شنبه, آوریل 27, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ قومی اتحاد کیوں؟:تحریر: بشیر زیب بلوچ

بلوچ قومی اتحاد کیوں؟:تحریر: بشیر زیب بلوچ

بلوچ قومی تحریک کی ادوار گذشتہ کے نشیب و فراز کو زیر بحث لانے کے بجائے موجودہ تحریک آزادی کی آغاز اور پھیلاؤ کا ایک سرسری جائزہ زیر غور ہے،ماضی میں بحیثیت قوم دنیا کی تیزرفتار ترقی اور بدلتے حالات و واقعات سے عدم واقفیت اندرونی طورانتہائی ضعیف و محدود پیمانے پر قومی بقاء محکومی و محرومی کا احساس تھا ریاستی جبر و ناانصافی اور زیادتیوں کے خلاف واقعات کے ساتھ ردعمل میں کمزور و ناپختہ جذباتی خیالات کااظہار نعرہ بازی کے حد تک تھا علمی و شعوری حوالے سے ذہنی و فکری تربیت کے حلقے بھی انتہائی محدود سطحی وجذباتی نوعیت کے تھے جن میں صرف آزادی اور غلامی کے موضوعات زیر بحث آتے تھے ان کے سواء کچھ بھی خاص اور متاثر کن اور عملی نہیں تھا۔
اسی دوران ماضی کے مسلح عملی جدوجہد سے تعلق رکھنے والے اور کچھ نئے آزادی پسند بلوچوں نے آزاد بلوچستان کے ایجنڈے کو لیکر دشمن (پاکستان) کی جبری قبضہ کے خلاف لڑنے اور دنیا کو بلوچ قوم کی بطورالگ ایک زندہ قومی پہچان اور بلوچ جغرافیہ کے حقیقی وجود کا احساس دلانا کی خاطر محدود وسائل کے ساتھ دشمن کے خلاف محدود سطح پر محدود علاقوں میں مسلح کاررائیوں کی شروعات کردی ابتدائی عرصے مسلح کاروائیاں دشمن کیلئے ایک دھچکا ہونے کے ساتھ ساتھ ہی بلوچ قوم میں بیداری کی لہر ثابت ہوئیں، ہرقوم دوست بلوچ اس جستجو کے تحت اس بات کا سراغ لگانے کی کوشش میں تھا کہ یہ کون ہیں اور کیوں لڑرہے ہیں اورکس مقصد کے لئے لڑرہے ہیں،ابتدائی دور محدود پیمانے و محتاط انداز کی کارروائیاں کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں ہو پارہا تھا کہ یہ سب کچھ کہاں سے اور کیسے انجام پارہا ہے ان حالات میں تحریک کی سب سے زیادہ اثر انگیز اور خوبصورت پہلو یہی تھا اسی کی بدولت بلوچ قوم دوست حلقے سرفروشوں کی بے انتہا صلاحیت اور ہنر مندی سے تشبیہ دیتے تھے اور بلوچ قوم کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے قوم دوست بلوچوں میں دلی جذباتی لگاو کے ساتھ یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان سرفرشوں کے بارے میں کچھ زیادہ جان سکیں اور ان کا حصہ بن جائیں کیونکہ انتہائی رازدارانہ کامیاب مسلح کارروائیوں اور تنظیم کی کوئی واضع شکل نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل دشمن کی ناکامی نے یہ یقین پختہ کردیا تھا کہ تحریک کی طاقت اور رفتار میں اضافہ یقینی ہے لہذا جنگی حالات کی ابتدائی صورت حال کی بدولت تحریک کے ساتھ وابستگی و ہمدردی نے تحفظ و عزت و احترام کے احساس کے ذاتی تصورکو خوب وسعت دی کہ حالات ایک جیسے رہیں گے دشمن کو کچھ معلوم نہیں ہوگا یعنی خود کی انفرادی تحفظ کو لیکر معمولاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ تحریک سے وابستگی اور حصہ داری ہر بلوچ کی خواہش و سوچ بنتارہا، دوسری طرف دشمن اپنے زاویوں سے کام کرتے اس تاک میں رہا کہ زیادہ سے زیادہ کمزوریوں کو یکجاء کرکے تحریک پر وار کیا جائے لہذا دشمن زیادہ گہرائی سے مشاہدہ کررہاتھا شروعاتی دنوں میں تحریک کو کچلنے یادبانے کیلئے بے رحم فیصلے و پالیسیوں پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا جارہا تھا بلوچ عوام کی تحریک سے وابستگی اور شمولیت زیادہ رہا اور اس شمولیت میں کسی بھی قسم کا معیار مدنظر نہیں رکھا گیا اور بعد کے مراحل میں بھی بہت سی نزاکتوں نہ سمجھا گیا اور نہ ہی اسکی ضرورت محسوس کی گئی اس لئے مجموعی حوالے سے احتیاط اور محتاط رویوں میں کمی اوراکثرمقامات پر جذبات کے رو میں بہت سے سرگرمیاں سرعام انجام دیئے گئے امید بڑھتی گئی اور حوصلے بلند ہوئیں اور اس طرح کے اثرات بلوچ معاشرے کے ہر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے لوگوں پر برائے راست پڑتے رہے سیاسی حلقے بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہے لاکھ کوششوں کے باوجود نام نہاد قوم پرست جو پاکستانی پارلیمانی نظام کو جدوجہد کا محور قرار دے چکے تھے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں سیاسی کارکنوں میں پارلیمانی طرز سیاست ایک معیوب سا عمل ٹھہرا، کارکنان اور انکے قیادت کے بیچ پارلیمانی اور غیر پارلیمانی کی سوچ کشمکش سے سرکشی اور بغاوت کی سطح تک پہنچ گیا نام نہاد قوم پرست قیادت مکمل دفاعی پوزیشن میں جھوٹی تسلیاں، جواز و بے بنیاد دلائل کا سہارا لیتے رہے تاکہ اپنی جھوٹی سیاسی ساکھ برقرار رکھ سکیں بعض مقامات پرمجبورا اور نہ چاہتے ہوئے وہ بھی ظاہری آزادی کی فکر اور خاص کر مسلح جہدوجہد کی حقیقت کو تسلیم کرتے نظر آتے اس دوران اسی کشمکش میں آزادی پسند سیاسی پلیٹ فارمز کا جنم بھی ممکن ہواجو مسلح جہدوجہد کی کھل کر حمایت سے عوامی اعتماد حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے کیونکہ ایک واضح پروگرام حکمت عملی کے تحت ایک مضبوط عملی کردار کے بغیر عوامی اعتماد حاصل کرنا تقریبا نا ممکن ہی تھا تومسلح جدوجہدکی حمایت کے علاوہ ایک موثر پروگرام و حکمت عملی کے تحت عملی کردار سے قاصر گروپس کے بارے میں عوام کیلئے پارلیمانی اور غیر پارلیمانی پارٹیوں میں فرق ہی باقی نہیں رہتا کام کے معیار کو اوردشمن کو مدنظر رکھکر نہیں بنایا گیا بلکہ نام نہاد پارلیمانی قوم پرستوں سے تقابل کو مدنظر رکھکر ہر عمل سرانجام دیاگیا پارلیمانی نام نہاد قوم پرست بلوچ عوام کی سادہ لوحی سے ان حالات میں بھی فائدہ اٹھا رہے تھے لہذا کھلے پن کا ایسا مظاہرہ کیاگیا جس میں تمام حدوحدود احتیاط طویل مدت کے لئے پالیسیاں کارکنان و قیادت کا تحفظ کسی چیز کو بھی مدنظرنہیں رکھا گیا کارکنان و قیادت کی تحفظ کے حوالے سے ہمارے پالیسوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ہم پر کھلے پن کیلئے دباؤ بڑھایا جانے لگا کھلے پن سے دشمن کو وہ کڑیاں آسانی سے ملے جو مسلح جدوجہد سے پیوستہ تھے اور ہمارے کھلے پن نے دشمن کو بھی بہت سے اہم اہداف آسان اہداف کے طور پرفراہم کئے۔
دشمن کی طرف سے تحریک کو کاونٹر کرنے کی اسکی مراحلہ وارپالیسوں کو ہم اسکی کمزوری سمجھ کر مزید اسی رو میں بہتے گئے دشمن ضرب لگانے کی تگ و دو میں اپنے فورسز میں تبدیلی ،مخبروں میں اضافہ، جرائم پیشہ افراد کو مسلح کرنا، قبائلی معتبرین کو متحد کرنا ،ریاستی سیاسی و مذہبی قوتوں کو تحریک کے خلاف منظم کرنے میں لگا رہا اس کے علاوہ تحریک سے وابستگی ختم کرانے کے لئے تمام حلقوں میں سرینڈر ہونے کی پالیسی بھی عام کی ،اندرون خانہ رابطے شروع کئے ،دھمکی لالچ اور طاقت کا استعمال شروع کیا ،جو ابتداء میں پوشیدہ اور محدود تھا اس دوران تمام حالات سے باخبر ہونے کے باوجود ہماری پرانی روش جاری رہی ،ہم نے بلوچ عوام میں شعوری حوالے سے آگاہی پھیلانے کی بجائے ا ندھے طاقت کے استعمال کوبہتر سمجھا ،پارلیمانی پارٹیوں میں موجود ایجنٹ مخبروں کی کردار کو فاش کرکے انکو انجام تک پہنچانے کی بجائے پورے پارٹی کو ہدف بنایا ایک طرح سے ہم نے ارادی یا غیر ارادی طور پر ایک بہت بڑے حلقے کو دشمن کے کیمپ میں دھکیل دیا آسان اہداف کو ترجیح دی معلومات کی ناقص ذرائع پر انحصار کیا،معلومات کے اپنے ذرائع میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی دشمن کے خلاف خود منظم ہونے اور ممکنہ حد تک عوامی حلقوں کو منظم کرنے نئے محاذ تشکیل دینے سے قاصر رہیں، اور دوسری طرف اختلافی نقاط و اپنے کمزوریوں و نادانیوں پرعدم برداشت،تعلقات و اختلافات کی اہمیت و حدود سے نابلداسی ذہنی رویے اور روش کو جاری رکھا جو نام نہاد پارلمانی قوم پرستوں سے روا رکھاگیا یعنی آپسی تقابل نیچا دکھانے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کی اقدامات اس مراحلے و سطح پر بھی ہم نے دشمن کو مکمل نظر انداز کرکے ایک دوسرے کو مکمل ہدف بنائے رکھا جسکا فائدہ برائے راست دشمن اور نقصان ہمارے حصے میں آیا، دشمن نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور اسکو
بلوچ عوام میں مایوسی پھیلانے اور تحریک سے بلوچ عوام کو بدظن کرنے کے لئے استعمال کیا بلوچستان سے باہر جانے والے بلوچوں کو منظم کرنا اور دنیا کے دیگر ممالک میں قومی تحریک کے بارے میں آگاہی دینا اور تحریک کے لئے ہمدردی حاصل کرنا ایک اہم اور ضروری اقدام ہے لیکن یہاں بھی یہ گمان پختہ ہوتا جارہا ہے کہ وہی تقابل والا ذہنی رویہ یہاں بھی کام کر جائے گا کیونکہ جنگ کو بلوچستان میں منظم کرنے اور وسعت دینے سے تحریک کا حقیقی شکل ابھرے گا اور بیرون ملک منظم گروپس تحریک کے لئے حمایت اور اسکے متعلق آگاہی کا ذریعہ بنیں گے
مگر جو سرگوشیاں یا خاموش نادانیاں کبھی کبھی تیز ہوتے ہیں تو ان میں بھی اسی روش کا منظر نظر آتا ہے بقول عمر مختیار، جنگ تو لیبیا میں ہورہا ہے باہر دنیا میں نہیں۔ تو یہاں اپنے عوام کو آگاہی دینے کی آخری حد سے واقفیت ہے کہ غفلت میں مبتلا اور سوچ سمجھ کر خلاف جانے والوں کا علاج ایک ہے یا الگ الگ۔
دشمنی، اختلاف،عدم اعتماد،غفلت،مایوسی انکے کے حد حدود سمجھنے کی ضرورت ہے چاہئے وہ بلوچ عوام کا پارلیمانی نام نہاد قوم پرستوں میں حصہ داری ہو یا آزادی پسند دیگر گروپس میں تعلق یا کسی تنظیم کے اندر موجود جہدکاروں سے تعلق سب کوایک لاٹھی سے ہانکے نہیں جاتے اور صرف سیاہ و سفید میں نہیں دیکھے جاتے طویل مدت پالیسیاں بنانے اور ان عملی جامہ پہنانے کیلئے بہتر اور موثر حکمت عملی بنانے کے لیے حالات کا دشمن کا اور اپنے طاقت کا صیح تجزیہ وقت کا تقاضا ہے۔
آج کے نقصانات کا اگر غیرجانبدارانہ تحقیقات ہوں تو دشمن کے کاونٹر پالیسی کے تحت اقدامات اپنی جگہ بلوچ عوام میں مایوسی ناامیدی کا زیادہ تر حصہ اندرونی اختلافات پر ہمارے جارحانہ رویوں کے کھاتے میں جاتا ہے اختلاف پر اگر فراخدلی اور کھلے ذہنیت کا مظاہرہ کیا جاتا اور اندرونی مسائل کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا تو شاہد تحریک کے بدخواہ دشمن کے زرخریدوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملتا کہ یہ بلوچ عوام کی آزادی کی تحریک نہیں مفادات کی جنگ ہے یہ آپس میں ایک نہیں ایک ساتھ ایک آواز نہیں بلوچ عوام کو کیا متحد کرینگے اختلافات کی حقیقت انکے اہمیت اور انکے حل کرنے کی ضرورت یہ سب ہمارے جارحانہ رویوں کے بھینٹ چڑھا اوردوستوں کی تمام کاوشیں اس ذہنی رویے و روش کے نظر ہوگئے اور یہ تاثر تقویت حاصل کرگیا کہ سبقت لے جانے کا کھیل جاری ہے ،تحریک میں شمولیت کی نوعیت ایک جیسی نہیں تھی حالات سے متاثر ہونے والے واقعات کے اثرات سے شخصیات کے اثرانگیزی سے جذبات سے شعوری حوالے سے ان سب کے بیچ تعداد کم ہی رہا ایسی صورت حال میں تضادات و اختلافات اور ان پر جارحانہ رویے اور سطحی تجزیے ناقص معلومات کے ذرائع رابطوں کا فقدان بہت ہی بھاری رہا، جسکی وجہ سے منظم تنظیموں میں بھی نظم و ضبط قائم رکھنا مشکل رہا کیونکہ مقابلے بازی کی رجحان میں مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی جگہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا شروع ہوا تنظیموں میں دروازے کھول دیئے گئے، ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے کی بجائے انکو بنیاد بناکر بھرتی ہونے لگے عہدے تقسیم کئے گئے راز فاش ہوتے گئے جو جتنا زیادہ مخالف ہوتا مخالفت کرسکتااسکو اتنی زیادہ اہمیت دی جاتی ایک خودسری کا رجحان پیدا ہوا جو آخر میں سرینڈر ہونے سے بھی عار محسوس نہیں کیا اس دوران وہ مخلص دوست جو قدم بقدم جدوجہد کرتے آرہے تھے انکے کام اور محنت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئیں،جسکی وجہ سے ایک قسم کی بددلی نے جنم لیا اور مخلص دوست بھی مخمصے میں مبتلا ہوکر جستجوکرنے اور خطرہ ٹھان لینے سے کترانے لگیں، چاپلوسی اور چمچہ گری کے مواقع بڑھنے لگے اور اس کے سبب بہت سے غیرضروری نقاط کو اچھالا گیا بہت ہی غیرضروری اور بے بنیاد باتوں کو حقیقت کا رنگ دینے کی کوششیں ہوئیں، جو ہنوز کسی نہ کسی صورت جاری ہے شارٹ کٹ کے راستے کھل گئے چاپلوسی نے جگہ بنالیا تو پھر مجموعی حوالے سے چھوٹے چھوٹے سطح پر اچھے اور مخلص دوستوں کے خلاف سازشیں بھی شروع ہوئیں، جسکی وجہ سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوتے گئے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد از جلد ہمیں اپنے رویوں اور پرانے روش پر غور کرکے اسمیں بدلاو لانا چاہیے،تاکہ ایسے تمام منفی اقدامات کے سدباب کرکے منفی اثرات سے اپنے عوام اور ساتھیوں کو نکال سکیں اور حقیقی قوم دوست قوتیں اپنے طاقت کا عملی مظاہرہ کر سکیں پاکستان جس طرح سے گوادر کو چارہ بناکر اپنی بقاء اور فوجی طاقت کو تحفظ فراہم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہا ہے وہ ہمارے لئے بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں، گوادر کی جغرافیائی اہمیت کو اجاگر کرکے جس طرح وہ بین الاقوامی فوجی اتحادیہ کے تگ و دو میں لگا ہے وہ ہم سے کم از کم قومی اتحاد کا متقاضی ہے دوسری طرف دیگر چین اور پاکستان مخالف قوتوں کیلئے پاکستان اور چین کی مشترکہ مفادات باعث تشویش اور ناقابل برداشت ہیں اس عالمی رسی کشی میں بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کی خدوخال جس طرح سے سامنے آچکے ہیں وہ اس رائے کو بھی بین الاقوامی طور پر مضبوط کررہاہے کہ متبادل قوتوں پر بھی توجہ مرکوز ہو لازمی طور پر بلوچستان کے سرزمین پر طاقت کی کٹھ پتلیوں کی کم نہیں سب سے زیادہ اہمیت کا عامل سوال یہ ہے کہ قومی بقاء کے حوالے سے بلوچ قومی تحریک کی قیادت کتنا سنجیدہ ہے اور آگے چل کر کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرئے گا اگر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیاگیا تو یہ امکانات خارج از امکان نہیں کہ شام و افغانستان کی طرح ہزاروں گروپس اپنے اپنے مفادات کیلئے بلوچستان کو بلوچ عوام کیلئے جہنم بنائیں اور بین الاقوامی رسہ کشی اپنے مقاصد کا حصول ممکن بنائیں مذہبی شدت پسندی و دہشت گردی جیسے مبہم واقعات خطرے کی گھنٹی کے طور پر بج رہے ہیں اور ہم ان کی حقیقت و نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں، انکی سطحی خدوخال کا چرچا کرنے میں لگے ہیں دوسری طرف پاکستان بھی اسی کارڈ کو تحریک کے خلاف کھیل رہا ہے مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی رجحان کو اپنے حق میں موڑنے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی سے اسکو بلوچستان میں بڑھاوا دے رہا ہے یہ سوچ جو بلوچ قومی تحریک کا مکمل ضد ہے پاکستان اس سے قبل بھی بلوچستان پر قبضہ سے لیکر ہمیشہ ہر دور میں اسلام کو بطورکارڈ بلوچوں کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے مذہبی حساسیت سے پاکستان اسلئے بھی بلوچ قومی تحریک کو کاونٹرکرنے کی کوششیں کرتا ہے کیونکہ بلوچوں میں مذہب کی حوالے سے وضاحت اور تشریح کرنے کا رجحان گریزاں ہی رہا ہے پاکستان کوئی نظریاتی اثاثہ نہیں اسی لیے پنچاپی انتہائی شاطرانہ انداز میں مذہب اسلام کے مقدس نام کو استعمال کرکے لوگوں کو بلوچ تحریک کے خلاف آسانی سے استعمال کررہا ہے پنجاپی کو بلوچستان پر قبضہ کیلئے اسکے سوا کوئی چارہ نہیں وہ ہمیشہ بلوچوں کے ساتھ اپنے ناجائز رشتے کو قائم رکھنے اور بلوچوں کی نسل کشی کو اسلام کے پردے میں لپیٹ کر جائز قراردینے کی کوششیں کرتا چلاآرہا ہے آج قومی بقاء اور قومی مفادات کے تحت مشترکہ متفقہ رائے کیلئے سر جوڑ کر پالیسیاں مرتب کرنا ہونگے۔قومی مفاد اور قومی بقاء کی حصول کے خاطر ہر ایک کو انتہائی سنجیدگی اور لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا اگر وطن اور قوم کے مفادات عزیز ہیں تو اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو جرات کے ساتھ ماننے ہونگے ایک دوسرے کے طرف مخلصانہ انداز میں ہاتھ بڑھانے ہونگے ،ایک دوسرے کو سہارا دینا ہوگا اس میں انا ضد آڑے نہ آئیں یہ شرمندگی کی بات نہیں کیونکہ تاریخ کے صفوں میں شرمندگی سے بچنے کیلئے آج اتحاد و یکجہتی کیلئے کوشش کرنا ہزار درجہ بہتر ہے۔
اب بھی وقت ہیں قوم کی امیدیں اور مخلص جہد کاروں کاجذبہ و امیدیں توانا ہیں، سابقہ تمام معاملات اور مسائل پر ایک مشترکہ و متفقہ پالیسی واضح کرنا ہوگا، بصورت دیگر آنے والے دنوں میں بلوچ قوم اور خاص کر مخلص بے غرض جہدکار زمینی حقائق کے تناظر میں سابقہ رویوں کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہونگے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز