پنج‌شنبه, می 2, 2024
Homeآرٹیکلزنیشنلزم کا نظریہ اور بلوچ کا تصورحیات :تحریر: میران بلوچ

نیشنلزم کا نظریہ اور بلوچ کا تصورحیات :تحریر: میران بلوچ

جدوجہد کس لیے اور کس کے لیے کیا جاتا ہے ،مقصد اور ٹارگٹ کیا ہے ،اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے راستہ کا چناوُ صحیح ہے یا غلط ،کسی بھی مقصدیت کے حامل تحریک کا بنیادی ستون یہاں سے شروع ہو کر مقصد پانے تک ختم ہوتا ہے ۔جس طرح کسی بھی سفر کے لیے جہاز،گاڑی،موٹر سائیکل وسیلہ اور اسباب ہوتے ہیں اور منزل مقصد ہوتا ہے جیسے مثال کے طور پر تربت سے کراچی آغا خان ہسپتال میں مریض کو لے جانا مقصد ہے اور اس کے لیے جہاز ،گاڑی وسیلہ ہے اگر گاڑی خراب ہو کیا مریض کو اس انتظار میں بیٹھایا جائے تاآنکہ گاڑی صحیح کیا جائے یا کہ خراب گاڑی کی جگہ اور وسیلہ تلاش کیا جائے گا ۔ کوئی انتہائی درجے کا بے وقوف ہی ہوگا کہ گاڑی کے صحیح ہونے تک انتظار کرے گا لیکن عقل اور فہم کا حامل شخص ایسا نہیں کرے گا بلکل قومی معاملہ اور جدوجہدی مراحلہ بھی ایسا ہی ہے اس میں سب سے پہلی چیز نظریہ کا ہوتا ہے کہ جدوجہد میں نظریہ کیا ہے نظریہ کا معنی ہے شناخت کے لیے سوچ بچار اور غور و قیاس کرنا دوسرا معنی ہے کہ عقیدہ اوراعتقاد سے جڑے ہوئے اور اسکے مانند عمل کو نظریہ کہتے ہیں ۔ اب پچاس ملین کا سوال یہ ہے کہ کیا بلوچ قوم کی جدوجہد علاقے،ذات وپات، ،طبقاتی،گروہی، گینگ اور مافیا طرز ،مڈل کلاسی ،، سماجی جدوجہد ہے یا کہ قومی جدوجہد ہے ۔ اگر علاقائی ،طبقاتی، گروہی ،گینگ اور مافیا طرز ،مڈل کلاسی اور سماجی جدوجہد ہے تو یقیناًجدوجہد کا عقیدہ اور اعتقاد مڈل کلاسی ،طبقاتی اور سماجی نظریہ کے مانند ہوگا جو مکمل طور پر سوشلزم کا نظریہ ہے جیسے کچھ عقل سے عاری لوگ نیشنلزم کے نظریہ کا نام دے کر گدھے کو احمقانہ اور نامعقول انداز میں گھوڑا دیکھانے کی
کوشش کررہے ہیں ۔ اگر نظریہ نیشنلزم کا ، قومی شناخت اور آزادی کا ہے تو کیا دولت مند طبقہ ،سردار نواب،امیر غریب سب ایک ساتھ اس سوچ کو پروان چڑھا کر آگئے نہ لے جائیں پھر قوم کو سماج ،طبقات،اور مڈل کلاسی کے سوشلزم کے دور کے متروک اور دقیانوسی دلدل میں لے جانے کی کوشش کس مطلب اور مقصد کے لیے ہورہا ہے ۔نیشنلزم کے خالص نظریہ کو کچھ لوگ اپنی احساس کمتری کے حا مل سوچ اپنی کم عقلی ،جہالت ، بھڑک بازی ،کوتاہ نظری سے سماجی ،مڈل کلاسی،طبقاتی،علاقائی،خاندانی اور گروہی چربہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ،گدھے کو کوشش سے گھوڑا بنایا جاسکتا ہے لیکن سماجی ،مڈل کلاسی،طبقاتی ،خاندانی اور سوشلزم جیسی دقیانوسی نظریہ کو آج کے جدید دور میں نیشنلزم کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے اور ناہی آج کے اکسویں صدی میں بھڑک باز سلفی سرمچاری ،اخلاقی بر تری سے خالی لیڈرشپ ، اور قول وفعل میں تضاد دانشوری اور نیشنلزم کے جہد میں سماجی ،مڈل کلاسی اور طبقاتی نعرہ کی پروجیکشن کرکے مضبوط اور محکم قومی تحریک سے ایک پیداگیر طبقہ پیدا کرکے اپنے احساس کمتری کو احساس برتری کا نام دیکر نعرہ بازی اور بھڑک بازی سے کیا آزادی مل سکتی ہے ؟ قومی آزادی صرف نیشنلزم کے حقیقی رُوح کے عین مطابق حاصل کیا جاسکتا ہے اپنی قومی شناخت اور اپنی قوم پر فخر کرتے ہوئے اپنے قوم کو اغیار قوم اور لوگوں کی غلامی سے آزادی صرف اور صرف نیشنلزم کے تحت مل سکتی ہے ،اس میں عموماََ تاریخی حوالے سے اگر دیکھا جائے قومی جدوجہد کے دوران ہی قومی جدوجہد کو سماج،طبقات اور سوشلزم جیسے ملاوٹی نظریہ سے گڈمڈکرتے ہوئے ایک وقت میں وہ لوگ تحریک کو اس مقام میں اپنی ملاوٹی نظریہ کی وجہ سے لائے کہ پتہ نہیں چلا کہ یہ قومی تحریک ہے ،طبقاتی تحریک ہے ،مڈل مینی تحریک ہے یا کہ علاقائی تحریک ہے یہ سب کچھ اس وقت کے ملاوٹی نام نہاد لیڈر شپ نے اپنی ملاوٹی بے موسمی نعرہ سے کیا اور آج وہ سارے ملاوٹی لوگ اپنے ملاوٹ مڈل کلاسی کے نعرے کے ساتھ مڈل مینی کررہے ہیں ۔ہاں منظم قومی تحریک سے ان لوگوں نے اپنے ملاوٹی نعرہ سے ایک پیدا گیر طبقہ پیدا کیا جو آج زیادہ تر ریاست کا ہمنوا بن کر قومی تحریک کو کاونٹر کررہے ہیں اگر اس ملاوٹی نعرہ سے قومی تحریک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا تو کیا آج وہی نعرہ مختلف انداز میں لگانے والے شفاف نیشنلزم کے نظریہ کو سماجی ،طبقاتی اور سوشلزم کے نظریہ سے کاونٹر کر کے قومی تحریک کو اپنی احساس کمتری ،جاہلی یا کہ ذاتی غرض ومقصد کی خاطر ڈی ریل نہیں کررہے ہیں ؟؟

یہ بھی پڑھیں

فیچرز