شنبه, آوریل 27, 2024
Homeآرٹیکلزجدلیات کا دوام اور تنقیدی رویئے۔ تحریر: رزاک بلوچ

جدلیات کا دوام اور تنقیدی رویئے۔ تحریر: رزاک بلوچ

ہیگل کے نزدیک جدلیات کی بنیادی اصولوں میں سے ایک یہی ہے کہ ہر شئے کی بطن میں اسکی ضد موجود ہے، یونانی فلاسفر ہیراکلیٹس کئی سو سالوں پہلے محرک اور تبدیلی کی کائناتی اصول اورعلت یعنی (کاز)کو تسلیم کرچکے تھے یہیں سے شاید جدلیات کی بنیاد پڑی ہو۔ارتقا کے بنیادی محرک یہی تضادات ہیں جو حرکت و تبدیلی کی وجہ سے ہر شئے و عمل میں وقت کے ساتھ نمودار ہوتے اور تبدیلی کے ساتھ ختم ہوتے ہیں اور سماج یا سیاسی پروسس کی تشکیل و ارتقا کے مخفی قوانین کو آشکار کرتے ہیں، جامد رویوں کی اضداد ختم کرتے ہیں کیونکہ ان میں ارتقائی جوہر ناپید ہوتی ہے اور سماجی و سیاسی پروسس کی تشکیلِ نو کی قوانین کے دریافت سے قاصر رہتے ہیں، لیکن تغیر پذیر اور نئی راہیں نکالنے والے رویے تضادات کو یہ موقع نہیں دیتے کی کسی عمل یا شئے کی بنیادی اساس کو ختم یا ناکارہ کرکے رکھ دے بلکہ وہ ارتقائی محرکات کی مدد سے مناسب اور قابل عمل تبدیلی اور سیاسی و سماجی تشکیل نو کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اور یہی تغیر پذیری کا رویہ پورے عمل کو تضادات کی نقصان دہ گورکھ دھندے سے نکال کر پھر سے راہ راست پر متحرک کرتا ہے اور کیونکہ اضداد ہر شئے و عمل کے جڑوں میں ہی پیوست ہے تو اسی سچائی کے باوصف کچھ وقت میدان عمل یا کسی شئے پر تجربہ کرنے کے بعد اس میں پھر سے تضادات جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر سے نئی راہوں کی کھوج کے لئے ارتقائی تغیرپذیری کا سہارہ لینا پڑتا ہے۔

سرمایہ دار طرز معیشت پر مارکسی تجزیے کی بنیادی محرک یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے اندر موجود تضادات کو سمجھنے، بوجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اسی لیئے وہ اپنی اندر کی تضادات کا شکار ہوکر شکست و ریخت سے دوچار ہوجائیگی، تغیر و تبدیلی زندگی کو جلا بخشتی ہے اور جامد و ساکت رویے زندگی کو، کسی عمل یا شئے کو کوکھلا کرکے ختم کردیتے ہیں، یہ عمل کی اثبات و نفی میں موجود تضادات کے ہمہ وقتی جدل و برسرپیکار ہونا ہے جو نفی سے اثبات اور پھر نفی سے نفی ہوکر دوبارہ اثبات کے عمل کو شروع کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے بشرطیکہ کے تغیر و تبدیلی کے محرک کو ہمہ وقت زندہ و متحرک رکھا جائے، کیونکہ کوئی شے ایک حالت یا ایک سانچے میں برقرار نہیں رہتا وہ اپنی ہئیت و ماہیت سمیت شکل و صورت اور حجم کو تبدیل کرتا رہتا ہے اسی طرح کسی بھی عمل میں ہمہ وقتی تغیرکا محرک اس عمل کی تسلسل کو قائم رکھنے میں مدد دیتے ہوئے اضداد کی اثباتی عنصر منفی رویوں سے جدل و پیکار میں جیت جاتے ہیں، جب کسی عمل یا شئے میں خود اسکی ضد پہلے ہی سے مگر کمزور انداز میں موجود ہو تو پھر اس ضد یا منفی پہلو کا انکار کرنا موت کے موافق ہوگا اور عمل میں موجود اضداد کےخلاف ہمیشہ برسرِپیکار رہنا، انکے خلاف کمربستہ رہنا اور تغیر و تبدیلی کے لیئے تیار رہنا زندگی اور تسلسل کی بنیادیں ہیں۔

جدلیات کی تعریف اور اسکی جامع علمی تشریح میں عرق ریزی ورق گردانی کی ہزارہا سال کی تاریخ ہے، لیکن اس میں ہمارے لیئے سیکھنے کے لیئے یہی بہت بڑی چیز ہے کہ ہر عمل اور شئے کے اندر تضادات لامحالہ ابھرتے ہیں، وہ تضادات یکا یک جنم نہیں لیتے، بلکہ تضادات سرےسے جنم لیتے ہی نہیں بلکہ وہ کسی عمل یا شئے کی شروعاتی یا بنیادی سرگرمیوں کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں، ابتدا میں وہ بس کمزور اورمخفی رہتے ہیں اسی لیئے نظر نہیں آتے لیکن جب عمل یا شئے کی زندگی بڑھتی ہے اسکا دائرہ کار وسیع ہوتا وہ اپنا وزن اور حجم بڑھاتا ہے تو پھر تضادات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں وہ سطح سے نیچے رہتے رہتے عمل کی اثباتی پہلوئوں میں کمزوریوں کے باوصف سطح کے اوپر آجاتے ہیں اور پھر ابھرنا شروع کرتے ہیں، غلط العام قبولیت کی وجہ سے بسا اوقات تضادات کے واضح ہونے اور سطح سے اوپر ابھرنے کو “جنم لینا ” کہا جاتا ہے جو کہ سرے سے ہی غلط ہے۔ تضادات ابھرتے ہیں، جنم نہیں لیتے۔

دنیا میں قومی آزادی کی تحریکوں کی بات کریں تو کوئی بھی ایسی تحریک نہیں رہی ہے جو زمان و مکان کے اندر موجود ان اضداد سے مبرا و ماورا رہا ہو، ہر تحریک کے اپنے اضداد تھے، اپنی جدلیاتی پہلو تھے اور انکے درمیان جدل و پیکار کا سلسلہ چلتا رہا ہے، کامیابی کی بنیادی محرکات میں تشکیکیت، تنقیدی سوچ و فکراور اسی تشکیکیت اور تنقیدی فکر سے سماجی و سیاسی تشکیل نو کی قوانین اور راہیں نکال کر تغیر پذیریت کی محرک کو نشونما دیا گیا، اسی طرح بلوچ قومی تحریک آزادی بھی ان تمام محرکات سے نہ الگ ہے نہ مبرا و ماورا ہے اور نہ ہی وہ سچائی کے آفاقیت اور جدلیات کے قوانین کے دائرہ کار آزاد ہے، آج دشمنوں کی سیاسی چال بازیاں، وسائل کا استعمال، اپنوں کی کج رویاں اور انکے خفیہ و نقصان دہ ایجنڈے اور بہت کچھ، ان سب نے ملکر تحریک عمل کے اندر موجود فطری تضادات کو ابھار کر سطح پر لاکھڑا کیا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیںکہ یہ تضادات اپنے مضبوط اور وقت کے ساتھ مصلحت پسندی یا نیک نیتی و سادگی کے تحت انکو اتنا موقع فراہم کیا گیا کہ اب وہ خود تحریکی پروسس سے حجم، دائرہ کار اور طاقت کے تناظر میں بہت زیادہ بڑے اور تناور معلوم ہوتے ہیں۔

ان سب کا تدارک تنقیدی سوچ وفکر کے تحت نئی سیاسی و سماجی راہیں نکالنے میں ہی مضمر تھا لیکن تنقیدی سوچ فکر کی بوجوہ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی حوصلہ شکنی ہوئی، غالبا دوہزار آٹھ کے اواخر میں سنگت حیربیار مری نے ایک اخباری بیان کے ذریعے بلوچ راجی تحریک عمل کے اندر موجود تضادات کی طرف اشارہ کیا تو اسکے بعد ہم نے دیکھا کہ بجائے پروسس کے اندر موجود ان اضداد پر بات کرنے انہیں سدھارنے کی بلکہ ایک طوفان بپا کیا گیا اور تحریک کو مزید انتشار کی جانب لے جایا گیا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ بلوچ قومی تحریکی اوتاکوں میں تنقید کو ایسے بدنام اور رسوا کیا گیا کہ تم ایک تنقیدی بات کرو تو بیشتر لوگ ایسے رویئے درشاتے ہیں جیسے تم نے کوئی نہایت ہی بھدی، احمقانہ یا پھر گالم گلوچ سے بھر پور بات کہہ دی ہو، لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہوتی بس رویوں کو ایسے فکری قالب میں ڈھالا گیا ہے، ذہنی نشونما کو سانچھوں میں مقید کیا گیا ہے، مینٹل کنڈیشننگ کچھ اس طرح سے کی گئی ہے کہ کوئی بھی تم پر، تمھارے قبیل کے لوگوں پر، تمھارے گروہ پر یا تمھاری حرکات و سکنات پر کوئی حرفِ اعتراض اٹھائے تو سمجھ لینا کہ وہ تمھارے کام سے جلتا ہے، وہ دشمن کے ایجنڈے پر گامزن ہے، وہ شہیدوں کی بے حرمتی کا مرتکب ہورہا ہے، بالکل ویسے جیسے کہ شاہ دولے کے چوہے ہوتے ہیں، یہی فکری و علمی سانچھا بندیوں کے باوصف آج کا بلوچ کارکن تنقید کو ایسے سمجھتا ہے جیسے تم دشمن کے ساتھ یا ساجھے دار ہو، وہ علمی و منطقی بحث تک پہنچنے اور تمھیں علم و دلائل سے مات دینے کی روادار ہوئے بغیر تم پر جھپت پڑتے ہیں، بات پھر تمھاری ذاتی کردار سے شروع ہوکر تھماری خوابگاہ سے ہوتا ہوا ماں بہنوں کو دی جانے والی غلاظت بھرے جملوں پر آکر ٹہرجاتی ہے۔

بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ کسی نشست میں، کسی بیٹھک میں ہم جب تنقید کرتے ہیں، بات کرتے ہیں تو یار دوست ایسے خاموش ہوجاتے ہیں یا پھر وہ ایسے بے رخی کا برتاؤ کرتے ہیں جیسے ہم نے باتوں باتوں میں انکو خدانخواستہ ماں بہن کی گالی دی ہو یا کوئی بڑی ہی بے ادبی ہم سے سرزد ہوئی ہو، لیکن گالی کیا ہم تو مہذبانہ طور پر ہی بات کررہے ہوتے ہیں، گالی کیا ایسی کسی بد تہذیب بیانیے کا شائبہ تک نہیں ہوتا ہماری باتوں میں، لیکن یار دوست پھربھی خار خار سی روئیے کا احساس کررواتے ہیں، ایسا کیوں ہے۔

میری ناقص رائے میں ایسا اس لئیے ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت سیاسی کارکن سیاست سے خاص شغف رکھنے کے برعکس ذاتی پسند و نا پسند سے زیادہ علاقہ رکھتے ہیں کیونکہ عرصہ دراز سے سیاسی بنیادوں پر کسی خاص مقصد کے تحت تنقیدی رویوں یا فکری حوالے سے علمی بنیادوں پر جستجو کو باقابل برداشت حد تک بدنام کیا جاچکا ہے، اسی لئے جو ہماری پسندیدہ سیاسی گروہ، پارٹی یا لوگوں پر تنقید کرے تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمیں ذاتی حوالے سے ہدف بنا کر نشانہ بنارہاہے، چونکہ ہم اپنی نفسیات میں تنقید کو ذاتی پیرائے میں لیتے ہیں تو ہمیں ذاتیات پر اترنے، نام لینے، خاندانی رشتوں پر زبان درازی کرنے اور گالم گلوچ کی حد تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔

اور مزے کی بات یہ کہ جب بات ذاتیات تک جا پہنچتی ہے تو پھر جس موضوع پر مباحثہ شروع ہوا تھا وہ مباحثہ ( ڈالچار) نظر انداز ہوجاتا ہے پھر جتنی لمبی بحث چلتی ہے وہ بیشتر تو تو میں میں پر ہی مبنی ہوتا ہے، اصل موضوع کو نظرانداز کروانے کا پالیسی نہ نیا ہے نہ ہی ہم بلوچوں تک محدود ہے، بلکہ بسا اوقات ہم پاکستانی فوج کو اسی بنیاد پر تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ ایک واقعے کو پس پشت ڈالنے کے لئے دوسرا واقعہ یا سانحہ قصدا کرواتے ہیں تاکہ لوگ ایک بحث سے نکل کر دوسرے بحث میں مگن ہوجائیں، بلوچ سیاسی میدان بھی تنقیدی عمل کو لے کر کم و بیش ایسی ہی غیر پیداواری اور موضوع کو ہی متنازع بنانے والی روش پر کارفرما ہے، اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی فوج کو دشمن سمجھتے ہوئے بھی اسکی سیاسی انجینئیرنگ اور تنقید گریز رویوں سے متاثر ہوکر انکی ہی جیسی حرکتیں کررہے ہوتے ہیں۔

تنقید کسی بھی شئے کو اسکے نتائج، زمینی حقائق اور اس میں موجود جوہر اور جزئیات کی باہم امتزاج کی بنیادوں پر باریک بینی کو کہا جاتا ہے، باریک بینی سے کھرے اور کھوٹے کا تمیز کیا جاتا ہے، بعض معاملات اس قدر واضح اور آشکار ہوتے ہیں کہ باریک بینی کی ضرورت نہیں پڑتی اور خاص و عام سمجھ جاتے ہیں کہ کیا کھرا اور کیا کھوٹا ہے، لیکن بیشتر اوقات پورے سیاسی عمل میں اضداد اس قدر باریک، دقیق، اور گنجلک ہوجاتے ہیں کہ اس میں کئی نشستوں کی مکالمہ و مذاکرہ اور ورق گردانی و عرق ریزی بھی مسائل کی تہہ تک پہنچنے میں مدد نہیں کرسکتی، ایسے میں سیاسی معاملات کو لے کر تنقیدی فکر و نظر کے حامل لوگ تحلیلی تجزیہ کی طرف جاتے ہوئے ہر شئے، ہر عمل اور موقف کا علمی بنیادوں تقطیع یعنی قطع و برید کرکے ان میں موجود خامیوں خوبیوں اور اوصاف کا پتہ لگانے کی کوششیں کرتے ہیں، اسکے لئے محض معلومات کا حاصل ہونا ہرگز کافی نہیں بلکہ اس کے لیئے معلومات کا تجزیہ اور تحلیل کرنے کی علمی فن بنیادی نقطہ ہے، تنقید ہر شئے و عمل میں موجود تضادات سے بچنے اور بہترین اوصاف کو مزید بہتر کرنے کا نام ہے ٹی ایس ایلیٹ کے بقول ” تنقید ہماری زندگی کے لیئے اتنی ہی ناگزیر ہے، جتنی سانس”۔

بلوچ قومی تحریک آزادی میں تضادات اس شدت اور قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آچکے ہیں اور اس قدر طاقت ور ہوچکے ہیں جہاں کبھی کبھی شک پڑتا ہے کہ یہی تضادات ہی اثبات ہیں، یہ سب کچھ اس لیئے ہوا ہے کہ ہم نے من حیث القوم تنقیدی رویوں کو ہمیشہ گلوگیر کیا، سوال کو ڈالچار کیا اور سوال اٹھانے والے کو تنہا کرنے اور متازعہ بنانے کی کوششیں کی ہیں، تنقید سے کوتاہیوں، کمیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے، نشاندہی کرنے کے بعد ان تضادات کو حل کرنے یا انہیں غیر موثر بنانے کے لیئے تغیر و تبدیلی کی راہیں نکالی جاتی ہیں اور سیاسی و سماجی تشکیل کے لیئے قوانین کو سمجھا جاتا ہے اسی سے ارتقاء کا سفر رواں دواں رہتا ہے، پروسس میں ہی اسکے اضداد کا موجود ہونا خود اس بات کی غماز ہے کہ ارتقائی عمل اور تغیر کا تسلسل ہی کسی پروسس کو اپنے آخری منزل تک پہنچا سکتے ہیں، اب ان تمام چیزوں کا بنیادی محرک یا نقطہ آغاز ہی تنقید ہے اور جب تنقیدی عمل اور رویوں کو ہی متنازع بنایا جائے تو سوچ لیں اس پروسس کا کیا حشر ہوگا اور اسکے اندر موجود تضادات گزرتے وقت کے ساتھ کتنے طاقت ور اور مہیب قد و قامت کے حامل ہونگے۔

بلوچ قومی تحریک میں بنیادی طور پر چیزوں کو دیکھنے انہیں پرکھنے اور نتائج کی جانچ پرکھ کا باقاعدہ ایک نظام ہونا چاہئے تھا، کوئی بھی انتظامی طریقہ ازخود نہیں بن جاتا بلکہ اسکو وضع کرنا پڑتا ہے اور اسکی نفاذ کرنی پڑتی ہے، بعض اوقات کسی اصول، ضوابط یا قانون کو لوگوں کے ذہنوں میں ٹھوس ٹھوس کر پروسس میں وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ اسکو پختہ کردیا جاتا ہے لیکن بہت بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی ایک اصول و ضوابط کی باقاعدہ نفاذ کے لیئے زبردستی کرنی پڑتی ہے، حاکم بدہن دنیا کے مختلف قوموں میں خانہ جنگیاں شوقیہ بنیادوں پر تو نہیں ہوئیں ایسا نہیں ہے کہ فرنچ، ہسپانوی یا امریکی لوگ فطری طور پر خونخوار تھے لہذا اس لیئے آپس میں گھتم گھتا ہوکر لڑ پڑے، بلکہ وہ اپنی سیاسی آدرشوں کو بچانے اور سماج کی نئے قوانین کے تحت بہتر بنیادوں پر تشکیل نو کرنے کے لیئے آپسی خونریزی یا خانہ جنگی کو بطور مجبوری اپنا لیئے۔

تنقید اس لیئے لازمی ہے کہ تنقید سے فکر کی نئی راہیں کھلتی ہیں، پروسس میں ابھرکر سامنے آنے والے تضادات حل ہوتے جاتے ہیں، سماجی و سیاسی بندوبست کو بہتر کرنے کے لیئے نئی قوانین لائے اور نافذ کیئے جاتے ہیں، جہد و عمل میں شامل حقیقی قوتوں کے درمیان چپقلش کے امکانات کم سے کم تر ہوجاتے ہیں، تنقید کوئی از خود نہیں کرتا بلکہ تنقید بذات خود تضادات کے ابھرنے سے ہی ابھرتا ہے،تحریکی عمل کے دوران تضادات ابھرتے ہیں اور بار بار ابھرتے ہیں۔

تنقیدی عمل ان تضادات کو حل کی طرف موڑ کر تحریکی اساس کے خلاف ان تضادات کو غیر موثر بناتی ہے،تنقیدی عمل کی غیر موجودگی، تنقیدی عمل کی حوصلہ شکنی یا پھر تنقید کو متنازع بنانے کا رجحان تحریک کے فطری بنیادوں میں شامل تضادات کو ابھارتے، نشونما دیتے دیوہیکل طاقت بنادیتے ہیں پھر یہی تضادات ناقابل تدارک بن کر تحریک کی بساط کو لپیٹ لیتے ہیں۔جب تنقیدی فکر و نظر کے سہارے تضادات کا ادراک و تدارک نہ کی جائے، تو پھر بالآخر نتائج خانہ جنگی کی صورت میں ابھرتے ہیں یا پھر اجتماعی تباہی کی صورت میں۔

جدلیات کی آفاقی فطرت میں موجود اضداد کو محض تنقیدی روئے ہی تمھارے حق میں بہتر کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز