جمعه, می 3, 2024
Homeآرٹیکلزایران کیخلاف عالمی صف بندیاں، بلوچ کہاں کھڑا ہے؟ تحریر: رزاک بلوچ

ایران کیخلاف عالمی صف بندیاں، بلوچ کہاں کھڑا ہے؟ تحریر: رزاک بلوچ

شام کے شہر دمشق میں واقع ایرانی سفارت خانے پر مبینہ اسرائیلی حملوں کے بعد جہاں ایرانی عسکری و انٹیلی جنس کے اعلی عہدیداران ہلاک ہوگئے وہیں اب ایران نہ چاہتے ہوئے بھی ایک عالمی جنگ کا باقاعدہ حصہ بن گیا ہے۔

ایران چونکہ عرصہ دراز سے اسرائیلی ریاست کے خلاف ہر قسم کی سیاسی و عسکری معاملات میں پیش پیش رہا ہے اور ببانگ دہل انکے خارجہ پالیسی کے ایک اہم ستون اسرائیل مخالف بیانیہ رہا ہے پہلے بھی ایران و اسرائیل کے درمیان جنگی و سیاسی شدت و حدت ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار تو رہے ہیں لیکن بالواسطہ طورپر اسرائیل اور ایران دونوں بوجوہ ایک دوسرے کےساتھ محاذ آرائی سے گریزپا رہے ہیں البتہ ایران و اسرائیل کے مابین سیاسی اثر و رسوخ کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں شام عراق اور لبنان میں موجود ایرانی تنصیبات سمیت اعلی فوجی اہلکاروں پر حملوں کے ساتھ خود ایران کے اندر کئی مرتبہ ایرانی جوہری پروگرام سے منسلک اعلی پائے کے سائنسدانوں سمیت کئی اہم عہدوں پر براجمان ایرانی اہلکار ہلاک کئے جاچکے ہیں۔

ایران اس تمام مبینہ حملوں کا ذمہ داراسرائیل کو قرار دیتا رہا ہے لیکن اسرائیل ہمیشہ کی طرح ان جیسے واقعات سے خود کو لاتعلق ظاہرکرتا رہا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ اسرائیل سے منسلک عسکری گروہ یا خوداسرائیلی انڈر کور ایجنٹس کرتے رہے ہیں لیکن دمشق میں کیا جانے والا حملہ اپنی نوعیت میں یکسر الگ ہے ایک تو کسی ملک کی طرف سے کسی دوسرے حریف کے خلاف باقاعدہ اسکے سفارت خانے پر حملہ تھا چونکہ سفارت خانوں کو تمام دنیا میں عالمی قوانین کے تحت سفارتی استثنا حاصل ہوتی ہے جنگ یا حملہ اپنی جگہ خود کسی ملک کے قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی اپنے ہی ملک میں موجود کسی دوسرے ملک کے سفارتی عمارت میں داخل نہیں ہو سکتے، جمال خشوگی مبینہ قتل اور ترک سعودی سرد مہری کی مثال ابھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے، البتہ دنیا بھر میں غیر ریاستی عسکری تنظیموں نے بارہا دنیا کے دیگر ممالک کے سفارت خانوں پر حملے کیے ہیں جن میں القاعدہ کا کینیا میں امریکی سفارتخانے پر حملہ شاید مہلک ترین رہا ہوگا اسکے علاوہ خود ایران انقلاب کے وقت امریکی سفارتی عملے کو محصور کرنے کی اپنی ایک تاریخ ہے۔

اسرائیل کی جانب سے یہ حملہ کیوں کیا گیا، اسکی ابھی تک کوئی بھی تجزیہ نگار صحیح بنیادوں پر مکمل خلاصہ نہیں کرسکا ہے کیونکہ ایرانی پراکسیز کا ایک اپنا تاریخ ہے اور ایران اپنے ہمسایہ شیعہ اکثریتی علاقوں میں کئی عسکری مشنز کے ساتھ عرصہ دراز سے سیاسی و جنگی سرگرمیوں میں مصروف رہا ہے، چاہے وہ قدس فورس کی قیام اور اسکی باقاعدہ غیر روایتی جنگوں میں استعمال ہو، چاہے وہ حسن نصراللہ کی حزب اللہ کا عسکری امداد و تربیت ہو یا پھر عرب دنیا کی سرد مہری کے بعد حماس پر دست شفقت رکھنا ہو یا اسکے علاوہ خودایران کی عسکری و جاسوسی ایجنٹس کا شام جیسے علاقوں میں میں موجودگی ہو، یہ سب کچھ نیا بالکل نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز سے یہ تمام حربے ایران استعمال کرتا ہوا آرہا ہے، تو ایسے میں اسرائیل کو یہ ضرورت کیوں پڑی کہ اس نے براہ راست ایرانی سفارتی مشن کے زیراستعمال عمارت ہی کو نشانہ بنا کر ایرانی عسکری و جاسوسی مشن سے وابسطہ لوگوں کو ہلاک کیا، اس میں کئی ایک نقطے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ وہ حماس کے حالیہ منظم حملوں کے حوالے سے حماس کی سرپرستی کرنے والے ایران کو سبق سکھانا چاہتا ہو یا پھر ہوسکتا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں شدید فضائی بمباری و مطلوبہ نتائج کے حصول کے بعد وہ اس جنگ کو توسیع دیکر بس ایک ہی بار اس دردِ سر کو ختم کرنے کے لئے ایران کو زبردستی جنگ میں گھسیٹنے کی کوششیں کررہا ہے تاکہ ایران کو اس قدر کمزور کیا جاسکے کہ آنے والے وقتوں میں وہ مزید پروکسیز کی سرپرستی کا قابل نہ رہے ایسے میں اسرائیلی نقطہ نظر یہی رہا ہے کہ ایران کو ایسی جگہ نشانہ بنایا جائے جو خود ایرانی عوام، ایرانی ذرائع ابلاغ اور عالمی سطح پر بہت جلدی توجے کا مرکز بن کر ایران کو رد عمل دینے پر مجبور کرے اور اسی طرح ایران کے خلاف باقاعدہ ایک جنگی ماحول پیدا کرکے اپنے مقاصد پورے کیے جائیں اب وہ مقاصد کثیر الجہتی ہوسکتے ہیں۔

ان میں ایرانی جنگی تنصیبات پر شدید اور مختلف اطراف سے حملہ کرکے انہیں ناکارہ بنانا بھی ہوسکتا ہے، (یاد رہے کہ انیس سو سڑسٹھ میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران “موشے دیان” کی پری ایمپٹیب یعنی پیشگی حملوں نے پوری عرب اتحادیوں کی عسکری قوت کو ملیامیٹ کرکے گولان کی پہاڑیوں پر پیش قدمی کو ممکن بنایا)، علاوہ ازین ان میں ایرانی پاسداران انقلاب، قدس فورس کے زیر اہتمام علاقائی محازوں پر سرگرم ایرانی حمایت یافتہ فورسز کے اسٹراٹیجک عسکری کانٹونمٹس اور چھائنیوں سمیت ایرانی عسکری و معاشی بڑے اہداف پر بھی حملہ کیا جاسکتا ہے جن میں عسکری پیداوار کی صنعتوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایرانی عسکری ساز و سامان کی پیداواری قوت کو محدود کیا جاسکے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایران پر بھرپور فوجی حملے کے بعد ایران میں موجود مختلف متحارب گروہوں کو مسلح کرکے ایرانی حکومت کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا جائے یا پھر ایک بار قصہ ختم کرتے ہوئے ایرانی ملا رجیم کو ختم کیا جائے اور اسکی جگہ کسی اور سیکولر زہنیت کے یا تنوع دار انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کی جائے۔

اب ان تمام امکانات اس بات پر منحصر ہیں کہ ایران ردعمل میں کس حد تک جاسکتا ہے، کیونکہ ایران پر عوامی اور ادارہ جاتی سطح پر بے حد دباؤ ہے کہ وہ ان اسرائیلی حملوں کا جواب دے اگر ایران ایسا کرنے میں ناکام ہوگیا تو ایران کے اندر سے عوام اور فوجی صفوں میں ایک بے چینی اورعدم اعتماد کا رویہ پروان چڑھے گا جو کہ کسی بھی طرح ایرانی رجیم کے مقتدر حلقے نہیں چاہتے اسکے علاوہ ایران نے اسرائیل کے خلاف اور مسلمانوں کے حق میں بالعموم اور بیت المقدس و فلسطینیوں کے حق میں بالخصوص اپنا جو ” ماچو مین” کا تصور اور بیانیہ عالمی دنیا پر چھوڑا ہے وہ تمام خاک میں مل جائے گا۔

میں بحیثیت بلوچ ایران کو بلوچ سرزمین پر قابض ہونے کے باوصف ایک دشمن قوت سمجھنے کے باوجود اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتا کہ ایران عالمی سطح پر ایک منجھا ہوا سفارتی و سیاسی پس منظر رکھتا ہے ایران کو اس بات کا اچھے سے ادراک ہے کہ وہ اب بری طرح پھنس چکا ہے اور اسے زبردستی جنگ میں گھسیٹا جارہا ہے ایران کو معلوم ہے اگر اسرائیل کے اس طرح کا دراندازی کا موثر جواب نہیں دیا گیا تو یہ عالمی سطح پر ایرانی خارجہ پالیسی کو بڑا زک پہنچانے کے ساتھ ایران کیخلاف اسرائیلی عزائم اورحوصلوں کو مزید بلند کرے گا اور اگر ایران نے اس ضمن میں خاموشی میں عافیت ڈھونڈنے کی کوشش کی تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ اسرائیل کیا چاہتا ہے۔

یہ محض ایک اچانک حملہ نہیں ہے بلکہ اسکے تمام تر مضمرات و اثرات پر مکمل غور و خوض کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے اور یہ سلسلہ کسی بھی صورت میں رکنے والا نہیں ہے، اسرائیل امریکہ اور انکے بیشتر مغربی اتحادی چاہتے ہیں کہ ایران کسی نہ کسی طرح کہیں جاکر ردعمل دے دے اور ایک باقاعدہ جنگ شروع کرنے کا جواز فراہم کرے لہذا اب کی ایرانی خاموشی اسرائیل کوایک اور ایسا یا اس سے بھی مہلک حملہ کرنے کے لیے اکسائے گا۔

یہ سب اپنی جگہ لیکن اس پورے ابھرتے ہوئے منظر نامے میں بلوچ کہاں کھڑا ہوگا، بلوچ کی کیا حکمت عملی ہوگی، بلوچوں کے مابین نئی صف بندیوں کے کیا امکانات ہیں، خود مذہبی بنیادوں پر جھکاؤ رکھنے والے سنی شیعہ مذہبی تضاد کے نقطے پر سرگرم عمل جیش العدل اس پورے کہانی میں کہاں کھڑا ہوگا، دو ہزار سولہ کے نظریاتی پالیسی شفٹ کے بعد جو بلوچ آزادی پسند قوتیں زبردستی یا مجبوری کے باوصف اتحادی کی تلاش میں غیر مدلل و غیرفطری بیانیے کے ساتھ ایرانی قبضہ گیر کو بلوچوں کے نجات دہندہ سمجھ بیٹھے ہیں وہ کہاں کھڑے ہونگے اور انکی اس پورے منظرنامے میں کیا حکمت عملی کیا کردار ہوگی۔

عالمی و علاقائی چوکیداری کے زہنیت رکھنے والے بلوچستان کے ارد گرد موجود ممالک بلوچ کے حوالے سے کیا پالیسی مرتب کریں گے، کیا یہ بلوچ کے لیے ایک موقع ہوگا ایک مشکلات سے بھر پور سانحہ ہوگا، بلوچ اس سے فائدہ اٹھا سکے گا یا پھر مزید انتشار و ناچاقی کی طرف گامزن ہوگا، قابض پاکستانی ریاست پہلے قطرے کے طور پر شام کے محاذ پر سرگرم ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا ” زینبیون ” کو کالعدم قرار دے چکا ہے، بہت سارے امکانات ہیں ان امکانات میں کچھ عنصر اطمینان بخش و حوصلہ افزا ہیں باقی بہت کچھ پریشان کن بھی ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا بہت شریف ہوچکی ہے اور اس نے دوسرے قوموں کو پراکسی بنانے اور اپنی مقصد کی جنگ لڑوانے سے توبہ کی ہے۔

اس عالمی سیاست کے شطرنجی بساط پر دوست و دشمن اجتماعی مفادات کی ڈوری سے بندھی ہوتی ہیں، ایسا کل کو اگر مشرق وسطی میں کوئی جنگ چھڑ گئی اور اس میں بنیادی ہدف ایران رہا تو پاکستان ماضی کی تاریخ کو دہراتے ہوئے مغرب و اسرائیل اور انکو بے نام اتحادی قوتوں کے لیئے وہی مڈل مین کا کردار نبھائے گا جو وہ تاریخی طور پر ہر وقت کرتا آرہا ہے، تو ایسے میں بلوچ کے اجتماعی مفادات کے خلاف سازشوں کا ایک نیا جال بھنا جائے گا، پاکستان مڈل مین کے طور پر کسی دوسرے کی مفادات کی چوکیداری کے لیئے خود اپنی سرحدوں سمیت ایرانی سرحدوں کے اندر بہت سارے لوگوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا، دولت کی ریل پیل ہوگی۔

ڈالرز اور ریال آئیں گے پاتال میں جاتی ہوئی پاکستانی معیشت کو نئی زندگی ملے گی اور یہ باہر سے آتی دولت اور عسکری اسباب و وسائل اس خطے میں جنگ کے لیئے استعمال کیئے جائیں گے، کیا اصولوں سے بھاگی بلوچ قوتیں خود اس سیاسی و عسکری گہما گہمی سے دور رکھ پائیں گی، چمکتی بندوقیں، برانڈڈ جوتے، گولیوں سے بھرے ہوئے جھاٹ، پیسوں کی بہاؤ سمیت دیگر چھوٹے اور غیر فائدار مگر شوشہ و شوق کے حامل عسکری و سیکورٹی آلات کو دیکھ کر ماضی میں بہت ساری بلوچ قوتیں اصولوں کی سخت گیر رستے سے پھسل چکے ہیں اب بھی کوئی بعید نہیں کہ بلوچ ایک بار پھر اپنے کندھوں پر کسی اور کا بارِ گراں کو اٹھا کر آپس میں ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہوجائے۔ حاکم بدہن۔

مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پہلے سے صف بندیاں کی جاتی ہیں اپنے علاقے اور قرب و جوار میں موجود سیاسی و سفارتی فالٹ لائنز پر غورکیا جاتا ہے اور روشن امکانات کے حوالے سے سیاسی لائحہ عمل مرتب کی جاتی ہے آنا فاناً سیاسی و جنگی تراکیب نہیں بنائے جا سکتے اسکے لیے ایک پوری پروسس کی ضرورت ہوتی ہے امکانات پر نظر رکھنا پڑتا ہے، ذمہ داریوں کا تعین کا کرنا پڑتا ہے، اندرون و بیرون ملک صف بندیاں کی جاتی ہیں، دشمن اور دوست یا ممکنہ علاقائی اتحادیوں کے ہر ہر حربے، سیاسی چال اور سفارتی انداز پر غور کیا جاتا ہے، اپنے اجتماعی مفادات کو مقدم رکھنے کے لیئے ہر شراکت دار کے ساتھ اصولوں کے بنیاد پر گفتگو کی جاتی ہے۔

کسی بھی بیرونی عسکری و سیاسی امداد کے ساتھ منسلک ہر مطالبے کو باریکی سے پرکھا جاتا ہے، اپنے اجتمائی مفادات کی بہتر نگہبانی کے لیئے سیاسی و سفارتی بنیادوں پر تول مول اور بھاؤ تاؤ کیا جاتا ہے، لیکن ان سب کے لیے مغز ماری عرق ریزی و ورق گردانی کرنی پڑتی ہے، ایک منظم اور مضبوط نظام کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہرکسی کو شخصی یا ذاتی پسند و انتخاب سے روک سکے اور سب سے اہم امر یہ ہے کہ بلوچ کے اجتماعی مفادات کے لیئے سب قوتیں باہم متحد ہوں تو پھر وہ کوئی بااصول اور متحد لائحہ عمل سامنے لاسکتے ہیں، اب کہ جب منڈی لگی ہوئی ہے اور ہر کوئی بھکنے کو تیار بیٹھا ہے تو ایسے میں بلوچ کے لیئے مواقع کم اور اندیشے زیادہ ہونگے، خدانخواستہ بلوچ کے مزید ٹکڑیوں میں بٹنے کے امکانات زیادہ ہونگے۔

ذرا چشمِ تصور میں لائیے ابھی اگر کسی بھی طرح ایران اور مڈل ایسٹ میں اسرائیلی و اتحادیوں کے ساتھ کوئی باضابطہ جنگ چڑھ جائے تو کیا بلوچ اس کے لیے سیاسی و عسکری بنیادوں پر واقعی تیار ہیں، خالی خولی نعروں، سروں کی بے دریغ و غیر منظم قربانیوں سمیت جذباتی بھڑک بازیوں اور شوقیہ بیانات سے نکل کر اگر تنقیدی بنیادوں پر حقیقت حال کے بارے میں سوسوچیں تو بلوچ تحریک کی ترقی و پیش رفت کے حوالے معکوس خط پرگامزن ہونے کا رجحان کسی بھی طرح حوصلہ افزا نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز