مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے رہنما یاگل کارمون سے سی بی این کی خصوصی انٹرویو
مڈل ایسٹ میڈیا ریسرج انسٹی ٹیوٹ کے بانی رہنما یاگل کارمون سے امریکہ نشریاتی ادارے سی بی این نے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے جس میں انہوں نے کھل کر بلوچ، کرد، عرب احواز اور آذری اقوام کی قومی آزادی پر بات کی ہے۔
ہم اس خصوصی انٹرویو کو اپنے قارئین کی دلچسپی ومعلومات کے پیش نظر “ہمگام نیوز “میں شائع کر رہے ہیں ۔
ادارہ
سی بی این: مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (میمری)کے بانی رہنما ! مشرق وسطیٰ اور پورے خطے کو سمجھنے اور گہری تجزیہ کے لئے ہمارے ساتھ جڑنے کا بہت شکریہ۔ ہر ایک ایران کے بارے میں بات کررہا ہے اسرائیل اور دنیا کے لئے ایران کس طرح کا خطرہ ہے؟
یاگل کارمون: مجھے پروگرام میں بلانے کے لئے شکریہ۔ کرس دیکھیں، ایران اسرائیل کے لئے خاص طور پر خطرہ ہے اور مغرب کے لئے ایک عمومی خطرہ ہے۔ مجھے کچھ مسائل کی نشاندہی کرنے دیجیئے۔
پہلا ایران امریکہ کو بڑا شیطان قرار دیتا ہے جبکہ اسرائیل کو چھوٹا شیطان پھر ان کا ہر ایک خطاب امریکہ مردہ باد اسرائیل مردہ باد کے نعروں پر اختتام ہوتے ہیں۔
یہ مختلف سطحوں پر خطرہ کا باعث بن رہا ہے۔ وہ پہلے سے پراکسیوں کی مددکررہے ہیں ۔ 60 فیصد حوثیوں کو وہ سمندر سے مدد کررہےہیں۔ انہوں نے سعودی عرب، کویت، امارات اور بحرین حتیٰ کہ آزربائیجان کے تیل پر تلوار لٹکایا ہوا ہے اور اسے وہاں سے شدید رد عمل دیکھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایران سیکورٹی خطرہ بھی ہے ۔ ان کا میزائل جو کہ یورپ تک مار کرسکتے ہیں یہ ان کے پاس پہلے سے موجود ہیں اور وہ آئی سی بی ایم میزائل بھی بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں جو امریکہ تک بھی اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ جب وہ اس میزائل کو حاصل کرلیتے ہیں تو یہ امریکہ کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ دریں اثنا ایران کے پاس ایٹمی منصوبہ ہے اور پھر دہشت گردی کا خطرہ جہاں حزب اللہ اور دوسرے ایران نواز دہشت گردوں کے 83 کے قریب سمندری دستے ہیں لہذا اس رجیم کو ابھی سے روکنا ہوگا کیونکہ یہ اب مغرب کا مسئلہ بن چکا ہے۔
بی بی این: آپ ایران کو جنگ سے روک سکتے یا جنگ کے بغیر؟
یاگل کارمون: نہیں۔ یہ بہت بڑا ایشو ہے ۔ کوئی جنگ نہیں چاہتا، امریکہ صدر ٹرمپ بھی جنگ نہیں چاہیں گے، ہم جنگ نہیں چاہیں گے۔ کیا ایران کو جنگ کے بغیر روکا جاسکتا ہے؟ جواب بالکل ہاں میں ہے۔ بہت ہی عجیب قسم کے حالات ہیں مجھے ایران کو تفصیلاً بیان کرنے دیجئے۔ ایران میں پچاس فیصد فارسی ہیں کچھ رجیم کے خلاف ہیں ، بہت سارے آیت اللہ خامنہ ای کے لوگ ہیں جو شیعہ مسلم ہیں اور باقی پچاس فیصد اقلیتی قومیت ہیں جو کافی عرصے سے اسلامی رجیم کے پسے ہوئے لوگ ہیں۔ اور ان کی جدوجہد آزادی چل رہی ہے وہ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں، خودمختاری کی بات کرتے ہیں، اپنی فیڈریشن کی بات کرتے ہیں اور بہت سارے آزادی کی مانگ کررہے ہیں ۔ آپ اندازہ کیجئے ان کوکئی سالوں سے قتل کیا جارہا ہے اور مغرب ان کی مدد نہیں کرتا۔
ایران کے پاس پراکسیز ہیں تمام دہشت گرد ان کے زیر نظر ہیں لیکن مغرب آزادی پسندوں کی مدد نہیں کرتا جو حقیقی آزادی چاہتے ہیں جن میں بلوچ، کرد، احواز اور آزری لوگ ہیں اور بہت بہت سارے چھوٹے بڑے گروہ ہیں لیکن یہ قابل ذکر چار گروپ ہیں جو اپنی آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں اور وہ لڑ رہے ہیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ان کی مدد کرکے ہی ہم آیت اللہ خامنہ ای کی رجیم کو یوں تبدیل کرسکتے ہیں۔
سی بی این : کیا آپ ان رہنمائوں سے رابطے میں ہیں اور وہ کیا کہتے ہیں ؟
یاگل کارمون: جی ہاں ہم ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہم ان کے مواد کو چھاپ رہے ہیں اور ان کو ایک پلیٹ فارم دے رہے ہیں ۔حال ہی میں ہم نے احواز سے تعلق رکھنے والے رہنما ڈاکٹر عارف کابی کا ایک مضمون چھاپا ہے جو تیل سے مالا مال جنوبی ایران سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے مضمون میں ڈاکٹر عارف کابی نے کہا ان کا ایک خواب ہے، جس کا انہوں نے خلاصہ کیا کہ امن ان کا خواب ہے، آیت اللہ سے آزادی ان کا خواب ہے۔ بلوچ قومی رہنما حیربیار مری نے مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(میمری) کے لئے ایک تفصیل سے لکھا ہے ہم نے بلوچ قوم کو پلیٹ فارم دیا ہے۔
ان بلوچ رہنما نے اپنے لوگوں کی ترجمانی کی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ ایران کی رجیم کس طریقے سے گرائونڈ پر لوگوں کو قتل کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ کرد، آذری لوگوں سے ہم رابطہ میں ہیں،سب کو پلیٹ فارم دے رہے ہیں تاکہ وہ اپنی نقطہ نظر کو بیان کرسکیں، اپنے لوگوں کے خوابوں اور امیدوں کی ترجمانی کرسکیں لیکن یہ کافی نہیں ہے ان کو مالی اور اسلحہ کی بھی مدد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ امریکہ کی جنگ نہیں ہے یہ ان کی اپنی خودمختاری، فیڈریشن اور آزادی کی جنگ ہے۔
سی بی این: آخری سوال، مسئلے کو تہہ تک سمجھنے کے لئے مغرب کو کیا کرنا ضروری ہے؟
یاگل کارمون: مغرب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کو کیا کرنا چاہیے۔ اگر آپ سی آئی اے کی معلومات پر مبنی کتابچہ دیکھیں تو انہیں قومیتوں کے خودمختاری کے بارے میں ہر چیز کا پتہ ہے۔ ایرانیوں کے پاس تو پراکسیز ہیں لیکن مغرب لوگ نہیں ڈھونڈ رہے ہیں جو انہیں رجیم کی تبدیلی اور پر امن خلیج کے لئے مدد کی جائے۔
سی بی این: آپ نے بہت ہی طاقتور پیغام دیا ہے یاگل صاحب ،میرا خیال ہے مغرب کو اب ان لوگوں کو سننا چاہیے اورم
دد کرنی چاہیے۔