ہفتہ, مئی 18, 2024
ہومانٹرویوزمذہب کسی جدید تحریک کی بنیاد نہیں بن سکتی، ہماری تحریک قومی...

مذہب کسی جدید تحریک کی بنیاد نہیں بن سکتی، ہماری تحریک قومی شناخت پر مبنی ہے۔خلیل بلوچ 

چیئرمین خلیل بلوچ سے یہ انٹرویو نمرتا بجی آہوجہ نے ”دی ویک“ کیلئے کیا تھا جو دس دسمبر کوانگلش میں شائع ہوا ہے۔ یہ اس انٹرویو کا من و عن اردو ترجمہ ہے۔

 بلوچوں کی جدوجہد آزادی اور پاکستان کی ہزاروں فوجی جوانوں کو علاقے میں تعینات کرنےسے بلوچستان کے اندر سے اس کے خلاف آواز اُٹھ رہا ہے، بلوچ اقوام متحدہ سمیتمختلف پلیٹ فارمز پر انسانی حقوق کے معاملات اٹھا رہے ہیں۔

اخلاقی مدد کے لئے بلوچ ہندوستان کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں۔  ان میں سب سے ممتازبلوچ نیشنل موومنٹ جو ایک مرکزی دھارے میں شامل بلوچ پارٹی ہے، کا خلیل بلوچچیئرمین ہیں۔  خلیل بلوچ کہتے ہیں کہ کشمیر اور بلوچستان کی جدوجہد کا موازنہ کرنے کی پاکستانیکوششیں غلط ہیں اور اسلام آباد کشمیر کے نام کو بلوچ عوام کے خلاف اپنے مظالم اورانسانی حقوق کی پامالیوں کا جواز پیش کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ وہ کہتے ہیں”کشمیری گروہ مذہب کو اپنے مقصد کے لئے ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرتےہیں۔ مذہب کسی بھی جدید سیاسی تحریک کی اساس نہیں بن سکتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔"

 سوال:  بلوچوں کی جدوجہد کو بین الاقوامی توجہ کیوں نہیں مل رہی ہے؟

 چیئرمین خلیل: پاکستان آزاد ریاست کے لئے بلوچ جدوجہد کو دبانے کے لئے فوجی طاقت کااستعمال کر رہا ہے۔  یہ جدوجہد 1948 سے بلوچستان کے پاکستان میں جبری انضمام سےموجود ہے۔ تاہم 2000 کے اوائل میں، اس جدوجہد کو ایک نئی قوت ملی اور پورےبلوچستان کے عوام اس میں شامل ہوئے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر پاکستان نےطاقت کے ذریعے جدوجہد کی اس نئی لہر کو طاقت سے روکنے کے لئے اپنے ہزاروں فوجیاہلکاروں کو علاقے میں تعینات کیا۔  بلوچستان کے اندر سے پاکستانی مظالم کے خلاف آوازاٹھانا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔  میڈیا ہاؤسز کو انسانی حقوق کی پامالیوں سے پردہ اٹھانے سےمنع کیا گیا ہے۔  صحافیوں اور انسانی حقوق کے درجنوں کارکنوں کو فوج کے ذریعہ اغواکرکے ہلاک کردیا ہے۔  اس وجہ سے ذرائع ابلاغ  بلوچستان کے حالات سے غافل ہے۔

 سوال: بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی موجودہ حالت کیا ہے؟

 چیئرمین خلیل: بلوچستان میں فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی ہر طرح کی خلاف ورزیاںکی جارہی ہیں۔ لوگوں کا لاپتہ کرنا اور نام نہاد قتل اور لاشوں کو مسخ کرنے کی پالیسی (kill-and-dump) بیرونی دنیا میں سب سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ ان انتہائی بامعنی الفاظ سے ہمارامراد یہ ہے کہ فوج بلوچ عوام کو اغوا کرتا ہے ، مہینوں اور سالوں تک خفیہ زندانوں میںرکھتا ہے، انہیں قتل کر کےان کی لاشوں کو بلوچستان کے بیابانوں میں پھینک دیتاہے ۔ اِنجبری گمشدگیوں اور قتل و غارت گری کے علاوہ  پاکستانی فوج  بلوچ دیہاتوں کو جلانے میںملوث رہی ہے ، جس سے پوری آبادی نقل مکانی کرنے اور دوسرے علاقوں میں آباد ہونےپر مجبور ہے۔  بلوچستان میں ایسے سینکڑوں گاؤں ہیں جہاں جلی ہوئی جھونپڑیوں کی باقیاتپاکستان کے مظالم کے گواہ ہیں۔ درجنوں اسکولوں اور کالجوں کو عارضی فوجی کیمپوں میںتبدیل کردیا گیا ہے جو بلوچ نوجوانوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رکھتے ہیں۔

 سوال : بلوچ قوم اپنے مفادات کو ہندوستان کے ساتھ ہم آہنگ کیوں محسوس کرتے ہیں؟

 چیئرمین خلیل: میں ہی نہیں ، ہر باشعور فرد اور دنیا کا ہر پر امن ملک ہمارے خطے خصوصاکشمیر ، ہندوستان کے دوسرے علاقوں، افغانستان اور ایران میں پاکستان کی مذہبی دہشتگردی کی سرپرستی کے بارے میں فکرمند ہے۔  پاکستان پچھلے تیس سالوں سے نہ صرفاپنے ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرنے بلکہ لبرل بلوچ معاشرے کو بھی ایک بنیاد پرستمعاشرہ بنانے کیلئے مذہبی پراکسیوں کا استعمال کیا ہے۔  بلوچ مذہبی پراکسیوں سے اتنا ہیخوفزدہ ہیں جتنا بھارت ہے۔ یہ عسکریت پسند اسلامی تنظیمیں جو ہندوستان میں امن کوسبوتاژ کررہی ہیں اور پاکستان فوج کے ساتھ یہ عسکریت پسند اسلامی تنظیمیں بھی لاپتہ افراداور بلوچ عوام کے ماورائے عدالت قتل کے ارتکاب میں تعاون کر رہی ہیں۔

 سوال : پاکستان کے سویلین حکومت کا ان مسائل کو حل کرنے میں کیا کردار ہے؟

 چیئرمین خلیل: یہ فوج ہے جو پاکستان کے امور کو چلاتی ہے ، خاص طور پر اس کی خارجہپالیسی۔ حکومت خواہ اس کی سربراہ عمران خان ہو یا نواز شریف یا کوئی اور ہو اس طرحکے معاملات میں اُن کا کوئی کردار نہیں ہے۔ عالمی برادری کو [بلوچ معاملات میں] مداخلتکرنی چاہئے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ہندوستان کی حکومت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتہونے کے ناطے ایک آزاد بلوچستان کے لئے ہونے والے بلوچوں کی جدوجہد میں بلوچوں کیمدد کرے گی۔  مجھے توقع ہے کہ ہندوستان کی حمایت قلیل مدتی سیاسی مفادات پر مبنی نہیںہوگی بلکہ بھارت کی حمایت اس خطے میں امن و استحکام لانے اور پوری آبادی کے خلافمظالم کو ختم کرنے کے لئے انسانی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہئے۔

سوال: کیا 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بلوچستان، گلگت اور پاکستانی کشمیر کےحوالے سے اپنے یوم آزادی کی تقریر میں بات کرنے کے بعد سےکوئی تبدیلی آئی ہے؟

 چیئرمین خلیل: نہیں۔ مودی صاحب  کا بیان محض ایک بیان ہی رہا ہے۔  جیسا کہ میں نےکہا کبھی کبھار کے  بیانات کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، یہ بیانات نہ ہندوستان کے لئے فائدہ مندہیں اور نہ ہی بلوچوں کے لئے۔  کاش مودی صاحب کو جلد ہی احساس ہوجائے کہ اگر وہبلوچ مقصد کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقتکے باوجود کے بلوچ زمین وسائل سے مالا مال ہے ہمیں خدشہ ہے کہ بلوچ ان کے تمامبنیادی حقوق سے محروم رہیں گے اور ہمیں تشویش ہے کہ بلوچ اپنے ہی وطن میں اقلیتمیں تبدیل ہو رہے ہیں۔

 سوال: چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق آپ کے خدشات کیا ہیں؟

 چیئرمین خلیل: چین پاکستان اقتصادی راہداری بلوچستان کے لئے ایک سامراجی منصوبہ ہے، چین کا کردار اسی طرح ہے جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہندوستان میں تھا۔  بلوچستانکا سارا ساحلی پٹی چین کے حوالے کردیا گیا ہے اور اسے چینی حکام کے زیر اقتدار ایک خودمختار زون میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس ساحلی خطے میں ہزاروں چینی اور پاکستان کےدوسرے حصوں سے لوگوں کی آمد جاری ہے۔ وہ اگلے پانچ دس سالوں میں بلوچوں کواقلیت میں بدل دیں گے۔ ہم اس کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔

 سوال : پاکستان نے دعوی کیا ہے کہ بھارتی شہری کلبھوشن جادھو جاسوس تھا۔  اسبارے میں آپکی رائے کیا ہے؟

 چیئرمین خلیل: میں یقین سے دعویٰ کرسکتا ہو کہ کلبھوشن جادھو بلوچستان سے گرفتار نہیںہوا۔

 پاکستان پر ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کا الزام ہے۔  اس بارے میں آپ کےخیالات کیا ہیں

 چیئرمین خلیل: پاکستان نے بار بار بھارت میں  دہشت گردی کے حملے کرنے والے جیشمحمد کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت کے پاس  جیش محمد  کےتربیتی کیمپوں کو ختم کرنے کے لئے فضائی حملے کرنے کے سوا اور کوئی چارہنہیں بچا ہے۔ پاکستان کا دہشت گردی کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کی عزم کی کمیکی وجہ سے امریکہ بھی پاکستان کے اندر ڈرون حملے کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔

 سوال: کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے متعلق پاکستان کے الزامات کتنے سچ ہیں؟

 چیئرمین خلیل: میرے خیال میں کشمیر کا بلوچستان سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔ مسئلہیہ ہے کہ جب بھی بھارت بلوچستان میں مظالم کی بات کرتا ہے تو پاکستان حکومت بلوچعوام کے خلاف اپنے مظالم کو جواز  پیش کرنے کے لئے کشمیر کے نام کا استعمال کرتیہے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو چھپانے کے لئے کشمیر کا نام استعمال نہیںہونا چاہئے۔  کشمیری گروہ مذہب کو اپنے مقصد کے لئے ایک اہم ہتھیار کے طور پراستعمال کرتے ہیں۔  بلوچ تحریک ہماری قومی شناخت پر مبنی ہے۔ مذہب کسی بھی جدیدسیاسی تحریک کی اساس نہیں بن سکتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہندوستانیعوام یہ جان لیں کہ اگر وہ اس مسئلے کو نظرانداز کرتے ہیں تو یہ ان کو نقصان دیتا رہے گا۔اُنہیں اس خطے کو ہمیشہ کے کئے پر امن بنانے کیلئے بلوچوں کی مدد کرنی چاہئے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز