پنج‌شنبه, می 9, 2024
Homeخبریںبلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو...

بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5197 دن مکمل

شال (ہمگام نیوز ) بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5197 دن ہوگئے۔ احتجاجی کیمپ میں اظہار یکجہتی کرنے کیلئے آنے والوں میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بی ایس او کے نو منتخب چیئرمین بالاچ قادر، سیکٹری جنرل صمند بلوچ، سابقہ سیکرٹری جنرل ماما عظیم بلوچ سمیت دیگر عہدیداروں اور مرکزی رہنماؤں مقبول بلوچ اور عمر نزیر بلوچ نے شرکت کی ۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار یکجہتی کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کیا آج ہم ایک پھر اپنی پرانی روش کی طرف لوٹ رہے ہیں جہاں سے ہماری شروعات ہی ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے انا کی پرورش ذاتی پسند نا پسند کےخول میں رہنے شعور کی جگہ پر اپنا فیصلہ ٹھوسنا ہی تھا، بلوچ اپنے پاک لہو سے سڑکیں بیابان اور گلیوں کو سرخ کر چکے ہیں مائیں اپنے جوان سال بیٹوں کو جدوجہد کی راہ میں قربان کر رہے ہیں، بوڑھے والدین اپنے جوان بیٹوں کی میت کو کندھا دے رہے ہیں ہزاروں بچے یتیم ہوچکے ہیں ہزاروں کی تعداد میں بچوں کے باپ بہنوں کے بھائی زندہ درگور ہیں پتہ نہیں کتنی عورتیں بیوہ ہوچکے ہیں یا کچھ اور جن کے شوہر کئی سالوں سے جبری لاپتہ ہیں اور وہ نعشیں جو بیابان میں بے گور کفن پڑے ہیں ہم سے کیا مانگ رہے ہیں؟

 ہم کیوں بھول چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے حصے کا فرض ادا کیا ہے اب ہمیں کچھ کرنا ہے شہیدوں نے اپنے پاک لہو سے جس چراغ کو روشن کیا ہے اس کو جانباز جیالوں نے اسے آندھی اورطوفانوں سے بچا کے رکھا ہے آج ہماری اناپرستی پسند انا پسند قبائلیت ہیروازم اور غیرشعوری عمل نے چراغ کو بھجانے کے لیے آندھی اور طوفان کی نزر کی ہے ۔

 ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کل ہم فخر کرتے تھے تو دل خون کے آنسوں روتا ہے میرے کاروان کے دوست موت کی نیند سوگئے بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑیں خون میں نہا گئیں بلوچستان کے فرزند اپنے ہی وطن میں بھوک سے مر رہے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں انسان یہ دعوٰ کرسکتا ہے کہ وہ دنیا کا ذہین ہے مگر حقیقی دنیا جہاں ہر فعل روحانی اور مادی وجود پر اثر ہوتا ہے ہمارے ہاں آج کل میوے جیسا ایک دو کتاب پڑھ کر کچھ کالم لکھ کر اپنے آپ کو دانشور اور دنیا کا ذہین ترین شخص تصور کر رہے ہیں ۔

جب لکھتے ہیں یا بولتے ہیں تو یہ بھی خیال نہیں رکھتے کہ ہم کس کے خلاف لکھ رہے ہیں یا بول رہے ہیں اور کیا بول رہے ہیں کچھ سیاسی یتیم جن کو فارغ کئے ہیں ۔ آج وہ اپنا بدلہ قومی تحریک سے لینے کی لئے تنظیموں اور قومی لیڈروں کے خلاف لکھتے ہیں یہاں تک نہیں سوچتے کہ ہم اپنے انا کی خاطر قومی تحریک کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز