یکشنبه, آوریل 28, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ سیاسی کارکن کا قضیہ۔ تحریر: رزاک بلوچ

بلوچ سیاسی کارکن کا قضیہ۔ تحریر: رزاک بلوچ

سیاسی کارکن کی بنیادی تعارف سے ہٹ کر دیکھیں تو اسکی وصف ہمیں اسکے بارے میں زیادہ بہتر انداز میں رہنمائی فراہم کرسکتے ہیں ۔سیاسی کارکن کو اسکی یہی سیاسی صفات ایک سنجیدہ سیاسی کارکن بناتے اور مستقبل کے سنگین حالات کے لئے ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں، یہی بنیادی سیاسی صفات و خصوصیات نہ صرف اسکی رجحانات و میلانات کا پتہ دیتے ہیں بلکہ اسے دوسرے معاصر سیاسی کارکنوں سے ممتاز کرتے ہیں اور ہر سیاسی کارکن کا دوسرے سیاسی کارکن حتیٰ کہ اپنے ہی پارٹی یا گروہ کے اندر بھی اپنا ایک الگ مقام اور مختلف نقطہ نظر ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ سیاسی کارکن ہونے کی بنیادی شرائط پر پورا اترے۔

دنیا میں دسیوں آزادی کی تحریکیں گزری ہیں۔ کچھ ابھی تک جاری ہیں، ان میں ایک بلوچ سیاسی کارکن کے لئے یقیناً سبق اور تجربات موجود ہوسکتے ہیں، لیکن خود بلوچ بلوچ جہد آزادی کی معروضی و زمینی حقائق سے ناشناس و بے خبر دنیا جہاں کی تحریکی تجربات سے سیکھ کر بلوچ جد و جہد کے میدان ِعمل میں انہی تجربات کی بنیاد پر کوئی مشق کرنا بذاتِ خود جدوجہد میں مزید تضادات کو جنم دیگا، بلوچ سیاسیات اور جنگی میدان میں موجود جدلیات کو سمجھنا اور اسے تنقیدی بنیاد پر پرکھ کر اپنی ایک مخصوص رائے قائم کرنا بلوچ سیاسی کارکنان کی بنیادی اوصاف میں ہونا لازمی ہے، یہ سب چیزوں کے بارے میں ایک خوشامدی سیاسی کارکن کوئی خاص سبق حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ انکی نظریں تحریکی عمل کی بہتری سے زیادہ ذاتی شناخت اور قد کاٹ کو بڑھانے پر ٹکی ہوتی ہیں، خوشامدی اور جھنڈا بردار سیاسی کارکنوں کو مخصوص گروہی مقاصد کے حصول کے بعد ویسے ہی نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

نظریے کی وسیع چھتری تلے جہاں اسی نظریے کی آبیاری و کامیاب نفاذ کے لئے بات کی جاتی ہے تو ہر سیاسی کارکن کا اپنا ایک نقطہ نظر ہوتا ہے اور یقیناً ہونا بھی چاہیے کیونکہ سیاسی عمل میں پیچیدگیاں اتنی ہوتی ہیں کہ ہر سیاسی کارکن ایک مشترکہ نقطہ نگاہ سے چیزوں کو دیکھ ہی نہیں سکتا، ہر کوئی اپنی عمل، علم اور سیاسی تجربات کے بل بوتے پر اپنا ایک رائے قائم کرتا ہے، اس بات پر بغلیں بجانا کہ سب ایک صفحہ پر ہیں تو متحد یا کامیاب ہیں، اصل میں ایک صفحہ پر ہونے کا بیشتر اوقات یہی مطلب ہوتا ہے بیشتر سیاسی کارکنوں کا اپنا کوئی نقطہ نظر یا تنقیدی رائے نہیں ہے یا کوئی سوال یا تنقیدی رائے رکھنے کا درد سر پالنا انکی ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔

مثلاً جو زید نے کہا تو بکر نے بھی اسکے ساتھ اتفاق کرلیا کیونکہ نہ بکر کو کسی نقطے کے حوالے سے کوئی خاص جانکاری ہے اور نہ ہی زید اس بارے میں تکلیف اٹھا کر تحقیق کے حق میں ہے، بس کسی مشاورتی عمل کے دوران یا تنقیدی مجلس میں یا کسی بیٹھک اور عام گفتگو پہلا سیاسی کارکن کہتا ہے “جو کہا گیا وہ میرے نظر میں بالکل ٹھیک ہے اور میں اس بات سے متفق ہوں” اسکے بعد دوسرا کہتا ہے کہ “جو پہلے نے کہا میرا بھی یہی رائے ہے کہ وہ صحیح ہے اور مجھے اس پر کوئی مزید سوال نہیں ہے” پھر تیسرا کہتا ہے “جو دوسرے نے کہا میرے حساب سے تو بالکل اسی طرح ہونا چاہئے اور اس میں کوئی چیز غلط نہیں ہے”، بس اسی طرح اتفاق رائے قائم ہوجاتی ہے اور سب کے سب ایک صفحہ پر آجاتے ہیں اور ایک صفحہ پر رہتے ہوئے بھی سب ایک جملے میں مقید رہ جاتے ہیں۔

ایک سیکھنے والے اور اسی سیکھ سے مزید راہیں نکالنے کی کوششوں میں مصروف کارکن ہی سیاسی کارکن ہونے کے بنیادی اصولوں پر پورا اترتا ہے، وہ جتن کرتا ہے، ہرعمل سے ابھرنے والے ماحول کے بارے میں اپنا ایک رائے بناتا ہے اس پر سوچتا ہے اسے زمینی حقائق کے مقابل میں رکھ کر پرکھتا ہے اور اسکی تمام ممکنہ جہات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہوئے اس عمل کے نتائج کے مثبت یا منفی ہونے کے حوالے سے اپنی ذہن میں خاکہ تیار کرتا ہے، پھر وہ سوال پوچھتا ہے، اپنے ساتھیوں سے، اپنے سے سینئر کسی سیاسی بندے سے، اپنی لیڈرشپ سے، اگر اسے حقیقی بنیادوں پر اسکے سوالوں کے جواب مل جائیں تو وہ مطمئن ہوجاتا ہے، ایک وصف اگر کارکن کا سوال پوچھنا ہے تو دوسری ذمہ داری سیاسی لیڈرشپ کی ہے کہ وہ اس کارکن کے ذہن میں موجود اس مخمصے کو تسلی بخش انداز میں جواب دیکر ختم کرے، ایک حقیقی سیاسی کارکن محض اس بات پر خوش گمانیاں نہیں پالتا کہ ہمارے لوگوں نے فلاں ملک میں فلاں جگہ پر فلاں کام کے لئے ایک اجتماع رکھا اس میں اتنے لوگ شریک ہوئے اور وہ کئی دنوں تک چلتا رہا، وہ ہر عمل اور ہر واقعہ پر ایک تنقیدی نظر رکھتا ہے وہ نفع و نقصان کے حوالے سے اپنی ذہن میں ایک تخمینہ رکھتا ہے، ذاتی ضد، گروہی بغض و عناد اور پیشگی طور پر کسی فیصلے کو ذہن پر سوار کرنے والا سیاسی کارکن کبھی بھی سیاسی کارکن ہونے کے بنیادی شرائط و اصولوں پر نہیں اتر سکتا کیونکہ وہ ہر بات، ہر وضاحت اور ہر توجیح پر پہلے سے ذہن میں موجود حاکے کی بنیاد پر جواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے ہر سوال اور توجیح کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے، تمھیں لگتا ہے کہ وہ تم کو سن رہا ہے وہ محوئے گوش ہے لیکن اس کی ذہنی کیفیت اس بات پر مصر ہے کہ کب تم بات ختم کرو اور کب وہ تمھیں جواب دے، جو تم کہہ رہے ہو وہ اسکا جواب نہیں دیتا، اسی لئے تمھیں سننا اس کے لئے لازم نہیں ہے وہ بس اپنی ذہن میں موجود پیشگی سیاسی خاکے کی دفاع کررہا ہوتا ہے۔ great man theory of historyپر بلوچ سیاسی کارکن کا ماضی سے لیکر ابتک یقین حد سے زیادہ رہا ہے، اس تھیوری پر دنیا بھر میں خاص کر عوامی تحریکوں کے دوران سوال اٹھایا گیا ہے اور عام عوامی شمولیت اور اسکے چیدہ چیدہ سرگرمیوں اور تحریک کے حق میں اسکے چھوٹے سے چھوٹے ذمہ داریوں کو مرکزیت کا درجہ دیا گیا ہے انکا ماننا یہی رہا ہے کہ ایک لیڈر بغیرعوامی مدد کے شاید اس وقت کے تحریکی تقاضوں پر پورا نہ اتھر سکے کیونکہ تحریک میں شامل ہر کردار کا اپنا ایک مقام اور اپنی ایک ذمہ داری کے ساتھ ایک دائرہ کار ہوتا ہے، اسی حوالے سے گاندھی نے کہا تھا
Great men seem to be the cause of the revolutions all around the world, in truth, the people themselves are the cause
اب کسی عوامی تحریک کا بوجھ صرف ایک لیڈر نہیں اٹھا سکتا کیونکہ لیڈر تحریک سے جڑے مختلف پرتوں کو ایک بہتر انتظامی ڈھانچے میں ڈھالنے کے لئے تمام جہد کاروں کو ذمہ داریاں بانٹتا ہے اور انہیں انکی دائرہ کار سمجھاتے ہوئے انکی اہمیت کا قائل بھی ہوتا ہے، لیڈر کی موجودگی اسکے جہاندیدہ اور زیرک سوچ و فہم کی بنیاد پر رہنمائی دینے کے لازمی ہے، یہی رہنمائی کی فراہمی جہاں اشد ضروری ہے وہیں عام کارکن اور نچلی سطح کی ذمہ داریوں پر معمور لوگوں کو ذمہ داریاں تفویض کرنے کے ساتھ انکے مقام و اہمیت کو قبولنا اور انکے دائرہ کار کو سمجھنا بھی از حد ضروری ہے۔

بلوچ تحریک آزادی میں سیاسی کارکنوں نے بھی عمومی عوامی نفسیات کے تحت ہر چیز کو بلند آہنگ آوازوں کے بنا پر اہمیت کے قابل ہی سمجھا ہے، وہ یا تو پروسس کی باریکیوں کو سمجھنے کے قائل نہیں یا پھر پرسنالٹی کلٹ کے شکار ہوکر اندھی تقلید کی روش پر گامزن ہیں کیونکہ اس میں پھر آسانیاں بھی زیادہ ہونگی، کارکن کو بس لیڈرشپ کے ہاں میں ہاں ملانا ہوگا اور لیڈر کی ہر بات پر لبیک کہنا ہوگا کیونکہ اگر وہ سوال اٹھانے کی کوشش کرے تو اسے وہ قابلیت بھی درکار ہوگی کہ وہ تنقیدی بنیادوں پر تحریکی عمل میں بروئے کار لائے ہوئے تمام تکنیکوں کو سمجھے اور جہاں اسے کچھ نقص یا سقم محسوس ہو تو اس بارے لیڈرشپ سے سوال کرے، سوال کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ تم بدنیتی سے سوال کررہے ہو بلکہ اس میں کئی عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کارکن اس بارے میں علم نہ رکھتا ہے، ہوسکتا وہ کسی تکنیک کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو علمی و سیاسی حوالے سے نہ سمجھتا ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تکنیک ہی غلط اور تحریکی لوازمات کے برعکس ہو اور کارکن کا سوال مبنی بر اصول ہو۔

تحریک میں شامل عام لوگ اور سیاسی کارکنوں میں یقیناً بودباش اور سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے حوالے سے کافی فرق ہوتا ہے، جب ایک عام بلوچ تحریکی لوازمات کو پورا کرنے کے لئے جتن کرتا ہے پورے پروسس کی کامیابی کے لئے اپنا حصہ ڈالنے کے واسطے ادنیٰ سے ادنیٰ ذمہ داری بھی ادا کررہا ہو تو اس ذمہ داری کو قبولنا اور سمجھنا اور اس کے دائرے کار اور خود اسکی اور اسکے کام کی اہمیت کو تسلیم کرنا لازمی ہے، کیوں کہ بہت ہی حقیر اور شاید نظر نہ آنے والی اجزاء باہم مل کر ایک کُل کی تشکیل کرتے ہیں، اس کلیت کے سامنے ہوسکتا ہے ایک جز کی کوئی خاص ظاہری حجم نہ ہو مگر اسکی اہمیت یہی ہے کہ اس بالکل چھوٹے سے جز کو نکال دیں تو شاید سامنے نظر آنے والا دیوہیکل کُل بالکل بھی کامل طور پر کام کرنے کے قابل نہ رہے،لیکن اگر سیاسی کارکن کی ذہنی ساخت و پیمانہ ایسا ہو کہ وہ کسی تکنیک کے بارے میں جانتا نہ ہو، وہ اس جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہ چاہتا ہو کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، اس کیوں کو ڈھونڈنے کے لئے لازمی ہے اسکے پاس کوئی نعم البدل یا دوسرا کوئی رستہ موجود ہو، اسی نعم البدل اور بہتر طریقے کے حق میں سوال اٹھانے کے لئے سیاسی کارکن کو جوکھم اٹھانا پڑے گا اسے تنقیدی سوچ کے حامل ہونے کے لئے ماضی کو ٹٹولنا پڑے گا اپنی معروضی و زمینی حقائق کےساتھ دنیا کے دیگر تحریکوں کے حوالے سے نفع نقصان کو سمجھنا پڑے، میں کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ سیاسی کارکن بلوچ تحریک میں وقوع پذیر ہونے والےExcess of Deathsپہ کیوں سوال نہیں کرتے کیوں ان قربانیوں کو موجودہ تحریکی نتائج کے ساتھ تقابل کرکے نہیں دیکھتے، لیکن اتنی جوکھم اٹھانے کی کون کوشش کرے، کون اپنی بنائی ہوئی کو بگاڑ دے، اسی عدم ترجیحی روش کی بنا پر بیشتر سیاسی کارکن لیڈرشپ کے منظور نظر ہوتے ہیں اور کارکن کا رویہ بھی یہ ہے کہ بس جو اس نے کہا وہی سچ ہے اور جو اس نے کیا وہ برحق ہے، دوستانہ ماحول نے نظریاتی اساس کی مرکزیت کو بیگانگیت کے دروازے پر لاکھڑا کیا ہے، آج اگر بہت مغز ماری اور دلائل کے انبار لگانے کے بعد کسی حد تک باشعور کوئی سیاسی کارکن یہ کہے کہ ” باتیں شاید آپکی ٹھیک ہوں لیکن میں کیسے انکو غلط یا انکی کردار میں موجود کوتاہیوں کا قائل ہوں، میں نے انکا بہتا ہوا لہو دیکھا ہے، انکی مسخ شدہ لاشیں دیکھی ہیں، انکے بے گھر اور بھوکے پیاسے بچے دیکھے ہیں، انکی قربانیوں سے سرشاریت کا جذبہ دیکھا ہے، یہی سب کچھ میرے آنکھوں کے سامنے ہے میں انکو اگر غلط سمجھوں تو میرا ضمیر مجھے ملامت کردیگا”۔

اس میں یقیناً کسی خود غرض، چاپلوس یا پھر دوستی یاریاں نبھانے والے سیاسی کارکن کے لئے آسانیاں ہیں لیکن پورے جہد و عمل کے لئے یہ تمام رویے انتہائی نقصان دہ ہیں کیونکہ ایسے رویوں سے لیڈرشپ اور عام ذمہ داریاں نبھانے والے عام آدمی کے درمیان خلاء بڑھتا جائیگا اور بالآخر پورا پروسس سست روی کا شکار ہوکر آہستہ آہستہ پستی کی طرف گامزن ہوجائے گا۔ایک سیاسی کارکن جب ماضی سے حال اور حال سے حسبِ حال کا تُلنا و تقابل کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہویا اس معاملے میں عدم ترجیح کا شکار ہو تو اسے کم از سیاسی کارکن نہیں کہا جاسکتا، اسے ایک جھنڈا بردار، ایک پرسنیلٹی کلٹ کی تعریف کرنے والا اور اسے تقدیس دینے والا ایک پرستار ضرور کہا جا سکتا ہے، بلوچ سیاست کا المیہ یہی رہا ہے کہ وہاں شائستہ و معقول سیاسی کارکنوں کے بجائے پرستاروں (فینز) کی جمِ غفیر پیدا کی گئی ہے جنہیں لاکھ دلائل دیں ہزار منطق انکے سامنے رکھیں لیکن اپنی لیڈر کی شان میں بس قصیدے پڑھتے نظر آئیں گے، جیسے کہ کوئی عاشق اپنی محبوب کی عشق میں مبتلا ہوکر اسکی تمام عیبوں سے نظریں چرا کر اسکی ہر ادا پر گرویدہ ہوتا چلا جائے، کیا یہی ایک سیاسی کارکن کا بنیادی وصف ہونا چاہیے؟

ایران اور پاکستان بلوچوں کے دو ازلی دشمن جو کسی بھی قیمت پر بلوچ سیاسی جہدکار کو برداشت نہیں کرسکتے تو اس تیزی سے پنپتی اور ترقی کرتی سوشل میڈیا کے دور میں کم از کم سیاسی جہد کاروں کو خود نمائی اور گلیمرایزیشن سے کافی دور ہونا چاہئے تھا اور خود کو دشمن کی طرف سے کسی بھی بچھائی گئی جال میں پھنس جانے سے بچانا چاہئے تھا، لیکن ایک کارکن لیڈر کی رویوں کا پیداوار ہوتا ہے، جب ایک سیاسی کردار خود اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے گلیمر اور کیمرے کا گرویدہ اور فوٹوجینک ہو تو سمجھنا چاہیے کہ وہ پختہ اور تعقل پسند سیاسی کارکنوں کے بجائے قصیدے پڑھنے والا پرستار پیدا کررہا ہے اور پرستاروں کا کام سوال کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی پسندیدہ اداکار کی اداؤں پہ مرتا ہے اسکی تعریفیں کئے جاتا ہے اور کم و بیش یہی ہورہا ہے بلوچ آزادی پسند سیاست کے میدان میں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز