انٹرویو ۔ علی رفاعی

ویسر دروقی کوسوو سے تعلق رکھتے ہیں پیشہ کے لحاظ سے وہ ایک تحقیقی صحافت سے منسلک ہے، اس وقت جرمنی کے شہر ہمبرگ میں ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں رہائش پذیر ہے،تحقیقاتی لحاط سے وہ انتہائی سنجیدہ موضوعات پر کام کرتے آرہے ہیں، جس میں مذہبی شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں پر بہت سے تحقیقی رپورٹ مرتب کرچکے ہیں۔گزشتہ آٹھ سالوں سے اسی شعبہ پر ریسرچ اور ڈاکومنٹری رپورٹ پر کام کرتے آرہے ہیں،ہمگام نیوز کے پڑھنے والوں کیلئے اس کا انٹرویو کیا گیا ۔ سوال : کوسووکی آزادی کی تحریک کے پس منظر سے ہمیں آگاہ کریں جواب : 1913 میں لندن کانفرنس میں ہمیں تین حصوں میں تقیسم کیا گیا ،اس کانفرنس کے بعد کوسوو کو سربیا نے بزور طاقت قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت عسی بولیٹانیہ کی سربراہی میں ایک مزاحمتی تحریک شروع ہوئی جو تقریبا سو سال تک اس کا دورانیہ رہا، ایک جہد مسلسل کے بعد باآخر 1999 میں ہم سربیا سے آزاد ہوئے۔ سوال :مزاحمتی تحریکیں کتنی رہی جس کے بعد غلامی کا سورج غروب ہوا اور آزادی سے کوسوو قوم ہمکنار ہوا؟ جواب: چھ مرتبہ مختلف مزاحمتی لیڈروں کے شہادت کے بعد ہماری تحریکں دم توڑتی گئی، سربیا کی سیکورٹی فورسزچن چن کر رہنماوں کو قتل کرتے رئیں۔ لیکن 1992میں چند نیشنلسٹوں نے ایک کونسل کا اعلان کیا جہاں ایک جماعت ایل پی کے(People’s Movement of Kosovo) اور اس کونسل کے زریعہ ایک مسلح تنظیم کوسوو لبریشن آرمی وجود میں آئی۔ اس مسلح تنظیم کو ۹ سال تک خفیہ رکھا گیا، یورپ اور دیگر ہم خیالوں سے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔ سوال:کس طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا؟ جواب: سربیا نے پیراملٹری فورس کے زریعے ایسے خطرناک لوگوں کو اپنے قید سے رہا کروایا تاکہ وہ جاکر تحریک میں شامل ہوکر مزاحمت کاروں اور دیگر سرگرم لوگوں کی نشاندہی کریں تاکہ فورسز آسانی سے ان کو نشانہ بنائیں،ایک بات قابل غور یہ ہے کہ سربیا کو اس قتل و غارت گری میں رو س کی مکمل حمایت حاصل تھیں،1996-1997 کو نسل نے مسلح تنظیم کو منظر عام پر لایا،اس کے بعد باقاعدہ جنگ شروع ہوئی،ایک اندازہ کے مطابق 20000 کے لگ بگ مزاحمت کار قتل ہوئیں جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ گوریلاجنگ کے دوران سربیا کے فورسز کو زبردست نشانہ بنایا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ورکروں اور حمایتوں کو اغواء کیا گیا جو ابھی تک غائب ہیں، ایک ہزار سے زائد اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جن میں سو سے بھی زائد کوسوو کے لوگ دفن کئے گئے۔ سوال: کامیابی کی اصل وجہ : جواب: اس تحریک سے پہلے بھی وقتا فوقتا آزادی کی تحریکں چلتی رہیں لیکن وہ پرامن تحریکیں تھی ابرہیم لگافے کی سربراہی میں ڈیموکرٹیک موومنٹ آف کوسوو کے پلیٹ فارم سے تحریک چلائی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں، ایک چیز بہت اہم ہے کہ کوسوو لبریشن آرمی کو نیٹو نے مکمل حمایت کی مارچ 1998 کو نیٹو نے سربیا پر حملے شروع کئے جو 72 دن تک جاری رئیں۔ سوال: آپ کیا سمجھتے ہو کہ آزادی کی تحریک کو کوئی طاقت ریاست کی حمایت ضروری ہے جیسے کہ نیٹو اور یورپ نے کوسوو کی حمایت کی؟ جواب:دنیا کے زیادہ ترتحریکات کی کامیابیاں دراصل کسی ملک کی حمایت سے ہوئیں۔ میرا بلوچستان کی تحریک کے لئے مشورہ ہے کہ اگر وہ آزادی کی تحریک کو کامیاب ہونا چاہتا ہے تو وہ دنیا میں اپنے دوست تلاش کریں جو تحریک کی مددکریں کیونکہ جنگ یا آزادی ایک بزنس ہے کوئی بھی ریاست بغیر اپنے فائدے کے کبھی مدد کو تیار نہیں ہوگا۔ سوال: آزادی حاصل کرنے کے بعد کوسوو میں کیا فرق دیکھنے کوآیا؟ جواب: جب کوسوو آزاد ہوا تو ہم سے بہت سی غلطیاں سر زد ہوئیں۔ ہمارے گوریلا کمانڈرز قانون سے بالاتر ہوگئے اور اپنے آپ کو کسی کے ماتحت نہیں کرنا چاہتے تھیں۔ 10 سال تک یہ لوگ اپنے اثر ورسوخ بناتے رہیں، آزادی کی تحریک کے دوران ہی یہ لوگ چونکہ غیر قانونی سرگرمیوں، اسمگلنگ،بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان جیسے جرائم میں ملوث رہے تو آزادی ملنے کے بعد بھی وہ غیر قانونی سرگرمیوں سے دور نہ رئیں، جس کی وجہ سے کوسوو کے حالات بدتر ہوتے رہیں،آزادی کے بعد ان گوریلوں نے کہاکہ ہماری قربانیوں کی وجہ سے آزادی ملی اس سوچ نے کرپشن کو جنم دیا اور قانون سے بالاتر ہوگئے۔ سوال:اب کوسوو کی کیا صورتحال ہیں؟ ویسر: ہم یورپ میں سب سے زیادہ کرپشن ہونے والا ریاست کہلاتے ہیں اس کے علاوہ مذہبی شدت پسندوں نے بھی کوسوو کے عوام کو یرغمال کیا ہوا ہیں گوریلا اب حکومتی جماعت کے تحت ناجائز کاموں میں شامل ہیں اقربا پروری ، لاقانونیت، سفارش ، رشوت ناانصافیاں قدم قدم پر ملتی ہیں۔