سوال:بلوچ قومی تحریک کوآج آپ کس پس منظر میں دیکھتے ہیں؟ عبداللہ بلوچ:: بلوچستان قومی تحریک سے آج بلوچ قوم بخوبی آگاہ ہے۔ بلوچ دانشور، تاریخ دانوں نے اس حوالے سے بہت کچھ لکھا ہیں ۔ بیعد قریب میں دیکھا جائیں تو قلات اسٹیٹ خود ایک آزاد ریاست تھا اور اس کا اپنا ایک علیحدہ شناخت اور باقاعدہ ایک پارلیمنٹ موجود تھا۔ اس کے دونوں ایوانوں نے پاکستان کے ساتھ انضمام کو مسترد کیا ۔ آج اگر دیکھا جائیں بلوچ قوم شروع دن سے ہی قابض پاکستان کے ساتھ جس نے بازور طاقت بلوچستان پہ قبضہ کیا اپنی آزادی کے لئے لڑ رہی ہیں۔ آزادی ملنا آسان نہیں، اس کے لئے بے تحاشہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ایک مثبت عمل یہ ہے کہ بلوچ قوم قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹ رہاہے ، بلکہ مردارنہ وار مقابلہ کرتے آ رہے ہیں۔ شہید صباح دشتیاری نے کہا تھا کہ ریاست بلوچستان کی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کی اپنی آخری کوشش کررہی ہے ۔ بلوچ قوم اسی طرح جدوجہد کو برقرار رکھ سکیں تو وہ دن دور نہیں جب بلوچستان سے قابض کا خاتمہ ہوسکیں گا۔اگر دیکھا جائیں تو پاکستان اس وقت پاگل پن کا شکار ہیں ۔تمیز کیئے بغیر جوان ،بچے، عورت اور بزرگوں کی لاشیں پھینکی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچ قوم کی سفر آجوئی آگے کی جانب بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اگر پاکستان پر غور کریں تووہ بلوچستان کو ہاتھ سے جاتے ہوئے دیکھ رہا ہیں اسی لئے بلا امتیاز قتل و غارت گری کو تیز کئے ہوئیں ہیں۔آج بلوچستان میں پاکستان کا پرچم کو نظر آتش کرنا اور آزاد بلوچستان کا پرچم نظر آنا اس با ت کی دلیل ہے کہ بلوچ قوم مکمل طور پر بیدار ہوچکی ہیں۔ سوال: بلوچ قومی تحریک میں اتحاد جیسی اہم عمل کی جانب ناکامی نظر آتی ہے۔ آخر اتحاد نہ ہونے کی اصل وجوہا ت کیا ہوسکتے ہیں؟ عبداللہ بلوچ: بلوچ آزادی پسندوں کی پہلے بھی اتحاد وجود میں آتے رہے ہیں ۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی بلوچ آزادی پسند اتحادچاہتے ہیں اور تقریبا جتنے بھی حلقوں سے میری وابستگی یا رابطہ قائم ہیں وہ ایک موثر اتحاد کی خواہش مند ہے۔ اس سے پہلے ا تحاد بنتے رہے اور ختم ہوتے رہے۔ اس طرح کا عمل دنیا کے تمام تحریکوں میں پائیں جاتیں ہیں۔ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی نیک شگون ہیں کہ بلوچ لیڈران اورآزادی پسند جماعتیں اتحاد کے لیے اب بھی تیار ہیں۔ سوال: اگر بلوچستان راجی زرمبش کو موقع ملے کہ وہ تمام آزادی پسندوں کو ایک پلیٹ فارم میں جمع کریں تو کیا آپکی جماعت اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوگا؟ عبداللہ بلوچ: بلوچ قومی آزادی پسندوں کو ایک پلیٹ فارم میں جمع کرنے لئے میری خدمات ہمیشہ حاضرہیں۔اب بھی میں آزادی پسندوں کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ ہماری کوشش بھی یہی ہیں کہ بلوچ قومی تحریک ایک موثر اتحاد کی شکل میں آگے کی جانب رواں دواں ہو۔ سوال: کیا بلوچستان لبریشن چارٹر اتحاد کے لئے شرط ہونی چاہئے؟ عبداللہ بلوچ: میر ے خیال میں بلوچستان لبریشن چارٹر کی اپنی ایک حیثیت ہے لیکن چارٹر کو کسی بھی بات چیت یا اتحاد کے لئے بطورشرط رکھنا مثبت نہیں ہوگا کیونکہ سب کا دعوی ہے کہ انکا اپنا ایک الگ دستور موجود ہیں۔ اگر ہم واقعی ایک پائیدار اور وسیع اتحاد کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ایک خوشگوار ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ سوال: آپ گوادر سمت بلوچستان کے حوالے سے بی این پی مینگل کو کیسے دیکھتے ہو؟ عبداللہ بلوچ:دیکھیں میں بذات خود بی این پی مینگل کی سیاسی اپروچ یاا نکی سیاسی پروگرامز سے ایک فیصد بھی مطمن نہیں ہوں۔ حالانکہ بی این پی کے اندر ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو ایک مثبت اور آزادی کی قریب کی سوچ رکھتے ہیں لیکن وہ بھی بی این پی کی پارلیمانی پالیسی کے آگے خاموش ہیں۔ بی این پی مینگل بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو شدید نقصان دے رہا ہے اگر دیکھا جائیں تو نیشنل پارٹی اور بی این پی کے پالیسی میں کوئی فرق نہیں ۔ پارلیمنٹ بلوچ کا دکھوں کا مدوا نہیں اس کے لئے آزادی شرط ہیں۔ سوال:جیسا کہ کچھ سیاسی جماعتیں اتحاد کے لئے پارٹی یا ادارے کی با ت کرتے ہیں۔حیر بیار کے پاس کوئی سیاسی جماعت موجود نہیں ان سے کس حیثیت سے اتحاد کیا جاسکتا ہے؟ عبداللہ بلوچ: حیر بیار کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ بلوچ قومی تحریک کی حالیہ شروعات اور اس حد تک پہنچانے میں حیر بیار اور بلوچستان میں سرگرم ان کی دوستوں کا ایک اہم رول ہیں۔ میرے خیال میں حیر بیار کے پاس جماعت کا نہ ہونے کو اتحا د یا بات چیت کا شرط نہ رکھا جائیں تو بہتر ہوگا پھر ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوسکیں گا۔ سوال: ایرانی حکومت کی جانب سے مغربی بلوچستان کے بلوچوں کو شام کی فسادات کے لئے بھرتی کرنے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ؑ عبداللہ بلوچ: ایران خطہ میں دہشت گردی پھیلانے کا سبب ہیں ۔خلیج میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے ایران نے شیعہ کمیونٹی کو کمک کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کا مقصد ان ریاستوں کو پریشان کرنا اور اپنی مفادات کو تقویت دینا ہیں۔ شام کی جانب دیکھا جائے تو وہاں ایک آمر کی حکومت قائم تھی اور اس کی پشت پناہی ایرانی کرتی آرہی تھی۔ گوکہ اب شام عالمی سیاست کا نظر ہوچکا ہے ۔اب ہم بلوچستان کی جانب آتے ہیں ۔ بالکل مغربی بلوچستان میں ایسے مراعات یافتہ قوم دشمن عناصرموجود ہیں جو ایران سرکار سے رقم لیکر غریب بلوچوں کو شام کے لئے بھرتی کررہے ہیں۔ غربت ، لاچاری اور بے بسی کے سبب کچھ نوجوان اپنی خاندان کی مالی حالت کو سدھرانے کے لئے بھی شام میں جانے کو تیار ہیں ۔ لیکن ان کی تعداد بہت ہی کم ہیں ۔ اکثریت بلوچ ایرانی حکومت سے شدید غصہ اور نفرت کا اظہار کرتیں ہیں۔ سوال: ہم دیکھتیںآرہے ہیں کہ قابض پاکستان کی خفیہ ادارے اکثر بلوچ سیاسی لیڈران، کارکنان اور ہمدردوں کو حراست میں لیکر غائب کرنے کے بعد ان کی تشدد شدہ لاشیں ویران میں پھینک دیتا تھالیکن حال ہی میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے سب سے متحرک لیڈر ڈاکٹر منان بلوچ او ر ان کی ساتھیوں کو حراست کے بعد قتل کیا جاتا ہے ۔ کیا سرکار نے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے؟ عبداللہ بلوچ: یہ تو دنیا میں ہوتاآرہا ہیں کہ قابض وقت اور حالات کے تحت اپنی پالیسیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اب قابض نے اپنا طریقہ کارتبدیل کیا ہے اب وہ قتل کرکے خوف کا ماحول پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہیں تاکہ بلوچ سیاسی لیڈران سیاسی سرگرمی سے دور رہیں۔ اگر دیکھا جائیں تو شہید منان کی شہادت خود قابض پاکستان اور اس کی حواریوں کے لئے ایک چیلنچ ثابت ہورہاہے کہ بلوچ قوم کس قدر پاکستان کے خلاف نفرت اور غصہ موجود ہیں۔ شہید منان کی شہادت ایک قومی نقصان سے کم نہیں ۔ شہید کی قومی خدمات کو بلوچ قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی نہ صرف شہید منان بلکہ ان کی ساتھیوں سمیت جتنے بھی بلوچ شہید ہوچکے ہیں وہ ہماری قومی ہیروز ہیں۔ سوال: یورپ اور خاصکر لندن میں گزشتہ چند سالوں میں دیکھا گیا کہ قومی پروگرامز اور مظاہروں میں بلوچ کمیونٹی کی عدم شرکت محسوس کی جارہی ہے ۔ اس کی اصل اسباب کیا ہیں؟ ؑؓ عبداللہ بلوچ: اس چیز کا دارومدار سیاسی لیڈران اور جماعتوں کی اختلافات پر پوشیدہ ہیں ۔ جس طرح اوپر کی سطح کا ماحول ہوگا ویسے ہی اثر کمیونٹی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے اپنے اپنے دلائل موجود ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں چھوٹے اختلافات کو درمیان میں نہ لا یا جائیں۔
سوال :بلوچ خواتین بلوچستان میں تو سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں لیکن لندن اور یورپ میں معذرت کرتے نظر آتے ہیں ۔ دوسری جانب بانک کریمہ اور بانک فرزانہ تو سرگرم ہیں لیکن یورپ کی خواتین اس طرح سرگرم نہیں ۔ اس کی وجہ کیاہیں؟ عبداللہ بلوچ: خواتیں کی عدم شرکت کی سب سے بڑی وجہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہے۔ اگر آپ دیکھے اکبر بگٹی کی شہادت کے وقت بلوچ خواتین کی تعداد زیادہ تھی ، وقت کے ساتھ ساتھ ایک اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کا سامنے آئے کہ فلانی رہنما یا ورکرز نے اپنی خواتین کو شرکت پر آمادہ نہیں کیا تو میں کیوں کروں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ خواتین خود اس جانب قدم بڑھائیں اور بلوچ قومی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ بی یوسی نیوزٹیم: بلوچ قوم کو آپ کیا پیغام دیں گے؟ عبداللہ بلوچ:ہمیں سخت محنت کی ضرورت ہیں ۔ معاشرے میں ہرطبقہ کے افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ضروری نہیں سب کے سب میدان میں اتریں ۔ ہر ایک کی اپنا دائرہ کار ہے اسی کے مطابق قومی آزادی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ بلوچستا ن کی آزادی ہی ہماری بہتر کل کی ضمانت ہے۔ بشکریہ: بی یوسی نیوز ٹیم