لندن میں مقیم فری بلوچستان مومنت کا نائب صدر جناب شاہسوار کریمزادی جوکہ ایرانی مقبوضہ مغربی بلوچستان مٰیں پیدا ہوا لیکن موجودہ دور میں وہ برطانیہ کی ہرٹ فورڈ شائر یونیورسٹی میں معاشیات کے سینئر لیکچرار ہیں۔ خوش مزاج ہونے کے ساتھ ایک دلکش مقرر بھی ہے، وہ اس بات پر لمبا بحث کر سکتا ہے کہ ایک آزاد بلوچستان ایک ابدی تنازعات میں گھرے خطے میں کیسے ترقی کر سکتا ہے، اپنے نظریات کا وضاحت کرتے ہوئے وہ یہ بتاتے ہیں کہ لفظ پاکستان ایک انتہائی قابل اعتراض نام کیوں ہے؟
انڈیا بیانیہ لندن میں کریمزادی سے ملاقات کرتا ہے اس ملاقات میں جناب کریمزادی کہتا ہے کہ بلوچستان دنیا کی امیر ترین قوموں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ انکے مطابق بلوچستان میں تانبا، سونا، یورینیم اور ماربل کے ذخائر ہیں۔ ہماری زراعت اچھی ہے اور ہمارے پاس بہت زیادہ ماہی گیری ہے۔ آتش فشاں پہاڑ، ساحلی پٹی اور خوبصورت مناظر کے ساتھ سیاحت کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔
کریمزادی نے Indian Narrative کو بتایا کہ انکی تاریخ میں بلوچستان میں کبھی خونریزی نہیں ہوئی، ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ 7000-8000 سال پرانی سرزمین ہے لیکن اب بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاشیں مل رہی ہیں، ہزاروں بلوچ دانشور، فنکار، گلوکار اور عام لوگ مارے گئے ہیں یا لاپتہ کر دیے گئے ہیں۔
یہ پوچھنے پر کہ بلوچ تحریک نے دنیا کی توجہ کیوں حاصل نہیں کی؟ کریمزادی کہتے ہیں بلوچستان کا مسئلہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کی وجہ سے کمزور ہوا ہے – ایک ایسا خطہ جس نے دوسری تہذیبوں کی طرح کبھی بھی روشن خیالی کا دور نہیں دیکھا۔ اسی تناظر میں ہم نے دوسرے دوسروں کے بنسبت خطے میں موجود تمام مسائل پر غور کرتے ہوئے بہت اچھا کام کیا ہے
ان کا کہنا ہے کہ اس خطے میں بنیاد پرستوں کے گھراؤ میں ہوتے ہوئے بھی بلوچ سب سے زیادہ سیکولر اور انسانیت پسند قوم ہے ۔ اپنے اردگرد افراتفری کے باوجود، بلوچوں نے کئی دہائیوں سے اپنی تحریک کو زندہ رکھا ہے۔ وہ بھی ایسے خطے میں جہاں بلوچستان کے بارڈر لگتے ہیں مستقل طور پرسخت بدامنی کا شکار ہیں اور غیر مستحکم بھی ہیں۔
کریمزادی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پنجابی مسلم مافیا، خاص طور پر پاکستانی حکومت اور فوج، وسائل کی وجہ سے ہم پر سخت ہیں۔ سب سے زیادہ وسائل ہمارے ہیں، لیکن ان تمام معدنی وسائل کا کنٹرول پاکستانی پنجابی فوج کے ہاتھ میں ہیں۔ ہماری سرزمین پر موجود وسائل تک بلوچوں کی ایک فیصد بھی رسائی نہیں ہے۔ سوئی گیس 1953 میں دریافت ہونے والی سب سے بڑی کان ہے۔ تمام گیس پاکستان جاتی ہے لیکن بلوچ عوام کو اس بلکل نہیں دیا جا رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے 1998 میں اپنا ایٹمی تجربہ کیا تھا لیکن ایک بھی آزادانہ انکوائری نہیں کی گئی تھی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ لوگ متاثر ہوئے یا نہیں۔ کریمزادی کا کہنا ہے کہ لوگ معذوری اور جلد کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں لیکن پاکستان کو کوئی فکر نہیں ہے۔
پروفیسر کا مزید کہا تھا کہ پاکستان نے محسوس کیا کہ وہ اکیلا بلوچستان سے معدنیات نہیں نکال سکتا، اس لیے اس نے چین پاکستان اقتصادی راہداریCPEC جیسے ایک پروجکٹ کو بلوچستان پر مسلط کیا ۔ CPEC جبر کا ایک ذریعہ ہے۔ اس نے ہمارے خلاف مزید فوج لائی ہے۔ CPEC آنے کے بعد زیادہ لوگ مارے گئے اور لاپتہ ہوئے ہیں۔ اب چین ہمارے وسائل کا استحصال کرنے کے لیے پاکستان کو مزید مالی امداد کر رہا ہے۔
پروفیسر کریمزادی کہتے ہیں کہ پاکستان نے بلوچستان کے ساحلی شھر گوادر کو apartheid میں تبدیل کردیا ہے،گوادر میں جہاں چینی رہتے ہیں انکے علاوہ گوادر کے باقی دوسرے علاقوں میں نا بجلی ہے اور نا ہی صاف پانی ہے، چینیوں کے پاس تمام سہولیات ہیں لیکن بلوچوں کے پاس کچھ نہیں ہے۔ بلوچوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ماہی گیری ہے لیکن یہ چین کو دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچ ایرانی سطح مرتفع کا حصہ ہیں اور اس سرزمین پر رہنے والی قومیت ہیں۔ ہم ثقافتی اور تاریخی طور پر پنجابی مسلمانوں سے بلکل مختلف ہیں۔
پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کریمزادی کا کہنا ہے کہ یہ ملک صرف جہادیت، عسکریت پسندی اور مذہب پر ہی قائم رہے گا کیونکہ پاکستانیوں کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے۔ پاکستان کا نام ایرانی لفظ سے بنایا گیا ہے۔ یہ”خالص” نہیں ہے جسے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا یقین کرے کہ یہ پاک ہیں، اس کا مطلب ہے “صاف” جسے پاکستان اپنے آپ کو بھارت سے ممتاز کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا جسے وہ ناپاک سمجھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچوں کے لیے ‘پاکستان’ ایک توہین کی اصطلاح ہے کیونکہ ہم تمام لوگوں کو برابر سمجھتے ہیں۔
آخر میں، وہ کہتے ہیں کہ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں بلوچ ہی بھارت کے اتحادی ہیں کیونکہ وہ بھی سیکولر لوگ ہیں۔ کریمزادی کہتے ہیں، ہم نے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے کیونکہ ہم انسان دوست ہیں۔ ہمیں جمہوری قوموں سے اخلاقی اور دیگر حمایت کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان جلد ہی ٹوٹ جائے گا۔