسی معاملات کو چلانے کے لیے بھی غیر بلوچوں پر انحصار کیا۔ مثال کے طور پر ایک گجراتی مسلمان ایم اے جناح کو بلوچ ریاست نے قانونی مقدمہ لڑنے کے لیے ایک وکیل کے طور پر ملازم رکھا۔ جناح نے 1946 میں کیبنٹ مشن کو بلوچستان کا میمورنڈم پیش کیا تاکہ برطانوی سلطنت کو یاد دلایا جاسکے کہ بلوچستان ایک غیر ہندوستانی ریاست ہے اور برطانوی انخلاء کے بعد بلوچستان اپنی آزادی دوبارہ حاصل کر لیگا۔ اسی طرح اس وقت کے حکمران خان قلات نے اپنی حکومت چلانے کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کو ملازمت دی اور ایک انگریز کو اپنے خارجہ امور کا محکمہ چلانے کے لیے ملازمت پر رکھا۔ بدقسمتی سے بلوچ اشرافیہ نے اپنے نوجوانوں کو تعلیم دینے اور ریاست چلانے کی اندرونی صلاحیت پیدا کرنے کے بجائے غیر ملکیوں پر انحصار کیا جنہوں نے پھر ان سے اور بلوچستان سے غداری کی۔

دوسری طرف چونکہ پاکستان کو برطانوی سلطنت نے اپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے بنایا تھا، یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے منظم طریقے سے پاکستان کے لیے بلوچستان پر حملہ کرنے اور قبضے کے لیے قانونی اور جیو پالیٹکل مواقع پیدا کیے تھے۔ انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947 میں برطانیہ نے بلوچستان سے لیز پر لیئے گئے علاقے اپنے نئے ڈومینین پاکستان کو تحفے میں دیئے۔ مزید برآں، جب بلوچستان کی پارلیمنٹ نے انضمام کی پاکستان کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور آزادی کے حق میں ووٹ دیا تو بلوچستان کے جمہوری مینڈیٹ کی حمایت کرنے کے بجائے برطانیہ نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ برطانیہ 1876 کے قلات-برطانیہ معاہدے میں بلوچستان کی آزادی کا ضامن تھا۔ اسی معاہدہ کی وجہ سے برطانیہ اپنی فوجیں بلوچستان کی سرزمین پر رکھ سکتا تھا یا بلوچستان کی سرزمین کو استعمال کر سکتا تھا۔ 1876 کے معاہدے کی وجہ سے، برطانوی سلطنت نے کوئٹہ، بلوچستان میں دنیا کے سب سے بڑے برطانوی فوجی اڈوں میں سے ایک تعمیر کیا۔

برطانوی سلطنت نے پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بلوچستان کی سرزمین استعمال کی لیکن جب بلوچ قوم کو ضرورت پڑی تو انہوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔قلات برطانیہ 1876 معاہدہ کے آرٹیکل 3 کے تحت برطانیہ قانونی طور پر کسی بھی بیرونی خطرے یا حملے کی صورت میں بلوچستان کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے بلوچستان کو کمک کرنے کا پابند تھا۔ برطانیہ نے نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی کی بلکہ بلوچستان کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیا۔ برطانیہ نے انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947 میں بلوچستان پر قبضے کا بیج بویا اس نے بلوچستان کے برٹش بلوچستان پر مشتمل علاقے پاکستان کو دیئے اور پھر ایک برطانوی شہری ڈگلس ڈیوڈ گریسی کے ماتحت پاکستانی فوج نے بلوچستان پر حملہ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انڈین نریٹیو: ایک مضمون کے مطابق چین نے بلوچ قوم پرستوں کو اپنے اہلکاروں اور منصوبوں کی حفاظت کے لیے رابطہ کیا۔ کیا چین نے ایف بی ایم سے رابطہ کیا ہے اگر کیا ہے تو کس نے رابطہ کیا ؟

جمال ناصر بلوچ: چین ان بلوچ جماعتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہا ہے جو پاکستانی ریاست کے آلہ کار ہیں۔ یہ بلوچ جماعتیں چینی ریاست سے مراعات اور ٹھیکے لے رہی ہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے، چین اختر مینگل اور ان کے سیاسی فرنٹوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو کہ آزادی کا لبادہ اوڑےہوئے ہیں مگر درحقیقت یہ گروپ بی این پی مینگل کا حصہ ہیں۔ ہم ان گروہوں کو حقیقی آزادی پسند نہیں مانتے۔ میں کسی حقیقی آزادی پرست بلوچ گروپ کے ساتھ چین سے رابطوں سے آگاہ نہیں ہوں۔ چین اس وقت بلوچستان اور بلوچ قوم کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے۔ چین ہمارے خطے میں غیرجانبدار طاقت نہیں ہے اور وہ پہلے سے ہی بلوچ قوم اور بلوچستان کے خلاف ایک فریق کا انتخاب کرچکا ہے۔ اسی لیے ان حالات میں ہم چین کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انڈین نریٹیو: کینیڈین بیرک گولڈ نے ریکوڈک کی کانوں پر اختیار حاصل کر لیا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ بلوچستان کے ساتھ اپنے معاملات میں انصاف کریں گے؟

جمال ناصر بلوچ : بلوچستان پاکستان کی کالونی ہے، یہ ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔ بلوچستان میں کینیڈین بیرک گولڈ اور چینی ایم سی سی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پاکستان آقا ہے، وہ تمام سودوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ بلوچستان قدرتی وسائل کے لحاظ سے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود بلوچ قوم پسماندہ ترین اقوام میں شامل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انڈین نریٹیو:ایف بی ایم کی پالیسی کے تحت ایرانی بلوچستان بھی بلوچستان کا حصہ ہے ۔ آپ ہمیں کیا بتاسکتے ہیں کہ زاہدان کے واقعہ کے بعد ایرانی علاقے یعنی سیستان بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟

جمال ناصر بلوچ :میں آپ کو یہاں درست کرنا چاہوں گا۔ ایف بی ایم کی پالیسیاں بلوچستان کا سائز کم یا بڑھا نہیں سکتیں۔ بلوچستان ایک حقیقت ہے، یہ ایک حقیقت ہے چاہے کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے، ایرانی مقبوضہ بلوچستان بلوچستان ہے، پاکستانی مقبوضہ بلوچستان جس میں سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں بلوچستان کا حصہ ہیں۔ افغانستان کے تاریخی بلوچ علاقے جو غیرقانونی ڈیورنڈ لائن کے ذریعے تقسیم کیے گئے تھے وہ بلوچستان کا حصہ ہیں۔ بلوچستان کو غیر قانونی طور پر تقسیم کیا گیا، اسی لیے ہمارے وطن کو دوبارہ جوڑنے کے لیے ہماری جدوجہد جائز اور قانونی ہے۔

ستمبر 2022 میں زاہدان کا قتل عام ایرانی ریاست کی طرف سے پہلے سے تیار کردہ ایک سازش تھی جوان کے منصوبوں کے مطابق نہیں گیا۔ ایرانی ریاست کے ہاتھوں 100 سے زائد بے گناہ بلوچ قتل ہوئے۔ سینکڑوں بے گناہ بلوچوں کو قتل کرکے ایران نے ہماری قومی یکجہتی اور اتحاد کو بڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آزادی اور انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کردستان، عربستان الاحواز اور ترک آذربائیجان میں بھی لوگ اٹھ کھڑے ہو رہے ہیں۔

ایران کی موجودہ اندرونی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جدید ایران کیسے وجود میں آیا۔ ایران ایک نوآبادیاتی جیو پولیٹیکس کی پیداوار ہے اور ہم بلوچستان کی موجودہ صورتحال کو باقی ایران سے الگ نہیں کر سکتے۔ ایران کے حالات اور جغرافیائی سیاست پاکستان سے مختلف ہیں۔ پاکستان میں غیر پنجابی اقلیت میں ہیں اور آبادی کے لحاظ سے پنجابی اکثریت میں ہیں۔ جبکہ ایران میں آبادی کے لحاظ سے فارسیوں کی اکثریت نہیں ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق ایران کی آبادی کا صرف 40 فیصد فارس ہیں۔ تمام اقوام، بلوچ، کرد، عرب، آذربائیجانی ترک اور فارس موجودہ مذہبی آمرانہ حکومت سے نجات چاہتے ہیں۔

لیکن فارس یہ سجمھتے ہیں کہ وہ موجودہ مذہبی حکومت کے بعد نام نہاد فارسی سلطنت کو دوبارہ زندہ کرکے تمام اقوام پراپنی حکومت مسلط کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف غیر فارس اپنی مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ فری بلوچستان موومنٹ قومی آزادی پر یقین رکھنے والے دیگر غیر فارسی گروہوں کے ساتھ بھی کام اور تعاون کر رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران میں بہتری آئے گی، ایران میں موجودہ فاشسٹ حکومت کے خاتمے سے تمام مظلوم قوموں کو اپنے مستقبل کا انتخاب کرنے کے جمہوری مواقع فراہم ہوں گے۔ ایسی تبدیلی ممکن ہے اگر تمام غیر فارس جمہوری قوتیں تعاون کریں اور فارسی اشرافیہ کو ہمارے باہمی مفادات اور علاقائی امن کے لیے جمہوری اصولوں کو قبول کرنے پر مجبور کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انڈین نریٹیو: آپ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تازہ ترین امن معاہدے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ آپ بلوچستان کے ایرانی اور پاکستانی حصے میں اس معاہدے کی وجہ سے کس طرح کے اثرات کا اندازہ لگاتے ہیں؟

جمال ناصر بلوچ : بائیڈن انتظامیہ کے محمد بن سلمان کے ساتھ رویے کی وجہ سے سعودی چین کے قریب ہو رہے ہیں۔ اگرچہ، چین کی طرف سے ثالثی کی گئی اس معاہدے کی لمبی عمر کا اندازہ لگانا قبل ازوقت ہے۔ اس معاہدے سے کم از کم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین ہمارے خطے میں بڑا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور امریکی اتحادی مشرق وسطیٰ میں امریکی حکمت عملی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس طرح کے معاہدے سے بلوچستان میں سعودیوں اور ایرانی پراکسیوں کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو اپنے وجود کے لیے ایرانی اور سعودی پیسوں پر انحصار کرتے ہیں، لیکن اس سے بلوچ قومی جدوجہد اور فری بلوچستان موومنٹ کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ ہم کسی ایک خاص ملک کے مفادات کے لیے کام نہیں کررہے ہیں۔

 ہم بلوچ قوم کے قومی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں اور ایران میں آمرانہ حکومت کا تختہ الٹنا ہمارے قومی مفاد میں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انڈین نریٹیو: بلوچ گروہ مختلف محاذوں پر لڑتے آ رہے ہیں (سیاسی، عسکری وغیرہ) لیکن ہمیں کوئی متحد کوشش نظر نہیں آتی۔ اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ اور اگر آپ اب متحد نہیں ہیں تو آپ کیسے تصور کرتے ہیں کہ ایک آزاد بلوچستان کی گورنمنٹ کو کیسے چلایا جائے گا؟

جمال ںاصر بلوچ: موجودہ بلوچ قومی جدوجہد ایک متحدہ محاذ کے طور پر شروع کی گئی تھی لیکن کچھ دوست ممالک کی جانب سے دخل اندازی، پاکستان کے حامی سیاسی گروہوں جیسے کہ بی این پی مینگل کی بلوچ آزادی پسند جماعتوں میں دراندازی اور کچھ مسلح گروہوں کی غلط پالیسیوں نے جدوجہد کے اندر انتشار اور بد اعتمادی کو جنم دیا۔ ماضی میں ہم نے مختلف مواقع پر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کی کوششیں کی تھیں اور اب بھی بلوچ جماعتوں سے اتحاد کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ جہاں تک آزادی کے بعد کے بلوچستان کا تعلق ہے، بلوچستان لبریشن چارٹر کا باب تین گورننس کے حوالے سے ہماری پالیسیوں کو واضح کرتا ہے۔ ہماری سرزمین کو جو کوئی بھی آزاد کرائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آزادی کے بعد بلوچستان کی حکمران جماعت کا فیصلہ بولیٹ سے نہیں بیلٹ سے ہوگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انڈین نریٹیو: پاکستان معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے اور پاکستان کے لیے معاملات مشکل ہوتے ہی جا رہے ہیں۔ بلوچ اس صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں اور پاکستان کے عدم استحکام کا بلوچ تحریک پر کیا اثر پڑتا ہے؟

جمال ناصر بلوچ: پاکستان کی معیشت کبھی مستحکم نہیں رہی۔ غیر ملکی امداد، افغان سوویت تنازعہ اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستانی ریاست کے لیے مواقع پیدا کیئے جہاں مغربی دنیا کی امداد اور فنڈز کے ذریعے پاکستانی ریاستی مشینری کو چلایا گیا۔ پاکستان ایک غیر قانونی ریاست ہے، اس میں کوئی جمہوریت نہیں اور نہ ہی کوئی سماجی یا قومی ہم آہنگی ہے۔ دنیا کے نقشے پر اس کے وجود کی کوئی تاریخی بنیاد اور جواز نہیں ہے۔ پاکستان جیسے پولیٹیکل اینٹیٹی ایک پنپتی معیشت بنانے کے قابل نہیں ہوتے۔ پاکستان جتنا زیادہ غیر مستحکم ہوگا بلوچ عوام کے لیے آزادی دوبارہ حاصل کرنے کے اتنے ہی زیادہ مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان گڑبڑ میں ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان بھی خوش قسمت ہے کہ اسے بھارت جیسا سست اور گھبرایا ہوا دشمن ملا۔ بھارت ایک اقتصادی طاقت توہے لیکن وہ موجودہ مودی حکومت کی وجہ سے ہمارے خطے کے حالات پر کم سے کم اثر انداز ہوتا جا رہا ہے۔ انڈیا کی جگہ اگر اتنی دولت اور معاشی طاقت رکھنے والی کوئی اور حقیقت پسند ریاست برسوں پہلے ہی پاکستان کا مسئلہ تمام کر چکی ہوتی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز