بلوچ قوم دوست رہنما اور فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیار مری کا دفاعی تجزیہ کار گوروؤ آریا کے ساتھ گفتگو تحریری صورت میں ہمگام قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ تحریر و ترتیب: وارث بلوچ تفصیلی ملاحظہ فرمائیں۔

میجر گوروو آریا: دوستو، جئے ہند، ڈیفنس آفنس میں آپ سب کا سواگت ہے، سر ہم آپ کو اپنے پروگرام میں پر جوش انداز میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ آج ہمارے ساتھ جو شخصیت ہیں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، حیربیار مری اس وقت ہمارے ساتھ ہیں، لوگ انہیں بلوچستان کی آواز مانتے ہیں یہ دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ حیربیار مری بلوچستان کی آواز دنیا بھر میں لوگوں کے سامنے اٹھاتے رہتے ہیں۔بلوچستان کی تاریخ نو ہزار سال پرانی ہے جو مہر گڑھ سیولائزیشن سے جڑی ہے جو ہندوستان کی سویلائزیشن سے بھی کافی پرانی تاریخ رکھتی ہے۔ بلوچستان میں قوم پرستی کی لہر بہت پرانی ہے، میں آج اس بہت پرانی اور تارییخی بلوچ سیولائزیشن کے سفیر اور نمائندے سے آپ کو ملانے جارہا ہوں۔ حیر بیار مری ایک بار پھرآپ کا بہت بہت سواگت ہے۔

حیربیار مری: آپ کا شکریہ

میجر گوروو آریا؛  حیربیار صاحب، اس وقت بلوچستان کے، سیاسی، معاشی  حالات کیا ہیں، ہم آئے روز ویڈیوز، رپورٹس دیکھتے ہیں، کافی اتھل پتھل جاری ہے، لوگ بڑے پریشان ہیں، آپ بتائیں بلوچستان کے حالات کی سچائی کیا ہے؟

حیربیار مری: جی بلوچستان میں ستر سالوں سے جب سے پاکستانی قبضہ گیریت شروع ہوئی اس وقت سے اب تک دگرگوں حالات ہیں۔  وہاں پہ تباہی ہے، بلوچوں کو مارا جارہا ہے، ان کے وسائل کو لوٹنے کی خاطر، بلوچ کو اپنے وسائل سے محروم کیا گیا ہے، آج حالات یہاں تک پہنچےہیں کہ بلوچ اپنے لئے بات ہی نہیں کرسکتے، اپنی سرزمین پہ پرایو ں کی طرح بیٹھے ہیں،بلوچوں کو اپنی سرزمین پر اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کیا گیا ہے جبکہ ہماری سرزمین کے وسائل سے پورا پنجاب آباد ہورہا ہے، پاکستان نے بلوچستان کو چائنا کے حوالے کر رکھا ہے، بلوچ کے خلاف پاکستان نے، فوجی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اب معاشی دہشت گردی بھی شروع کررکھی ہے۔

بلوچستان کی تاریخ بہت پرانی ہے، دنیا کے نقشے کو اگر دیکھا جائے تو جب برطانیہ ہندوستان پر قابض نہیں تھا تب بھی بلوچستان جنوبی ایشا میں سولہویں اور سترہویں صدی سے دنیا کے نقشے پر اپنا وجود رکھتا تھا۔بلوچ اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے کام کررہے ہیں۔ خود مختار ریاست کی حیثیت سے ہمارے برطانیہ کے ساتھ رشتے تھے، خان آف قلات  کوآزاد بلوچستان کے حکمران کے طور پر ٹائٹلز بھی دئے گئے  ہمارے (بلوچستان) برطانیہ کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سفارتی تعلقات تھے۔

پاکستان کا خان آف قلات احمد یار خان کے ساتھ مبینہ معاہدے پر بات کرتے ہوئے بلوچ رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان کہتا ہے کہ خان آف قلات احمد یار خان نے پاکستان میں  شامل ہونے کےلئے معاہدے پر دستخط کردئے تھے جس کی روح سے بلوچستان پاکستان کا حصہ بنا۔ حیربیار نے اس بات کو لغو اور بے معنی قرار دیتے ہوئے تفصیلات بتائیں کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایکسیشن ٹریٹی، دو پنو پر مشتتمل ایک دستاویز، جس پر کچھ الفاظ لکھے ہوئے ہیں، جس کے مطابق دو ملک ایک ساتھ یونین میں آرہے ہیں، دو ملکوں کا ساتھ میں آنے کے اس معاہدے کو صرف  دو صفحوں پر تحریر کیا گیا، اس دستاویز پر اگر باریک بینی سے غور کیا جائے تو اس میں خان آف قلات، اور محمد علی جناح کے دستخط نظر آئیں گے۔ ان دونوں کے دستخط کی تاریخ میں تضاد ہے، خان آف قلات نے 27 مارچ کو دستخط کئے، اور محمد علی جناح نے 30مارچ کو اس دستاویز پر دستخط کئے، اس کے علاوہ دوسرا تضاد یہ ہے کہ خان آف قلات ڈھاڈر (ضلع سبی) میں تھا اور جناح کراچی میں بیٹھا تھا۔

اگر شادی کہیں  یا یونین میں دو ملک آرہے ہیں تو ان کے دستخط کنندگان کو ساتھ میں ہونا چاہیے تھا، مختلف جگہوں پہ، مختلف تاریخوں میں دستخط ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ خان قلات کے خلاف فورس استعمال کیا گیا اور بلوچستان پر قبضہ ہوا ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر دو ملک آپس میں انضمام کررہے تھے تو کس ملک کے سفیر نے اس معاہدےکی تقریب میں شرکت کی؟ کس کے نمائندے کو مدعو کیا گیا، کون گواہ کے طور پر شامل کیا گیا؟ان سوالات کا جواب صفر ہے، کیونکہ کوئی بھی ملک کا نمائندہ اس معاہدے کے دوران نہ مدعو کیا گیا تھا، نہ اس دن کوئی سیلیبریشن ہوئی نہ کسی ملک نے اس معاہدے میں سرکاری طور پر شرکت کی۔ صاف نظر آرہا ہے کہ خان آف قلات نے بخوشی اس معاہدے پر دستخط  نہیں کئے تھے، بلوچستان پر فوج کشی ہوئی اور ہماری سرزمین پر قبضہ کیا گیا۔

اس معاہدے کو فضول قرار دیتے ہوئے بلوچ رہنما نے دلچسپ مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کل اگر کوئی اپنے گھر کو کرائے پر دیتا ہے یا دو جوڑوں کے مابین شادی ہوتی ہے تب بھی دو گواہاں موجود ہونا لازمی ہیں اور دونوں فریقین کے مابین گواہ کا حاضر ہونا ضروری ہے، خان قلات اور محمد علی جناح کے مابین معاہدہ شادی کی سرٹیفیکٹ اور مکان کرائے کی سرٹیفیکٹ کی تعریف پر بھی پورا نہیں اترتا۔

میجر گوروو آریا: حیربیار صاحب میں نے کچھ بلوچ دوستوں سے بات کی ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ خان قلات اور جناح کے مابین جو معاہدہ ہوا تھا وہ اس معاہدے کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ بلوچوں کے ساتھ ایک دھوکہ تھا۔ میں دوسرے سوال پر آتا ہوں، بلوچستان کی آزادی کیلئے سرگرم سینئر ترین لیڈر شپ جن کا آپ کے خاندان اور بگٹی قبیلے سے بھی تعلق تھا ان کو پاکستانی فوج نے مار دیا ہے، یہ لوگ بڑی ہستیاں تھیں، ایسا کیسے ہوا کہ پاکستان آپ کے اعلیٰ ترین لوگوں کوکھلے عام مار کر  راستے سے ہٹاتا ہے؟

حیربیار مری: دیکھئے، اس معاملے پر میں اپنے پڑوسی ممالک اور اقوام متحدہ یورپی یونین اور عالمی برادری کو اس کا (بلوچوں کے قتل عام) کا ذمہ دار ٹہراتا ہوں، انہوں نے پاکستان کو ہماری قتل عام پر کھلی چھوٹ دے رکھی ہے،  پاکستان نے  تین ملین بنگالیوں کی نسل کشی کی، ان کی لاکھوں کی تعداد میں  عورتوں کی عصمت دریاں کیں گئیں، آج تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ایک بھی قرارداد نہیں لائی گئی، تیس لاکھ  بنگالیوں کے قتل عام پرپاکستان سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔ پاکستان برطانیہ اور عالمی برادری کا پالتو ہے اسی لئے وہ ان کے خلاف اقدامات نہیں اٹھا پاتے،اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہمسایہملک ہندوستان نے بھی آج تک ہمارے اوپر مظالم پر آواز نہیں اٹھائی، ہندوستان آج بھی ہمیں پاکستان کا ایک صوبہ سمجھتا ہے۔ ہندوستان کی سیاسی قیادت اور دانشوران بھی پاکستانی پروپگنڈہ سے متاثر ہوکر ہمیں صوبہ کہتے ہیں

ہندوستان نے پاکستانی پروپگنڈے سے ہٹ کر یہ موقف نہیں اپنایا کہ بلوچستان ایک خود مختار ریاست تھی، اور اس پر قبضہ ہوا ہے، اب ھم  ایک مقبوضہ خطہ ہیں۔ پاکستان تو ایک قابض ریاست ہے، ہندوستانی سیاسی قیادت اوربیوروکریسی کو چاہیے تھا کہ  وہ نیوٹرلیٹی اختیار کرتے ہوئے ہمیں مقبوضہ خطہ سمجھ کر ہماری آواز بنتے۔اگر  ہم ہندوستان کا حصہ ہوتے اور پاکستان ہماری سرزمین پر دعویٰ کرتا تو پھر ہمیں برٹش بلوچستان کیوں کہا جاتا تھا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک الگ ریاست تھے، ہندوستان ایک الگ ریاست تھی، ہمیں برٹش بلوچستان جبکہ ہندوستان کو برٹش انڈیا کہا جاتا تھا جس میں پاکستان کا صوبہ پنجاب اور سندھ صوبہ جات بھی شامل تھے۔

بلوچستان کی تاریخ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے بلوچ رہنما کا کہناتھا کہ پاکستان پروپگنڈہ کرتا ہے کہ بلوچستان کے تین ریاستوں (خاران، مکران اور لسبیلہ) نے پاکستان میں الحاق کیا تھا، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کل اگر چین، یا جرمنی مثال کے طور پر اٹھ کر ہندوستانی ریاست یا اضلاع، ہریانہ، امبالا، پنجاب کے جلندر سے کہے کہ انہوں نے چین یا جرمنی میں شمولیت اختیار کی اور وہاں کی ریاستی لیڈر شپ بھی کہے کہ ہاں ہم نے الحاق کی ہے تو کیا ہندوستان بحیثیت ملک اپنی ریاستوں کو دوسرے ملک میں شمولیت کی اجازت دیگا؟ بالکل نہیں دیگا، ہمارے خلاف پاکستان نے یہی گیم کھیلاتھا۔ جناح آیا، بلوچستان کے مذکورہ تینوں اضلاع (لسبیلا، خاران اورمکران) کو اسٹیٹ یعنی ریاست  کا نام دیا، الفاظ کی ھیرپیر کی گئی کہ بلوچستان کے ان تینوں ملکوں یا ریاستوں نے پاکستان میں شمولیت کرلی۔ اصل حقیقیت یہ ہے کہ یہ تینوں کوئی ملک نہیں بلکہ بلوچستان کے اضلاح تھے، اور مکران کا گورنر یا والی پرنس آغا عبدالکریم تھے بد قسمتی سے ہندوستان کے کچھ سیاست دان اور دانشوران بھی پاکستان کے اس بیانیئے کا شکار ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔

میجرگوروو آریا: حیربیار صاحب جیسے آپ کو ہندوستان کے دانشوروں سے کوئی امید نہیں ہے، اسی طرح مجھے بھی ان سے کوئی امید نہیں ہے، ان کا تقسیم ہند سے پہلے والی  پاکستان کے ساتھ رومانوی  لگاو اب بھی قائم ہے، جو کہ غط ہے ایک فطور ہے لیکن ان کے دماغ میں اب بھی ایک چیز ہے کہ ہم لاہور میں رہتے تھے، مجھے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کس طرح سے بلوچ عورتوں اور بچوں کو مار رہی ہے لیکن یہاں کچھ دانشور ہیں جس کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھے برا محسوس ہوتا ہے وہ بلوچستان کے بارے میں بات نہیں کرتے، یہ ہندوستان کے غدار ہیں اور بلوچستان کے دوست نہیں ہیں، جس طرح آپ کی شکایت ہے کہ ہندوستانی دانشوران بلوچستان کے بارے میں بات نہیں کرتے مجھے خود یہ کہنا ہے کہ قلعے کے دروازے اندر سے کھولے گئے ہیں، باہر سے کھولنے کی کسی کی جرات نہ ہوتی۔

بلوچستان جغرافیہ کے اعتبار سے پاکستان کی 44%  سے بھی بڑا ہے، اور معدنی وسائل سے مالامال ہے، بلوچستان کی آبادی بہت کم ہے، غربت کافی زیادہ ہے، کیونکہ وہاں کے سارے وسائل اور معدنیات پاکستان چوری کرکے پنجاب لے جارہا ہے، پنجاب میں ہر جگہ گیس پہنچائی گئی ہے لیکن بلوچستان میں استعال کے لئے گیس دستیاب نہیں ہے چائنا کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو  آپ بتایئے چائنا بلوچستان میں کرکیارہا ہے، چائنا کا رول کیا ہے، اس پرآپ کا کیا کہنا ہے؟

حیربیار مری:  دیکھئے، آپ فوج میں ایک میجر رینک کے آفیسر رہے ہیں، چین ہندوستان کے خلاف سٹرینگل ہولڈ ڈالنا چاہتا ہے، بلوچستان چین کی اس سٹرینگل ہولڈ کا ایک حصہ ہے۔ گوادر میں چین ظاہری طور پر ایک کمرشل پورٹ یا حب بنارہے ہیں لیکن دراصل، چین سونمیانی میں ایک زیر زمین نیول بیس بنا رہا ہے، جیونی میں  نیول پورٹس بنارہا ہے، یہ ساری فوجی تیاری ہندوستان کو گھیرنے کی کوشش ہے، اسے اگر معاشی جنگ کہیں یا سیدھا  جنگ کہیں تو بے جا نہیں ہوگا، چین کے ان منصوبوں سے اس وقت بلوچوں کو مشکلات درپیش ہیں لیکن طویل المدت میں یہ ہندوستان اور امریکہ کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے لئے ہورہے ہیں،آج ہم چین اور پاکستان کے ہدف پر ہیں، کل ہندوستان بھی چین سے نہیں بچنے والا ہے۔

ہندوستان کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں اس خطرے سے نمٹنے کے لئے کیا تیاری کرنی ہے، کیا طویل پالیسی اپنانی ہے، آپ کی سیاسی قیادت بات تو کرتی ہے لیکن کوئی طویل المدتی پالیسی اور تیاری دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ ہندوستان ایک بہت بڑی معاشی طاقت ہے، آبادی کے اعتبار سے بھی دنیا کا ایک بڑا ملک ہے، بڑی جمہوریت بھی ہے  مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہندوستان سے سننے کو ملتا ہے کہ بلوچستان سے ہماری سرحدیں نہیں ملتیں اس لئے ہم مدد نہیں کرپاتے۔ کیا کسی ملک کا بارڈر آپ کے ساتھ ملتا ہو پھر آپ ان کے لئے کوئی سفارتی مدد دیں گے، آواز اٹھائیں گے یا دوسری قسم کی مدد کریں گے؟

آپ کیوبا کو دیکھئے، ان کا افریقہ کے ساتھ کوئی بارڈر نہیں ملتا، یہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں، کیوبا نے نیلسن منڈیلا کے لئے ہزاروں کی تعداد میں اپنے رضاکار بھیجے، ہم ہندوستان سے ہزاروں کی تعداد میں رضاکار کا بھی مطالبہ نہیں کررہے، انہوں نے انگولہ اور الجیریہ میں نیلسن منڈیلا کو ٹینک مہیا کئے، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ ہمیں ٹینک دے دیں، لیکن میں یہ ضرور کہہ رہا ہوں کہ آپ بلوچ کے لئے آواز تو اٹھائیں، ایک دن آپ کہتے ہیں بلوچ آپ کے بھائی ہیں ان کے لئے آپ کو آواز اٹھانی چاہیے اگلے دن آپ اسے بھول جائیں؟

لہذا آپ کو اپنی قومی مفادات کے لئے اور ہماری مدد کے لئے بھی  ایک طول المدت پالیسی بنانی پڑیگی۔ پاکستان کا بنیادی ذریعہ معاش کیا ہے، ایک بلوچستان کے معدنی وسائل کو لوٹنا اور دوسرا عالمی برادری سے بھیک مانگنا ہے۔ جب بلوچستان آزاد ہوگا تو پاکستان کی حیثیت ہی ختم ہوکر رہ جائے گی اور اسی طرح اسے عالمی برادری کی جانب سے بھیک بھی نہیں مل پائے گی۔ بلوچستان کی آزادی نہ صرف بلوچوں کے لئے اچھا مستقبل لائے گی بلکہ پورے خطے میں امن اور خوشحالی کو ممکن بنانے کے لئے ہم کام کریں گے۔

میجر گوروو: حیربیار صاحب آپ کی باتیں مجھے بہت دلچسپ لگی ہیں، پاکستان کے اداروں کی رپورٹس کے مطابق  2048تک پاکستان میں چینی باشندوں کی آبادی بڑھنے کا امکان ہے، اس وقت چینی باشندوں کو پاکستان لانگ ٹرم ویزا دے رہا ہے، پہلے ہم سنتے تھے، چین  شمال میں پاکستان مغرب کی جانب، اب ایسے لگ رہا ہے کہ چین شمال کی جانب بھی اور چین  مغرب کی طرف بھی۔ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے کہ چین کی بلوچستان میں ہندوستان کے خلاف  فوجی تیاری کررہا ہے کیونکہ بلوچستان معدنی دولت سے مالامال ہے اور اس راستے پر پڑتا ہے ابھی بلوچوں کے خلاف جو تشدد ہورہا ہے اگر انڈیا اپنی آنکھیں اور کان بند رکھے گا کہ جی کوئی بات نہیں بلوچستان میں آگ لگے کوئی دقت نہیں کل وہ آگ انڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے اور وہ دن زیادہ دور نہیں جب وہ آگ انڈیا میں بھی لگے گی کیونکہ پاکستان اور چین بلوچستان تک محدود نہیں رہیں گے وہ رکیں گے نہیں۔

حیربیار صاحب، ہمارا ڈیفنسو آفینس، کو کافی لوگ دیکھتے ہیں، سوشل میڈیا کے فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور دیگر سماجی پلیٹ فارمز پر ناظرین دلچسپی سے ہمارے پروگرامز دیکھتے اور سنتے ہیں، سر میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کا ہندوستان کی حکومت کے لئے کیا پیغام ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اس انٹرویو اور بات چیت کے وساطت سے بلوچستان کے بارے میں ہندوستان کی پالیسی ساز اداروں اور اعلیٰ قیادت کے مابین بحث دو بارہ شروع ہو۔ بیچ میں بول دینا کہ ہم بلوچ  کے ساتھ ہیں، وہ ہمارے دوست ہیں، بھائی ہیں، ارے اگر  بھائی ہیں توگراونڈ پر کچھ کرکے دکھاؤ، صرف منہ سے بھائی بولنے سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، ہماری حکومت کو کچھ عملی طور پرکرکے دکھانا ہے۔ تو میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ انڈین حکومت سے کیا چاہتے ہیں، ٹھوس اقدامات کیا کیا ہیں جیسے آپ نے کہا کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں  بلوچستان سے متعلق قرار داد پیش ہونی چاہیے، ہندوستان تسلیم کرے کہ  بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ ہے،  ہندوستان بلوچوں کے لئے اقوام متحدہ میں موثر طور پر آواز اٹھائے، اس کے علاوہ آپ کی حکومت ہند، اور ہماری ریاستی اداروں سے کیا کیا ڈیمانڈ ہیں؟

حیربیار مری: جی میں کہنا چاہتا ہوں کہ بلوچستان کے بارے میں آپ کی حکومت کچھ کرنے سے پہلے، خود ہندوستان کے لئے کچھ کرے۔ آپ کے قومی ترانے میں پنجاب اور سندھ کا ذکر ہے، آپ نے ابھی تک اپنے ان تاریخی علاقوں کو واپس ہندوستان میں شامل کرانے کا دعویٰ بھی نہیں کیا ہے۔ آپ کے سیاستدانوں کو سوچنا چاہئےکہ پاکستان تو آپ کے پنجاب کا ایک حصہ ہے، آپ کے قومی ترانے میں ہر دن کروڑوں لوگ پنجاب اور سندھ کا نام لیتے ہیں، آپ کو چاہیے کہ اپنے تاریخی علاقوں (سندھ اور پنجاب) کو واپس ہندوستان میں شامل کرانے کے لئے اقدامات اٹھائیں۔

بلوچستان سے متعلق میرے خیال میں بیوروکریسی تبدیل ہونے میں کافی وقت لگے گا، سیاستدان پھر بھی اپنا رویہ تبدیل کرسکتے ہیں، بلوچستان کے لئے اور ہندوستان کے مفاد میں۔ میں نے کالج کے زمانے سے ایک بات محسوس کی ہے کہ جب بھی ہندوستان کے دوستوں سے بات ہوتی تھی وہ یہ کہتے کہ اگر پاکستان ٹوٹ گیا تو ہندوستان بھی ٹوٹ جائے گا، بھائی یہ کونسا سائنسی مطالعہ ہے کہ اگر پاکستان ٹوٹ گیا تو آپ بھی ٹوٹیں گے؟ پاکستان ایک فوجی آمریت ہے،وہاں کی سیاسی قیادت فوج کی چناو سے اقتدار میں آتے رہتے ہیں جبکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، آپ لوگ خود کواتنا کمزور کیوں سمجھتے ہیں؟

میجر گورو آریا: حیربیار صاحب، آپ کی باتیں کافی اہم ہیں، پاکستان کے پنجابی ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہاں جمہوریت ہے، عمران خان سلیکٹڈ نہیں الیکٹڈ ہے، وہ عوام کی آواز ہیں اور باجوا کا اس سیاسی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں، ان باتوں میں کتنی صداقت ہے؟

حیربیار مری: جی باجوا تو دور کی بات ہے، میں کہتا ہوں جناح ہندوستان کے لئے جناح ابھی تک زندہ ہے، پاکستان میں ہوسکتا ہے وہ مرگیا ہے۔ جناح اس لئے زندہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان کو تقسیم کیا۔ اس کے بعد لیاقت علی خان، جنرل ایوب، جنرل یحیٰ، جنرل ضیا الحق، ذولفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواز شریف، اور آج عمران خان یہ سب جناح ہیں آپ (ہندوستان) کے لئے کیونکہ جناح نے آپ کا ملک (ہندوستان) توڑا اور مذکورہ بالا لوگ بھی آپ کے کشمیر کو توڑ کر لے جانا چاہتے ہیں۔ آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ پاکستان آپ کو چھوڑے گا،یا ان کی پالیسی  میں کوئی تبدیلی آئی ہے، وہاں جمہوریت ہے، یا عمران خان کو عوام نے منتخب کیا۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ پاکستان میں فوج کے بغیر کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا، بس ہندوستانیوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہے کہ جناح آپ لوگوں کے لئے زندہ ہے کیونکہ جناح کی پالیسی (ہندوستان کوتوڑنے کی پالیسی)  ابھی تک زندہ ہے اس کی واضح مثال حالیہ دہلی دنگے ہیں، جہاں ہندو اور مسلمان کے نام پر فساد برپا کیا گیا تھا جن سے بہت سے لوگ مارے گئے۔ یہ پاکستان کا ایک نیا ٹیکٹیل موو تھا، کہ ہندوستان کے ہر حصے میں گڑ بڑ کرنی ہے، پاکستان کا خیال ہے کہ کشمیر میں بد امنی سے ان کا کردار واضح ہوگا لہذا اب ہندوستان کے ہر چھوٹے بڑے  علاقے میں، ہر اندرونی معاملے میں دخل دے کر ہر تناضعہ کو ھوا دینا ہے۔

پاکستان نے دہلی میں ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی، جناح ہندوستان کا جتنا دشمن تھا، اتنا ہی وہ بلوچستان کا بھی دشمن تھا۔ جناح نے بلوچستان پر قبضہ کیا، اسی طرح انہوں نے ہندوستان کو بھی توڑا تھا۔ جناح صرف ہندووں کا دشمن نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کا بھی بڑا دشمن تھا۔انہوں نے مسلمانوں کو تین جگہوں میں تقسیم کیا،  بنگلہ دیش  اور پاکستان جو پہلے بھارت کا حصہ تھا۔

وہ انگریزوں کا ایجنٹ، انگریزوں کے منصوبے کو آگے بڑھایا۔ وہ نہ ہندوستان کے ہندووں کا خیرخواہ تھا نہ مسلمانوں کی آواز تھے۔ اگر بھارت کو نہ توڑا جاتا تو آج اس پورے خطے میں بھارت ایک بڑا مضبوط ملک ہوتا، اور یہاں کے سارے باشندے  بشمول مسلمان و ہندو، سارے معاشی اور دیگر حوالے سے مضبوط و خوشحال ہوتے۔ انگریز چالاک تھا، انہوں نے طویل المدتی منصوبہ بنایا، انگریز کو علم تھا کہ اگر بھارت متحد رہا تو وہ انگریزوں سے بھی زیادہ مضبوط ہوگا، ان کے کنڑول سے باہر ہوگا۔ پاکستان کو بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ انگریزوں کی خدمت گزاری کرے، اور وہ اس کام کو بہتر اندازسے کررہا ہے۔

میجر گوروو آریا: حیربیار صاحب، اکثر سننے کو ملتا ہے کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں لوگوں پر تشدد کررہی ہے جبری گمشدگیوں کی بات عام ہے، ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کچھ لوگوں نے ہتھیار اٹھایا ہوا ہے، وہ غیر منظم اندا ز میں پہاڑوں پر چڑھ کر پاکستانی فوج کے خلاف بہادری سے بلوچستان کی آزادی کے لئے لڑرہے ہیں۔ وہ پاکستانی فوج کو بھی ماررہے ہیں اور خود بھی شہادت پا رہے ہیں۔ بلوچ عوام اس مسلح جنگ کو کس نظر سے دیکھتی ہے، بلوچستان کی خواتین بھی مزاحمت کی طرف مائل ہیں، وہ مظاہرے بھی کررہی ہیں، اور وہ کہتی ہیں کہ ان کے خاوندپہاڑوں پر چڑھ گئے ہیں اور وہ خود وہاں  سڑکوں پر سیاسی طور پر مظاہروں کی صورت میں بلوچستان کی آواز ہیں۔

حیربیارمری: ہتھیار اٹھانے کے سوال کو لیکر میں آپ کو دوسری جنگ عظیم کا حوالہ دونگا، جب یورپین پہ جرمن حملہ آور ہوئے، انہوں نے Self Defense کیا اور انہوں نے جرمن قبضہ گیریت کو نہیں مانا۔ آج اگر بلوچستان کے بلوچ  یا کردستان کے کردش قوم اپنی دفاع اور آزادی کے لئے ہتھیار اٹھاتے ہیں ہمیں دہشت گردی کا لیبل لگایا جاتا ہے، یہ دوغلا پن ہے، نازیوں سے مزاحمت کرنا آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے تھی  لیکن بلوچ کا اپنی دفاع میں ہتھیار اٹھانے کو دہشت گردی کا لیبل چسپا کیا جاتا ہے جو پاکستان کا ہمارے خلاف پسندیدہ الزام ہے۔ دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستانیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ پاکستان بنائیں گے تب سے بلوچستان دنیا کے نقشے پر موجود تھا، یہ ہماری آباو اجداد کی سرزمین ہے، ہم اپنی تاریخی شناخت کو، جھوٹے اور مصنوعی ریاست پاکستان کے لئے کیونکر قربان کریں گے؟اپنی تاریخی حقیقی شناخت کو چھوڑ کر خود کو پاکستانی سمجھنا خود کی بے عزتی اور اپنے رتبے کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک لغو اور پاکستانی ریاستی پروپگنڈہ ہے کہ جس میں وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ پاکستان کا  مطلب کیا لا الحہ الا اللہ ار دینا من گھڑت کہانیاں ہیں تاکہ لوگوں کو بے وقوف اور کنفیوز کرنے کے لئے ان کے اندر مذہی جنونیت بڑھانے کے لئے تاکہ مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے، پاکستان کے کرتا دھرتا مسلم پنجابیوں کی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔

ہندوستان کو چاہیے کہ پاکستانی پنجاب اور سندھ کو واپس ہندوستان میں شامل کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے، پنجاب، بلوچستان اور سندھ کی معدنی وسائل کو لوٹ کر ہندوستان کے خلاف استعمال کرررہاہے پشتونوں کے جوانوں کو ہندوستان کے خلاف استعمال کررہا ہے، جب میرے  والد (نواب خیربخش مری)  افغانستان میں تھے، جنہیں سویت یونین ٹوٹنے کے بعد پاکستان نواز مجاہدین کی ایما پر واپس بلوچستان بھیج دیاگیا، مجاہدین کا اسرار تھا کہ نواب خیربخش مری کو کسی اورملک  میں نہیں بلکہ واپس بلوچستان بھیجا جائے۔ میں 1992کو واپس بلوچستان گیا، تو ہم نے دیکھا کہ ہر جگہ یہ ملا اور مجاہدین کشمیر میں جہاد لڑنے کے لئے عید کی کالیں اور چندہ جمع کررہے تھے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے کشمیر جہاد کبھی بھی ختم نہیں ہوگا، ہندوستان میں اگر یہ سوچ ہے کہ کچھ معاشی گرانٹ دینے سے پاکستان اپنی پالیسی بدلے گا یا سدھرے گا تو یہ ناممکن ہے، پاکستان امریکہ سے بلین ڈالر لے کر بھی ان کا جی اورجیب نہیں بھرا، امریکہ سے پیسے لیکر واپس اپنے پراکسیوں کی مدد سے تین سے چار ہزار امریکی فوجیوں کو ماراگیا، پاکستان امریکہ لالچ اور دباو میں نہیں آیا تو ہندوستان کی جانب سے کچھ مراعات کے لئے وہ کیسے کشمیر جہاد سے دستبردار ہوگا؟

ہندوستان کو بھی ایک ٹھوس قدم اٹھانا چاہے اور بلوچوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہے۔ جس طرح ہماری خواتین سڑکوں پر اپنی قوم کی آواز بنے ہوئے ہیں اور ہمارے لوگ قربانیاں دے رہے ہیں وہ پاکستان کی فرضی اور جھوٹی شناخت کو قبول کرنے سے انکار ی ہیں۔ہمارے لئے خود کو پاکستانی کہنا ایک گالی ہے، کوئی اگر کسی بلوچ کو پاکستانی کہے تو انہیں برا لگتا ہے۔ پاکستان نے ہماری سرزمین پر مسلمانیت کے نام پر قبضہ کیا لیکن ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر بھائی چارہ نہیں کی، میری قوم کے لوگوں کو ڈنڈوں سے مارا گیا، ٹارچر سیلوں سے زندہ بچ کر آنے والے ایک بلوچ کا کہنا تھا کہ جب پاکستانی پنجابی فوج جبری گمشدہ کرنے کے بعد انہیں ماورائے عدالت گولیاں ماررہے تھے تو ان کے سپاہی با آواز بلند اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہے تھے جیسے وہ ایک غیر مسلم پر گولیاں چلارہے ہوں۔ ہمیں مارتے وقت اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والے پاکستانیوں کو یہ علم نہیں کہ بلوچ ان سے بہت پہلے مسلمان تھے اور پاکستانی کب سے مسلمان بن گئے، پاکستان کب سے اسلام کا ٹھیکیدار بن گیا، وہ ہمیں مسلمانیت سکھا رہے ہیں؟ ہم بلوچ پاکستان سے زیادہ اچھے مسلمان ہیں، ہمارے ہاں اسلام کی اصل روح یہ ہے کہ ہندو، کرسچن، مسلمان، بدھ مت ہو، یا سکھ ہو سب کو برداشت کرو، سب کے ساتھ بھائی چارہ اور  برابری سے سلوک روا رکھو۔ پاکستان کا اسلام یہ کہتا ہے کہ نہیں، بلوچ، ہندو، سکھ، مسیحی برادری اور بدھ مت سب کو مٹا دو، ختم کردو، اس کے لئے ہم تیار نہیں اور ہم اس جنونی سوچ کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں، ہم اپنی آباو اجداد کی انسانیت کے ناطے، ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کی تحفظ کی، ہم بھی ان کی اس انسان دوست اور مذہب دوست پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے معاشرے کی بھلائی کے لئے کام کریں گے۔

میجر گوروو آریا: جی بالکل آپ نے صحیح فرمایا، بلوچ قوم ایک انسان دوست قوم ہے، اور تمام مذاہب اور عقیدت مندوں کی بڑی عزت کرتے ہیں، ہنگلاج ماتا، نانی مندر بلوچستان میں ہے وہاں آج بھی پوجا پاٹ ہوتی ہے، دئے جلتے ہیں، ہمارے مذہب کو بلوچوں نے بڑی عزت و احترام  اور تحفظ دی ہے۔

 حیربیار مری صاحب، جیسے دیکھا گیا ہے کہ مذہبی جنونیت نے اس وقت پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، سعودی اور دوسرے ممالک سے پیسے ان کو مل رہے ہیں، پاکستان اب بلوچستان میں بھی مدارس کھولنا شروع کرچکا ہے، پاکستان چاہتا ہے کہ بلوچستان میں بھی اسلام اور مذہب کے نام پر ریڈکیلائزیشن کرے، لیکن بلوچستان اس خطے کا واحد خطہ ہے کہ یہاں کے لوگ اب تک مذہبی جنونیت سے دور ہیں، وہ اس سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ وہاں قوم پرستی کا جذبہ بہت ہی زیادہ ہے، یہی جذبہ میں نے سندھ، گلگت بلتستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں نہیں دیکھا۔ بلوچوں کے اندر یہ قوم پرستی کا جذبہ کیسے پیدا ہواہے کہ ملک کے جذبے کو لیکر اپنی جان دینا، اس دلچسپ موضوع پر ذرا روشنی ڈالئے۔

حیربیارمری: ہماری تاریخ، ہمارے سماجی ڈھانچے کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ وہ پاکستانی جھوٹے پروپگنڈے سے خراب نہیں ہوئی ہیں۔ کچھ بھولے بھٹکے نوجوان ہونگے جو پاکستان کے بہکاوے کا شکار ہوکر جاکر کشمیر میں لڑے تھے، میں 1992کو افغانستان سے واپس بلوچستان آیا تھا، میں اخبارات میں پڑھتا تھا کہ پنجگور کے پانچ بلوچ نوجوان کشمیر میں جہاد کے دوران شہید کئے گئے۔ ہم افغانستان میں بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو لیکر جدوجہد کررہے تھے، میں اکثر بیشتر روس بھی جاتا تھا، جب ہم واپس بلوچستان آئے تو ہم نے دیکھا کہ پاکستانی فوج نے بلوچستان کی عوام کا ایک حصہ بلوچ تحریک آزادی کی راہ سے ہٹادیا تھا، اور انہیں مذہبی شدت پسندی کی جانب راغب کرکے کمشیر میں لڑانا چاہ رہا تھا، ہماری محب وطن فورس جب افغانستان سے واپس بلوچستان آئی، پورے بلوچ سماج میں پھیل گئی، لوگوں کو سمجھایا کہ پاکستان کی جعلی شناخت کو نہیں ماننا ہے، ہمارے محب وطن فورس کی کاوشوں نے  پاکستان کے اس منصوبے کو ناکام بنایا، اوربلوچوں کو پھر سے ٹریک پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کیا، ہماری محنت اور کام سے بلوچ واپس تحریک آزادی کی طرف راغب ہوگئے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ گذشتہ بیس سالوں سے کوئی بھی بلوچ، کشمیر یا افغانستان جہاد لڑنے کے لئے نہیں گیا، کچھ بھولے بھٹکے ایک آدھا لوگ جاتے ہونگے  لیکن اکثریت بلوچ، اپنی سرزمین کی آزادی اور ملکی دفاع میں پاکستان کے خلاف لڑ رہے ہیں، اس وقت کوئی بھی بلوچ ہندوستان یا افغانستان کے خلاف نہیں لڑ رہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بلو چ مصر کے شہر حلب سے آئے ہماری ہزاروں سالہ تاریخ ہمیں دوسرے مذاہب کی عزت اور برداشت سکھاتی ہے، ہماری اس پرانی تاریخ کو پاکستانی پروپگنڈہ اثر نہیں کرپایا۔

ہمارے کچھ ناداں دوستوں نے کہا تھا کہ بلوچ ہمارے بھائی ہیں، ہم بلوچستان کے لئے آواز اٹھائیں گے لیکن انہوں نے عملی کام نہیں کیا، پاکستان نے ہمارے لوگوں پر مزید دباو بڑھایا، اب پاکستان سعودی عرب، امارات اور دیگر ممالک سے بھیک مانگ کر بلوچستان میں مدارس بنارہا ہے، اور گذشتہ چھ سے آٹھ ماں کے دوران اس کام میں خاطر خواہ شدت لائی گئی ہے اب سننے میں آرہا ہے کہ کچھ بلوچ کشمیر میں جہاد کرتے ہوئے  مارے گئے ہیں۔

ہمارے ناداں دوستوں نے بلوچ کے لئے آواز اٹھانے کی بات تو کی لیکن ٹھیک طریقے سے ہماری آواز آگے لیکر نہیں گئے، میں نے روس میں صحافت کی ڈگری لی ہے، جب روس ٹوٹا، تب بھی میں ان کے پارلیمنٹ میں اپنے ہم خیال ڈیموکریٹس دوستوں کی مدد کے لئے  اپنی سفارتی گاڑی سے انہیں کھانا پہنچانے جاتا تھا،،سویت یونین ٹوٹنے کے بعد بھی میں اکثر بیشر افغانستان کے دورے پر جاتا تھا، وہاں روس کے ستر ٹن لیجانے والے اس وقت کے روسلان جہاز، افغانستان کے لئے کھانا، امداد، ادیوات اور دیگر امدادی سامان لے جایا کرتے تھے۔  ایک دن ایک صحافی نے ایک روسی وزیر سے پوچھا کہ سویت یونین ٹوٹ گیا، روس بن گیا،  اب بھی ہم افغانستان میں کیوں کھانا اور امداد  پہنچارہے ہیں؟ اس وزیر نے دلچسپ جواب دیا کہ افغانستان کے لوگوں کی اگر مدد نہیں کی تو وہ کہیں گے کہ روسی قوم نے ہمیں مدد نہیں کی، ہمارے تعلقات قوم کے ساتھ ہیں، قطع نظر کہ کون اقتدار میں ہے لہذا ہندوستان اور بلوچستان کے تعلقات بھی قوم کا ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، ہم انڈیا کے لوگوں سے امید اور توقع رکھتے ہیں،  کل کلاں اگرکسی بلوچ کو کوئی مشکل وقت آئے گا تو وہ ہندوستان کے قوم کے ساتھ گلہ کریگا، آپ کے لیڈرکو شائد بھول جائے گا، لیکن قوم کو یاد رکھا جائے گا، آپ کی لیڈر شپ کہتی ہے کہ وہ بلوچوں کے لئے آواز اٹھائیں گےلیکن اگر وہ بلوچوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا تو  مدد نہ ملنے پر ہمارے لوگ گلہ کریں گے کہ آپ کدھر تھے جب ہمیں مدد کی ضرورت تھی۔

میجر گوروو آریا: حیربیار صاحب، یہ بتائیے کہ پاکستانی فوج میں بلوچ رجمنٹ کے نام پر ایک رجمنٹ ہے، لیکن جب میں نے تحقیقات کی تو اس بلوچ رجمنٹ میں بلوچوں کی تعداد بہت کم پائی، اس رجمنٹ میں زیادہ تر تعداد پنجابیوں کی ہے، ہمارے ہاں بھی سکھ رجمنٹ ہے، میں کماو رجمنٹ سے تعلق رکھتا ہوں ان رجمنٹس میں باہر کے لوگ بھی ہیں لیکن اکثریت سکھ اور کماونی سے لئے جاتے ہیں، پاکستان نے بلوچ رجمنٹ بنائی لیکن خانہ پری کے لئے کچھ بلوچ رکھے باقی زیادہ تر پنجابی ہیں۔ ایسا کیوں ہے، اعتماد کا فقدان ہے یا کوئی دوسرا مسئلہ ہے؟

حیربیارمری: جی، پاکستانی فوج میں موجودہ بلوچ رجمنٹ کا پس منظر یہ ہے کہ برطانیہ بلوچستان پر قابض تھا، اس وقت سے انگریزوں نے یہ بلوچ رجمنٹ کی بنیاد رکھی تھی۔ برطانیہ جب بلوچستان سے نکل گیا تو اس سے یہ ہوا کہ انگریز بھی اس بلوچ رجمنٹ سے نکل گئے، بلوچ بھی نکل گئے صرف رجمنٹ کا نام رہ گیا جسے بعد میں پاکستان نے بلوچ رجمنٹ کے نام سے برقرار رکھا۔ پاکستان کو اچھی طرح سے علم ہے کہ کوئی بھی بلوچ پاکستان کے لئے نہیں لڑتا، کچھ لوگ ہونگے جو بے وقوف بن رہے ہیں پاکستانی پروپیگینڈے کا شکار بنے ہوئے ہیں، ہوسکتا ہے کوئی مجبوری میں یا ڈر کر خود کو پاکستانی کہے لیکن دل سے کوئی بلوچ خود کو پاکستانی  قبول نہیں کرتا۔ اس وقت بھی اگر کوئی شفاف اور غیر جانبدار رائے عامہ پر مبنی کوئی گیلپ پول کا انعقاد ہو تو صاف پتہ چلے گا کہ سو فیصد بلوچ پاکستانی نظام کو نہیں مانیں گے۔پاکستانیت کو بلوچ پر زبردستی تھونپا گیا، لیکن کوئی بھی پاکستان کے لئے جنگ نہیں کریگا، ہم نے سنا جب بلوچ بنگلہ دیش کی جنگ میں گئے تھے، انہوں نے بنگالی آزادی پسندوں سے دوستیاں کیں انہیں کہا گیا کہ مارو ان پاکستانی فوج کو لہذا بلوچ کی فطر ت میں پاکستانیت نہیں ہے۔ میں اپنے بلوچوں کو کہتا ہوں کہ مجبوری ہے یا کوئی بھی دقت، سیدھا کہیں کہ پاکستان آپ کا دشمن ہے۔

میری بلوچ کا ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے، مجھے خود کو بلوچ کہنے پر فخر ہے، اسی طرح ایک ہندوستانی کو بھی اپنی پانچ ہزار سالہ تاریخ پر فخر ہے، پاکستانی کی اپنی کوئی تاریخ نہیں ہے، وہ شرمندگی سے کبھی کہتے ہیں کہ وہ عرب ہیں، کبھی کہتے ہیں ترک نسل سے یا ایرانی ہیں حقیقیت یہ ہے کہ پاکستانی اصل میں ہنددوستانی ہیں، انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرکے مسلمان بن گئے نام لیا عرب کا، ترک کا اور ایرانی کا، یہ اب نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ ان بیچارے پاکستانیوں نے اپنی تاریخ بھی فراموش کررکھی ہے، یہ لوگ پریشان ہیں کہاں جائیں، کس کا ہو لیں،اب انہیں کوئی بھی ملک اپنانے کو بھی تیار نہیں ہے، پاکستانی لوگ شناخت کے بحران میں چلے گئے ہیں۔ ان کے ملک کا نام پاک  ستان ہے، میرا کہناہے کہ پاک کوئی بھی نہیں ہے، ہمارے اسلام کے مذہب میں کہتے ہیں اللہ اور اس کا رسول پاک ہے۔ ملک میں کیا کیا گندگیاں ہوتی ہیں، یہ کیسے پاک کہلایا جاسکتا ہے؟  پاکستان اپنی ان دروغ گوئیوں پر مبنی مفروضوں سے اپنی قوم پنجاب کو بے قوف بنا ئے تو ٹھیک ہے لیکن بلوچوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتا۔

میجر گوروو آریا: حیربیار صاحب، آپ کو کیا لگتا ہے، اگلے پانچ، دس یا پندرہ سالوں میں بلوچستان کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں، ایک ملک جو اپنی آزادی کے لئے کوشاں ہے بلوچستان کو کہاں کھڑے دیکھتے ہیں؟

حیربیار مری: ہمارا ایمان اور جذبہ ہے کہ ہم ایک نہ ایک دن ضرور آزاد ہونگے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ہندوستان برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوا، امریکہ برطانوی قبضہ گیریت سے آزاد ہوا، روس  دو سو سال کی جدوجہد کے بعد منگول کے چنگل سے آزاد ہوا ہماری بھی آزادی حتمی ہے، دس یا پندرہ سال کتنا بھی عرصہ لگے، ہم اپنی آزادی کی جدوجہد کو بالکل نہیں روکیں گے، چاہے پاکستان ہمارے خلاف جتنے بھی من گھڑت مقدمات کا اندراج کرے، ہمیں دہشت گرد قراردے۔

اس موقع پر میں اپنے ہمسایہ برادر ممالک خاص کر ہندوستان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ بھی امریکہ سابق صدر روزولٹ کی طرح فیصلہ کن اقدامات اٹھائیں دوسری جنگ عظیم کے دوران انہوں نے اٹلانٹک چارٹر لاکر یورپ سے کہا تھا کہ انہیں اپنے کالونیوں کو آزادی دینی پڑیگی، اور ان کے اس فیصلے سے بہت سے یورپی ممالک آزاد ہوئے، ہندوستان کو بھی چاہیے کہ آپ کی قیادت بھی اسی طرح فیصلہ کن اقدام اٹھائے آپ لوگ کہتے تو ہیں کہ ہندوستان ایک بہت بڑامضبوط ملک ہے، آپ ہمیں اپنے ہمسایہ ملک ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ہم سے جو کچھ ہوسکتا ہے ہم کررہے ہیں، چائنا کے عزائم کے خلاف اور پاکستانی قبضہ گیریت کو روکنے کے لئے ہم اپنی بساط اور طاقت کے مطابق کام کررہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ اپنے ہمسایہ دوست  ملک  ہندوستان سے زیادہ کررہا ہے۔ ہندوستان کے پاس  وسائل زیادہ ہیں، ہم بلوچ کے پاس وسائل نہیں ہیں، ہندوستان اپنی طاقت  اور وسائل کو ٹھیک طریقے سے بروئے کار نہیں لارہا، پاکستان کو دیکھئے، وہ کشمیر کی کھلم کھلا ہر جگہ حمایت کررہا ہے، اب تو یورپ میں ہر کسی کے کان تک  کشمیر کی آواز پہنچائی ہے کہ کشمیر میں ظلم ہورہا ہے، کشمیر مقبوضہ ہے۔ ہندوستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی بلوچستان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ میں اکثر آپ کے دانشوں کے مضامین دیکھتا ہوں جس میں آزادی پسند بلوچوں کے مابین ایک تقسیم کی لکھیر کھینچ رہے ہوتے ہیں کہ فلاں آزادی پسند بلوچ، مڈل کلاس ہے، فلاں اپر کلاس ہے، فلاں جنگجو مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے فلاں سردار کلاس ہے، ایسے خیالات پاکستان کے پروپگنڈے اور بیانیہ کو تقویت دیتے ہیں جو ہندوستان اور بلوچستان دونوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہے، جب بات آزادی پسند یا فریڈم فائٹر کی ہے تو پھر کوئی کلاس والی بات اور سوچ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے۔

میجر گوروو آریا: حیربیار صاحب، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں اپنی بات کو دہراتا چلوں کہ ہندوستان میں کچھ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشور اور سیاستدان ہیں جن کی ایک خاص ذہنیت ہے بلوچستان کے لئے ان کا موقف منفی ہے ہی میں تو انہیں ہندوستان کا بھی دشمن سمجھتا ہوں ایسی سوچ رکھنے والے لوگ حقائق سے نابلد ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں سے بھی نپٹنا پڑیگا۔ حیربیار صاحب  آپ کا ایک بار پھر بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر ہمارے ساتھ گفتگو کی اور ہماری ناظرین کے لئے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔

بلوچستان زندہ باد