چهارشنبه, اکتوبر 9, 2024
Homeانٹرویوزبلوچ قومی آزادی تحریک بابت بلوچ سکالر واجہ صورت خان مری کا...

بلوچ قومی آزادی تحریک بابت بلوچ سکالر واجہ صورت خان مری کا “ہمگام نیوز” کو انٹرویو

کوئٹہ (ہمگام نیوز ) بلوچ قومی آزادی کی تحریک مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے وطن کے فرزندوں کی بے شمار قربانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے محو سفر ہے. آج جہاں ایک طرف دشمن کی ظلم و جبر میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے وہی ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ریاست کی جانب سےبلوچ نسل کشی ، قتل و غارت گری میں تیزی لاہی گئی ہے تودوسری طرف بلوچ تنظیموں کے آپسی داخلی مسائل اورتنازعات کی وجہ سے بلوچ قوم اعصابی تناؤ کا شکار ہو کر مجموعی سیاست انارکی کاشکار ہوچکی ہے.سیاسی اختلافات اور مسائل کی گھمبیر صورتحال روز بروز الجھتی جارہی ہیں، مسائل کی پیچیدہ شکل کو سامنے رکھتے ہوئے “ہمگام نیوز ” نے موجودہ سیاسی صورتحال اور بلوچ قومی تنظیموں ان کے مابین مسائل پر گہری نظر رکھنے والے دانشور واجہ صورت خان مری کے گراں بہا خیالات کو بلوچ قوم کے سامنے لانا ضروری سمجھا اور واجہ صورت خان مری سے ایک نشست میں انٹرویو کا اہتمام کیا.ہمگام نیوز کی ٹیم نےبلوچ دانشور کی آڈیو انٹرویوکو قومی امانت سمجھ کر ان کی اپنی آواز میں سنانا ضروری سمجھا اس کے بعد بے شمار سیاسی کارکنوں کے اصرار پر آج اس انٹرویو کو تحریر کی شکل میں اپنے قومی فرض سمجھ کر صاف و شفاف انداز میں اپنے قابل احترام قارعین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ , جسم پر قید ہے،
جذبات پہ زنجیریں ہیں،
فکر معبود ہے،
گفتار پہ تعزیریں ہیں،
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں،
زندگی کیا کسی مفلس کی قباء ہے جس میں،
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں،
لیکن اب ظلم کے میعاد کے دن تھوڑے ہیں،
ایک ذرا صبر کے فریاد کے دن تھوڑے ہیں،

مقبوضہ بلوچستان جہاں آزادی کی جنگ بڑی شدت سے لڑی جا رہی ہے دھرتی کی تشنگی کو مٹانے کیلئے بلوچ آزادی پسند اپنے لہو کا نذرانہ سروں کی قربانی دے کر آزاد بلوچستان کا خواب آنکھوں میں سجائے ایک طاقتور دشمن سے جس حد تک لڑ رہے ہیں کیا یہ جنگ ایک آزاد ریاست کی قیام کی ضامن ہو گی؟

بلوچ مسلح تنظیمیں جو بلوچ قومی فوج کی حیثیت سے میدان میں جنگی محاذ سنبھالے ہوئے ہیں کیا یہ قومی فوج کے قالب میں پورا اترتے ہیں؟
اگر نہیں تو مسلح جدوجہد میں اتنے سارے گروہوں کی ضرورت کیا ہے؟
بی ایل اے، بی ایل ایف، بی آر اے، یو بی اے کے درمیان جن اختلافات کی ہوائیں چل رہی ہیں کیا یہ کشمکشِ اختلافات نظریاتی ہیں یا گروہی؟
ان سارے سوالوں پہ تبصرہ ڈالنے کیلئے سنتے ہیں بلوچ دانشور، قلمکار واجہ صورت خان مری کو جنکا انٹرویو ” ہمگام ” کی طرف سے “بانک زرماہ بلوچ” لے رہی ہے .
آئیے سنتے ہیں بلوچ قلمکار، دانشور واجہ صورت خان مری.

بانک زرماہ بلوچ :
آج علاقائی اور عالمی سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کس زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں؟
واجہ صورت خان مری :
کافی حوالہ سے اگر ہم دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں دو قدم پیچھے اور ایک قدم آگے کی کیفیت ہے اسکے کہیں وجوہات ہو سکتے ہیں لمبی چوڑی بات کی گنجائش نہیں ہے مختصراً میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سب سے اہم اور بنیادی وجہ شروع سے بلوچ آزادی کی قومی تحریک میں سیاسی تنظیم کی فقدان ہے جہاں جہاں ریاستی وجود کو چیلنج کیا جاتا ہے تو انارکی اور بدنظمی کی کیفیت پیدا ہونے قومی آزادی تحریک میں نہیں دی جا سکتی اب چونکہ colonist یا قابض ریاست کے وجود کو تو تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن اس کا متبادل نظر نہیں آتا تو وہ متبادل جو ایک ریاست کا ہوتا ہے وہ چاہئیے یہ کہ قومی آزادی کی تنظیم متبادل کے طور پر کام کرے، اب وہ متبادل صرف یہ نہیں ہے کہ جلسے جلوس کرے یا مسلح جدوجہد کرے لیکن وہ تنظیم جو ہے وہ تمام پالیسی ساز ہے اور تمام چھوٹے بڑے ادارے اس پالیسی کے تحت کام کرتے ہیں جو سیاسی تنظیم بنائے اور جو سیاسی تنظیم کہے اب سیاسی تنظیم جو ہے وہ ریاست ہی کا متبادل سمجھا جائے گا تو وہ مسلح جدوجہد ہے یا سیاسی جدوجہد ہے یا باقی ادارے ہیں تنظیمیں ہیں مزدور تنظیم ہے طلباء تنظیم ہے سب کو پالیسی گائیڈ رہنمائی کرتا ہے اور وہ تنظیم ہی ریاستی بھلائی کے کام بھی اس نے کرنا ہے ذرائع ڈھونڈنے ہیں ان ذرائع کا معقول انتظام کرنا ہے اور لوگوں کے جو تربیت ہے سب کی چھوٹے بڑے تک کے بھی تربیت سیاسی تنظیم کا کام ہے اب چونکہ شروع سے ستر سال سے سیاسی تنظیم قومی آزادی کے حوالے سے آگے نہیں بڑھ سکی نتیجہ یہ ہے کہ بادی الِنظر میں انارکی کی کیفیت نظر آتی ہے وہ کیفیت صرف شہری یا سول اداروں یا محدود نہیں ہے اگر ہم مسلح جدوجہد کی طرف بھی دیکھیں تو گروپ در گروپ ہیں اور بدقسمتی سے وہ گروپ آپس میں کشمکش میں ہیں ستر سال گزر گئے اب اس نے ابتدائی طور پر قلات نیشنل پارٹی نے آزادی کی بات کی تقریریں کیں لیکن جب آزادی خان قلات کو نہیں ملی تو وہ منحرف ہو گئے اس انحراف کے بعد انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی یا کوئی اور اس میں بھی شروع میں پابندیاں سخت تھیں تو بلوچ قومی آزادی کی بات ہوتی تھی لیکن جوں ہی حالات ایوب خان نے نرمی پیدا کی تو وہ پھر آئین قانون اور الیکشن اور معاہدے اور مواقع کی تلاش میں لگ گئے اب آج جو کیفیت ہے وہ یقیناً جیسے آپ نے فرمایا کہ کھل کر تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے یا کوشش کی جائے اسٹریٹجی بنائی جائے کوئی دو قدم پیچھے ایک قدم آگے تو گنجائش پالیسی کے لحاظ سے یہ منحصر ہے پالیسی پر کہ جو اس وقت حالات ہیں ان سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے.

بانک زرماہ بلوچ :
دوسرا سوال ہے کہ پرانی تحریروں میں آپ کا یہ موقف رہا ہے کہ کم سے کم مسلح تنظیمیں ہوں تو یہ تحریک کیلئے فائدہ مند ہے لیکن آپ کے اس تحریر کے دوران مسلح تنظیموں کی تعداد زیادہ سے زیادہ تین تھی لیکن اب اگر دیکھا جائے پہلے سے موجود مسلح تنظیموں کو توڑنے اور چھوٹے چھوٹے مسلح گروپ بنانے کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس پر آپکی کیا رائے ہے؟

واجہ صورت خان مری :
میری وہی جیسے میں نے پہلے گزارش کی کہ اصل مسئلہ جو ہے وہ سیاسی منظم تنظیم کا نہ ہونا ہے کوئی کنٹرول نہیں ہے اب سیاسی منظم تنظیم اب جیسے میں نے عرض کیا کہ وہ ریاست کے جو وجود کو چیلنج کیا گیا اس کا وہ متبادل ہوتا ہے تو اسکے پاس پوری طاقت اقتدار اعلیٰ جس کو کہتے ہیں Sovereignty جسے کہتے ہیں وہ اس تنظیم کے پاس ہوتا ہے اب وہ تنظیم جیسے اب وہ ریاستیں آپ دیکھیں پاکستان ہے ہندوستان ہے امریکہ ہے یورپ ہے اس ریاست نے جو مسلح افواج ہے وہ ایک ہے اسکے ونگز ہیں بحریہ ہے ہوائی ہے اور فوج ہے لیکن وہ ایک کنٹرول میں ہے اور چونکہ یہاں جو ہے تنظیم تو ہے ہی نہیں جیسے میں نے کہا کہ بدنظمی اور انارکی کی کیفیت ہے تو ہر ایک نے جو ہے نہ ایک گروپ بنایا ہوا ہے لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے یا جو میرے ملنے والے ہیں ان میں سے کوئی یہ اس کیفیت میں یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ یہ گروپ کیوں بنے ہیں ؟ آپس میں جدا جدا کیوں ہے ؟ تو اس کے جو ہے نا کوئی کسی نے وضاحت نہیں کی ،ہاں ان کے پروپیگنڈسٹ یے وہ اسکے خلاف لکھ رہا وہ اسکے خلاف، آجکل تو اس پر بھی پابندی ہے پہلے تو تھوڑا بہت “توار” آتا تھا اب کہی وقت سے وہ بھی غالباً اس کیفیت میں ہے کہ وہ بھی نہیں چل پا رہا لیکن اگر اس میں بھی آپ دیکھتے یا دوسرے سوشل میڈیا پر آپ دیکھیں بلکل عامیانہ حد تک ایک دوسرے کے خلاف، لہٰذا عوام کو لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ گروپ در گروپ کیوں ہیں ک ؟یا اسکے وجوہات ہیں کچھ پتہ نہیں.

بانک زرماہ بلوچ :
بلوچ قوم کے دانشور شاعر اور ادیبوں نے بلوچستان کی آزادی کی تحریک کا ہر وقت ساتھ دیا اور ہر قوم میں ایسے لوگوں کی حمایت تحریک کی کامیابی کیلئے ضروری ہوتی ہے مگر موجودہ تحریک کو سپورٹ کرنے والے دانشور ادیب اور شاعر تحریک کو اور خاص تحریک میں موجود چند مسلح چند تنظیموں پر سوالات اٹھا رہے ہیں کہ تحریک کے نام پر مسلح تنظیم عوام پر طاقت کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے لوگ تحریک سے بدظن ہو رہے ہیں آپ کا اس حوالے سے موقف کیا ہے کہ آزادی کے نام پر غیر ضروری اور عام لوگوں پر طاقت کے استعمال کے کیا نتائج نکلیں گے؟

واجہ صورت خان مری :
بات وہی، گھوم پھر کر میں وہی آ جاؤنگا کہ منظم سیاسی تنظیم نہیں ہے اگر منظم سیاسی تنظیم ہو تو باقی چھوڑیں اگر آپ فینن کا مطالعہ کریں تو اس نے بھی واضح طور پر کہا کہ جب سیاسی تنظیم شہروں میں پڑھے لکھے آبادیوں میں نکل کر دیہات پہنچ جاتا ہے تو چونکہ لوگ کالونی یا قابض مملکت سے بیزار ہوتے ہیں اور جب قومی آزادی یا انقلاب کی تحریک شہروں میں اچھا نام پیدا کرتا ہے تو لوگوں کی ہمدردیاں ہوتی ہیں اب لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ کر جو آشیاں بردار ہے یہ قابض کالونی کا کالوبریٹر ہے وہ آہستہ آہستہ پہچانا جاتا ہے وہ الگ تھلگ ہوتا چلا جاتا ہے وہ کالوبریٹر اور آشیاں بردار کالونی کے ساتھ مل کر کوشش کرتا ہے کہ انقلاب اور آزادی کی تحریک کو کچلا جا سکے اب آج جو ہم پاکستان میں بڑے دعوے کرتے ہیں امن و امان کی وہ کیا ہے وہی کالوبریٹر کی آشیاں برداری ہے اب چونکہ یہاں وہ تنظیم وجود نہیں رکھتا تو وہ آشیاں بردار کالوبریٹر پنپ رہا ہے لیکن فینن کا کہنا یہ ہے کہ وہ سیاسی تنظیم کی موجودگی میں شہر میں دیہات میں جو کالوبریٹر ہے یا آشیاں بردار ہے وہ پہچانا جاتا ہے وہ الگ تھلگ ہو جاتا ہے وہ کوشش میں لگا رہتا ہے لیکن لوگوں کی ہمدردیاں چونکہ نہیں ہوتیں تو وہ یا تو بھاگ جاتا ہے یا اپنے اعمال کی وجہ سے مارا جاتا ہے اب یہ کیفیت اگر بلوچ میں ہے تو ہم اس کو جو آپ فرما رہی ہیں یہ نہیں ہونا چاہیے اگر وہ کالوبریٹر ہے اور تنظیم کی طرف سے اسکے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو یونہی آپ موجودہ ریاستوں میں بھی دیکھیں تو جو جیسے پاکستان نے انڈیا کا کوئی پکڑا ہوا ہے تو ان کو جو ہے پھانسی دے دیتے ہیں انکو ایلیمینیٹ کر دیتے ہیں تو اب بلوچ جو آپ بات کر رہی ہیں اب اس کیفیت کا مجھے معلوم نہیں ہے کہ کہاں کس نے کس طرح یہ حالات ہوا اور لوگوں میں بددلی ہے تو لوگوں میں کس نے تربیت دی ستر سال میں بلوچ کا میسج اپنے ہی بلوچوں تک نہیں پہنچا ڈیرہ غازی خان لے لیں مظفر گڑھ لے لیں بلوچستان کے ایریاز لے لیں کہاں وہ میسج کس نے پہنچایا نیشنل عوامی پارٹی کو کتنا ووٹ ملا تھا صرف تھوڑی سی ہمدردی کی وجہ سے لیکن اس نے سودا بازی کی چونکہ سیاسی تنظیم سب کچھ ہونا چاہیے اس کے تحت جو ہے بات آگے بڑھتی ہے تو وہ جو ہے کالوبریٹر کو جس انداز میں ختم کرے اپنے ساتھ میں ملائے یا اسے بھگائے یا اسکو ایلیمنیٹ ( تنہا ) کرے.

بانک زرماہ بلوچ :
بلوچ قومی سیاست میں بلوچ نوجوان طالب علموں کا موثر کردار رہا ہے بلوچ طلباء سیاست انارکی کا شکار کیوں اور کیسے کیا گیا اب اسے دوبارہ کیسے فعال کیا جا سکتا ہے؟

واجہ صورت خان مری :
اس پر ہم نے بہت بات کی، بہت بار پریس میں مختلف مضامین آئے میں نے بھی دو تین مرتبہ لکھا اصل میں یہ بلوچ جب طالب علم کی آپ بات کر رہے ہیں جو ابتداء میں ساٹھ کی دہائی سے بھی پہلے میرے خیال میں میرے پاس ایک فوٹو ہے اس وقت میر گل خان نصیر وغیرہ انیس سو سینتیس کا ہے پتہ نہیں کون سے وقت کا ہے تو اس پر بھی لکھا ہوا ہے بلوچ طلباء تنظیم تو اسکی بنیاد بہت پرانی ہے لیکن ساٹھ کے دہائی میں revival ہو گیا تھا اور اس حد تک revival ہو گیا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں طلبہ سیاست میں بلوچ طلبہ اہمیت ہی رکھتے تھے کراچی میں کوئٹہ میں اب جب ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو یہاں سے ہی بنیاد پڑ گئی چونکہ یہاں سے بےچینی ہوئی اسکالرشپ وغیرہ کی بات آگے بڑھتی چلی گئی اور جب کراچی میں طلبہ کو نکالا گیا تھا معراج محمد خان وغیرہ کو تو ان کی مہمان داری کوئٹہ میں بلوچ طلبہ نے کی تھی تو وہ بلوچ طلبہ اتنے مضبوط ہو گئے تھے کہ ہمارے جو منحرف سیاستدان تھے وہ گھبرا اٹھے وہ پریکٹیکلی گھبرا اٹھے اور یہ ریکارڈ پر موجود ہے آج بھی ہر جگہ کہ باقاعدہ طور پر فیصلہ کرکے بلوچ طلبہ پر قبضہ کیا گیا وہ اب لمبی کہانی ہے جو ہم لکھ چکے ہیں بحث ہو چکا ہے اب اسکے بعد پھر وہی منحرف موقع پرست مفاد پرست جو آئین اور قانون کی بات کرکے الیکشن لڑتے رہے اور دوسرے وہ اثرات طلبہ میں چلے آئے طلبہ نے بھی ان کے دیکھا دیکھی ان کی پیروی کی پھر ان سیاست دانوں نے اپنے گروپ بنائے نیشنل پارٹی نے اپنا بنایا پیپلزپارٹی نے اپنا بنایا اے این پی نے اپنا بنایا ہر ایک نے اپنا بنایا پھر نتیجہ یہ ہوا کہ طلبہ بھی ان کے پیروی میں چلے گئے اور وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو سیاستدان اور سیاسی تنظیمیں کر رہی ہیں آج تک، جب ایک موقع پر اپنے آپکو کچھ نمایا کرنا ہے نام پیدا کرنا ہے تو بلوچ آزادی کا نام لیا جاتا ہے جب موقع ملتا ہے تو آئین اور پاکستان کے قانون کے تحت الیکشن لڑا جاتا ہے پھر ضلعی تنظیم کا جو ہے نا وہ لیا جاتا ہے.

بانک زرماہ بلوچ :
اپریل کو دی بلوچستان پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو میں آپ نے یہ تاثر دیا کہ بی ایل اے اور یو بی اے کے اختلافات اس حد تک ہوئے کہ بہت سی مسلح جھڑپیں ہوئیں لیکن بعد میں ایک بیان میں یہ کہا گیا کہ دونوں کا رازی نامہ ہو گیا ہے بی ایل اے کی طرف سے ایسا کوئی بیان ہماری نظروں سے نہیں گزرا البتہ بی ایل اے کے ہائی کمان نے دسمبر دو ہزار سترہ کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے اپنے دو کمانڈر اسلم اور بشیر زیب کو معطل کیا دو بی ایل اے کے معطل شدہ ارکان جن لوگوں نے بی ایل ایف سے مل کر بی ایل اے کا نام استعمال کرتے ہوئے ان دونوں ارکان کی طرف سے یو بی اے سے رضامندی کا اعلان کیا. اور بہت سے جگہ ان معطل شدہ افراد کی حمایت براہ راست بی ایل ایف کے ترجمان کی طرف سے کی گئی بی ایل اے کے لیڈرشپ کی وضاحت اور بیانات کے باوجود معطل کردہ افراد تنظیمی ساخت کو جھوٹے بیانات کے ذریعہ نقصان دے رہے ہیں اور عوام سمیت آپ جیسے دانشور کے درمیان بی ایل اے کے حوالے سے غلط فہمی پیدا کی جا رہی ہے اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ دنیا میں تنظیمی حوالے سے اس طرح کے معاملات کو کس طرح ڈیل کیا گیا ؟

واجہ صورت خان مری:
اس پوچھے گئے سوال سے یوں لگتا ہے کہ میرے اظہار جو میں نے کہا کہ بی ایل اے یو بی اے کے درمیان صلح ہو گئی اسکو برا مانا گیا اور اس بات کو پسند نہیں کیا گیا کہ میں نے یہ کیوں کہا تو گزارش یہ ہے کہ ذاتی طور پر میرا برائے راست بی ایل اے یا یو بی اے سے کوئی رابطہ نہیں ہے چنانچہ بااعتبار باخبر فرد یا ذرائع سے مجھے یوں بتایا گیا کہ خاص کر کوہستان مری میں بنیاد جو دو تنظیمیں کشمکش رکھتے تھے اس کشمکش میں اچھے بھلے نامور کمانڈر قتل کیے گئے تو یہ بات سن کر یعقینا مجھے نہ صرف مجھے بلکہ جس جس بلوچ نے سنا اسکو خوشی ہوئی اب آپ یہ دیکھیں کہ کوہستان مری جس کو کہتے ہیں تاریخی طور پر انگریز سے لے کر دو ہزار دس تک وہ ایک مزاحمت یا تحریک کا مرکز کی حیثیت بنیادی مرکز میں سے ایک اہم مقام تھا لیکن آہستہ آہستہ اب اس حوالے سے جو وہاں بی ایل اے نے دو ہزار میں اظہار کیا وہ باہر نکلا تو دنیا جہان کے مختلف رائٹرز کے مضامین آئے حوالے آئے ڈسکشن آئے کہ اب بی ایل اے ایک گروہ نہیں ہے وہ سائینٹفک تنظیم کی حیثیت رکھتا ہے اور دلچسپ یہ ہے کہ اس ستر کی دہائی سے لیکر آگے تک بی ایل اے یا بلوچ قومی آزادی کی تحریک نے اتنا اپنا ساکھ رکھا تھا کہ اردگرد کے جو لوگوں کے دوسرے اقوام کے بھی چاہے وہ سندھی تھے یا کوئی اور تھے ان کے اگر جھگڑے ہوتے تو وہ اپنے علاقے کے معتبرین کو چھوڑ کر پہاڑ پر جاتے بی ایل اے سے فیصلہ مانگتے اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اس پر وہ قائم رہتے اچھا جب قحطِ پڑا تھا شدید قحط پڑا تھا تو بی ایل اے نے اپنے reserved میں سے جو ہے غلہ وغیرہ لوگوں کو سپلائی کرنا شروع کر دیا تھا پھر چنانچہ میں یاد دہانی کراتا ہوں کہ دو ہزار چار کو جب مشرف پر کوہلو میں حملہ ہوا تھا تو یہ مانی ہوئی بات ہے کہ آپریشن کا پہلے فیصلہ ہوا تھا لیکن ایک بہانہ بنایا گیا تھا تو غالباً سترہ یا اٹھارہ تاریخ کو ایک آرٹیکل میں نے لکھا اس آپریشن کے حوالے سے میں نے لکھا تھا کہ کوہستان مری میں ان کو آپریشن کے دوران کچھ نہیں ملے گا البتہ بگٹی ایریا کا ہم کہہ نہیں سکتے کیونکہ بی ایل اے یا کوہستان مری کو مزاحمت کا بہت تجربہ تھا لیکن یو بی اے اور بی ایل اے کے چپقلش کے بعد پہلے تو سرکاری الیکشن میں بڑے بڑوں کو ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہاں سے الیکشن contest کرتے لیکن اس دفعہ کے الیکشن میں کاہان تک میں خواتین اور مرد سب گئے تھے ایجنٹ کی حیثیت سے، اب اگر ایسے حالت ہو اور جب یہ بات سامنے آ جائے کہ جی ان میں صلح ہو رہی ہے تو یقیناً خوشی کا مقام ہو سکتا ہے لیکن ہم یا میں کم از کم یہ نہیں کہہ سکتا کہ یو بی اے کا وجود کیوں ہوا بی ایل اے کے خلاف کیا وجوہات تھے کہ نواب خیر بخش مری کی زندگی میں،اب اور چھوڑیں جی نواب خیر بخش مری کی زندگی میں انگریز کے زمانے سے لیکر انکی زندگی تک تمام حکومتوں نے تمام سرکاروں نے تمام ریاستوں میں پوری طاقت کرکے سبی، ماوند، کوہلو، رکھنی روڑ نہیں بنا سکے پوری قوت لگا کر راجہ احمد خان نے دوسروں نے فوج نے کچھ اور میرے خیال میں اگر کچھ بھی حالت ہوتی تو نواب اپنی ذاتی طور پر وہاں جاتے آپکو شاید معلوم نہیں ہے کہ جب آر سی ڈی آئی وے بنایا جا رہا تھا کراچی، خضدار کوئٹہ وغیرہ کا تو بلوچ بڑوں کا یہ خیال تھا کہ اسکو نہیں بننا چاہیے اگر یہ روڑ بن گیا تو اس علاقے میں مزاحمت کمزور یا ختم ہو سکتا ہے اسی کے بنا پر سردار عطاء اللہ سے تھوڑی سی ناراضگی ہو گئی تھی کہ جی اسکو بنانے نہیں دینا چاہیے کیونکہ جب کالونی یا قابض یہ روڑ بناتے ہیں کمیونیکیشن بڑھاتے ہیں انگریز کو دیکھیں اس نے جو ہے نہ ریلوے افغانستان کے سرحد ایران کے سرحد تک پہنچایا تھا کس لیے اب وہ جو سبی، ماوند، کوہلو اور رکھنی روڑ ہے دن رات اس پر ٹریفک ہے وجہ یہی ہے آپس کی کشمکش اور چپقلش کی وجہ سے کمزور ہو گئے یا اجازت دے دی میں نہیں کہہ سکتا جیسے میں نے گزارش کی کہ یہ دو آرگنائزیشن بنے کیوں، کوئی تو بتائے بی ایل اے بتائے کہ وہ کیوں اس سے الگ ہوئے یو بی اے بتائے اب یو بی اے میں آپکو بھی پتہ ہے مجھے بھی پتہ ہے کہ واجہ بنگلزئی اسکی پوری زندگی قربان کی اسی مسلح جدوجہد میں، وہ انکے ساتھ کیوں چلا گیا؟ آیا یہ کوئی بالادستی کی کشمکش ہے یا نظریاتی ہے اگر نظریاتی ہے تو اس نظریاتی کو عام الفاظ میں civil war کا نام دیا جاتا ہے اگر نظریاتی ہے تو شاید آپ نے نہیں دیکھا ہوگا سماء ٹیلیویژن کا یہاں ایک ابتدا میں ڈسکشن تھا تو وہ تاج حیدر پیپلزپارٹی کے بڑے پڑھے لکھے ہیں تو دوسرے سارے بھی پڑھے لکھے آئے تھے تو ڈسکشن میں، میں نے موقف اختیار کیا کہ بلوچستان میں بلوچ کا قومی مسئلہ آزادی کا ہے تو immediately تاج حیدر نے کہا کہ جی اگر بلوچ آزاد ہو گیا تو سول وار civil war کھڑا ہو گا تو میرا کہنا تھا کہ کون کم بخت civil war کی مخالفت کرتا ہے ؟ سول وار کی مخالفت کا مطلب انقلاب کا راستہ روکنا ہے اگر ایسی بات ہے کہ یہ نظریاتی ہے یو بی اے یا بی ایل اے کا، بھی یہ مقام نہیں ہے یہ موقع نہیں ہے یہ وقت نہیں ہے.

بانک زرماہ بلوچ :
سوال ہے کہ آپ نے بلوچستان پوسٹ کو اپنے دو انٹرویو دئیے ایک دو ہزار سترہ کو جہاں آپ کہتے ہیں کہ بادی النظر میں ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف یا بی این ایم یا بی این ایف کی بلوچ قومی آزادی عوامی جمہوری ایجنڈا کی معروضی وابستگی اور تنظیمی ڈھانچہ واضح ہے مگر پھر آپ اپنے بلوچستان پوسٹ میں دو ہزار اٹھارہ کو شائع ہونے والے انٹرویو میں کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ڈاکٹر اللہ نظر کے تنظیم کی کنٹرول کسی فرد یا گروپ کے ہاتھ میں ہے ؟ بلوچستان پوسٹ کے دونوں انٹرویو میں فقط آٹھ مہینے کا فرق ہے جس میں آپ کا موقف اس حد تک پر تضاد کیوں ہے؟

واجہ صورت خان مری :
سوال پوچھے جانے یا بنانے والے نے دونوں انٹرویوز کے حوالے نہیں دیکھے کہ پہلے انٹرویو میں جو میں نے کہا وہ کس حوالے سے تھا دوسرے میں کس حوالے سے تھا پہلے کا حوالہ کچھ اور تھا میرا جواب یہ نہیں تھا جو اب پوچھا جا رہا ہے وہ question تھا بیرون ملک اور ملکی سطح کی، تو میرا کہنا یہ تھا کہ اس وقت کچھ مسلح جدوجہد کی لیڈر شپ بیرون ملک میں ہے جو سیکورٹی کے لحاظ سے محفوظ ہے اور دوسرے شہری آسائشیں موجود ہیں اس کے مقابلے میں اللہ نظر برسرِ زمین ہے وہ اتنا secure نہیں ہے آپکو بھی پتہ ہے مجھے بھی پتہ ہے کہ ایک دو مرتبہ یہ بات چلائی گئی تھی باقاعدہ طور پر چلائی گئی تھی سرکاری طور پر کہ اسکو قتل کیا گیا تو اس حوالے سے البتہ میں تو ہمیشہ سے یہ کہتا رہا کہ اللہ نظر بنیادی طور پر جب طالب علم تھا یا کچھ دیر وہ بی ایل اے کا پیداوار ہے لیکن بی ایل اے سے ہٹ کر بی ایل ایف کیسے گیا ؟ یہ تو میں کہتا رہا اب یہ questions اور یہ answers یہ الگ الگ مقام پر الگ الگ زاویے سے دیکھا جانا چاہیے ان کو گڈمڈ کرکے نہیں کہا جاسکتا ہاں پروپیگنڈہ ہو سکتا ہے کہ آپ پروپیگنڈے میں ایک حوالہ دے دیں تو اس حوالے سے میں نے یہ کہا تھا پھر گروپ بندی کی بات آئی تھی ایک اور مقام پر ایک اور question میں کہ جی یہ گروپ بندیاں کیوں ہیں تو اس گروپ بندی کے حوالے سے میں نے کہا کسی نے آج تک کچھ بتایا نہیں جیسے اب بھی میں کہہ رہا تھا کہ بی ایل اے اور یو بی اے تک کہ کشمکش کا کسی کو پتہ نہیں ہے کہ کیوں ہے نظریاتی ہے بالادستی کا ہے ذاتی ہے کیا ہے دونوں کے سربراہ کہتے ہیں کہ بھائی ہیں یو بی اے کے اور، کچھ لوگوں کوتو اعتماد میں، اب چونکہ تنظیم ہی وجود نہیں رکھتا تھا سیاسی تنظیم تو ایک انارکی ہے نا تو وہ اس گروپ بندی کے حوالے سے میں نے ایک تحقیق جو افغانستان میں ہوا تھا اس کا حوالہ دیا کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جو جہادی گروپ تھے ان میں غالباً سات سنّی گروپ تھے سات آٹھ شیعہ گروپ تھے اب وہ تحقیق کی کتاب موجود ہے میرے پاس بھی ہے اس تحقیق میں انھوں نے ایک ایک کمانڈر کا نام لکھ کر یہ بتایا کہ اس کے ساتھ اتنے مسلح دستے ہیں انکی یہ تعداد ہے اور انکا فلانا سرپرست ہے سعودی عربیہ ہے ایم آئی ہے آئی ایس آئی ہے پاکستان ہے اور مولانا ہیں کون ہیں سب کا یعنی چودہ کے پندرہ کے سب کے سامنے دیے کہ یہاں سے باقاعدہ انھیں فنانس ہوتا ہے تو میں نے یہ کہا کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے جو ہے یہ گروپ بندیاں سرپرستی کے تلاش میں ہیں یا کوئی نظریاتی ہے کسی کو کچھ تو بتایا جائے، اب ان دو تین سوالات کے انٹرویوز کے جوابات کو اکٹھے کرکے ان میں جو ہے تضاد کی تلاش کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ الگ حوالے تھے الگ question تھے الگ جوابات تھے تو میرا اب بھی وہی ہے کہ یہ جو سیاسی منظم تنظیم کی جو غیر موجودگی میں یہ انارکی ہے طلباء میں ہے مزدوروں میں ہے مسلح دستوں میں ہے سب میں ہے لیکن اگر وہ جیسے جہادیوں کا تھا سرپرستی کی تلاش میں تو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آپ نے اپنے question میں ایران اور پاکستان کے حوالے دیئے تو نہیں کہا جا سکتا لیکن میرے جو یہ آپ نے دو تین سوال اکٹھے کیے یہ مختلف حوالوں سے مختلف موقع پر مختلف بات کے گڈمڈ کیا گیا .

بانک زرماہ بلوچ :
سر میرا آخری سوال یہ ہے کہ بلوچ مسلح تنظیم میں عورت کا کوئی مطلب بلوچ فیمیل کا اس میں participation نہیں ہے جیسے کردوں کا ہے ان کی شاید مردوں سے زیادہ عورتوں کی تعداد ہے لیکن بلوچ کی عورت اتنی آزاد نہیں ہے کہ وہ اپنی سرزمین کیلئے لڑے اس پر کیا کہیں گے؟

واجہ صورت خان مری :
اس میں دیکھیں دو باتیں ہیں ایک یہ ہے کہ آیا بلوچ عوام جس میں مرد خواتین طالب علم سب ان کی کتنی تربیت ہوئی ہے کیا کوئی سیاسی منظم تنظیم ہے جو سب کی تربیت کرے جو مرد کی بھی تربیت کرے دیکھیں سیاسی تنظیم میں سب برابر ہوتے ہیں اس میں ضروری تو نہیں ہے کہ خواتین نہ آئے یا مرد نہ آئے پھر جب انارکی کی کیفیت ہے تو اس میں بھی depend کرتا ہے کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں میری ذات جب ذاتی حیثیت اس وقت تو ذاتی حیثیت ہے پھر اس ذاتی حیثیت میں خواتین بھی اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں مرد بھی اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں تو کسی نے نہ مرد کو روکا ہے اور نہ خواتین کو روکا ہے اگر کسی چیز کو روکا گیا ہے ، روکا گیا ہے تو وہ منظم سیاسی تنظیم کو، میں تو یہ کہتا ہوں شعوری طور پر روز اول سے روکا گیا ہے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں اگر سیاسی تنظیم ہوگا اس کا ممبر طالب علم، اب آپ دیکھیں بلوچ خواتین طالب علموں کو کس نے روکا میڈیکل میں میرے خیال میں پچھلے سال یا کب خواتین کی تعداد زیادہ تھی سیٹوں میں بلوچوں میں مکران میں کہی ہوا تھا لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ سیٹیں لے گئیں تو کسی نے روکا یا جو روزگار کے مواقع حاصل کر رہی ہیں کس نے روکا، اب یونیورسٹی میں جب بلوچ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں کسی نے روکا تو نہیں روکنے والے بھی ہیں جیسے الیکشن میں فرنٹیر میں روکتے ہیں روکنے والے بھی ہیں ہر طرح کے ہیں تو مردوں میں بھی ہیں خواتین کو بھی ہے پسماندگی ہے پسپائی بھی ہے اور مزاحمت بھی ہے آگے بڑھنے کا لیکن بلوچ کی جو خواتین کا جو مقام یا جو روایت یا تاریخ ہے وہ تو مزاحمت کا ہے جو ہمارا میتالوجی بلوچ کا ہے چاہے سیمک کا ہے ماہناز کا ہے حانی کا ہے جس، جس کا بھی آپ دیکھیں تو ہمارے میتالوجی میں بلوچ خواتین کا مقام مزاحمت کا ہے لیکن آج کل کے جو پیشے ہیں جو بلوچ مردوں کے بھی پیدا گیری کے آرگنائزیشن ہے تو خواتین کے بھی نعرے لگتے ہیں سمّو راج ہے پتہ نہیں کیا فلانا ہے فلانا ہے تو یہ اپنا نام کرنے اپنا کچھ بٹورنے، اس حوالے سے تو ہوتا ہے تو اس میں جو ہے depend کرتا ہے کہ خود ہمارا جو مرد ہے یا سیاستدان ہے یا خواتین ہے وہ کیسے ری ایکٹ کرتا ہے آیا وہ پاکستانی اسلام کی پیروکاری میں جو ہے نا عجیب و غریب پردہ شروع کیا ہے وہ کرتا ہے یا بلوچ کا جو روایت ہے خواتین کا، وہ تو اکیلے بھیڑ بکریاں بھی چراتی ہیں اسلام میں ہے کہ جو خواتین جنگوں میں زخمیوں کو میدان جنگ سے اٹھا کر لے جاتے، نہ اسلام نے خواتین کو اتنا مجبور کیا نہ بلوچ کا بلکل تو نہیں اور ہے یعنی عجیب و غریب ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جس میں میتالوجی یا اس کا نشان جو ہے وہ مزاحمت کا ہے. ( زرماہ بلوچ: لیکن سر جو اسلام اب بلوچستان میں موجود ہے میں خود جو جمعہ کے دن مسجدوں میں جو خطبہ ہوتا ہے اس میں زیادہ تر ٹاپک عورتوں پر ہوتا ہے اور یہی ہوتا ہے کہ اس نے دوپٹہ ایسے پہننا ہے آواز نہیں نکالنی ہے باہر نہیں نکلنا ہے.
واجہ صورت خان مری : میں نے خود ابھی جو ہے وہ خطبے وغیرہ بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکروں میں ایسے واہیات فقرے سنے ہے اس کوئٹہ میں اس کمرے میں بیٹھ کر کہ ملا جو ہے جنت کا تصور بتا رہا تھا اپنے لوگوں کو( زرماہ:وہ فیملی والے نہیں سن سکتے ) نہیں سن سکتے کوئی بھی نہیں سن سکتا، ایسے جو ہے نا وہ تقریر کر رہا ہے لاؤڈ اسپیکر پر اب آپ کیا کہہ سکتے ہیں؟ اب آپ دیکھے نا یہ بھی ایک پلان ہے اس کا بھی ری ایکشن ہے دیکھے ہر ایکشن کا ری ایکشن تو لیکن ہمیں جو ہے نہ بلوچ کی بدقسمتی میں سمجھتا ہوں سیاست ہے یا مسلح جدوجہد ہے یا خواتین ہے ہم پاکستانی میڈیا یا پروپیگنڈہ سے بہت متاثر ہیں اب یہ جو میں نے کہا بلوچ کا پردے کا ایک شروع کیا ہوا، میں نے خود ایک جگہ ہم بیٹھے ہوئے تھے تو ایک ڈاکٹر ایم بی بی ایس اور ایف سی پی ایس پتہ نہیں کیا آئی تھی اس نے وہ عجیب و غریب جو ہے نا نقاب کیا ہوا تھا اور جب چائے آ گیا تو بلکل ہاتھی جیسا ہو گیا کیوں وہ جو چادر ہے اسکو اوپر کرکے ادھر سے( قہقہہ لگا کر ). یہ تو مضحکہ خیزی ہے نہ، اب یہ نا بلوچ کا ہے اور نہ اسلام کا ہے لیکن اب ہم بلوچ نے اپنایا ہوا ہے.https://soundcloud.com/user-341082151/qdynjlxmungy

یہ بھی پڑھیں

فیچرز