اتوار, مئی 19, 2024
ہومخبریںاپریل میں 58زائد فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔بی ایچ آر او

اپریل میں 58زائد فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔بی ایچ آر او

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی ماہانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ فورسز کی 58سے زائد کاروائیوں میں صرف اپریل 2016کے دوران 89افراد ہلاک اور 130سے زائد اغواء کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز بہ روز شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ رواں سال کی جنوری کے دوران فورسز کے ہاتھوں ہونے والے31ہلاکتوں کے مقابلے میں اپریل میں دو گنا سے زائد افراد قتل کیے جا چکے ہیں۔ جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی حد تک غیر متوازن ہو چکی ہے۔اپریل کی 6سے8تاریخ کے درمیان قلات و نوشکی کے درمیانی علاقوں سمیت گردو نواح کے علاقوں میں فورسز کی کاروائیوں کے دوران 34سے زائد افراد خود فورسز کی بیانات کے مطابق ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ جن میں ایک درجن سے زائد وہ لوگ بھی شامل تھے جو کہ اپنے مویشیوں کے لئے چراگاہ کی تلاش میں کچھی کے علاقوں سے نکل کر سرد علاقوں کی جانب نکل مکانی کررہے تھے۔فضائی بمباری سے خانہ بدوش خاندانوں کی مرد حضرات سمیت بڑی تعداد میں خواتین بھی ہلاک ہوئے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق ان خواتین میں حور بی بی ،بی بی شالی، نمر خاتون ، گل بی بی ، ناز بی بی سمیت کئی دوسرے خواتین شامل ہیں۔ جبکہ زخمیوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔19اپریل کوآواران ہسپتال میں فورسز نے دو لاشیں پہنچائیں جنہیں مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ ان لاشوں کی شناخت ماجد اور عادل بلوچ کے نام سے ہوئی۔ ماجد ولد محمد عمر سکنہ مشکے 6جنوری 2016کو آواران بازار سے اور عادل ولد رحیم بخش سکنہ آواران 27فروری 2016کو آواران بازار سے دن دیہاڑے فورسز کے ہاتھوں اغواء ہو ئے تھے۔ تنقید سے بچنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے پچھلے کئی سالوں سے جاری مارو اور پھینکوکی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے فورسز اب مسخ شدہ لاشوں کو براہ راست پھینکنے کے بجائے لاپتہ قیدیوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کرکے انہیں مذاحمت کار قرار دینے کا جھوٹا دعویٰ کرتی ہیں۔ طاقت کی بے احتیا ط استعمال سے عام لوگ خوف و حراس اور احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ فورسز کے ہاتھوں اغواء، یا فضائی بمباری سے ہلاک و زخمی ہونے کا ڈر اندرون بلوچستان لوگوں کی زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ نوعمر بچوں کی تعلیم، کھیل و دیگر مصروفیات مکمل طور خوف و پریشانی کی وجہ سے مفلوج ہو چکے ہیں، جنگی صورت حال کی وجہ سے اندرون بلوچستان ہزاروں کمسن بچے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک ہے، اس حوالے سے صوبائی حکومت بھی مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ مختصر یہ کہ بلوچستان عملاََ ایک ایسے جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کررہا ہے کہ جہاں طاقت کا یکطرفہ و بلا احتیاط استعمال عام لوگوں کو نفسیاتی حوالے پریشان کرنے کا سبب بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیم کی حیثیت سے یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم خطرات و مشکلات کے باوجود صورت حال کو میڈیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کیوں کہ میڈیا کے نمائندے متاثرہ علاقوں سے سینکڑوں کلومیٹر دور بیٹھ کر صورت حال کا اندازہ لگاتے ہیں جس سے حقائق تک پہنچنا کسی صورت ممکن نہیں۔ اس وجہ سے رپورٹس ہم تک بمشکل ہی پہنچتے ہیں کہ فورسز کاروائیوں کے دوران مواصلاتی نظام کو بند کرکے علاقے کی داخلی و خارجی راستوں کی ناکہ بندی کردیتی ہے۔ جس سے متاثرہ علاقوں کی صورت حال باہر نہیں پہنچ سکتی۔اس لئے ہماری رپورٹ میں شامل تعداد کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں جو کہ بلوچستان کے مختلف حصوں میں مارے یا اغواء کیے جا چکے ہیں لیکن ان کی تفصیلات ہمیں اب تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔لیکن خود سیکرٹری داخلہ کی بیانات کے مطابق گزشتہ چار مہینوں کے دوران ایک ہزار سے زائد لوگوں کی اغواء اور 300سے زائد لوگوں کی ہلاکت بلوچستان کی ہلاکت خیز صورت حال کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ وزیر داخلہ لوگوں کی گرفتاریوں کا اعتراف تو کرتی ہے لیکن ان لوگوں کے حوالے سے مزید تفصیلات شائع کرنے سے گریز کرتی ہے ۔ گزشتہ سال کے ہزاروں مغویان کی گرفتاری کا اعتراف خود حکومتی اداروں نے میڈیا میں کیا تھا۔ لیکن تاحال نہ ان لوگوں کو عدالتوں میں پیش کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ان کے حوالے سے مزید تفصیلات فراہم کیے جا رہے ہیں۔البتہ ان لوگوں کی لاشیں وقتاََ فوقتاََ مختلف علاقوں سے تسلسل کے ساتھ برآمد ہورہی ہیں۔ انسانی حقوق کی مقامی تنظیم کی حیثیت سے بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن اقوام متحدہ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے انسانی حقوق کے اداروں کے نمائندے بلوچستان بھیج کر یہاں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز اُٹھائے۔ کیوں کہ مذکورہ ادارے کی خاموشی سے فورسز کی تحویل میں موجود ہزاروں لاپتہ افراد کی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز