دنیا میں کہیں یہ نہیں دیکھا گیا ایک قوم نے اپنے پیچیدہ اورگہرے قومی مسائل کو دروغ گوئی،بھڑک بازی اورمنافقانہ طرز عمل اپنا کر حل کیا ہے ہمارا المیہ یہ نہیں کہ ہم غلام ہیں اور نہ ہی المیہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی قومی مرض جو کہ غلامی کی شکل میں ہے کا علم نہیں بلکہ ہمارا سب بڑا ا ور مسقل المیہ یہ ہے کہ اس ٹھوس اور حقیقی مرض سے سنجیدہ،ایماندارنہ اور حقیقت پسندانہ سیاسی بصیرت کے بجائے جھوٹ،بھڑک بازی، مکاری اور اپنی قوم کو دھوکہ دہی کی مسلسل مشق سے چٹکارہ پانے کی منافقانہ کوششیں کر رہے ہیں اب ظاہر ہے اس سے اصل مرض پر تو کوئی اثر پڑنے والا نہیں مگر یہ منفی خصلتیں اور منافقانہ رویے د ن بدن ہمارے قومی نفسیات کا جزو بنتے جارہے ہیں ۔غلامی کے نتیجے میں لاشعوری طور پر پیدا ہونے والے ذہنی پسماندگی اور دوسری برائیاں کیا کم تھیں جو ہم نے ایسے بھیانک منفی رویوں کو اپنی قومی سیاست کا نصب العیں بنالیا۔بی این ایم کی کونسل سیشن سے متعلق تیں دن کی کاروائیوں کی رپورٹ پڑھی اس میں حیرت کا مقام بھی تھا،ہنسی کا مقام بھی تھا اور رونے کا مقام بھی تھا۔اگر میرا تعلق کسی باہر کے ملک و قوم سے ہو تا تو مجھے حیرت ہوتی کی اتنے ایماندار باخبر اور قابل پارٹی و لیڈر شپ کی موجودگی میں یہ قوم اتنی بدحال اور غلام کیوں ہے۔اگر میرا تعلق دشمن سے ہوتا جو کی یقیناً تمام اصل حقائق سے آگاہ ہے تو میں جی بھر کہ ہنستا کہ دیکھو غلامی کے اثرات، مگر بد قسمی سے میرا تعلق اس بدحال اور غلام قوم سے ہے اور اس سے بڑھی بد قسمتی یہ کہ میں اصل حقائق سے واقف ہوں ورنہ اگر نابلد ہوتا تو جھوٹی اطمینان ہی کم سے کم نصیب ہوتا لہٰذا یہ میرے لیئے واقعی رونے کا مقام ہے ۔ اگر پچھلے پندرہ سالوں میں بلوچ قومی سیاست میں اگر کسی سمت ہم نے مسسل آگے پیشقدمی کی ہے تو وہ ہے دروغ گوئی،خود نمائی،منافقت اور عوام کو بیوقوف سمجھ کر بھڑک بازی اور یہ چیزیں بی این ایم کے حالیہ کونسل سیشن میں اپنے عروج پر پہنچیں۔پہلے دن کے بیاں کا سارا مخور سنگت حیر بیار تھا ۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس نام نہاد سیشن کا مقصد یہی تھا کہ کس طرح سنگت حیر بیار کو نشانہ بنایا جائے۔ اب ظاہر ہے وہ سنگت پر کیا الزام لگائیں ۔پہلی اگر قابض پاکستان کے ساتھ ڈیل کا لگائیں تو یہ مشکل ہے کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کیونکہ سنگت کی کار کردکی اس معاملے میں اندرونی اور بیرونی ہر دو مخازوں پر ان سے ہزارگننا زیادہ ہے اور قابض اور اس کے حواری بھی سنگت کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں حتی کہ ایران کی آنکھوں میں بھی سنگت کٹھک رہاہے۔۔دوسری سرداری اور مڈل کلاس کا حربہ بھی اب کار گر نہیں رہا کیونکہ سنگت نے اس معاملے میں بھی ایک مثالی کردار ادا کیا لفاظی کے بجائے عملی طور پر اس کو ثابت کیا کہ قومی جہد کے آگے سرداری اور نوابی کی کوئی حیثیت نہیں۔جب کہ مڈل کلاس کے دعویدار خود سرداروں اور نوابوں کے گود میں بیٹھے ہیں لہٰذا یہ ایشو بھی کار گر نہیں۔تیسرے اندرونی بلوچ قومی سیاست پر بھی ان پہ کوئی الزام نہیں بنتا کیونکہ سنگت کا عمل ہمیشہ سے قومی اور اجتماعی رہاہے۔انہوں نے کبھی بھی دوسروں کی طرح قومی ادارے نہیں توڑے،کسی قومی پارٹی کو اپنا بغل بچہ نہیں بنایا،کسی ادارے میں اپنے یار دوست نہیں بھیجے،کبھی مدد و تعاوں کے بدلے اپنی پوسٹروں کی سجاوٹ کا مطالبہ نہیں کیا۔اس کے دوستوں نے کبھی غریب ٹھیکداروں سے بھتہ نہیں،کبھی منشیات نہیں بیچا ،کسی کو بے گناہ نہیں مارا،کسی ماں بہن کو سرراہ گاڑی سے نہیں اتارا،قومی مڈی کا سودا منشیات پروشوں سے نہیں کیا اور نہ ہی ایک میگزین گولیوں سے پانچ گاڑیوں اور پچاس فوجیوں کی ہلاکت کا دعوا کیا ۔اب یار لوگوں نے دیکھا کہ ٹھوس زمینی اور حقیقی مسائل اور ہمارے منفی اعمال پہ جو یہ تنقیدی عمل جاری ہے اس کو کیسے روکا جائے علاقے کے لوگ تو اصل حقیقت سے چلو پہلے سے معلوم تھے مگر اب تو بیچارے باہر کے بلوچوں پہ اصلیت روز بروز کھل رہی ہے۔ان کے چندے بھی کم ہورے ہیں اور اپنے لوگ بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں اس طرح جاری رہا تو جلد ہمیں کوئی اور روزگار ڈھونڈنا پڑے گا لہذا جب بات گالی گلوچ اور بداخلاقی اور زبان کے معاملے سے نہ بنی تو کوئی اور ہوا کھڑا کیا جائے اور اس طرح کا ماحول بنایا جائے کہ لوگ اصل مسائل کو بھول کر اس ہوا کے پیچھے دوڑیں اس پہ الزام اور صفائی کا سلسلہ شروع ہو جائے جب تک اصل معاملا صاف ہو گا تب تک کوئی اور ہوا گڑ لیں گے اب قوم کہاں پوچھے گی کہ اس وقت کیوں جھوٹ بولا جب دنیا کی سب سے طاقت ور قوم نے عراق پر حملے کے جواز میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور بعد از حملہ ان کی غیر موجودگی اور جواز کے جھوٹ ثابت ہو نے پر گزرتے وقت کے کو ئی سوال نہیں کیا تو یہ ہماری بے چارہ بدحال اور غلام قوم کیا یاد رکھے گی۔کوتلیہ اور میکاولی کی کتابوں سے اتنا تو فائدہ اٹھانا چاہئے۔پہلے دن کے بیان سے تو یہی نظر آیا کہ ہمارے سب سے بڑھے دشمن ملٹی نیشل کمپنیز ہیں ۔یہ ہماری قومی دولت ہڑپنا چاہتی ہیں اور اس کیلئے وہ پیسہ لگا رہی ہیں کہ ان کا اپنا کوئی بندہ بلوچ لیڈر بنے اور پھربلوچستاں آزاد ہو اور وہ اس کے بعد قومی دولت کو لوٹ سکیں۔اب قومی دولت کی حقیقت یہ ہے کہ ساحل اور قومی معدنی وسائل پر ہما را قومی دعوا ہے کہ یہ ہمارے ہیں ا ن پہ صرف ہمارا حق ہے۔ جب زمینی حقائق اس کے بلکل بر عکس ہیں یہ نکالے بھی جا رہے ہیں ،استعمال بھی ہو رہے ہیں اور ان کے سودے بھی لگ رہے ہیں۔اور ہم محض بھڑک بازی کر رہے ہیں۔اب پریکٹیکلی جو چیز ہمارے ہاتھ میں نہیں اور جس پہ ہمیں ذرا بھی اختیار نہیں تو کوئی پاگل ہی ہم سے اس کا سودا کرے گا وہ کیوں اس سے نہیں کرے گا جس کے ہاتھ میں ہیں اور ان کا تکنیکی طور پر مالک ہے۔ اس حال میں قومی وسائل اور ان کے سودے کی بات مخض شیخ چلی کا قصہ ہے۔پہلے بھائی ملٹی نیشنل کمپنیز کے بارے میں پڑھو ان کے طریقہ کار کو سمجھو اگر انہوں کبھی آپ کو اس قابل سمجھا تو سمجھو منزل کے قریب ہے۔اب خوامخوا کیوں اس کمہار کی لڑکی کی طرح بن رہے ہو کہ جس نے بیٹھے بیٹھے اچانک قسم کھائی کہ میں شہزادے سے شادی نہیں کروں گا بھائی اگر کوئی آپ کے پاس آیا اور آپ کی مننتیں کیں تو بلا شک اس کو جواب دو مگرابھی کیوں محلہ سر پہ اٹھایا ہے ابھی ہماری اور آپ کی اوقات اتنی بھی نہیں کہ لوکل کمپنی موبائل ٹاور کیلئے پوچھے ملٹی نیشنل کمپنیز اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری تو دور کی بات ہے۔نہ کوئی آئے گا نہ کوئی پوچھے گا بس اسے وقتی طور پر سنگت کے خلاف ایک پرو پیکنڈہ ٹول بناؤ اور اصل مسائل سے بھاگو۔اس سے ایک بات تو کھل کے سامنے آگئی کہ اب قابض ریاست کے بجائے دشمن نمبر ایک سنگت حیر بیار اور اس دوست ہیں ۔خلیل کا یہ منافقانہ کہنا کہ اپنے حارجہ سیکرٹری اور خلیج سے پارٹی نمائندوں کو سنگت اور دوستوں کے پاس بھیجا تو جناب واقعی یہ صحیح ہے کہ یہ لوگ آئے تھے مگر نہ کسی نے آپ کا نام لیا نہ بی این ایم کا بلکہ ڈاکٹر کے نمائندے بن کر آئے تھے سب زندہ ہیں جا کے پوچھ لووہ ہر قسم کی سمجھوتے کیلئے تیار تھے اگر دوست بی ایل ایف کی مکران اور آواران میں عوام دشمن کاروائیوں پہ خاموشی اختیار کریں جو کہ دوستوں کو گوارہ نہ تھا ۔ آگے جا کہ مزکورہ بیان میں دو اور اصطلاحات کا ذکر تھا جسے دیکھ کر ان کی سیاسی علم و دانش کی گہرائی کا ادراک ہوا کہ ہمارے سیاسی لیڈر شپ کتنی زانتکار ہے۔(بیان۔۔۔۔آج کی دنیا میں Neo-colonialismکے بعد ایک اور اصطلاح Corporatocracy مظلوم و محکوم کیلئے ایک نئی چیلنچ ہے۔)پہلی بات Neo-colonialism کا محکوم اقوام سے کوئی تعلق نہیں اس کا اطلاق آزادی کے بعد ہوگا۔یہ اصطلاح سب سے پہلے گھانا کے صدر Kwame Nkrumah نے ۱۹۶۰ میں استعمال کیا تھا۔ افریقہ کے ملکوں کو آزادی دینے کے باوجود ایسی پالیسیاں اپنائیں گئیں کہ یہ ملک سیاسی،معاشی اورتکنیکی طور پر زیردست رہیں اسی سے یہ اصطلاح مشہور ہوا۔جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم ابھی coloniکی درجے پہ ہیں یعنی محکوم ہیں اور یہی ہمارا درد سر ہے۔دوسری باتCorporatocracyان بڑی Capitalist ریاستوں کیلئے استعمال ہوتا ہے کہ جن کے سیاسی اور معاشی فیصلوں پہ بڑی بڑیCorporat کا اثر ہے جیسے امریکہ ،برطانیہ ،جرمنی ،فرانس وغیرہ ہے۔اب جب یہ طاقیں بڑی بڑی Corporat کے زیر اثر ہیں تو ان خارجہ پالیسیاں بھی انہی کے مفادات کے تابع ہیں، یہ ایک طرح سے ان ممالک کیلئے مسئلہ ہے اور اس کے علاوہ دنیا کیلئے بھی پریشانی کا باعث ہے۔Corporatocracyکا ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں کیونکہ نہ ہمارے پاس ریاست ہے نہ نہی Corporat ۔اور جہاں تک Corporatocracy کے اثرات اور پالیسیوں کا بلواسطہ تعلق ہے وہ اس سے ساری دنیا متاثر ہورہی ہے اسے ہم کیوں اپنا مسئلہ بنائیں اور فلسفہ جاڑیں۔اور اس کا تعلق کب صرف سے محکوموں ہوا اسی کے زیر اثر بہت آزاد ملکوں میں حکومتیں تبدیل ہوئیں ۔جہاں تک دوسرے دن کے بیاں کا تعلق ہے تو اس میں پوری دنیا کا احاطہ ہے نائیجیریا سے لے کر کشمیر تک مگر کیا کہنا چاہ رہے ہیں یا پالیسی کونسی لائن پہ ہے مجھے دس دفعہ پڑنے کے بعد بھی سمجھ نہیں آئی اگر کسی دوست جیسے سنگت اسلم یا سنگت نود کی سمجھ میں کچھ آیا تو براہ مہربانی میری مدد کریں۔مثلاً ایک طرف اسلامی شدت پسندی کی مخالفت تو دوسری طرف عالمی سامراجی طاقتوں کی مخالفت۔اگر کردوں کی داعش کے خلاف مزاحمت کی تعریف تو کرد تو امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں امریکی امداد اور فضائی حملوں کی بدولت ہی وہ مقابلہ کر سکے ورنہ داعش اربیل تک پہنچ گیا تھا۔آج اگر دنیا ان کا ساتھ دی رہی ہے تو ان کی واضح ایک لائن ہے آپ تو سب کے خلاف ہیں وہی پرانی گھسی پٹی کیمیونزم دور سے متاثر بیانات جن کا نہ سر ہے نہ پیر۔ جہاں کوئی نیوز نظر سے گذری اسے بیان کا حصہ بنایا کہ اس پہ بحث ہوئی ہے مطلب لوگوں کو بتانا کہ ہمیں پوری دنیا کی خبر ہے ورنہ سنٹرل کمیٹی تو کیا کابینہ کو قسم دے دو جو کسی کو ان عالمی ایشوز کی سر پیر کی خبر ہو۔کسی سے بیاں لکھوایا اس نے وہی روایتی ہڑتالوں کے بیاں(جیسے یہ ہڑتال،امن و اماں،بے روز گاری،مہنگائی،پولیس،صفائی کے ناقص نظام وغیرہ وغیرہ درجنوں اور چیزیں شامل) کی طرح ایک لمبا چھوڑا ہانک دیا ورنہ اتنے عالمی ایشوز پہ ایک ساتھ بحث تو یو این میں بھی نہیں ہوتی۔مجھے کہتے میں کم سے کم ایسا بیان لکھ دیتا جس سے اتنی جگ ہنسائی نہیں ہوتی دوسری طرف منافقت دیکھو سرمایہ دار عالمی طاقتیں خراب،ملٹی نیشنل کمپنیاں دشمن تو کس لیئے اپنے بندے ان ممالک میں بٹھائے ہیں انہیں کیوبا،چین ،شمالی کوریا ،لاؤس اورویت نام بھیجو کیونکہ اب صرف یہی سوشلسٹ اسٹیٹ بچی ہیں۔ دوسری منافقت کہ بلوچی زبان کے معاملے میں آسمان سر پہ اٹھایا مگر قومی پارٹی کے دعویدار جماعت نے اپنی جھوٹ موٹ کی کاروایاں کیوں بلوچی میں شائع نہیں کی واجہ ناگماں اور دوسرے زباں دوست اب کیوں خاموش ہیں ۔ا گر صرف یہی لوگ اس قومی تحریک کو چلا رہے ہوتے تو ایمانداری سے کہہ رہا ہوں میں اتنی جھوٹ اور بھڑک بازی کے بعد قومی سیاست کو حیر باد کہہ کے ایک چلہ تبلیغ کیلئے نکل جاتا مگر مجھے اطمیناں اور فخر اس بات کا ہے کہ اس قومی پروگرام کے اصل والی وارث یہ نہیں بلکہ ہمارے دوست ہیں جنہیں اپنی کمزوریوں کا علم ہے،جو دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں ایمانداری ہے،جو سیکھ رہے ہیں ۔ایک دن ضرور یہ لوگ قوم کیلئے ایک نئی صبح کی نوید لائیں گے۔