ہفتہ, مئی 18, 2024
ہومانٹرویوزبلوچ قوم دوست رہنما اور فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیار مری...

بلوچ قوم دوست رہنما اور فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیار مری کا “دی ویک” کی نمائندہ نمرتا بِجی اہوجا کو دئیے گئے انٹرویو کا اردو ترجمہ

 

ہمگام نیوز:

فری بلوچستان موومنٹ کے بانی حیربیار مری سب سے پہلے اور کم عمر ترین بلوچ وزیر تھے جنہوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔ ان الفاظ کے بجائے کہ ”میں پاکستان سے وفادار رہونگا” انہوں نے کہا کہ “میں اپنی قوم سے وفادار رہونگا”۔ انہوں نے 1997 کو منعقد ہونے والے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے لئے عام انتخابات میں حصہ لیا، بھاری اکثریت سے جیت کر وہ حکومت بلوچستان میں روڈ اور کمیونیکیشن کے وزیر بنے۔ حیربیار کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وزیر ہونے کے باوجود انہوں نے  اپنے ملک میں مئی 1998 میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کی مذمت کرکے اس عمل کو بلوچستان کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیا۔

 

حیربیار مری 4 اگست 1968 کو بلوچستان میں پیدا ہوئے۔ وہ بزرگ بلوچ قومی رہنما نواب خیر بخش مری کے پانچویں فرزند ہیں۔ کوئٹہ گرائمر اسکول میں اپنی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مزید تعلیم کابل افغانستان میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم روس سے حاصل کی جہاں انہوں نے صحافت پڑھی جس کے بعد وہ اپنے والد صاحب اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کابل افغانستان منتقل ہوگئے۔ اس دوران انہوں نے ہلمند کے کئی دورے کئے جہاں پاکستانی مظالم سے بچنے کے لئے بلوچ مہاجرین رہائش پذیر تھے۔ حیربیار مری 90 کی دہائی میں واپس بلوچستان چلے گئے جہاں انہوں نے بحیثیت وزیر اپنی خدمات سرانجام دیں، لیکن ان کی زندگی میں ایک نیا موڈ اس وقت آیا جب 1999 میں پرویز مشرف نے حکومت فوجی بغاوت کے ذریعے نواز شریف اور صوبوں میں قائم حکومتیں ختم کردیں، حیربیار مری یورپ آگئے اور برطانیہ میں جلاوطنی اختیار کرلی۔

دوہزار 2000 کے اوائل میں بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس میر نواز مری نامعلوم افراد کی فائرنگ میں جانبحق ہوگئے لیکن مشرف حکومت نے نواب حیربخش مری صاحب کو دیگر سینکڑوں مری قبیلے کے افراد کے ساتھ گرفتار کرلیا۔ حیربیار مری کو ان کے دیگر بھائیوں کے ساتھ اس قتل کے مقدمے میں نامزد کیا گیا۔ حیر بیار مری بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں اپنی جلاوطنی کے دوران بھی اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ ان کو 4 دسمبر 2007 کو مشرف گورنمنٹ کی ایما پر گرفتار کرکے برطانیہ کی ہائی سیکیورٹی بیلمارش جیل میں قید رکھاگیا۔ حیربیار مری، فیض بلوچ کے ساتھ پہلے بلوچ رہنما ہیں جنہوں نے بلوچ تحریک قومی آزادی کی پاداش میں بیرون ملک جیل کاٹی ہے۔

 

فروری 2008 میں حیربیار مری اور فیض بلوچ کو برطانیہ کی عدالت نے دہشت گردی کے الزامات سے بری کردیا۔ وہ آزاد بلوچستان کے اپنے مطالبے پر ثابت قدمی سے قائم ہیں۔ 2014 میں وہ ایک سیاسی روڈ میپ “بلوچستان لبریشن چارٹر” منظر عام پر لائے جس میں انہوں نے مستقبل کے آزاد بلوچستان کے خدوخال بیان کئے جس کے لئے وہ جدوجہد کررہے ہیں۔ اپنے رفقاء کے ساتھ 2016 میں انہوں نے ایک سیاسی جماعت “فری بلوچستان موومنٹ” کی بھی بنیاد رکھی، ان کی جماعت ایک متحدہ جمہوری بلوچستان کی جدوجہد کررہی ہے۔

 

سوال: آپ کے خیال میں بلوچ تحریک عالمی حمایت حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہے؟

جواب: بلوچ تحریک کی دیگر ریاستوں کی حمایت حاصل نہ کرنے کی کافی وجوہات ہیں، جمہوریت خاص طور پر مغربی جمہوریت میں ہمیشہ طویل مدتی مسائل کے لئے قلیل مدتی حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مغرب میں ایسے رہنماء تھے جو وژن اور بہترین حکمت عملی رکھتے تھے، انہوں نے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جو صدیوں تک دنیا پر اثر انداز رہیں۔ آج مغرب میں قیادت اور رہنماؤں کا فقدان ہے، جیسا ہم نے افغانستان کے تنازعے میں دیکھا کہ پاکستان کے پالے ہوئے دہشت گردوں کے ہاتھوں تین ہزار امریکی فوجیوں اور ایک لاکھ سے زائد بے گناہ معصوم افغانوں کے قتل عام کے باوجود مغربی طاقتیں پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دینے سے ہچکچاتی رہیں۔

البتہ آگے چل کر بلوچستان کی انتہائی اہم محل وقوع، چین کی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے بلوچستان سے منسلک مفادات اور مداخلت سمیت پاکستان کی خطے میں مغربی طاقتوں کے لئے ایک پریشان کن صورت میں موجودگی کی وجہ سے مغرب بلوچ مسئلے پر ضرور توجہ دے گا۔

اگر بلوچستان پر پاکستانی قبضے کی بات کی جائے تو دنیا نہ یہ سوچ کر نہ رد عمل دیا اور نہ مداخلت کی کہ یہ تو صرف بلوچ کا مسئلہ ہے اور اس سے ہماری زندگیوں پر کسی بھی صورت میں کوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن اس عمل سے عالمی قوانین کو نظر انداز کرنے میں پاکستان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

نام نہاد مہذب دنیا بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے دور رس اثرات و نقصانات کو بھانپنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے نتیجتاً پاکستان کو موقع ملا کہ وہ ہندوستانی علاقے کشمیرمیں مداخلت کرے، بنگلادیش میں بنگالیوں کی نسل کُشی کرے اور افغانستان میں آج تک جاری رہنے والی پاکستان کی شریر مہم جوئی جو دنیا کی نظرانداز کرنے والے رویے کی وجہ سے رونما ہوئیں۔

جب پاکستان نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی تو کسی نے کوئی رد عمل نہیں دیا جس کی وجہ سے پاکستان نے نتیجہ اخذ کیا کہ مغرب پاکستان پر انحصار کرتا ہے لہٰذا وہ ناقابل تسخیر ہے، مگر اب نتیجتاً ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان ہزاروں مذہبی دہشت گردوں کو پال رہا ہے جو مغرب پر حملہ آور ہوکر ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔

 

وہ تحریکیں جو عالمی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں،ان کو دوسرے مملکت کی پُشت پناہی حاصل رہی ہے۔ ایران یمن کے حوثیوں کی مدد کررہا ہے، تمام عرب ریاستیں فلسطین کی مالی اور اخلاقی حمایت کررہی ہیں، کشمیر تنازعہ پاکستان کی مالی اور سفارتی مدد سے عالمی توجہ حاصل کرچکا ہے اور اب تو ترکی بھی پاکستان کے بیانیئے کی حمایت کررہا ہے کیونکہ اردوان ایک مذہبی شخص ہے۔ بلوچستان کی جدوجہد آزادی ایک جمہوری اور سیکیولر تحریک ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ جمہوریت میں قلیل المدتی نقصانات ہیں۔ جب ہماری جدوجہد ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے قابل ہوگی وہ اس کی ضرور حمایت کریں گے اس سے بلوچ قوم اور قومی تحریک کو بھی یقیناً فائدہ ہوگا، اس طرح سے یہ ایک یک طرفہ نہیں بلکہ باہمی فائدہ مند اتحاد ہوگی۔

 

سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ مسلح جدوجہد بلوچستان کو آزادی دلانے کا واحد قابل عمل ذریعہ ہے؟

جواب: آزادی حاصل کرنے کے بہت سارے ذرائع ہیں۔ صرف مسلح جدوجہد آزادی حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے جب تک اس میں دیگر اجزاء جیسا کہ مضبوط سیاسی جماعتیں اور سفارت کاری شامل نہ ہوں۔ قومی آزادی کی جدوجہد ہمیشہ کثیر الجہتی جدوجہد ہوتی ہے۔ غیر جمہوری خطوں میں مسلح جدوجہد آزادی اور جمہوریت حاصل کرنے کا ایک ضروری جُز ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ مسلح جدوجہدکرنے پر مجبور کیوں اور کیسے ہوتے ہیں؟ اصولی طور پر سیاسی تنازعات کو حل کرنے کا انسانی طریقہ عالمی قوانین کی پاسداری اور ان کو لاگو کرنے میں ہے، اگر کسی ایک ریاست میں حقیقی جمہوریت ہو تو وہاں بات چیت اور مذاکرات سے مسائل پرامن طور پرحل کرنے کے اچھے امکانات موجود ہیں۔ اگر 1948 میں ہی اقوام متحدہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے کردار ادا کرتا جب بلوچستان پر غیر قانونی طور پر بزور شمشیر پاکستان نے قبضہ کیا تھا تو اس وقت ہم پرامن طور پر ایک آزاد ریاست میں زندگی گزار رہے ہوتے۔ 1948 میں عالمی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی خلاف ورزی کی گئی جس پر بجائے اس کے کہ قابض پاکستان کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر جوابدہ بنایا جاتا اقوام متحدہ کے رکن ملک کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ اس طرح سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرے۔

بلوچ مسلح جدوجہد جبری اور غیر قانونی الحاق کے چند ماہ بعد شروع ہوئی، اس کی شروعات پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لئے نہیں ہوئی بلکہ بلوچستان کی سرزمین اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہوئی جس پر پاکستان بزور طاقت قابض ہے اسی بنیاد پر یہ جدوجہد بلکل قانون کے عین مطابق اور ضروری ہے۔ کوئی بھی آزاد، بہادر اور عزت نفس رکھنے والی قوم بلکل ایسا ہی کرتی جو 1948 میں بلوچ قوم نے کیا۔

زیادہ تر لوگ جن کو بلوچستان کی تاریخ کا علم ہے وہ اس بات پر ضرور اتفاق کریں گے کہ بلوچستان کی موجودہ مسلح جدوجہد کو کسی بھی طرح سے ایک الگ مرحلہ قرار دیکر تاریخ سے الگ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کو 1948 سے شروع ہوئی جدوجہد کے تسلسل کی صورت میں دیکھا جاتا ہے جس کا آغاز آغا عبدالکریم نے بلوچستان پر ایک ہمسایہ ملک کے حملہ آور ہونے اور بلوچستان کے غیر قانونی الحاق کے خلاف کیا تھا۔ البتہ مجھے پختہ یقین ہے کہ اپنی دفاع میں صرف مسلح جدوجہد کرنے سے بلوچستان کو آزاد نہیں کیا جاسکتا اگر قومی آزادی کے دیگر اجزاء کو نظر انداز کردیا جائے۔

 

سوال: آپ امریکہ کی جانب سے بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیم قرار دئیے جانے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ اور یہ عمل تحریک اور جدوجہد پر کس حد تک اثر انداز ہوا ہے؟

جواب: امریکہ کی جانب سے اس فیصلے کے فوراً بعد میں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا کہ “طالبان، جو پاکستان کی پیداوار ہیں جو امریکی جڑواں ٹاورز کو تباہ کرنے میں ملوث ہیں اور بدقسمتی سے امریکہ نے بلوچ تنظیم کو دہشت گرد قرار دیکر اس پر پابندی لگائی ہے جو دراصل پاکستان اور طالبان کے سامنے جھکنے کے مترادف ہے، یہ عمل ان کو خوش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے”۔

ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس سے پہلے مشرف کی حکومت میں امریکہ نے بلوچ مسلح تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیکر ان پر پابندی لگانے کی پاکستانی درخواست مسترد کردی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ صدر ٹرمپ کی خوش کرنے والی پالیسی امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں امن کے لئے ایک بہت ہی خطرناک قدم ہے۔ جیسا کہ اس وقت وہ کردوں کے اوپر ہونے والی ترک جارحیت کی اجازت دیکر اردوان کو خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، انہوں نے افغانوں کو آدھے رستے میں ہی پاکستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ عالمی معاملات میں “چیمبرلین” ڈیلنگ کا طریقہ صرف آمرانہ اور اسلام پسند طبقے کو تقویت بخشے گا۔ امریکی اور یورپی جو اپنی دفاع کرنے کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں دراصل اپنی ہی تاریخ اور پالیسیز کو بھول رہے ہیں، جب نازیوں نے یورپ پر قبضہ کیا تو مقبوضہ اقوام نے بینر اور پلے کارڈز اٹھا کر اس قبضے کے خلاف احتجاج نہیں کیا تھا بلکہ اپنی دفاع میں بندوقیں اٹھائی تھیں۔ حال ہی میں ہم نے مشرق وسطیٰ میں بھی “عرب اسپرنگ” کے بعد ایسی کوششیں دیکھیں جب یورپیوں اور امریکیوں نے ظالم حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو مسلح کرکے مدد فراہم کی، ہم نے ڈیموکریت کردوں کو بھی داعش کےجنونیوں سے اپنے لوگوں کے دفاع میں لڑتے ہوئے دیکھا۔

جب ایک قبضہ گیر قوت مقبوضہ قوم کو دبانے کے لئے تشدد کا استعمال کرتا ہے، ریاستی اداروں کو وہاں کے رہنے والے افراد کو لاپتہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے، آبادیوں پر بمباری کرتا ہے اور عورتوں تک کو گرفتار کرتا ہے تو ایسے حالات میں مقبوضہ اقوام کا مسلح جدوجہد کرنا معنی خیز ہوتا ہے۔ بلوچ قوم قبضے اور ظلم و جبر کے اس دور سے گزر رہا ہے جس سے یورپی عوام نازی اور سویت قبضے کے دوران گزری ہے۔ اپنی دفاع میں  یورپی عوام کی ایسے ظلم کے خلاف مسلح جدوجہد کو صرف جدوجہد کی ایک شکل کا نام دیکر پورے مغرب میں منایا اور یاد کیا جاتا ہے، اس وقت بلوچ اور کرد اسی نوعیت کے بربریت کا شکار ہیں اور ان کے پاس اپنی دفاع میں لڑنے کے سوائے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لیکن امریکی اور یورپی لوگ ہماری دفاع کے اس حق جدوجہد پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں جو ان کے آباواجداد نے اپنے دفاع کی خاطر کی ہے جب ان پر اس نوعیت کے حالات تھے۔

مغربی ممالک مشرق وسطیٰ اور بلوچستان کے مسائل کو یورپی مرکز نگاہ سے دیکھتے ہیں، یورپ میں جو اقوام آزادی مانگتے ہیں ان کی نسلی کُشی نہیں کی جاتی وہ اخبارات بھی چلا سکتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں بھی قائم کرسکتے ہیں۔ اسکوٹش نیشنل پارٹی اس کی ایک بہترین مثال ہوسکتی ہے جو اسکاٹ لینڈ میں ایک دھائی سے زیادہ کے عرصے سے حکومت میں رہی ہے حالانکہ اگر ان کی جدوجہد کامیاب ہوتی ہے تو متحدہ انگلستان کا حقیقی طور پر خاتمہ ہوجائے گا لیکن میں نے یہ نہیں دیکھا کہ برطانیہ کے خفیہ اداروں نے اسکاٹش نیشنل پارٹی کے کسی رکن کو اٹھا کر لاپتہ کرکے تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد اس کی لاش گلاسگو یا ایڈن برگ میں پھینک دی ہو۔

میں یہاں پر یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ دو غلط کو ملانے سے ایک صحیح وجود میں نہیں آتا۔ پاکستان سامراجی کمیونسٹ چین کی پشت پناہی میں بلوچستان کے اندر عالمی قوانین کی خلاف ورزی تو کررہا ہے لیکن اس سے غیر ملکی سفارت خانوں پر حملہ کرکے ان کو نشانہ بنانے کا جواز فراہم نہیں ہوتا جس کا بلوچ تحریک میں موجود کچھ عناصر مرتکب ہوئے ہیں۔ جو کچھ پاکستان بلوچستان میں کررہا ہے وہ یقیناً نسلی صفایا یا نسل کُشی کے زُمرے میں آتا ہے جو تمام عالمی قوانین اور اخلاقیات کے منافی ہے۔ بدقسمتی سے کراچی میں چینی کونسلیٹ پر ہونے والے حملے سے بھی واضح طور پر قائم عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی اور بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے کسی بھی ایسے واقعے کا جواز فراہم نہیں ہوتا۔ ایسے ہی اعمال کو جواز بنا کر امریکہ نے بلوچ قومی تحریک میں برسرپیکار تنظیم پر پابندی لگادی۔ بلوچ قوم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی قوانین اور دیگر قائم جنگی قوانین  کی خلاف ورزیاں کرنے سے صرف ہماری تحریک کمزور ہوگی اور مقصد کو نقصان پہنچے گا،اس طرح کے اعمال ہمیں قومی آزادی حاصل کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کریں گے۔

 

سوال: آپ ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ بھارت کو بلوچ تحریک کی حمایت میں آگے آنا چاہئے، کیا اس حمایت پر آپ تھوڑی روشنی ڈالنا پسند کریں گے کہ آپ کس طرح کی حمایت کی توقع رکھتے ہیں؟

جواب: قومی آزادی کی تحریکوں کی ضروریات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا کو ہر اُس طریقے کا انتخاب کرکے بلوچ عوام کی مدد کرنی چاہئیے جو آزادی کی تحاریک میں ضروری ہیں۔ ایک آزاد بلوچستان نہ صرف بلوچ قوم کے بہتر مفادات میں ہے بلکہ یہ خطے میں بھارت کے لئے بھی ایک جیوپولیٹیکل سرمایہ کاری ہوگی۔ بھارت کی ترقی کرتی معیشت کو چین اور دیگر ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے توانائی کی بڑی مقدار میں اشد ضرورت ہے جو بلوچستان میں توانائی کے موجود وسیع ذخائر سے پوری ہوسکتی ہے۔ چین اس وقت بلوچستان کی ساحلی پٹی میں عسکری مراکز اور اڈوں کی تعمیر میں مصروف ہے تاکہ وہ بھارت کو گھیر کر اس کی خطے میں سرکوبی کرسکے۔ آزادی کے بعد بلوچستان کی سرزمین کسی بھی ملک پر جارحیت کے اڈے کی صورت میں استعمال نہیں ہوگا بلکہ خطے میں امن و خوشحالی لانے کے لئے بھرپور کردار ادا کرے گا، آزاد بلوچستان تنازعات کے حل میں بھی کردار ادا کرے گا۔

بھارت مغرب اور دیگر ممالک پر انحصار کرتا ہے، لیکن اس امر کو فراموش کرتا نظر آرہا ہے کہ قریبی ہمسایہ اتحادی زیادہ بااثر اور محفوظ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ اگلے دو دہائیوں میں کیا ہونے جارہا ہے، چین اُبھر رہا ہے، آگے بڑھ کر جنوبی سمندر میں جزیرے بنا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ بھی بدل رہا ہے، پاکستان و چین بلوچستان میں نئے فوجی اڈے اور تنصیبات تعمیر کررہے ہیں، لیکن بھارت کی جانب سے کوئی تیاری ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی جو بین الاقوامی عالمی نظام کی ترقی کی نوعیت کو دیکھتے ہوئےانتہائی پریشان کن ہے۔

بلوچستان کی آزادی بھارت کو خطے میں اپنے مخالفین کے مقابلے میں طویل المدتی مضبوطی فراہم کرے گی۔ اگر بلوچستان آزاد نہیں ہوتا تو بھارت کے لئے اپنے ملکی و قومی مفادات کا تحفظ کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ لہٰذا بلوچستان کی آزادی نہ صرف بلوچ قوم کے مستقبل کا احاطہ کرے گی بلکہ بھارت کامستقبل بھی بڑی حد تک اس سے وابسطہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز