جمعه, آوریل 26, 2024
Homeآرٹیکلزہر جہد تسلسل کا متقاضی :تحریر:مھراب مھر

ہر جہد تسلسل کا متقاضی :تحریر:مھراب مھر

جرمنی میں فری بلوچستان موومنٹ کے نام سے لانگ مارچ سے کیا حاصل ہوگا؟ الٹا فائدے کی بجائے دنیا کے سامنے ہمارے امیج پر برا اثر پڑے گا اگر ہم سو یا ہزار کی تعداد میں لانگ مارچ کرتے تو عالمی میڈیا ہماری طرف رجوع کرتا اور ہم اپنا پیغام بہت ہی اچھے طریقے سے دنیا کے سامنے رکھ پاتے. اب ان دس بندوں کے لانگ مارچ سے کچھ نہیں ہوگا. ایک دوست مسلسل اپنی باتوں کو ربط دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ انھیں اتنا پتہ نہیں کہ اصل جھنڈا کونسا ہے کھبی وہ آزاد بلوچستان کے جھنڈے کو بی آرپی کا جھنڈا بناتے ہیں اسطرح وہ ہمارے حقیقی موقف کو متاثر کرینگے. یہ شو بازی کے علاوہ کچھ بھی نہیں.
تھوڑی دیر تک ہمارے بیچ خاموشی چھائی رہی میں سوچ میں پڑ گیا کہ ہر مثبت عمل پر اس طرح سوچنا کیا معنی رکھتا ہے یا پھر سوال کرنے کی عادت و ہر عمل میں کچھ نہ کچھ منفی پہلو ڈھونڈنا ہماری عادت بن چکی ہے یا پھر اصلاحی تنقید کو ذہین میں رکھ کر ایسے سوالات کیے جاتے ہیں سوچ بچار کے بعد میں جعفر خان اچکزئی کے سوالا جوابا کی طرح مختصر جواب دینے کی بجائے اپنی دانست کے مطابق اس لانگ مارچ پر کہا. دوست بھی سننے کے لیے بے تاب تھا تاکہ وہ میری رائے سے آشنا ہو. دیکھیں دوست جدوجہد کرنے کا طریقہ ایک نہیں ہوتا لوگ اپنی آزادی کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کرکے اپنا پیغام دنیا تک پہنچاتے ہیں میڈیا کے ذریعے ایک بیان ہو یا کہ سوشل میڈیا میں دشمن کے خلاف ایک مہم ہو یا کہ پھر دشمن پر ایک موثر حملہ ہو ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے اور ہر چھوٹا یا بڑا عمل جب تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے تو اسکی اہمیت بڑھتی جاتی ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا بعض جگہ ایک چھوٹا احتجاج دنیا کے سامنے آپکے موقف کو زیادہ تیزی کے ساتھ پہنچا سکتا ہے بہ نسبت کہ ایک بہت بڑے پروگرام کے. مجھے یقین ہے کہ اس لانگ مارچ سے دنیا کی پالیسیاں پاکستان کے حوالے سے بدلینگے نہیں اور نہ ہی جرمنی و دیگر یورپی ممالک اس احتجاج کے بعد پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بلوچ وطن کو آزاد کرے اور وہاں سے اپنی فوجیں نکال لیں. اور ایسے توقع رکھنا بے وقوفی کے زمرے میں آئے گا اور ایسا ہونا ممکن بھی نہیں ہے لیکن اس احتجاج سے پاکستان کی بلوچ وطن پر ظلم جبر و بربریت کی داستان کم از کم پانچ ہزار لوگوں تک ضرور پہنچ جائے گا یہ ایک ایسا ہی احتجاج ہے جیسے کہ بچہ رو کر اپنی ماں کو دودھ پلانے کے لیے مجبور کرتا ہے اور ہم بھی اپنی کم افرادی قوت کے ساتھ اگر یورپ میں ایک احتجاج کرینگے اس میں ہمارے نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہمارا ہر حوالے سے فائدہ ہی ہے دیکھیں احمر مستی خان نے جنیوا کے اجلاس میں نواز شریف کے تقریر کے دوران سرف دو تین جملے بطور احتجاج کہے اس کا سوشل میڈیا سمیت دنیا کے میڈیا میں کتنی پزیرائی ہوئی اور مجموعی بلوچ آزادی پسندوں کا موقف دنیا کے سامنے آ گیا اب اس عمل کو کون خراب سمجھے گا میرے خیال میں ہر شخص اپنی بساط کے مطابق ریاست کی ظلم جبر و بربریت کو جس انداز سے دنیاکے سامنے آشکار کر سکتا ہے وہ کرے یہی چھوٹے چھوٹے احتجاج دنیا کو اس ظلم سے آگہی کے بعد اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے مجبور کر سکتے ہیں اگر دنیا کی پالیسیاں بدل نہ جائے تو اس سے ہم پر کیا اثر پڑے گا ہم پہلے جس حال میں تھے اسی حال میں رہیں گے ہماری بے بسی و لاچاری کو ہم سے کوئی چھین نہیں سکتا اب جو لوگ اس احتجاج کو کررہے ہیں وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس احتجاج سے یورپی ممالک کی ہمدردیاں یک دم بلوچ کے ساتھ نہیں ہونگے اور شاہد اس سے ان پر کوئی اثر ہی نہ پڑے لیکن وہ اپنی کوشش ضرور کر رہے ہیں کہ دنیا انکی بات کو سننے کے ساتھ سمجھے. ویسے بھی اسامہ بن لادن سمیت طالبان کا مرکز پاکستان ہی ہے اور اس سے دنیا کی انٹیلیجنس ایجنسیاں بخوبی واقف ہیں لیکن پھر بھی وہ خاموش ہیں جب انکے لیے کوئی درد سر بنے گا وہ ہلیں گے ایک دوسرے سے جڑ جائینگے لیکن پاکستان کے حوالے سے وہ ابھی تک خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں عراق و افغانستان و سیریا کے بعد وہ مزید محاذ بنانے کے پوزیشن میں نہیں اسطرح اس احتجاج سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی کم ازکم اس عمل سے ریاست پاکستان کی جبر و بربریت کو کچھ لوگوں کے سامنے آشکار کیا جاسکے گا اور ساتھ ساتھ کچھ لوگ جو یورپ میں پناہ گزین ہیں انھیں موبلایزیشن کے حوالے سے ایک بہتر پلیٹ فارم مل سکتا ہے اور اسطرح وہ بکھرے بلوچوں کو ایک قومی یکجہتی کے پلیٹ فارم پر متحدد کر سکتے ہیں اور اس احتجاج کے تسلسل کو برقرار رکھ کر وہ تبدیلی لا سکتے ہیں تو امید کی جاسکتی کہ بلوچ قوم پر پاکستانی قبضہ گیریت و بلوچ عوام پر جبر و بربریت سے آشنا ہو سکیں گے اور جہد آزادی تکلیف دہ و صبر آزما سفر ہے اس میں صدی لگ جاتے ہیں اور تسلسل کو برقرار رکھ کر دنیا کی ہمدردی حاصل کی جاسکتی ہے آج کی جنگ صرف ایک خطے تک محدود نہیں بلوچ اپنی جنگ کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچانے کے بعد ہی کامیابی حاصل کر سکتی ہے بلوچستان میں پہلے لانگ مارچ کے بعد اب یورپ میں یہ لانگ مارچ موبلائزیشن کے ساتھ دنیا کے سامنے بلوچ قوم کی حالت زار کو آشکار کرنے کا سبب بن سکتا ہے فری بلوچستان موومنٹ کے نام سے اس لانگ مارچ سے اگر کسی ریاست کی پالیسی بلوچ کے حق میں نہ بھی ہو کم ازکم ہزاروں لوگوں سے بات کرتے ہوئے یا پمفلٹنگ کرتے ہوئے اس سفر میں انھیں بلوچ قوم زبان کلچر و تاریخ کے بارے معلوم دار کر سکتے ہیں کہ ایک قوم جس پر پاکستان قابض ہے اور وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یورپ میں پناہ گزین ہو کر اپنے دشمن کے خلاف جہد کر رہے ہیں یہیں سے عوامی ہمدردی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور یورپ کے دیگر شہروں میں چھوٹے پیمانے پر ایسے بہت سے چھوٹے احتجاج ہوسکتے ہیں جس طرح جدوجہد کے مختلف طریقے ہیں اسی طرح احتجاج بھوک ہڑتال پہیہ جام ہڑتال دھرنا مظاہرے یہ سارے اس جدوجہد کے طریقہ کار ہیں اقوام متحدہ یا کہ یورپی ممالک کے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج بھی اسی جہد کا حصہ ہیں اور اس احتجاجی ریلی سے یہ توقع رکھنا کہ اس ریلی کے بعد بلوچستان آزاد ہوگا یہ بے وقوفی ہے آزادی خون سے ہی حاصل ہوگی اور آزادی کے لیے جدوجہد کے مختلف ذرائع استعمال کرکے اپنی جہد کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا ہی کامیابی کا ضامن ہوگا اور جرمنی جیسے ملک میں آزادی کا یہ لانگ مارچ لوگوں کے سامنے پاکستان کی قبضہ گیریت و بربریت کو ظاہر کرنے میں کارمند ثابت ہو سکتا ہے اور ہر جہد تسلسل کا متقاضی ہوتا ہے اور کامیابی بھی پختہ عزم ثابت قدمی و مسلسل جہد سے ہی ممکن ہے اور اس کا تسلسل جاری رہا تو اس سے دنیا میں بلوچ کا پیغام پہنچانے میں آسانی ہوگی. ہر چھوٹا عمل جس سے قبضہ گیر کی اصلیت دنیا کے سامنے آشکار ہوگی ہر وہ عمل ہر آزادی پسند کو کرنی چاہیے جس سے قبضہ گیر کی بدنامی ہو یہ اسی جہد کا سلسلہ ہے جو 68 سالوں سے جاری ہے اب اگر کچھ لوگ اس لانگ مارچ کو آزادی کا منزل سمجھتے ہیں یہ انکی غلط فہمی ہے اور اگر کچھ لوگ اس لانگ مارچ سے بہتر کوئی اور کام کر سکتے ہیں تو یہ اور خوشی کی بات ہوگی حالانکہ یورپ کے ممالک میں ایسے لانگ مارچ یا پروگرام کرنے کے لیے بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہوتی ہے اور ان سے اجازت نامے کا سلسلہ انتہائی کٹھن و تکلیف دہ ہے اور اس سے بڑھ کر پیدل چل کر گلی کوچوں سے گزر کر لوگوں کو اپنے لانگ مارچ کا مقصد بتانا کوئی آسان کام نہیں ویسے بھی اس سے پہلے بھی بہت سے بلوچ یورپ کے دیگر ممالک میں موجود ہیں انھیں چاہیے کہ وہ ادارتی حوالے سے اس سے بہتر جہد کر کے دکھائیں جس سے بلوچ قومی موقف دنیا کے سامنے جائے اب مفت میں بیٹھ کر انگلی اٹھانے سے اس پروگرام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن ایسے چھوٹے احتجاجوں سے کم ازکم کچھ ہزار لوگ بلوچ قوم و انکے حالات سے واقف ضرور ہونگے چاہے وہ ہمدردی رکھیں یا نہ رکھیں بحثیت بلوچ آپکی پہچان ہی آپکی کامیابی ہے اور آج بحثیت بلوچ کچھ لوگ ضرور اس عمل سے متاثر ہونگے اگر دیکھا جائے جب تامل ٹائیگرز کے خلاف سری لنکا نے مکمل آپریشن کا آغاز کیا تو دنیا میں کچھ تاملز نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیے خود سوزی کرنے لگے انکی خود سوزی سے سری لنکا کی پالیسی نہیں بدلی لیکن بحثیت ایک فرد اس شخص نے اپنی وطن دوستی کا ثبوت دے دیا آج ہماری بھی یہی صورتحال ہے اگر بلوچ خود سوزی یا کوئی اور احتجاج نہیں کر سکتا وہ لانگ مارچ کر سکتا ہے وہ بھوک ہڑتال کر سکتا ہے جنیوا یا دیگر اداروں میں جاکر تقریر کرنا یا لوگوں سے مل کر انھیں اپنے مسائل کے بارے آگاہ کرنا ایک مثبت قدم ہے اسی طرح لانگ مارچ و دیگر احتجاجی مظاہرے کرنا بھی اسی تسلسل کا حصہ ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ تم کرو تو جئے جئے کار ہو اگر ہم کریں تو مردہ باد ہو. نجانے کب اس سوچ سے نکلیں قومی حوالے سے کوئی بھی چھوٹا یا بڑا پروگرام قومی مفاد میں ہو اسکی تشہیر یا کہ اس پروگرام کا حصہ دار بننا ہر بلوچ کا فرض ہے لیکن جب اس پروگرام سے بلا جواز کنارہ کشی یا اس پروگرام کے حوالے سے منفی پروپگنڈہ کرنا مجموعی حوالے سے قومی مفاد میں نہ ہوگا جب اپنے دل کی تسکین کے لیے کسی مثبت احتجاج یا پروگرام پر بےجا تنقید کی جائے گی اس سے وہ پروگرام متاثر نہ ہوگا لیکن دیگر لوگ جو سیاسی حوالے سے پختہ نہیں ہوتے وہ اس جہد سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں آج تک بیرونی ممالک سے جو توقع بلوچ قوم رکھتا ہے وہ پذیرائی نہ ملنے کی وجہ بلوچ کے اندرونی کھنچا تانی سمیت دیگر مسائل ہوسکتے ہیں کہ ہم ہر دس قدم پر ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کرتو تو میں میں لگے رہتے ہیں اجتماعیت ہم سے کوسوں دور ہے اور ہر ایک اپنے سرکل میں تبدیلی کی کوشش تو ضرور کررہے ہیں لیکن مجموعی حوالے سے تبدیلی کے آثار ناپید ہیں ہم اگر اس دوڑ میں لگے رہے کہ فلاں کے پاس لوگ کم ہے یا فلاں کام نہیں کرتا یا فلاں کوئی کام شوبازی کے لیے کررہا ہے تو ہم کام ہی نہیں کر پائیں گے کیونکہ کام کرنا کام نہ کرنے سے بہتر ہے اور آج کچھ دوست پختہ عزم کے ساتھ ایک لانگ مارچ کررہے ہیں یہ اچھی کوشش و تبدیلی ہے جس سے یورپ و دیگر ممالک میں بلوچوں کو ایک پلیٹ فارم میسر ہوسکتا ہے جہاں وہ اپنی بساط کے مطابق ریاستی ظلم و جبر کو دنیا کے سامنے لاسکتے ہیں مہگونگ جیسی چھوٹی بچی پختہ عزم کے ساتھ ہنستی مسکراتی لانگ مارچ کا حصہ ہے وہ ابھی تک شفاف ذہنیت کے ساتھ ہر سیاسی عمل کو اجتماعیت کے دائرے میں دیکھتی ہے اسکا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقت میں وہ قومی جہد آزادی میں اپنا ایک بہتر کردار ادا کرسکے نہ کہ قدم قدم پر حوصلہ شکنی کا بازار گرم رکھا جائے آج جو لوگ پختہ عزم کے ساتھ دوران سفر جن تکالیف سے گذر رہے ہیں اگر انکی حوصلہ افزائی ہوگی تو آگے یہ سلسلہ مزید بہتر و توانا ہوسکے گا بلوچستان میں لانگ مارچ کے آغاز کے بعد لانگ مارچ کرنے کا خیال تقویت پکڑنے لگا نصیر بلوچ اپنے فیملی کے ہمراہ اپنی مہگونگ جیسی چھوٹی بچی کے ساتھ کوریا میں لانگ مارچ کر کے اپنا احتجاج کرتا رہا اور پاکستان کی بلوچ وطن پر قتل عام کو اجاگر کرتا رہا اور اب جرمنی میں اسی طرح جدوجہد کا یہ طریقہ کامیاب طریقہ بنتا جارہا ہے جہاں دوران سفر لوگوں سے مل کر انھیں اپنے وطن پر ہونے والے مظالم کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا اور عالمی میڈیا میں بلوچ قومی مسئلہ اجاگر ہوتا جائے گا اور مزید دیگر سیاسی ادارے پاکستان کی بلوچ وطن پر قتل عام کو دنیا کے سامنے کسی اور طریقے سے آشکار کر سکتے ہیں اور بے جا تنقید کی بجائے دشمن کے خلاف کوئی بہتر عمل کر سکتے ہیں اور جہد آزادی رواں ہے نہ ہی یہ ابتدا ہے اور نہ ہی آخر. اس طرح مثبت سوچ کے ساتھ ہر اس قومی اجتماعی عمل کا بلا تفریق حصہ بننا قوم دوستی و وطن دوستی ہوگی
یہ بھی پڑھیں

فیچرز