حکمت عملی ، طریقہ کار سمیت نقطہ نظر کو لیکر ہمارے جدوجہد میں اختلافات کی نوعیت نظریاتی رخ اختیار کرتے جارہے ہیں
بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر بلوچ خان کا خصوصی انٹرویو انٹرویو ۔۔۔ میر مبارک علی
ہمگام۔بلوچ قومی تحریک اپنے مخصوص رفتار سے بڑھتے ہوئے اب پانچویں قومی آزادی کی جنگ میں داخل ہو چکی ہے ماضی میں یہ تحریک کم اثر پذیری اور عدم توجہی کا شکار رہی ، موجودہ جنگ نے موثر عوامی مقبولیت حاصل کرلی ہے، کیا اس عوامی مقبولیت کی بنیاد پہ قومی تحریک کا میابی کا یقین کیا جا سکتا ہے؟ بلوچ خان۔بلوچ قومی جہد کے حوالے سے ابتدائی مراحل سے آج تک کے دورانیہ میں عوامی پذیرائی کے حوالے سے ماضی کے نسبت نتائج حوصلہ افزاء ضرور ہیں،لیکن اگر صرف اور صرف عوامی حمایت کی بنیاد پر تحریک کی کامیابی کا یقین کیا جائے تو یہ خام خیالی ہو گی، میری ناقص رائے کے مطابق قومی سوچ کو لے کر بلوچ سماج میں قومی تحریک کے حوالے سے قبولیت کی شرح شروع سے ہی زیادہ رہی ہیں، جب بھی قومی سوچ کو لے کر جدوجہد کے حوالے سے کوئی بھی قوت ابھرا ،اسے عوامی پذیرائی اور حمایت ضرور حاصل رہا ہے،اب اگر آپ بلوچ سماجی ڈھانچے کو مدنظر رکھ کر اسکا جائزہ لیں گے تو آپ کو عوامی پزیرائی اور حمایت کی حقیقی نوعیت کا اندازہ ضرور ہو گاکہ یہ حمایت کس نوعیت کی ہے اس میں قبائلیت ،علاقائیت ،شخصیات اور ذاتی تعلقات کے اثر کا عنصر زیادہ ہی ہے ، دیکھا جائے تو عوامی حمایت حاصل ہونا ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے،اصل کام عوامی حمایت کو شعوری حوالے سے فکری ہم آئینگی سے منظم کر کے متحرک کرنا ہوتا ہے، اور اسکے مرحلہ وار وسعت سے ہی تحریک کے کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں عوامی حمایت اور پذیرائی کے بڑھوتری اور تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ اہم بنیادی عوامل ہوتے ہیں بقول آپ کے تحریک کے اس پانچویں ابھار کو اگر باریک بینی سے تجزیے کے لیے سامنے رکھا جائے تو ابتدا ء کو چھوڑ کر ماضی قریب میں جو کچھ ابھر کر سامنے آیا ہے اس کو دیکھ کر کہاجا سکتاہے کہ مشکلات بڑھیں گے،میرے ناقص رائے کے مطابق ہمارے لیے تو تمام امکانات ہر وقت یکساں طور پر موجود ہیں اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ہر طرح کے حالات میں جہد مسلسل ہی کامیابی کے لیے شرط
ہے البتہ کامیابی کے امکانات کا انحصار تو بر وقت صحیح اور اجتماعی نوعیت کے فیصلوں پر ہی ہوتا ہے اور عمل کے اس وسعت کے لیے قوت بھی عوامی حمایت سے ہی کشید کرنا ہوتی ہے جو مزید عوام کو منظم و متحرک رکھنے کا ذریعہ بنتی ہے تو کسی بھی تحریک کے لیے اول قبولیت پھر حمایت اور اسکے بعد عملا متحرک ہو نے کو منظم شکل میں ایک ایسے قوت سے مربوط کرنا جو آپ کے قومی بقاء کو لے کر آپ کے قومی جغرافیہ اور آزاد قومی شناخت کی ضامن ہو اس کے لیے مرحلہ وار جدوجہد کو وسعت دینے کے لیے اور بہت سے بنیادی عوامل ہوتے ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہو تا ہے۔ ہمگام۔ بلوچ نے اپنے قومی وقار کی بحالی کے لیے جتنی لڑائیاں لڑی ہیں وہ مکمل تیاریوں اور مرکزیت کے بغیر تھیں،لیکن حالیہ جنگ میں اس بکھری ہوئی قبائلی و مزاحمتی قوتوں کو ایک منظم چھاپہ مار شکل دی گئی ہے اور اب مسلح تنظیمیں بر سر پیکار ہیں، بحثیت بی ایل اے کے کمانڈر کے اپنے تنظیمی ڈھانچے کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے؟ بلوچ خان۔جی بالکل ماضی کے نسبت گوریلا چھاپہ مارطریقہ کار میں جنگی حکمت عملی کے حوالے بہت کچھ تبدیل ہوا ہے،بلوچ اپنے ماضی میں لڑنے والی چھاپہ مار گوریلا جنگوں کے نسبت آج زیادہ منظم اور سائنسی طریقہ کار سے آگے بڑھ رہا ہے، لیکن آج ہمیں ماضی سے زیادہ چیلنجزز کا سامنا ہے، خاص کر جنگی ٹیکنالوجی کے ترقی کے حوالے سے چین اور امریکہ کی طرف سے پاکستانی فوج کو جدید جنگی حالات کی فراہمی وغیرہ تو دیکھا جائے تو ماضی کی نسبت آج ہمارے لیے یہ سب کچھ نیا ہے، بدقسمتی سے بلوچ آج بھی اس جنگ کو بے سروسامانی کی حالت میں لڑ رہا ہے ہم جنگ کے میدان میں سیکھ رہے ہیں جس کا معاوضہ ہم اپنے نوجوانوں کی زندگیوں سے ادا کر رہے ہیں تو ایسے حالات میں ہمیں اور زیادہ محتاط ہو کر سوچ سمجھ اور زیادہ منظم انداز میں کام کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے،ابھی ہمیں بہت کچھ کرنا باقی ہے، ایسے حالات میں ‘میں اگر اپنے تنظیم کے ڈھانچے کے بارے میں بتانے بیٹھ جاؤں تو شاید آپکو اندازہ نہیں یہ کتنی بڑی بے وقوفی ہوگی ۔ دوران جنگ سرفیس غیر مسلح طریقہ کار کے تحت کام کرنے والے ساتھیوں کے لیے ان کے پارٹی شناخت اور ڈھانچے ایک چیلنج بن چکے ہیں جن کے بل بوتے پر ان کو اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوتا ہے تو ایسے حالات میں زیر زمین تنظیم کا مطلب ہمیں سمجھنا چاہیے، جس حقیقت کو ہمارے لیے سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ شروع دن سے ہمارے بزرگوں نے اپنے جغرافیہ اور قومی شناخت کی آزادانہ حیثیت کے لیے جدوجہد کی ہے لیکن ہمارے اس جدوجہد کو جس دہشت گردانہ انداز میں پنجابی فوج نے کچلنے کی کوشش کی اور جس بے رحمی سے وہ ہم بلوچوں پر چڑھ دوڑا اور ہمارے سر پر بندوق تان کر ہمارے قومی وسائل کی لوٹ مارکو لیکر ہمارے لیے بحیثیت قوم سماجی اقتصادی اور سیاسی ترقی کی راہیں مکمل بند کردی اور ہمیں پسماندگی کی طرف شدت سے دھکیلنا شروع کردیا گو کہ ہم پہلے سے اسکا شکار تھے تو اپنے قومی بقاء کے لیے بحالت مجبوری ہمیں بھی بندوق اٹھانا پڑا ہمارے مقابلے ہمارا دشمن ہر حوالے سے طاقت میں ہم سے کئی گناہ زیادہ ہیں، تو ایسے میں ہمارا
سرمایہ اور ہماری بقاء صرف اور صرف ہمارے راز ہیں تنظیمی ڈھانچوں میں ردوبدل وقت و حالات کے ساتھ ہوتے رہے ہیں سب سے بڑی بات وہ نظریہ ہے جس کے تحت کسی تنظیم کے پالیسیاں بنتے ہیں اور عمل کے مراحل سے گذر کر اپنے لوگوں کے سامنے آتے ہیں بلوچ عوام اور آپ صحافی حضرات ان پے غور کریں تو شاہد ہمارے تنظیم کی کارکردگی از خود ہمارے تنظیمی ڈھانچے کے بارے میں ایک تاثر قائم کرے گاجو ایک حقیقت ہوگی بہت سے اندرونی اور بیرونی بحرانوں سے گذر کر آج ہم مزید پختگی کی طرف جارہے ہیں تو میرے خیال سے اگر آپ ہمارے تنظیم کو اس حوالے سے مدنظر رکھ کر دیکھیں تو یہ آپ کے لیے حوصلہ افزاء بات ہوگی بجائے اسکے کہ میں آپ کے لیے اپنے تنظیمی ڈھانچے کا ایک تصوراتی ‘ہوائی خاکہ پیش کروں ۔ ہمگام ۔کچھ عرصے سے منصوبہ بندیوں ، طریقہ کار اور حکمت عملی سے متعلق بلوچ مسلح تنظیموں کے اندرونی اختلافات ابھر کر سامنے آرہے ہیں ، وقت و حالات کا تقاضا ہے کہ تمام مزاحمتی تنظیمیں مل بیٹھ کر اس کا حل نکال کر ایک پلیٹ فارم پر جدوجہد کرتے ، لیکن بجائے اتحاد و اتفاق کے مزاحمتی تنظیموں کے درمیان دوریاں پیدا ہورہی ہے، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ بلوچ خان۔بالکل آپ نے بجا فرمایا ، وقت و حالات کے مطابق کچھ اہم قومی نوعیت کے فیصلے ظاہراََ تعطل کا شکار ضرور ہیں ، جن سے انکا ر ممکن نہیں ، مشترکہ حکمت عملیوں کیلئے سوچ کا مشترک ہونا لازمی ہے، جس کا اس وقت فقدان ہے ، جہاں تک بات حکمت عملی اور طریقہ کار کی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ حکمت عملی ، طریقہ کارسمیت نقطہ نظر کو لیکر جدوجہد میں اختلافات کی نوعیت نظریاتی رخ اختیار کرتے جارہے ہیں ، ہم پچھلے ایک عشرے سے حالت جنگ میں ہیں ہمیں ہر آنے والے دن میں مختلف حالات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس جدوجہد میں قدم بہ قدم آگے بڑھنے کے عمل سے حاصل ہونے والا تجربہ ہی ہمارا اصل اورقیمتی سرمایہ ہے اسکو حاصل کرنے میں ہم نے نہ صرف بہت سا قیمتی وقت اور محنت لگایا ہے بلکہ بہت سی قیمتی زندگیاں بھی گنواہ بیٹھے ہیں ، اتنا سب کچھ کرنے کے بعد آج اس مقام پہ جب ہم تمام زمینی حقائق اور معروضی حالات کو قومی تحریک کے تقاضوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو تمام آزادی پسند قوتوں کے بیچ ایک افسوس ناک صورتحال فکری ہم آہنگی کے حوالے سے نظر آتی ہے ویسے تو سب اپنے اپنے دائروں ، اپنے بساط اور طاقت کے مطابق جدوجہد کررہے ہیں لیکن موجودہ تقسیم کسی حکمت عملی اور الگ طریقہ کار کی وجہ سے نہیں بلکہ تاریخی اور روایتی سوچ کی مضبوطی کے تاثر کو ابھارتا ہے، قومی تحریک میں اجتماعی ضروریات اور تقاضوں کو لیکر بالکل صاف اور واضح طور پر آزادی پسند قوتوں میں فکری ہم آہنگی کا فقدان موجود ہے، جو شاید بلوچوں کی بد قسمتی کہی جاسکتی ہے ، لیکن اس بارے میں ہمارا موقف واضح ، صاف اور ٹھوس ہے کہ اولیت قومی حوالے سے اجتماعی نوعیت کے فیصلوں کیلئے انقلابی طریقہ کار کو حاصل ہوگی، روایت پسندی کو لیکر علاقائی ، قبائلی یا گروہی اجارہ داری کیلئے کسی بھی قسم کے عزائم قابل قبول نہیں ، ان دوریوں کو کم کرنے اور فکری ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے کسی بھی نوعیت کی بات چیت کیلئے ہماری طرف سے مندرجہ بالا موقف کو اولیت حاصل
ہوگی، باقی تمام پہلوؤں پہ غور اور ان کی بہتری کیلئے ہم اپنے حوالے سے کردار ادا کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اس کیلئے تیار بھی ہیں ۔اور شروع سے ہم نے یہ بات تمام آزادی پسند دوستو ں پر واضع کردی ہے اور ہمارا یہ موقف آج بلوچ قوم کے سامنے بھی عیاں ہیں۔ ہمگام ۔سیاسی محاذ پہ بلوچ تنظیمیں تقسیم در تقسیم اور انا پرستی کا شکار بن کر موثر کامیابی حاصل نہ کرسکے ہیں، آج عسکری محاذ پہ بھی بی ایل اے سے یو بی اے ، اور بی ایل ایف سے بی این ایل ایف وجود میں آچکے ہیں، کیا اس کی بنیاد ی وجہ بھی انا پرستی اور روایتی سوچ ہے ؟ بلوچ خان۔انا پرستی کا لفظ میں استعمال نہیں کروں گا کیونکہ اس کی وضاحت شاید دنیا میں علمی حوالے سے بہت سے مختلف پہلوؤں سے کی جاتی ہے ، ہاں اس میں روایتی سوچ کا مکمل عمل دخل ہے آپ جس پسماندہ سماج میں تحریک لارہے ہیں اس میںآج تمام چھوٹے اور بڑے مسائل کے حوالے سے پیچیدگیوں کا بھرمار ہے جب تک آپ ہر مسئلے کا چاہئے وہ چھوٹا ہو یا بڑا سائنسی نقطہ نگاہ سے تجزیہ نہیں کریں گے اور سائنسی نقطہ نگاہ سے ہی اس کا حل تلاش نہیں کرینگے آپ ان مسائل سے چھٹکارہ نہیں پائیں گے، بی این ایل ایف ہو یا یو بی اے ، بی این ایف یا چار جماعتی اتحاد ان کو وجود میں لانے یا انکے ٹوٹ پھوٹ کی وجوہات کو آپ تلاش نہیں کریں گے اور حقیقی بنیاد پہ ان کا سد باب نہیں کرینگے تو بار بار آپکو ایسے گروہ بندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ، یہ تو طے ہے کہ روایتی سوچ اور روایتی طریقہ کا ر کسی بھی تحریک کیلئے کسی بھی صورت سود مند ثابت نہیں ہوسکتے ہیں، آپ بھلے اور بُرے میں تمیز سے ناآشنا ہو ، تو پھر آپ رہنمائی کیسے کرینگے،اگر ہم میں سے کوئی ایک بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ بھلے اور بُرے ، صحیح اور غلط کو باہم گڈ مڈ کرکے انقلاب کیلئے اپنے عمل میں توازن رکھ سکے گا تو میرے خیال میں یہ اسکی خام خیالی ہوگی، ہاں شاید روایتی سوچ کے تحت کچھ وقت کیلئے ہم کچھ لوگوں کو خوش رکھ سکیں ، لیکن یہ انقلاب کی خدمت ہرگز نہیں ہوگی، یہاں بہت مضبوط اور جاندار سوالات موجود ہیں جن سے ہمارے کرتا دھرتا آج کے دور میں لاکھ چاہتے ہوئے بھی شاہد پیچھا نہیں چھوڑا سکیں گے، بی این ایل ایف ، یو بی اے ، بی این ایف ، بی ایس او کا بحران ، ان سب پہ سوالیہ نشان موجود ہیں ان حالات میں شاید بلوچ نوجوانوں کیلئے روایت پسندی کا درس کسی صورت بھی کارگر ثابت نہیں ہو گا توایسے میں بہتر حل ہی سائنسی نقطہ نگاہ سے حقیقی وجوہات کو سمجھ کر اور بہتری کے لیے مستقبل میں ان وجوہات سے قومی سیاسی معاملات کو بچانا ہوگا۔ ہمگام۔بلوچ قومی تحریک کے مدمقابل عسکری و افرادی قوت سے لیس ایک طاقتور ریاست ہے جبکہ بلوچ سیاسی و عسکری محاذوں پر اتحاد و اتفاق کا فقدان نظر آرہا ہے، اس سلسلے میں آپ کی تنظیم کے ذمہ داراں کیا اتحاد و تفاق کیلئے کسی حکمت عملی پہ غور کررہے ہیں ؟ بلوچ خان۔اتحاد و اتفا ق کے حوالے سے سوال ہمیشہ سے ہی ہمارے قومی سیاست میں بہت ہی اہم رہا ہے اور آج کل کے حالا ت میں
تو اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے ، اس اہم سوال سے کسی بھی طرح کے گمراہ کن خیالات سے یا دوچار بے بنیاد جملوں سے ہرگز پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا ، اور کم از کم ہم تو ہرگز اس کا مرتکب نہیں ہونا چاہتے، اگر ہم حقائق کی طرف آتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ جنگی حالات اور تمام جانی نقصانات کو دیکھ کر ہمارے ہاں اتحاد اور اتفاق کیلئے ایک جذباتی اور روایتی سا خیال اکثریتی حوالے سے نمایاں نظر آتا ہے، عوامی جذبات کی قدر اپنی جگہ اتحاد و اتفاق کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ، ان سے قطع نظر اگر ہم ماضی کے قوم پرستانہ سیاست میں اتحاد و اتفاق کے حوالے تلخ تجربات پر نظر دوڈائیں تو ہمیں سوچنے سمجھنے کیلئے بہت کچھ ملے گا ، ستر کی دہائی کے تجربات سے لیکر گزینی بجارانی ٹوٹ پھوٹ، پارلیمانی طرز سیاست میں اتحاد بننے اور ٹوٹنے سے لیکر غیر پارلیمانی طرز سیاست میں چار جماعتی اتحاد ، اور پھرBNF کا انجام اور بالکل انہی رویوں کا عکس مسلح گروپوں میں BNLF وUBA سمیت ڈیڈ درجن تنظیموں کے وجود کو لیکر نمایاں نظر آتا ہے، بد قسمتی سے ٹوٹ پھوٹ حقیقت میں تلخ تجربات کا ایک بد نما باب بن کر ہمارے قومی سیاست کے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، بد قسمتی دیکھیں لکڑ ہضم ، پتھر ہضم کے مانند انہی قوتوں کے بیچ پھر سے اتحاد، اتحاد کا شوشہ ایک طنز جیسا لگتا ہے، اور آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ شش ماہی اتحاد یا سالانہ اتحاد اور پھر ٹوٹ پھوٹ واقعی ہمارے قومی سیاست کا ایک لازمی جز ہے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ کیا ہے ؟ کیا یہ ان قوتوں کے سوچ سیاست میں انکی پختگی اور شعور کو لے کر قومی مسائل پر انکی حساسیت اور سنجیدگی کی سطح کی نشاندہی نہیں کرتا؟تو اس پر باریک بینی اور غیر جانبداری سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ہمارے تنظیم کی تاریخ پہ اگر نظر دوڈائیں تو ابتداء سے ہی اس قومی ضرورت( اتحاد) کیلئے عملاََ راہ ہموار کی گئی ہے، جس میں نمایاں طور پر ہمارے تنظیم کا دیگر تمام آزادی پسند سیاسی گروپس کے ساتھ ایک مثبت اور جاندار کردار رہا ہے، ہمارا موقف اس بارے میں واضح ہے کہ ماضی کے تمام ناکام تجربات کا حقیقی حوالے سے تجزیہ ہو، ناکامی کے وجوہات کا تعین ہو، اور انکی وضاحت ہو ، اوراسکے بعدمستقبل میں قومی سیاست کے حوالے سے کسی بھی طرح کے اتحاد کے لیے راہ ہموار کی جائے، جس میں اولیت قومی اجتماعی ضروریات اور تقاضوں کوحاصل ہوں۔ ہمگام۔ مثبت تنقید ‘خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی انقلابی اقدامات ہیں۔لیکن مسلح مزاحمتی تنظیموں سے وابستہ لیڈر اور ان کی تنظیمی و سیاسی کمزوریوں پر تعمیری تنقید کو بھی برداشت نہیں کیا جارہا۔ اس سلسلے میں بعض لوگوں پہ غداری کے الزامات بھی لگ چکے ہیں،آپ کا اس بارے میں کیا رائے ہیں؟ بلوچ خان۔یہ انتہائی غور طلب مسئلہ ہے انفرادی رائے اور تجزیوں کی اہمیت اپنی جگہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ،میری ناقص رائے کے مطابق مجموعی حوالے سے ادارہ جاتی تجزیوں کے نتائج کے بنیاد پر متفقہ فیصلوں کی ضرورت ہے بدقسمتی دیکھیں ان حالات میں ہم مجموعی حوالے سے جدوجہد کے جس سطح و مقام پر کھڑے ہیں یہاں سب کے پاس کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن جانچ پرکھ تحقیق کرنے کے لیے کیا ہے، یہ سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے ، کیا آپ بتا سکتے ہیں؟کہ علم سیاسیات میں تخلیق کے لیے تنقید کے اہمیت سے کیسے انکار ممکن ہو گا؟قومی
سیاست کے حوالے سے پیچیدہ مسائل کو لیکر حقائق کے تہہ تک پہنچنے کے لیے سائنسی نقطہ نگاہ سے تمام عوامل کو مدنظر رکھ کر ہر پہلو سے غور تحقیق کے بعد حاصل شدہ نتائج کی وضاحت اور تشریح کے بعد جدوجہد کے لیے طریقہ کار کے حوالے سے نئی راہیں متعین کی جائیں،مگر مقام افسوس کہ یہاں تو لوگ تنقید‘تحقیق وپروپگنڈہ اورسازش میں فرق کرنا نہیں جانتے، اب جو لوگ ان سیاسی عوامل کو سمجھنے سے نابلدہوں وہ کسی کو بھی غدار قراردیں تو اس میں حیرت کی بات کیا ہوگی؟دیکھیں جی حقائق کسی صورت مسخ نہیں ہو سکتے، بلوچ قومی سیاست میں مسلح اور غیر مسلح دونوں محاذ پر خامیاں ‘نادانیاں کمزوریاں‘متاثر کن حد تک موجود ہیں،اصلاحی پہلو بارے دوستوں کے بیچ رویے ظاہری بداعتمادی کو لیکر ہٹ دھرمی کی نشاندہی بھی کررہے ہیں، جو ایک نیک شگون ہر گز نہیں ،تو ان تمام حالات کے مشاہدے کے بعد ہمارے تنظیم اور تنظیمی دوستوں نے وقتافوقتااس کی نشاندہی بھی کی ہے، اور تقریبادو سال قبل بھی ہمارے تنظیم نے مشروط جدوجہد کا عندیہ دیا تھا، جس کا مقصد ہی گذشتہ عرصے کی نادانیوں ‘خامیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے درپیش معاملات اور پیچیدگیوں کا جائزہ اصلاحی حوالے سے سائنسی طریقہ کار کے تحت لے کر سیاسی اور انقلابی ضروریات کی پورہ وری کے لیے مستقبل میں حقیقی اقدامات پر زور دینا تھا،یہ دو ٹوک اور واضع موقف اب سمجھ میں نہ آنے والی بات بھی نہیں ہمارے اس موقف کی بنیاد اس خیال پر استوار ہے کہ دوران انقلاب روایتی رویے اور روایتی سوچ کے تحت ہر قسم کے فیصلے جدوجہد کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں،لہذا یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتے آپ بھلے اور برے کو باہم گڈ مڈ کہ کیسے انقلاب کے لیے شفافیت پیدا کر سکتے ہیں آپ سے تو انقلاب بھلے کے لیے بھی حقیقی درجہ بندی بابت وضاحت کا طلب گار ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں آپ برے کو باہم جوڑ کر انقلاب کی خدمت کا دعوی کیونکر کرسکتے ہیں، یہاں بات شخصیات اور گروپس کی نہیں سیاسی معاملات کی ہے،جو شخصیات اور گروپس سے جڑیں ضرور ہیں،لیکن یہ بالکل واضع ہے کہ اگر آپ معاملات سے صرف نظر کرکے شخصیات اور گروپس کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے تو یہ روایتی سوچ اور ریوں کی خدمت ہوگی جو انقلاب کا ضد ہوگا۔ آج ہمیں درپیش مسائل میں پیچیدگیوں کی نوعیت بالکل اسی قسم کی ہے باقی دوست اپنے طور جس طرح کی بھی وضاحت کریں اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں میں سمجھتا ہوں کہ جس بات پر آج بلوچ نوجوان زیادہ توجہ دے رہے ہیں وہ ہمارے لیے حوصلہ افزاء ہے وہ ایسے کہ آج وہ آپ کے ہر عمل کے لیے آپ کے پاس کیا سیاسی جواز ہیں اور آپ اسکی وضاحت کس طرح کرتے ہیں،یہ سوال اہمیت اختیار کرچکا ہے اور اس سوال سے آج کوئی بھی جہد کار پیچھا نہیں چھڑا سکتا،اب اتحادوں کے بننے اور ان کے ٹوٹنے کے پس پردہ وجوہات کے لیے سیاسی و اخلاقی جواز اور انکی وضاحت کیے بغیر کیسے کوئی بھی مضبوط اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔ ہمگام۔ اور مخبر اور غدار کی پہچان اور اس کی تلاش کا کیا پیمانہ اور طریقہ کار ہے؟ کیا مخبری کے نام پہ بے گناہ لوگوں کو قتل کی روک تھام کیلئے آپ کی تنظیم نے کوئی تدبیر اپنائی ہے؟ بلوچ خان۔مخبر اور غداروں کے حوالے سے ان کے پہچان کا مسئلہ ذرا پیچیدہ اور احساس اس لیے ہوتاہے کیونکہ ان کو آپ کے خلاف
مکمل خفیہ طریقہ کار سے متحرک کیا جاتا ہے جو آپ کے ہی اندر سے تعلق رکھتے ہیں ویسے آپ کے خلاف معلومات جمع کرنے کے لیے بہت سے طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں، جس میں دشمن اپنے بہت ہی اعلی تربیت یافتہ افراد کو بھی مختلف اشکال میں کیموفلاج کرکے استعمال کرتا ہے۔ ایسے بہت سے افراد گرفتار ہوئے ہیں جو فقیر‘پاگل اور جوگی وغیرہ کے شکل میں دشمن کے لیے جاسوسی کرنے کا اقرار کرچکے ہیں ،جہاں تک آپ کے اپنے لوگوں کو آپ کے بیچ آپ کے خلاف کام میں لانے کی بات ہے،تو وہ بھی اس وقت تک پوشیدہ اور پیچیدہ رہ سکتا ہے جب تک آپ کے خلاف ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے جن ممکنہ واقعات سے بچنے کے لیے آپ نے دشمن کے سرگرمیوں کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی ترتیب دی ہو،اگر ایسا کچھ ہو جاتا ہے تو آپ صرف اور صرف اس واقعہ کو مدنظر رکھ کر اس کے مختلف پہلو پر غور کرتے ہیں ممکن اور ناممکن کو مدنظر رکھ کر جب آپ ثبوت ڈھونڈتے ہیں تو بہت کچھ واضع ہو جاتا ہے تنظیمی ذرائع سے ہٹ کر جب آپکو مخبر کی نشاندہی کے لیے دوسرے ذرائع سے معلومات فراہم کی جاتی ہے تو ان پر من و عن بھروسہ کرنا شاہد ٹھیک نہیں ایسے معلومات کو پرکھنے کے لیے آپ کے پاس کیا طریقہ کار ہے یہ اہمیت کا حامل ہے،جہاں تک ہماری تنظیم کی بات ہے ہمارے مختلف ذرائع ہیں اور ہم نے ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا ہے جس میں اول تو کسی یونٹ کو مخبروں کے حوالے از خود کسی بھی فیصلے کا اختیار نہیں وہ اپنے معلومات ذمہ داراں تک پہنچاتے ہیں پھر تنظیم کے بالائی ادارے اپنے اپنے طور ان معلومات کی تصدیق کراتے ہیں ، اس کے بعد ان تصدیق شدہ معلومات کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے، مجموعی حوالے سے آزادی پسند جتنے گروپ کام کر رہے ہیں ان کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتاکچھ ایسے افسوس ناک واقعات رونماہوئے ضرور ہیں جن پر عوامی سطح پر سوالات اٹھا ئے گئے ہیں تو ان سوالات کو مدنظر رکھ کر اگر سوچا جائے تو ہو سکتا ہے کہ طریقہ کار میں مزید بہتری لا نے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی بے گناہ شخص اور اس کا خاندان جانی نقصان اور خواہ مخواہ کی بدنامی کے کرب سے بچ سکیں۔ ہمگام۔بلوچ جہد کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ریاست ایک جانب مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ اور دوسری جانب بلوچوں میں ایک بڑی تعداد میں لوگوں کی سرپرستی کرکے ان کو وسائل فراہم کر رہا ہے،کیا اس سلسلے میں لوگوں کو آگاہی دینے اور اسکی روک تھام کے لیے آپ کی تنظیم نے کوئی پروگرام ترتیب دی ہے؟ بلوچ خان۔بالکل ریاست آ ج بلوچ جہد آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے تمام ذرائع بروئے کار لا رہا ہے، مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچوں کے اندر بھی چور ڈاکو اور منشیات فروشوں اور سیاسی مفاد پرستوں کو بھی منظم مافیاز کے شکل میں مضبوط کیا جارہا ہے اور پچھلے کچھ عرصے سے ان کو مختلف زاویوں سے تحریک کے خلاف کام میں لایا جار ہا ہے، کشمیر اور افغانستان میں ریاستی مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے پریشر گروپس کو آج دفاع پاکستان کے نام پر بلوچ تحریک کے خلاف نئے نظریے اور بالکل الگ زاویے سے کام میں لایا جارہا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ تبلیغی اجتماعات کے آڑ میں بلوچ عوام کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو تیزی سے قومی سوچ
اور قومی احساس سے بیگانہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، دوسری طرف لینڈ مافیا ‘ڈرگ مافیا ‘چور ‘ڈاکووں کو مسلح کر کے کھلی چھوٹ دی گئی ہیں، نام نہادسیاسی قوم پرستوں کو بھی کسی نہ کسی حد تک ریاستی مفادات کے تحفظ والے نظریے سے ہانکنے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ بخوشی اسے قبول کر چکے ہیں، ہمارے تاریخی بگھی کھینچنے والوں کا تسلسل بھی اپنی جگہ برقرار ہے بحیثیت ایک عسکری تنظیم ہم اپنے قومی فرائض کو مدنظر رکھ کر اپنی قوت اور بساط کے تحت جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے عملا ان کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ان کے خلاف کوئی بھی عمل اور پھر اس عمل کی وضاحت بلوچ عوام میں کس سطح تک اور کس مقدار میں تبدیلی لا رہی ہے اسکی اہمیت اپنی جگہ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ قوم میں شعوری حوالے سے ان تمام ریاستی اقدامات کے خلاف آگاہی پھیلانے کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور بہت تیزی سے لازمی طور پر انقلابی طریقہ کار کے تحت اس کام کو پورے بلوچ سماج میں وسعت دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ریاست کے پاس اپنے پالیسیوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ایک منظم بندوق برداروں کی فوج ہے جس کو اس نے ہمارے خلاف کھلی چھوٹ دے رکھی ہے،اصل میں سیاسی محاذپر اس کے لیے ایک مکمل اور جامع پروگرام ایک انقلابی حکمت عملی کے تحت بہت پہلے شروع ہو نا چاہیے تھا، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہاں فی الحال اخباری بیانات پر گزارہ ہو رہا ہے، ہم ان تمام حالات کا بغور جائزہ لے چکے ہیں،اس تمام عرصے میں ہم نے اپنے تمام آزادی پسند دوستوں کو انکے کام اور ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک اچھا خاصہ سپیس دے چکے ہیں، اور ان سنگین مسائل کی نشاندہی بھی اپنے طورکرچکے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بھی بھرپور انداز میں نبھانے کی کوشش کررہے ہیں میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہم ان مسائل پر ضرور قابو پائیں گے کیونکہ ان تمام مسائل کو ریاست نے ہمارے جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ہمارے سامنے کھڑے کیے ہیں،یہ زیادہ پیچیدہ تو نہیں لیکن طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے شاہد ذرا زیادہ وقت لیں مجھے لگتا ہے کہ اگر ہمارے کچھ اندرونی تضادات اس وقت آڑے نہیں آتے تو شاہد ہم اس وقت تک ہم ان پر ضرور تسلی بخش حد تک قابو پا لیا ہوتا بہر حال اب بھی بہتر انداز میں ان پر کام ہو رہا ہے، بس فرق یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم جس مقام پر پہنچ چکے تھے اس کو چھوڑ کر دوبارہ سے ہمیں چند قدم پیچھے سے اپنا جدوجہد شروع کرنا پڑا۔ ہمگام۔بی ایل اے کے موقف اور رائے سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ بی ایل اے دیگر تمام بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے کردار و عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ بلوچ خان۔آپ کے سوال میں لفظ شک میں سمجھتا ہوں کہ اس مقام پر شاہد کچھ زیادہ ہی ہوگا اگر آج کل کے حالات کو آپ مدنظر رکھیں تو یہ حالات خود ہی ایک بہت بڑی کمزوری کی نشاندہی کرتے ہیں ہم کم از کم اس کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آج ایسا کیا گیا تو یہ ایک گمراہ کن عمل ہو گا، دیکھیں جی کردار ہمیشہ سے ہی عمل سے بنتے ہیں اور جب اعمال میں نمایاں طور پر تضادات واضع ہو تے ہیں تو کردار پر سوالات لازمی طور پر اٹھتے ہیں۔ بلوچ قومی جدوجہد کے اس حالیہ دور میں شروع سے لے کر ماضی قریب تک ایک ایسا
منفی تسلسل دیکھنے کو ملا جس پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ، شروع میں یہ امیدکی جارہی تھی کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شاہد اس میں بہتری آئے اور اس پر قابو پا لیا جائے مگر بدقسمتی سے قومی تحریک کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ تسلسل بھی بڑھتا چلا گیا چھوٹے چھوٹے ایسے اعمال تسلسل سے سرزد ہو تے گئے جن کا وقتی طور گروہی حوالے سے فوائد ہو سکتے تھے مگر مجموعی حوالے سے تحریک کے لیے مستقبل میں ان کے سخت منفی اثرات بالکل واضع نظر آرہے تھے، وقتی فوائد کے لیے دوستوں کی طرف سے ان کو نظر انداز کرنا اور اس تسلسل کو جاری رکھنا ہی بد اعتمادی کا باعث بنا،اور سب سے بڑی وجہ جو شاہد مسائل میں پیچیدگیوں کا باعث بنا وہ یہ کہ مسائل کو سائنسی نقطہ نظر و طریقہ کار سے حل کرنے کی ذرا برابر بھی کوشش نہیں کی گئی، روایتی طرز پر مسائل کا حل ڈھونڈا گیا جو کم از کم ہمارے دوستوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا، تو آج کی حقیقت یہ ہے کہ مسائل بھی ہیں بد اعتمادی اور عدم اعتماد کی فضا بھی‘ سائنسی طریقہ کار و نقطہ نظر کا فقدان بھی ‘روایت پسندی کا غلبہ اور عزائم بھی ہیں۔میں جس بات پر زور دے کر اسکی نشاندہی کرونگا وہ یہ ہے کہ قومی اور اجتماعی مفادات بھی ہر گز پیچیدہ اور پوشیدہ نہیں ہیں کہ کوئی ان قومی مفادات کو سمجھ نہ سکے،تو ہمارے آج کے جدوجہد کا محور ہی اس حقیقی سمت کی آشکاری ہے ۔ جو ہر صورت قومی اجتماعی مفادات کی نگہبانی کا راستہ ہو۔ ہمگام۔ بلوچستان میں بلوچ لیویز اور پولیس پر سرمچاروں کے حملوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
بلوچ خان۔لیویز اور مقامی پولیس سمیت آج بہت سے ایسے مسائل ہیں، جن کو سطحی اور جذباتی حوالے سے دیکھنا شاہد مجموعی حوالے سے تحریک کے لیے سود مند ثابت نہ ہوں ، ہم جو قومی جدو جہد کر رہے ہیں اسکو مدنظر رکھ کر ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ قومی مقصد کے حصول کے لیے ہر طرح کے حالات میں کسی بھی طرح کے فیصلوں کے وقت ہمیں لازمی طور اپنے سماجی ڈھانچے کو اسکے تاریخی و ارتقائی عمل کے حوالے سے مد نظر رکھ کر اقتصادی اور سیاسی معاملات سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔ ویسے تو دوران جدوجہد آپ کے ہر چھوٹے بڑے عمل کے لیے آپ کے پاس ایک مضبوط سیاسی جواز ہو نا چاہیے، عسکری معمولات میں کسی بھی طرح کے حملوں میں نشانہ بننے والوں کے لیے آپ کے پاس سیاسی،اخلاقی یا قانونی جواز کیا ہے؟اور آپ اس کی وضاحت کیسے کرتے ہیں، یہ انتہائی اہمیت کا عامل ہوتا ہے،ہماری تنظیم کی پالیسی شروع سے انہی عوامل کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں، ہمارے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ بحیثیت فورس خاص کر لیویز اور محکمہ پولیس میں بلوچ اہلکاروں کو یک دم سے پاکستانی فوج ، ایف سی اور انٹیلی جینس اداروں کے خلاف بننے والے پالیسوں کے تحت سلوک کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے، ہاں اگر وہ کسی بھی سطح پر بلوچ عوام یا پھر قومی تحریک کے خلاف کسی بھی مجرمانہ عمل کا مرتکب ہوجاتے ہیں تو پھر ان کے جرم کی نوعیت کو دیکھ کر ان کے خلاف کوئی بھی فیصلہ لینا چاہیے، اس لئے کہ دوران جدوجہد آج اکثر معاملات میں ایسے پیچیدگیاں موجود ہیں جن کا تعلق آپ کے سماجی ، معاشرتی تعلق سے وابسطہ ہیں ،تسلسل سے مقبوضہ حیثیت یعنی غیروں کے دست نگر رہنے کی وجہ سے ان پر قومی سوچ کا اثر شاید اتنا گہرا نہیں کہ آپ کے لوگ ان کے خلاف بننے والی پالیسوں کے تحت سخت فیصلوں کو آسانی سے ہضم کرسکے، تو ایسے مسائل
کو آپ مخصوص و محدود یا یوں کہیں کہ حالات حاضرہ کے تناظر میں نہیں دیکھ سکتے اس کیلئے آپ کو مجموعی صورتحال کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے تا کہ مستقبل میں بھی تحریک کے دوستوں کیلئے متوازن اور انصاف پر مبنی فیصلوں کیلئے کسی نہ کسی حد تک راہ ہموار ہو سکے تاکہ مثبت نتائج برآمد ہو‘ لیکن یہ بھی ایک فطری حقیقت ہے کہ نوخیز جہد کاروں کیلئے آسان ہدف زیادہ کشش و کھنچاؤ رکھتا ہے تو کہیں بھی ایک یا دو واقعات شاید حادثاتی ہونے کا تاثر دیں مگر صورتحال میں تشویش ان کے تسلسل کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے اور یہ ایک خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے کیوں کہ جہاں انقلابی سوچ حاوی ہو اور اس میں نظم و ضبط ہو تو وہاں مجموعی صورتحال کا ماضی اور مستقبل کے تناظر میں کچھ تو بہتر تجزیے ہوتے ہیں بہتر ذہنی و جسمانی عسکری تربیت کا اثر دیکھنے کو ملتا ہے تمام کاروائیوں سے تنظیمی کنٹرول کا مکمل تاثر ملتا ہے اور یہ سب کچھ اس تنظیم کی پالیسیوں ان کے فیصلوں اور کاروائیوں کے بیچ توازن سے واضح ہوتا ہے اور یہ ایک انقلابی تنظیم کا خاصہ ہوتا ہے ہماری تنظیم نے اکثر مقامات پر ہر ممکن کوشش کی ہے کہ لیویز اور مقامی پولیس کو بلوچ قومی ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ اس جنگ سے دور رکھیں مگر ریاست بھی ہر ممکن حد تک اس کوشش میں ہے کہ ان کو جنگ میں کسی بھی طرح گھیسٹے‘ یہ اب لیویز اور مقامی پولیس پر منحصر ہے کہ وہ کسی بھی قومی جرم کا حصہ بنتے ہیں یا نہیں! ہمگام۔ یہ تاثر عام ہے ، کہ بعض علاقوں میں سرمچار اپنی ذاتی دشمنی تنظیموں کے نام پہ نکالتے ہیں اور اس سلسلے میں قتل ہونے والے لوگوں کو مخبر و غدار قرار دیا جاتا ہے اس سلسلے میں آپ کی تنظیم کا کیا موقف ہے؟ بلوچ خان ۔ایسے کچھ واقعات ضروررونما ہوئے ہیں ان کے بارے میں جواب میں آپ کے پہلے والے سوال میں دے چکا ہوں میرے خیال سے یہ واقعات جہاں تسلسل سے رونماء ہوتے ہیں وہاں ان پر سوالات بھی اُٹھے ہیں اب یہ ان دوستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر کیسے قابو پاتے ہیں ہماری تنظیم کی ساتھیوں کی طرف سے ایک حادثاتی واقعہ خضدار سٹی میں قومی غدار رشید کلٹی کو انجام تک پہنچانے کی کاروائی کے دوران گیراج میں کام کرنے والے ایک معصوم بلوچ نوجوان کا حادثاتی گولی کا نشانہ بن جانا تھا اور دوسرا واقع توتک میں قومی غدار سعید قلندرانی کو نشانہ بنانے کے دوران دو بے گناہ بلوچوں کا نشانہ بننا تھا اسی نوعیت کے ایک دو واقعات ضرور رونما ہوئے ہیں جن کی وضاحت ہماری تنظیم پہلے بھی کرچکی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ مخبر اور غدار کسی بھی قسم کے رعایت کے حقدار نہیں ہوتے لیکن کسی بھی بے گناہ کو غدار اور مخبر قرار دے کر نقصان پہنچانا اور اس کے خاندان کو جانی نقصان کے ساتھ بدنامی کے اذیت سے گزارنا بھی ایک گھناؤنا اور ناقابل معافی جرم ہے بلوچ جدو جہد آزادی کیلئے برسر پیکار گروپس کو ایسے معمولات پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ہمگام۔ منشیات کی روک تھام اور منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف آپ لوگوں کی تنظیمی حکمت عملی کیا ہے ؟ بلوچ خان۔ منشیات ایک ایسی لعنت ہے جو انسانی معاشرے کیلئے ناسور کی سی حیثیت رکھتا ہے ہماری تنظیم کا موقف واضح اور ٹھوس ہے کہ
اس لعنت کا مکمل خاتمہ ہو جب سے ہماری تنظیم قومی تحریک میں سرگرم عمل ہے ہم نے اپنے کنٹرول کے علاقوں میں منشیات کے روک تھام کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور مختلف اوقات میں ہمارے تنظیمی ساتھیوں نے افیون کی کاشت کو تلف کی ہے پچھلے دس بارہ سالوں میں ریاستی خفیہ اداروں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ BLA کے زیر کنٹرول علاقوں میں کسی بھی طرح افیون کی کاشت کو بڑھاوا دے سکے زمینداروں کو مقامی ایجنٹوں کے ذریعئے راغب کرنے کیلئے بیج، کھاد اور نقد رقم بھی تقسیم کی گئی تھی لیکن ہماری تنظیم نے ان کی ہر کوشش کو ناکام بنایا مجموعی حوالے سے بلوچ گلزمین میں منشیات کے حوالے سے صورتحال بہتر نہیں میرے خیال کے مطابق سب سے نازک اور پیچیدہ مسئلہ بین الاقوامی منشیات کے لین دین کے حوالے سے افغانستان تا یورپ کیلئے ہماری سرزمین کا بطور گزر گاہ ہے اس بین الاقوامی لین دین میں بیش بہا پیسوں کے ریل پیل کی کشش نے پاکستان جیسے منظم فوج کے جرنلوں اور ایرانی پاسداران انقلاب کے سرخیلوں کو اس کاروبار میں ملوث ہونے پر مجبور کردیا تو ایسے حالات میں بلوچ سرزمین کے فرزندوں کو بطور ہتھیار بند قوتوں کو بہت ہی سوچ سمجھ کر احتیاط سے فیصلے کرنے چاہیے، سطحی سوچ اور وقتی فائدے کیلئے علاقائی حوالے سے اپنے کمانڈروں ، ان کے ماتحت کام کرنے والے ساتھیوں پر اور ان کی معلومات و کارکردگی پر گہری نظر رکھنا چاہیے وہ بھی ایسی صورتحال میں جب تنظیمی آڑ میں ذاتی دشمنی اور آسان ہدف کو نشانہ بنانے جیسے سوالات سر اُٹھا رہے ہوں۔ ہمگام ۔ انقلابیوں کے کردار میں تضاد نہیں ہونا چاہیے لیکن اس کے برعکس بعض بلوچ آزادی پسند جو عام حالات میں نہ صرف بڑے انقلابی نظر آتے ہیں بلکہ خواتین کے حقوق و آزادی کے بلند بانگ دعوے بھی کرتے ہیں لیکن اپنے گھر کی چار دیواری میں خواتین سے ان کا رویہ توہین آمیز ہوتا ہے ایسے رویوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ بلوچ خان۔ ظاہر سی بات ہے اگر آپ ترقی پسند خیالات رکھتے ہیں اور آپ کی جدو جہد کا محور آزادی ہے تو پھر آپ کیلئے ایسے رویے لازمی طور پر قابل مذمت ہوتے ہیں استحصال کی مختلف اشکال ہوتے ہیں اور میری ناقص رائے کے مطابق استحصال جس بھی شکل میں اور کسی بھی نوعیت کی ہو وہ قابل مذمت ہی ہوتا ہے آج پوری دنیا میں عورتوں کے حقوق کو لیکر حالات کسی بھی طور حوصلہ افزاء نہیں اور ہم بھی اس کا حصہ ہیں اور ہم بری الزمہ ہو ہی نہیں سکتے اگر ہم باریک بینی اور غیر جانبداری سے بلوچ سماج میں اپنے خواتین کو انسانی حقوق کے تناظر میں تجزیے میں لائیں تو ان سے روا رکھے جانے والے رویے کسی صورت بھی قابل تعریف نہیں بدقسمتی سے حالات کا جبر دیکھیں ایک تو آپ بحیثیت مقبوضہ قوم کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ترقی کے حوالے سے جبری رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں دوسری طرف قبائلی سماج کے حوالے سے مجموعی طور پر پچھلے ادوار سے ہی بہت سے فرسودہ اور ناروا رسم و رواج نے تسلسل کے ساتھ ایسے ظالمانہ طرز زندگی کو جنم دیا ہے جس میں بالخصوص بلوچ خواتین کے حوالے سے استحصالی پہلو خاصا نمایاں ہے شہری طرز زندگی میں کچھ لوگوں یا گنتی کے چند خاندانوں
کے حوالے سے معمولی تبدیلی آپ کے مجموعی قومی حالات کے عکاس نہیں ہو سکتے تو ایسے حالات میں بحیثیت ایک جہد کار کے شاید مجھے لفاظی کرنے کا کوئی اخلاقی حق نہیں ‘کہ میں اس مقام پر لفاظی کروں‘ انسانی حقوق کو لیکر خواتین کیلئے جائز حقوق و مقام کے حوالے سے یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں ان کو ذاتی ملکیت سمجھنے کا تصور مضبوط ہے جس میں ان کے حوالے سے ہر جائز و ناجائز فیصلے کا حق صرف مرد کو حاصل ہے اور خواتین کو کسی بھی سطح پر کسی بھی طرح کی رائے کا کوئی حق نہیں‘ تعلیم خاص کر شادی بیاہ کو لیکر کم از کم پسند و نا پسند کیلئے رائے تک لینا لب جیسے ناسور کیلئے بڑی اور چھوٹی عمر کی حد کا تمیز نہ کرنا‘ انسانی حیثیت کے حوالے سے ان کے تمام جائز حقوق کو غیرت کے نام پر کچلنا یہ تو آج کے مسائل ہیں ہم ان کو قومی جدوجہد آزادی کے دوران بھی جھیل رہے ہیں ان سے انکار کیسے کر سکتے ہیں، اور ہم نے ان مسائل پر شعوری حوالے سے کام بھی شروع کر رکھا ہے ہمارے تنظیمی ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ اول مرحلے میں بلوچ خواتین میں ان کے جائز مقام کو لیکر ایک بہتر کردار کیلئے شعوری حوالے سے ان میں آگاہی پھیلانا اور ساتھ ہی ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں ان کی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں بروئے کار لانے کیلئے ان کو بہتر ماحول فراہم کرنے کیلئے اصلاحی حوالے سے مردوں میں شعوری آگاہی کیلئے کام کو تیز کرنا، اس کیلئے ہم اولیت قومی سیاست کو لیکر حالیہ جدو جہد کو ہی دے رہے ہیں، تاکہ ہمارے خواتین کو ایک ایسا ماحول ملے جہاں مردوں کے بیچ ان کو جنس مخالف کا گمان بھی نہ گزرے تمام ضروریات زندگی کے جائز حصول کیلئے بہتر اور مثالی ضابطے ہوں ایک ایسا متوازن دستور ہو جس میں کسی بھی قسم کے استحصال کی گنجائش نہ ہو اور کسی بھی طرح ضابطوں دستور اور اصولوں کی پامالی کی صورت میں انصاف کے اصولوں پر مبنی سزائیں ہوں جن کی سختی سے پاسداری ہو کیونکہ گزشتہ عرصے میں کچھ ایسے افسوس ناک واقعات رونماء ہوچکے ہیں جن کو دیکھ کر آج یہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے
ہمگام۔ کیا آپ جاگیرداری اور موروثی سرداری نظام کے خاتمے کے حق میں ہیں؟
بلوچ خان۔ بالکل کوئی بھی ذی شعور انسان کسی بھی استحصالی اور پسماندہ نظام کے حق میں کس طرح ہوسکتا ہے جاگیردارانہ نظام سے ہمارا واسطہ ہی نہیں رہا ہے جہاں تک بات سرداری نظام کی ہے تو یہ کوئی نظام ہی نہیں ہے نظام قبائلی ہے اور سردار اس کا حصہ ہے ایک ایسے ذمہ دار ناظم کی حیثیت سے جو اپنے قبیلے کا ذمہ دار ہوتا ہے تاریخی حوالے سے دیکھیں تو جہاں تک قبائلی نظام کا تعلق ہے انگریزوں کی آمد سے پہلے شاید اس نظام زندگی میں اتنا کچھ ضرور تھا جس نے صرف اور صرف بلوچوں کی بقاء کو توڑی بہت تحفظ دی لیکن اس نظام میں ترقی کے راستے شروع سے ہی محدود تھے اور اس بدقسمتی میں اضافہ انگریزوں کی آمد کے بعد ہوا اور رہی سہی کسر پاکستان کی قبضہ گیریت نے نکالی اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے توآج یہ نظام اپنے تمام تر ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ قبضہ گیریت کو لیکر جابرانہ نظام کی معاونت کے طور پر کام میں لایا جا رہا ہے آپ نے اپنے سوال میں اس کے خاتمے کی حق کی بات کی ہمارے جیسے جہد کار اس نظام کو تیزی سے قومی تشکیل میں
بروئے کار لاکر اس کو بہتر انجام تک پہنچانے کا نظریہ رکھتے ہیں۔ ہمگام۔ بعض لوگوں کا خیال ہے ، کہ بلوچ آزادی کے بعد انتشار کا شکار ہونگے کیونکہ بلوچستان میں قبائلی و گروہی مفادات حاوی ہیں آپ کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟ بلوچ خان۔ آج یہ بالکل صاف ہوچکا ہے کہ قبائلی ، گروہی ، علاقائی اور سیاسی گروہی مفادات قومی تشکیل کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں لیکن یہ گمان یا قیاس کہ آزادی کے بعد بلوچ انتشار کا شکار ہونگے صحیح نہیں ہوگا۔ ہمگام۔ آزاد بلوچ ریاست میں یہاں آباد دیگر قوموں کا مستقبل کیا ہوگا؟ بلوچ خان۔ بلوچ تاریخ پر اگر آپ نظر دوڑائیں تو بلوچ سماج میں اقلیتوں کیلئے ہمیشہ سے ایک جائز مقام اور تحفظ رہا ہے ہمارے قبائلی نظام میں ہندو ‘ اور مسیحی برادری کے ساتھ سلوک ایک بہتر مثال و ثبوت ہے تو مستقبل میں بلوچ آزاد ریاست میں ایک قومی نظام میں اقلیتوں کیلئے اس تسلسل کو لیکر حقیقی طور پر مزید بہتر ی کے لیے روشن امکانات موجود ہیں۔ ہمگام ۔ بلوچستان کی جغرافیائی ، معاشی اور دفاعی صورتحال کے پیش نظر یہ خطہ دنیا کی دلچسپی کا مرکز بن چکا ہے چین پاکستان کے تعاون سے گوادر میں پہنچ چکا ہے اس سلسلے میں BLA کا کیا موقف ہے؟ بلوچ خان۔ بی ایل اے کئی بار واضح الفاظ میں چین کے توسیع پسندانہ عزائم کی مخالفت کرچکا ہے قابض پاکستان کو کسی بھی طرح سے بلوچ سرزمین پر قبضہ گیریت کے حوالے سے مدد و تعاون کو بی ایل اے بلوچ دشمنی سمجھتی ہے اور اسی نظریے کی بنیاد پر ہم نے پہلے بھی چینی مفادات پر حملے کئے ہیں اور آئندہ بھی ہمارا موقف واضح ہے کہ بلوچ سرزمین پر بلوچوں کے استحصال پر مبنی کسی بھی منصوبے کو برداشت نہیں کیا جائے گا گوادر پراجیکٹ، سیندک اور وندکیرتھر پروجیکٹ سمیت چین اپنے تمام استحصالی منصوبوں پر پاکستان کی مدد و تعاون پر نظر ثانی کرکے جلد از جلد ان سے دستبردار ہوجائے ۔ ہمگام۔ بلوچ قوم کیلئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟ بلوچ خان۔ بلوچ قوم خاص کر بلوچ نوجوانوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج ہم اپنے تاریخی تسلسل اور ارتقاء کو لیکر قومی سیاست میں انقلابی جدو جہد کے حوالے سے ایک ایسے دورائے پر کھڑے ہیں جہاں بحیثیت ایک مقبوضہ قوم کے ہمارے کندھوں پر ایک آزاد قومی حیثیت کیلئے قومی تشکیل، سماجی، سیاسی اور اقتصادی ترقی کو لے کر انقلابی تبدیلیوں کیلئے باری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں تو دوسری طرف
قبائلی رویوں، فرسودہ روایات، پسماندہ روایتی خیالات ، علاقائیت، گروہی اور روایتی سیاست کے غلبہ کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے پیچیدگیاں مزید بڑھ گئی ہیں تو آج کی ضرورت روایت پسندی سے چھٹکارا اور انقلابی تبدیلیوں کیلئے جدو جہد کو تیز کرنا ہے تو ٹھوس اور واضح موقف اختیار کرنے کیلئے بہت ہی باریک بینی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تو اس کیلئے آپ لوگوں کو جذباتی ، سطحی اور روایتی وابستگیوں سے نکل کر سوچنا ہوگا صرف اور صرف قومی اور اجتماعی مفادات کو مد نظر رکھ کر قدم بڑھائیں بلوچ قومی تحریک کو مضبوط کریں آپ کوئی بھی پارٹی ہو یا تنظیم یا ان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی سطح کے جہد کار کیونکہ قومی تحریک کی مضبوطی ہی کامیابی کا ضامن ہوگا نہ کہ شخصیت ، گروہ یا کسی مخصوص پارٹی کی مضبوطی !!!