سه‌شنبه, آوریل 30, 2024
Homeآرٹیکلزانقلابی ورثااور انکے جرائم(مشال خان)۔تحریر:عثمان بلوچ

انقلابی ورثااور انکے جرائم(مشال خان)۔تحریر:عثمان بلوچ

ایک اور گھناؤنی اندھیری شام آئی گئی جس میں سماج کی بیماری وتعفنی کو دیکھا اور محصوص کیاگیا لیکن تب تک ہیرےکو نگلاجا چکا تھا۔

یہی دن ہی تھا 13 اپریل 2017 بروز جمعرات جب ایک سماجی کارکن کو سماجی و سیاسی جدوجہد کے جرم میں قتل کیا گیا۔ یہ منظر اپنے اندر ہی درندگی اور وحشت آمیزی کا ایک اذیت کوش تھا جس میں چند درندوں نے مختلف جھوٹے کلمات کی بنا پر ایک ماں کا لال نگل لیا۔ جس میں ہر ایک ماں کی آنکھ نم تھی ، معاشرہ ایک باپ کے سامنے بے بس تھا۔ یہ وہ روز تھا جب اقبال لالہ کی استقامت اور شیرین یار کی بہادری و جرات اس نظامِ بربریت کا سامنا کر رہے تھے۔

پولیس کے مطابق اسکے کمرے سے کارل مارکس، لینن اور اینگلز جیسے معزز حضرات کی تصویریں دیواروں پہ آویزاں تھیں۔ کیا یہی وہ جرم ہے جس پہ سیاسیات اور اخلاقیات کے دیوتاؤں نے اسے بہیمانہ قتل کا شکاربنایا۔

اس روز شیرین یار کہتے ہیں کہ جب میں جنازے کی غرض سے صوابی کے گاؤں مشال خان کے گھر پہنچا تو گھر بالکل سُنسان اور اجڑا ہوا تھا ساتھ ہی ساتھ مختلف ملاء حضرات نے مختلف فتوؤں کے ساتھ جنازے نہ کرنے کی تاکید کی جن میں کفر اور نکاح ٹوٹ جانے کے فتوے اپنی نمائندگی کا واضع نشان ظاہر کرتی ہیں۔ شرین یار کی غیرمعمولی ہمت اور رائفلز کے زور پہ چار افراد پر مشتمل مشال خان کا جنازہ ہوا، امامت کے لیے امام میسر نا ہونے کی وجہ سے ایک اجنبی شخص شاہ ولی ناجانے کیسے اس فریضے کو اپنے سر کرنے لگا۔ اس کی حفاظت شیرین یار اور اس کے دوست نے مقامی رائفلز کے ذریعے کی۔

شرین یار جو کہ ایک انسانی رہنما کی بنیاد پہ جانا جاتا ہے وہ مشال خان سے کبھی ملے نہ تھے صرف اسکے والد کی شاعری کی وجہ سے معمولی واقفیت تھی۔

مشال خان کے بہیمانہ قتل میں نہ ہی کوئی راء کا ایجنٹ شامل تھا نہ کسی اور سیارے سے آنے والی کوئی دوسری مخلوق تھی۔ اس قتل میں ملوث اسکے دوست احباب اور ہم جماعت تھے جن کے سامنے انہوں نے اپنی جان کی بھیک مانگی جنہوں نے سیڑھیوں پر سے گھسیٹتے ہوئے اور لاٹھیوں کی برسات کرتے ہوئے ایک تحریک انصاف کے طلبہ کی گولی ان کے سینے کو نذر کرگئی ۔ اسی حالت میں بھی مشال خان اپنی بے گناہی کو ثابت کرتا رہا، پانی مانگتا رہا، ہسپتال لے جانے کی استدعا کرتا رہا، اس سر پہ گملے پھوڑتے رہے، ویڈیوز بنتی رہیں مگر افسوس کہ عروج پر پہنچی ہوئی درندگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ساتھ ہی مولوی حضرات فلسطین اورشام کا غم اپنے دردِ سر لینے میں مصروف تھے۔

مشال خان ایک طلبہ رہنما تھے جوکہ مردان یورنیورسٹی میں طلبہ کے حقوق کی آواز بلند کرتے تھے ۔اس واقعہ کے بعد ایک استاد ضیاد الدین ہمدرد جوکہ مشال خان کے قتل کے ایک ہفتہ بعد یونیورسٹی سے مستعفی ہوگئے، مشال خان تو نہیں رہا لیکن اس کے قتل کے گواہ اور اس کا خاندان آج بھی خوف و ہراس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ضیا الدین نے گواہی دی لیکن پھر اپنی جان بچانے کے لئے آج ملک بدر ہے۔ کیس کی رپورٹ اور ضیا الدین کی گواہی نے واضح کیا کہ کرپٹ یونیورسٹی انتظامیہ مشال کے قتل کی منصوبہ بندی میں شریکِ جرم تھی۔

مشال خان کا قصور ادارے کی انتظامیہ اور نام نہاد طلبہ تنظیموں کی ملی بھگت کرپشن اور بھتہ خوری کو بے نقاب کرنا تھا۔ ہر پلیٹ فارم پہ طلبہ کے حقوق کی آواز کو بلند کرنا تھا۔ اس جرم کی وجہ سے جمیعت جیسی رجعت پرستانہ طلبہ سیاسی کلب ساتھ ہی تحریک انصاف جیسے فسطائی سیاسی کلب انتظامیہ کے ملی بھگت مشال خان کے اوپر بے بنیاد الزامات پہ اس کا قتل کیا جاتا ہے ۔ اسکی ماں کے بقول اسکے ہاتھ کی تمام ہڈیاں توڑ دی گئیں ۔ ایسے امر پہ سیکیورٹی اداروں سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی سے ان کی سہولت کاری بھی ثابت ہوگئی ہے۔

ضیائی آمریت کے وقتوں سے لے کر آج تک آئے روز دن دیہاڑے سماج میں خاص کر طلبہ میں جو زہر اُگلا جا رہا ہے آج سے پانچ سال تک کہیں زیادہ گھناؤنی شکل اختیار کی (خاص کر عمران خان رجعت پرستانہ نظریات کے ساتھ)۔تیئس سال کے مشال خان کا بہیمانہ قتل ایک دفعہ پھر یہ ثابت کرتا ہے یہ کس حد تک بیمار اور تعفن کا شکار ہوچکا ہے۔

یہ واقعات صرف مردان تک ہی نہیں یہ واقعہ بلوچستان میں حیات کی شکل میں ابھرتے ہیں ،سندھ میں کسی اور شکل میں ابھرتے ہیں جس نام نہاد قومی سوال کے نام پہ مفادات کو چومنے والے حضرات کو ضیاالحق نے ایک اور طاقت دی۔ آج بھی بلوچستان سمیت پاکستان کے دوسری یونیورسٹیوں میں ڈنڈا بردار گروہ، بھتہ خور گروہ مختلف دھڑے باز گروہوں کو دن بہ دن ترقی دی جا رہی ہے جوکہ مختلف پاکٹ آرگنائزیشن کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز