جمعه, آوریل 26, 2024
Homeآرٹیکلز13 نومبر یوم شہداء ،تحریر: زامران بلوچ

13 نومبر یوم شہداء ،تحریر: زامران بلوچ

شہدائے آزادی قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں، ان کی لازوال قربانیوں پر قوم ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
شہیدوں کے لہو سے حریت کے دیپ جلتے ہیں انہی کے عظیم اور لازوال قربانیوں کے بدولت ہم آج شان سے کہتے ہیں کہ ہم بلوچستان کے والی وارث اور بلوچ ہیں، وطن مادر کی محبت ‘ غلامی سے نفرت کو لیے دھرتی ماں کے فرزند جانوں کے پروا کیے بغیر جہد مسلسل کا علم ( بیرک) ہاتھ میں لے کرظلم کے خلاف اپنے سے کئی گنا بڑے طاقتور سے نبرد آزما ہوکر جام شہادت نوش کرتے ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ امر ہوتے ہیں. بلوچستان وہ خوش قسمت ماں ہے جس کے ہزاروں فرزند مادر وطن پر مر مٹے نیو کاہان میں کوہ چلتن کے دامن بولان کے پہاڑی سلسلہ اور بلوچستان کے ہر کونے میں وطن مادر کے فرزند سپرد گلزمین ہیں ” وہ لوگ جنہوں نے خون دے کر گلشن کو رنگت بخشی ہے ” دو چار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانے کتنے ہیں ” اگر ہم سال کے 365 دنوں کے ہر گھنٹے میں اپنے شہیدوں کے برسی منا لیں تو یہ دن بھی کم ہونگے کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ دھرتی کے فرزند شہادت کا رتبہ پا چکے ہیں اور آزادی کا تمنا لیے ہر شہید وطن کا شہید ہے اور اپنے ماں کا شہزداہ ہے کوئی شہید کسی شہید سے افضل یا کمتر نہیں ہے اور 13 نومبر کا فلسفہ یہی ہے بلوچستان کی آزادی کے لیئے جان نچاور کرنے والے تمام شہداء کا تحریک آزادی میں ایک مقام ہے
آج اگر ہمارے ایک آدھ آزادی پسند پارٹیاں اپنے پارٹی سے منسلک ہی شہدا کا برسی مناتے ہیں اور ہزاروں شہداء کی نام تک لینا گورا نہیں کرتے تو ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزند جہد آزادی کے پاداش میں شہید ہوئیں ہیں زیادہ تر کسی پارٹی تنظیم سے منسلک نہیں تھے تو انکی قربانی کو کس نظر سے دیکھا جائے؟ کیا ایک آزادی کا متوالہ اپنے شہیدوں کی عظیم قربانیوں کو فراموش کرسکتا ہے؟ جو بلوچ بہادری سے اپنے سینہ پر گولی کھا کر شہید ہوا ہے اْسے کوئی یاد نہیں کرتا سب شہداء ایک جیسے اور افضل ہیں سب شاہ شہیدان ہیں سب مقدس ہیں اس تحریک کی آبیاری میں سب شہیدوں کا لہو شامل ہے آج سے چند سے سال پہلے بی ایل اے نے بحیثیت ایک ذمہدار تنظیم یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ شہدا بلوچستان کے نام پر ایک دن تجویز کیا جائے تاکہ دنیا بھر کہ بلوچ شہداء کا دن عقیدت اور احترام کے ساتھ مناکر شہداء کی ارمان آزاد بلوچستان کے پیغام کو عام کریں شہید اول محراب خان کی شہادت کی دن کے مناسبت سے 13 نومبر کو یوم شہداء ( شھمیریں بلوچانی روچ) کے نام سے منانے کا فیصلہ ہوا ‘
ہمیں ایک دن ان شہداء کے نام پر قربان کرکے دنیا بھر کے بلوچوں کو یکجہتی کا پیغام دینا ہے اور دنیا کے سامنے واضح کیا جائے کہ ہزاروں شہداء کا ارمان پاکستانی قبضہ سے آزادی کے لیے تھا آج دنیا کے جس حصہ میں تحریک آزادی چل رہے ہیں سب کے شہداء کا ایک دن مخصوص ہے ہر روز ایک شہید کی برسی پر فوٹو سیشن سے بہتر ہے کہ اجتماعی طور پر منظم انداز سے شہدا کا دن منایا جائے 13نومبر ایک طویل تاریخ پس منظر رکھتاہے اور اس دن کو شہداء کا مشترکہ دن منانے کا مقصد اس دن کی اہمیت اور قومی آزادی کی طویل جدوجہدکو نہ صرف اجاگر کرنا ہے بلکہ واضح اور دوٹوک موقف کے ساتھ عالمی برادری کے توجہ بھی مبذول کرانا ہے کہ ہزاروں شہیدوں کا ارمان اپنے وطن کی آزادی ہے 13نومبر1839کو پہلی بار انگریز سامراج نے بلوچ وطن پر قبضہ کرکے بلوچ قومی آزادی کو سلب کرکے دنیا کے نقشہ میں موجود آزاد بلوچ مملکت وحکومت پر نہ صرف غاصبانہ قبضہ قائم کی بلکہ انتہائی بے رحمی کے ساتھ بلوچ قومی وحدت کو پارہ پارہ کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ بلوچ زمین اور آبادی کو تقسیم کیا اس وقت بلوچ ریاستی امور کے سربراہ میر محراب خان تھیں جنہوں نے انگریز غاصبوں کے خلاف علم آزادی بلند کرکے بلوچ قومی لشکر کے ساتھ بلوچ وطن کی آزادی اور دفاع کے لئے غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف بڑے پیمانے جنگ کا آغاز کیا اور اس قومی جنگ کے دوران شہید محراب خان اور ان کے ساتھی جام شہادت نوش کرکے آنے والے نسلوں کو جدوجہد کے لئے اپنی خون سے روشنی اور راہ دکھاتے ہوئے عظیم تاریخ رقم کرکے انگریز سامراج پر واضح کیا کہ بلوچ قوم اپنی مال و جان قربان کرسکتے ہیں لیکن کسی کی جی حضوری اور تابعداری نہیں کرسکتے اور یہی فکر و فلسفہ بلوچ تاریخ کو قابل فخر بنادیا ہے محراب خان اور ان کے ساتھیوں کی آزادی کامشن جاری ہے 175 سال سے بلوچ قوم کے بہادر فرزند انگریز اور آج پاکستانی ریاست کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف جو لازوال قربانیوں اور انمٹ داستانوں کی تاریح رقم کررہے ہیں اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے مادر وطن کے سپوت اپنے جانوں نظرانہ پیش کررہے ہیں. 1948 1958 1973سے لے کر اب تک ہزارون بلوچ فرزند آزادی کے روشن کل کے لئے اپنا آج قربان کرکے اپنے لہو سے آزادی کے چراغ کو ایندھن دے کر روشن کیا ہے1839 سے لے کر اب تک آزادی کے لئے کام آنے وہ تما م سپوت ہمارے قومی ہیرو ہیں، ہزاروں معلوم و نامعلوم شہدا ء جنہوں نے آزادی کی صبح کواگر چہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہوں نے غلامی کے خلاف بیش بہا قربانیاں دیکر آزادی کی جدوجہد کے وجود کو زندہ رکھاہے ان کی تقلید اور پیروی کرتے ہوئے بلوچ قومی آزادی کا جنگ جاری ہے. شہداء بلوچستان کے خون کا بہترین انتقام آزاد بلوچستان ہے’ اور آزادی جیسے عظیم نعمت کو حاصل کرنے کے لیے ایک قوم بننا ہوگا نہ کہ پارٹی پرستش سے آزادی ملے گا. ایک بلوچ فرزند زندگی کو ہاتھ میں لے کر موت کی وادیوں میں قدم رکھتا ہے اسکا مقصد عظیم ہوتا ہے وہ اپنے خون کے قطروں سے جہد آزادی کے عظیم قربانیوں کو تاریح کے اوراق میں لکھتا ہے. تاکہ آنے والے نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوجائے لیکن بد قسمتی سے یہان شوق لیڈری میں اپنی ڈیڑھ انچ کی مساجدین بنا کر سب شہداء کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر گروہی مفادات کے پیچھے پڑھے ہیں. لیکن بلوچ قوم اور اسکا حقیقی جہد کار یہ فیصلہ کرچکے ہیں 13 نومبر کو یوم شہداء بھر پور طریقہ سے مناکر مفاد پرستوں اور ریاست دشمن کے سامنے یہ واضح کیا جائے گا کہ شہید کا ایک ہی ارمان آزادی اور انقلاب.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز