سوال: کچھ رپورٹس مل رہی ہیں کہ چین بلوچستان کے جیونی میں ایک نیول بیس تعمیر کررہا ہے، یہی وہ پاکستان ہے جو کشمیر کی سلامتی پر جذباتی لگاو رکھتا ہے لیکن بلوچستان کی سلامتی کو چین کے ہاتھوں فروخت کررہا ہے؟
بلوچ رہنما حیربیار مری: بلوچستان نے اپنی سلامتی 1948کو کھودی ہے پاکستان کاچین کو دعوت دینا ایسا ہے جیسے چور ڈاکو کو بلوچستان لوٹنے کے لئے دعوت دے رہا ہے۔ میری شنید میں آیا ہے کہ ارب اور ترکی بھی خفیہ طور پر بلوچستان آرہے ہیں، پاکستان کی بلوچستان پر گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے لہذا وہ چوروں اور ڈاکووں کو اس لوٹ کھسوٹ میں شریک کررہا ہے۔
جیونی میں نیول بیس بلوچستان کے لئے نہیں بنایا جارہا ہے، کل اگر وہ اپنے (چینی) فورسز کو بلوچستان میں لائیں گے جو ہمیں کنڑول کریں گے لیکن یہ صرف بلوچوں کی سلامتی کے خلاف نہیں بلکہ ان کا یہ منصوبہ پورے خطے کو آنے والے 50, 100, 200سالوں تک ہندوستان اور امریکہ کو مات دے کر خلیج تک اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔ ایک بار سی پیک کھل گیا تو بلوچوں کو یقیناً نقصان ہوگا لیکن اس کے دور رس نتائج سے ہندوستان کو بھی بھاری نقصان ہوگا۔چین اور پاکستان کی ایک صدی طویل منصوبہ بندی ہے جو آپ کی ہر ایک حرکت کو کاونٹر کریں گے لیکن ہندوستان کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ہندوستانیوں کو اپنے رہنماؤں پر دباو ڈالنا ہوگا تاکہ وہ اس زاویے (طویل مدتی پالیسی بنانے) پر بھی سوچ بچار کریں۔
ہندوستان کو یہ اندازہ نہیں لگانا چاہیے کہ امریکہ کی اتحادی بننے سے ان کے تمام مشکلات حل ہونگے۔ آپ کو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا پڑیگا۔ ہم آپ کے مقابلے میں چھوٹے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم پاکستان اور چین کے خلاف کھلم کھلا کھڑے ہیں۔ آپ ہندوستان خود کو خطے کا سپر پاور سمجھتے ہیں تو آپ کو سپر پاور کی طرح بننابھی پڑیگا اور مضبوط فیصلے لینے پڑیں گے۔
سخت فیصلے آپ کو دوست دلا سکتے ہیں جیسے کہ بلوچستان، سندھ اور پشتونستان۔ ایران کے کشمیر بابت حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ ایران ہندوستان کا قابل یقین دوست نہیں ہے لہذا آپ کو (ہندوستان) کو قابل بھروسہ اتحادی ڈھونڈے ہونگے اور ان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے ہونگے۔ جب بھی ہندوستان اور بلوچستان آپس میں بات کریں گے ہمیں برابری کی بنیاد پر بات کرنی چاہئے۔ پاکستانی پنجابی نے ہمارے ساتھ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی والا کھیل کھیلا ہے اور روس و امریکہ نے یہی گیم افغانوں کے ساتھ بھی کھیلا، یہ ایک غلطی ہے۔ ایک کمیونٹی کے ساتھ احترام اور برابری کی بنیاد پر بات کی جاتی ہے جو دوستی اور بھروسی کو مضبوط کرتا ہے۔ ایک سامراجی رویے اور معاشی مضبوطی کی سوچ فائدہ مند نہیں ہے خاص کر برصغیر میں تو بالکل بھی نہیں۔
سوال: پاکستان ہمیشہ اپنی سلامتی کو درپیش خطرات سے متعلق چلاتا ہے لیکن انہوں نے پنجاب کو برقرار رکھنے کے لئے بلوچستان پر بھی قبضہ کیا، یہ سندھ کے ساتھ بھی یہی کریگا؟
بلوچ رہنما حیربیار مری: پنجاب سندھ کواپنی گرفت میں رکھنے کے لئے تیار ہے، پاکستانی پنجاب تو خود آزاد نہیں ہے یہ آپ کا ہی علاقہ ہے۔ پاکستان نے ہماری پہلے سے آزادی کی اور جداگانہ شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانیت کیا ہے؟ ہندوستان کیوں پاکستانیوں کو ان کی ایک پہچان پلیٹ میں دے رہا ہے جو کہ ان کا ہے ہی نہیں؟ پاکستانی کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ یہ انگریزوں نے خود بنائی تھی تاکہ ہندوستان کو کمزور کرکے تقسیم کیا جاسکے اور آپ لوگوں نے پاکستان کو تسلیم کرکے انہیں جداگانہ شناخت دے دی؟ برطانیہ بہت پہلے چلاگیا لیکن ان کے فیصلے (پاکستانی شناخت) ابھی تک ہندوستان ہندوستانیوں کے ذریعے نافذ کررہا ہے۔
جمہوریت تو آپ کے اپنے لوگوں کے لئے ہے، باہر کے لوگوں کے لئے نہیں۔ ایک ابھرتے سپر پاور کی حیثیت سے آپ کو یہ نا انصافی قبول نہیں کرنی چاہئے۔ آپ 70 سالوں سے آزاد ہیں آپ پاکستان کو کیوں ایک علیحدہ شناخت سمجھتے ہیں؟ سندھ یا پنجاب یہ دونوں ہندوستان کے ابدی حصے ہیں، آپ کو ان علاقوں کو جانے نہیں دینا چاہیے۔ ہزاروں سالوں سے بھارت ایک ملک تھا، پاکستان کیسے ایک جدا ملک بن سکتا ہے؟ یقینا وہ مسلمان ہیں لیکن مسلمان ہونے کامطلب یہ نہیں وہ ایک علیحدہ ملک کا حق رکھتے ہیں۔حتیٰ کہ آج بھی پاکستان سے زیادہ مسلمان تو ہندوستان میں رہتے ہیں۔ ہم بلوچ قوم غلام ہیں لیکن کم از کم متحدہ بلوچستان کی آواز بلند کررہے ہیں جیسے 1839کی نوری نصیرخان کے نقشے میں بلوچستان ہے میں اس نقشے کو مانتا ہوں۔ غلام ہونے کے باوجود ہم نے گولڈ سمتھ اور ڈیورنڈ لائن برطانیہ کی کھینچی گئی سرحد کو قبول نہیں کیا لیکن ہندوستان ایک آزاد ملک ہونے کے ناطے ابھی تک اپنی تقسیم کو قبول کرتا ہے۔ آپ لوگوں کو اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہیے۔
سوال: 4سال گزر گئے، ہندوستان کے وزیر اعظم نے بلوچستان سے متعلق بات کی تھی، آپ کے خیال میں ہندوستانی وزیر اعظم کتنا سنجیدہ ہے؟
بلوچ رہنما حیربیار مری: ہوسکتا ہے آپ کا وزیراعظم سنجیدہ ہو جو انہوں نے کہا لیکن زمینی سطح پر ہم نے کچھ نہیں دیکھا، بلکہ ان کا بلوچستان سے متعلق بیان مزید نقصاندہ ثابت ہوا۔اگر ان کے خطاب کے دس دن بعد سماجی ویب سائٹس پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستانی فوج نے قلات، مستونگ اور بولان کے علاقوں میں ساٹھ سے ستر لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر ہلاک کیا ہے۔ہمیں مارتے وقت قابض فوج ہم پر چیختا ہے کہ ”اب ہم دیکھتے ہیں تمھارے ہندوستانی دوست تمھیں کیسے بچاتے ہیں؟“
یہ کہناشائد صفارتی اداب کے برخلاف ہو لیکن ہم حالات اور اپنے دوستوں کی نادانی کی وجہ سے دشمن کی تیز کاروائیوں کا نشانہ بنے۔ آپ کے وزیر اعظم کے بیان نے پاکستان کو مزید وقت اور تیاری کا موقع دیاجنہوں نے بلوچوں پر ظلم ڈھائے۔ اس وقت سے لیکر اب تک ہزاروں بلوچ شہید کئے گئے، ہزاروں اب بھی غائب ہیں۔
آپ (ہندوستان) کو پہلے یہ اصولی فیصلہ کرنا ہے کہ آپ ہمیں مدد کروگے یا نہیں۔ اگر نہیں کروگے تو برائے کرم ہمارا حوالہ نہ دیں۔ لفظ دھوکہ کو میں یہاں استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتا لیکن پاکستان آپ سے ڈریگا نہ آپ کو آئندہ سنجیدہ لے گا۔ آپ وہی بات کہیں جب آپ واقعی کرنا چاہتے ہیں تب پاکستان اور بلوچوں کے لوگ آپ (ہندوستانی وزیر اعظم) کی باتوں کی قدر کریں گے۔
سوال: پچھلی بار آپ نے کہا آپ کو ہندوستان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے لیکن اب آپ نے اپنا موقف تبدیل کیا۔ آپ ہندوستان سے بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کی کیسے توقع کرسکتے ہیں؟
بلوچ رہنما حیربیار مری: بی بی سی اردو نے میرا انٹرویو کیا، جس پر میں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ میں نے بی بی سی اردو کو بی بی سی کشمیر قرار دیا تھا کیوں وہ صرف ہندوستان کی کمشیر میں کاروائیوں کی بات کرتا ہے۔ یہ بلوچوں کے بارے میں شاز و نادر ہی بولتے ہیں، ہمارے بیانات سال میں دو بار نشر کرتے ہیں اور بلوچستان سے متعلق کوئی معنی خیز خبر نشر نہیں کرتے۔
میں نے پچلی بار ان سے کئی مسائل کا سامنا کیا، انہوں نے میرے انٹرویو کو نشر ہونے سے پہلے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ انہوں نے مجھ سے سوال پوچھا کہ میں ہندوستان سے مدد لیتا ہوں تو میں نے کہا ”ہندوستان سے نہیں‘ دنیا کے تمام ممالک سے مدد کی توقع رکھتے ہیں۔ میرا مقصد اس بات کو اجاگر کرنا تھا کہ ہم صرف ہندوستان سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے مدد لیں گے۔
بلوچ قوم دنیا کے ساتھ اچھے تعقات رکھنا چاہتی ہے بشمول ہندوستان تاکہ بلوچستان کے مسئلے کو ہر فورم پر اجاگر کیا جاسکے۔ ہم ہندوستان سمیت تمام ممالک سے ہر ذرائع کی مدد چاہتے ہیں جو ایک ملک کی آزادی کے حصول میں درکار ہوتے ہیں۔ کچھ ہندوستانیوں کا خیال ہے کہ ان کی ہمارے لئے مدد، پاکستان کو ناراض کریگا لیکن اگر آپ پاکستان کو خوش رکھنا چاہتے ہیں تو آپ گذشتہ 70سالوں سے پاکستان کو خوش نہ کرسکے اور نہ ہی آنے والے مستقبل میں آپ سے پاکستان خوش رہیگا۔
پاکستان ہمیں دشمن ملک سے مدد لینے کا الزام لگاتا ہے حالانکہ ہندوستان ہمارا دشمن ملک نہیں ہے، ہندوستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ میرا دشمن پنجابی پاکستان ہے جس نے میری سرزمین پر قبضہ کیا ہے پاکستانی ہمیں غدار ظاہر کرتے ہیں لیکن حقیقیت یہ ہے کہ وہ خود ہندوستان کے غدار ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ملک ہندوستان کو تقسیم کیا تھا۔ مجھے ہندوستان کے لوگوں اور جمہوری ہندوستان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن مجھے ان لوگوں سے ضرور مسئلہ ہے جنہوں نے ہندوستان کو تقسیم کیا اور اب خود کو پاکستانی مسلمان پنجابی کہتے ہیں۔