شنبه, آوریل 27, 2024
Homeآرٹیکلزقومی آزادی کی جدوجہدکااحتیاج ،: تحریر میران بلوچ

قومی آزادی کی جدوجہدکااحتیاج ،: تحریر میران بلوچ

تعمیری اور مثبت تنقید _ تحریک ، بہترملکی نظام ،اور ریاست کی تشکیل کے لیے ایسا ضروری ہے جیسا کہ ملیریاکے لیے کلوروکین chloro-quine،درد کی تکلیف کے لیے پیناڈول ،کسی بھی موومنٹ کو صحیح جگہ اور صحیح ٹریک پر لانے کے لیے مثبت اور تعمیری تنقید دوا کا کام کرتا ہے ۔جس طرح دوا جسم میں موجود
بیماری کا خاتمہ کرتا ہے بلکل اسی طرح تعمیری اور مثبت تنقید تحریک میں موجود حادثاتی جنگی منافع خوروں
،پیداگیروں،اور ذاتی مفادات کیلئے تحریک کو استعمال کرنے والوں کو بے نقاب کرکے اصلی اور نقلی کی
پہچان کو آسان بناتا ہے ۔ فلو کی علامت اگر بخار،کھانسی،گلے کی سوزش ،جسم میں درد اورتھکاوٹ ہے تو
تحریکی بیماری کی علامت تقسیم درتقسیم اور تقسیم درتقسیم کی حوصلہ افزائی ،جنگی منافع خوری ،سرمچاری طاقت
کی قوم کے خلاف استعمال ،قومی اختیارات کی غیر ذمہ داری اور بچگانہ طور پر استعمال قومی تحریک میں ،انصاف و عدل کی کمی ،اقربا پروری اور قومی مفادات کے بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحت فیصلہ اور پالیسی سازی ہیں۔ جو کسی بھی مضبوط سے مضبوط تحریک کو کمزور کرکے شکست اور ناکامی کی جانب لے جاسکتے ہیں ۔آج بلوچ قومی تحریک کو کچھ احمق اپنی نابالغی اور ناتجربہ کاری سے بے سمت اور بے رخ کررہے ہیں ۔کیونکہ جدوجہد اور قومی ریاست کی تشکیل کا فارمولہ مورال اتھارٹی اور اخلاقیات سے قوم اور لوگوں کا اعتماد کی بحالی اور اپنی قومی مسئلہ کو دنیا کا مسئلہ بنانا ہے ۔ یہاں بنیادی ٹھوس قاعدہ اور فارمولہ اعتماد،ٹرسٹ،اصول ، اور صاف ، ڈسپلن،ہے جسکی مدد سے قومی ریاست کی تشکیل کا اصول ممکن ہوسکتا ہے جبکہ اس کے برعکس تحریک مخالفین پاکستانی پارلیمانی لوگوں کا بنیادی دستور اور فارمولہ زیادہ سے زیادہ ہجوم اکھٹا کرنا اور ممبو جمبو جوڑ تھوڑی سیاست کرنا ہے وہاں سب کو کسی نہ کسی طریقہ سے خوش کرنا پاکستانی الیکشنی سیاست کا دستور ہوتا ہے وہاں اصول ،ڈسپلن ،انصاف،قاعدے کا نام و نشان نہیں ہوتا ہے،وہاں عمران خان کو عائشہ گلالئی کے ذریعے گالی دیا جاتا ہے پھر وہی عائشہ گلالئی اپنی توپوں کا رخ نواز شریف کی طرف کرتا ہے ۔زرداری نواز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کو چور ،ڈاکو لٹیرے اورایجنٹ کہتے ہیں پھرالیکشنی مفادات کے تحت اپنے انہی حریف کے ساتھ اسٹیج پر یکجا ہوکر دوسرے مخالفین کو یہی الزامات اور گالیاں دیتے ہیں کیونکہ اخلاقیات ،مورال اتھارٹی کے بجائے جوڑ توڑی مبوجمبو سیاست ہی انکا دستور ہے اور وہ اپنی دستورکے مطابق سیاست کررہے ہیں ۔وہاں عورتوں کو گالی گلوچ اور غلط الزام تراشی کے لیے عائشہ گلالئی کی طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔اسی طرح پاکستانی پارلیمانی سیاست میں اختر مینگل ،اسرار زہری، اسد بلوچ اور ثناہ بلوچ نے ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح کا غلط زبان استعمال کیا ایک دوسرے کو اسی طرح کے الزامات اور لیبل لگائے کہ جو کسی بھی غیرت مند بلوچ کو نہیں لگا ہو۔ یہ ایک ساتھ ملکر پھر کھبی بھی ایک ساتھ سیاست کریں گے لیکن حالیہ الیکشن کی خوشبو محسوس کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوتے ہوئے ایک دوسرے کی ایسی تعریفوں کے پل باندھنے لگے اور ایک دوسرے کی ستائش کرنے لگے کہ چاکر خان اور حمل جیئند کے قبر کو بھی اس بے شرمی پرشرمندگی ہوئی ہوگی ۔اگر بی این پی عوامی نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل اس طرح کا سستا ، غیراخلاقی ،فاجر، بداعمال ،نامناسب اور غلط عمل کرے تو یہ کسی بھی ذی الشعور اور عقل مند اور تعلیم یافتہ شخص کو ششدر اور حیرت میں نہیں ڈالتا ہے کیونکہ وہ پاکستانی سیاسی مزاج پر چل رہے ہیں اور انھیں یہ سب کچھ پاکستانی سیاست کی وراثت سے ملا ہے اور وہ اسی دستور کے تحت سیاست کرتے
ہیں جو چیز عائشہ گلالئی کے لیے عیب نہیں تو کس طرح وہ چیز اسی پارلیمانی مزاج پر چلنے والے عوامی، مینگل،
اور نیشنل پارٹی کے لیے عیب اور غلط ہوسکتا ہے۔لیکن سب سے بڑی سیاسی تہلکہ اور دنگ کر ڈالنے والی
بات یہ ہے کہ ،جنگی منافع خوروں ،پیداگیروں اور ذاتی اور گروہی مفادات کے تحت سیاست کرنے
والے جہدکاروں جو بدقسمتی سے قومی آزادی کے کاروان کا ہمسفر بنے ہوئے ہیں نے مقدس اور
متبرک قومی تحریک کو بھی گلالئی زدہ کیا ہوا ہے ۔پیداگیر گلالئی جو کھبی یہاں تو کھبی وہاں جگہ بنانے کے لیے
پنجابی غلاظت کو قومی تحریک میں لاگو کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف قومی آزادی کے مقدس
اور متبرک ایجنڈے ،مشن ،مقصد، نصب العین اور ٹھوس قاعدے کو کچھ گروہ پرست ،موقع پرست،ابن
الوقت ،متعصب،پست خیال،فریبی،اناپ شناپ لوگوں نے پاکستانی زدہ کیا ہوا ہے جہاں آزادی کی
تحریک کو یہ لوگ پاکستانی پارلیمانی فارمولے کے تحت چلا رہے ہیں ۔پاکستانی پارلیمانی سیاست میں
جس طرح اصولوں کو روندھ کر نمبر اسکورنگ کے لیے مختلف لوگوں کا مجمع اکھٹا کیا جاتا ہے انکا مقصد مختلف
لوگوں کی مدد سے پارلیمانی سیٹ حاصل کرنا ہوتا ہے اس سیٹ کو حاصل کرنے کے لیے گلالئی گیری سے
لیکر وہ ہر حربے استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ الیکشن جیتے لیکن قومی آزادی کا مقصد اورحدف الیکشن جیتنا
نہیں کہ جہاں پوری قوم کو ہر چار سے دو سال بعد دھوکہ فریب منافقت اور دونمبری سے ورغلایا جائے بلکہ
اسکا حدف قومی آزادی ہے جو پارلیمانی سیاست سے مکمل طور پر مختلف ہے ،اس میں قابل قدر شئے قوم کا
اپنی لیڈر ،تنظیموں اور جہدکاروں پر اعتبار،بھروسہ ،اعتماد ،ہے اور اعتماد ،بھروسہ اور اعتبار اخلاقی
اصولوں اور مورال اتھارٹی کے بغیر ناممکن ہے جبکہ اخلاقیات اور مورال اتھارٹی بے اصولی تعداد اور ہجوم
کا محتاج اور حاجت مند نہیں ہے ۔کیونکہ کہا جاتا ہے جب بھی کسی قوم کی تاریخ اور وجود کو مٹانا ہوتو اسکے
لوگوں کی اخلاقی اقدار کو مٹاؤ ،اب بھی پاکستان اور بلوچستان کے درمیان سب سے بڑی فرق انکی اخلاقی
اقدار کی وجہ سے ہے یہی اخلاقی اقدار ،مورال اتھارٹی جدوجہدی اصول اور ڈسپلن قومی جدوجہد کی سب
سے بڑی ہتھیار ہیں کہ جن سے قابض کو شکست دی جاسکتی ہے ،جس طرح پانی کافارمولا H2O اور Sodium oxideکا فارمولاNa2Oہے اور Na2Oسے پانی نہیں بن سکتا ہے تو اسی طرح پارلیمانی سیاست کا فارمولااستعمال کرنے سے قومی آزادی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ہیں . جوڑ تھوڑ ،دھوکہ،گلالئی زدہ سیاست ،گالی گلوچ ،غلط الزامات ،نمبرنگ ،بے اصولی ہجوم اور لشکر کا مجمع کی سیاست پاکستانی دو نمبر کی پارلیمانی فارمولے ہیں جنھیں اگر آزادی کی تحریک میں لاگو کیاجائے تو آزادی کے کاروان میں یہ ایسا ہی نتائج دیں گے جیسے کہ پانی کے لیے سوڈیم آکسائڈ کا فارمولا استعمال کیا جائے اور توقع پانی کا کیا جائے ،پاکستانی پارلیمانی سیاست کے احتیاج اور غرض صحیح یا غلط کے فرق کے بغیر مجمع اکھٹا کرنا ،دھوکہ فریب،منافقت ،ایک دوسرے کی ماں ، بہن کی گالی اور پھر بے شرمی سے مفادات کے لیے ایک دوسرے کے گلے لگنا ،گالی گلوچ ،جوڑتھوڑ ی اور ،گلالئی زدہ سیاست ہے جبکہ قومی آزادی کی جدوجہد کا احتیاج اور غرض صاف وبے داغ ،صراحت،،قابل اعتبار ہونا ،بات اور قول کا پکا ،نڈر ،بولڈ،اور قومی مفادات کے لیے رسک لینے والا ،اخلاقیات اور مورال اتھارٹی سے اصولی جدوجہد کرنا ہے ۔پاکستانی غلیظ اور دھوکہ بازی سیاست اور قومی آزادی کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اسی لیے جو دوست مقدس آزادی کے کاروان کے ہمسفر ہیں وہ تعمیری اور مثبت تنقید کرے ،کسی کی بھی پالیسیوں ،موقف ، طریقہ کار اورتحریک مخالف عمل پر تنقید کریں لیکن تنقید کو گالی گلوچ کا نزر نہ کرے، کیونکہ گالی گلوچ ،ناجائز الزام ،کردار کشی ،جذباتی طور پر اپنے مخالفین کو ایجنٹ وغیرہ کے لیبل بلوچی اور انسانی مورال گراونڈ میں بھی ناقابل قبول عمل سمجھا جاتا ہے کیونکہ جو آج مخالف ہے کل جب اس سے ملنا ہو یا اس سے مل کر کام کرنا ہو تو اخلاقی اور بلوچی شرم دونوں کے تحت کس طرح ممکن ہوگا کہ کسی کو مخبر ،ایجنٹ ،دلال ، تحریک دُشمن،جیسے بڑے بڑے الزامات سے نوازنے کے بعد بھی اسی کے ساتھ کام کرے ۔اسی لیے درست الفاظ کے چناؤ اور تنقید کرتے وقت ماضی اور مستقبل دونوں کو مدنظر رکھ کر قلم اٹھائیں کیونکہ قلم کے الفاظ ایکسرے کی طرح ہیں اگر آپ انہیں صحیح طریقہ سے استعمال کریں گے وہ صحیح رزلٹ دیں گے ورنہ الٹا نقصان ہوگا ،الفاظ کو اگر صحیح طریقہ سے استعمال کرے ان میں طاقت ہے،صحیح الفاظ میں ایسی طاقت ہے کہ وہ ذہن میں آگ لگاتی ہے،یہ صحیح الفاظ ہیں کہ جو سخت اور مشکل دلوں سے بھی آنسونکال سکتے ہیں ، صحیح الفاظ بڑے سے بڑے خطرے ، خوف اور ڈر کو بے بس کردیتے ہیں Emily Dickinson نے الفاظ کے بارے میں کہا ہے کہ جب بھی میں کوئی کتاب پڑھتا ہوں تویہ میرے تمام بدن کو سرد کرتا ہے تو اس وقت کوئی بھی آگ مجھے گرم نہیں کرسکتا ۔ اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ شاعری ہے جبکہJodi Picoult نے الفاظ کے حوالے کہا الفاظ اونچائی اور بلندی سے گرے ہوئے انڈوں کی طرح ہیں تم نہ انھیں واپس بول سکتے ہو اور نا ہی انھیں نظر انداز کرسکتے ہو، گندگی وہ اس وقت چھوڑتے ہیں جب وہ گرتے ہیں اسلئے تو سقراط نے کہا کہ فہم دانائی اور علم وحکمت کا آغازہی اصطلاح کے معنی سے شروع ہوا یہ ایک آزمودہ اور تجربہ کیا ہوا حقیقت ہے کہ حقائق اور منطق کی بنیاد پر سیاہی کاایک بوند اور قطرہ ملین لوگوں کوسوچنے پر مجبور کرسکتا ہے جبکہ اس کے برعکس جھوٹ ،دروغ گوئی اور غلط بیانی کی بنیاد پر سیاہی کا سمندر بھی کسی ایک فرد کو بھی سوچنے پر تیار و مجبور نہیں کرسکتا ہے بلکہ جھوٹ الزام تراشی اور دروغ گوئی الٹا اثر کرتا ہے اور لوگوں میں جھوٹے اور دروغ گو کا اعتبار تباہ ہوتا ہے ۔سب سے پہلے اسکی مورال اتھارٹی چیلنج ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا باور ،اعتبار اور بھروسہ قوم اور لوگوں سے ختم ہوجاتا ہے ،جبکہ قومی آزادی کی جنگ بندوق اور ہھتیاروں سے بھی زیادہ باور ،بھروسہ اور اعتبار کی طاقت سے جیتا جاتا ہے ۔قومی آزادی کی جنگ جھوٹ فریب،منافقت،اور دروغ گوئی اور پیداگیروں کی فوج جمع کرنے سے کامیاب نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے لیے اصول ،سیاسی مضبوط موقف،اعتبار ،بھروسہ اور بہتریں قومی پالیسی ہی جانچ کااصول ہوتا ہے ژاناناگوژماو جو Falintil کے رہنما تھے جس کے خلاف ان کے گوریلا کمانڈر Mauk Moruk نے اپنے چار کمانڈروں کے ساتھ ملکر ناکام کرنے کی کوشش کی اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کی لیکن ماوک مورک کی سازش ناکام ہوا اور انکے دو کمانڈر وں نے جاکر سرنڈرکیا اور اس نے آخر کار نقطہ چینی سے تنگ آکر دُشمن سے لڑتے ہوئے جان دی جبکہ دوسری طرف ژانانا اپنے چند لوگوں کے ساتھ الگ سے کام کرنے لگا اور کہا کہ قومی آزادی کا فارمولاانڈونیشیا کی سیاست سے الگ ہے اور اس نے بھی زور دیا کہ آزادی کی جنگ میں اپنی قوم اور لوگوں کا اعتبار ،بھروسہ سب سے بڑی چیز ہے اس نے جوڑتھوڑ ہجوم سے چند لوگوں کو ترجیع دیا اورچند لوگوں کے ساتھ اصولی سیاست کے ساتھ جدوجہد کیا تو جہاں اس کے مخالفین انڈونیشیا کی طرز پر مجمع جمع کرنے والے بھڑک بازوں نے بھڑک بازی اور بے وقوفانہ اورغلط پالیسی کے تحت جنگ کیا جہاں انھوں نے 50ہزار سے زیادہ اپنے لوگ مروائے ،ہزاروں کی تعداد میں انکے لوگ بے گھر ہوئے مگر وہاں نتیجہ صفر رہا کیونکہ وہ قومی آزادی کی جدوجہد قابض کے طرز سیاست کی طرح کررہے تھے ،پارلیمانی فارمولا قومی آزادی کی جدوجہد میں لاگو کررہے تھے لیکن پھر ژانانا نے تحریک کی مکمل بھاگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے قائدانہ صلاحیتوں سے کم لوگوں کے ساتھ آزادی کی جدوجہد کے فارمولے کے تحت پالیسیاں بنائی اور کام کیا کہ اس نے 200لوگوں کی قربانی سے اپنی قوم کو آزادی دلوائی کیونکہ اسکی مورال اتھارٹی بہت بلند تھا یہ پیداگیری اور بے اصولی ہجوم کی سیاست سے بہت دور تھا اور اصولوں کی بنیاد پر جدوجہد کررہا تھا تب جاکر اس نے اپنی قوم کو غلامی سے نجات دلایا ۔مورال اتھارٹی اوراخلاقیات کا معیار وہ شاہراہ تھا جس پرچل کر ژانانا کے کیے گئے فیصلے دیرپا ثابت ہوئے اور اسی شاہراہ سے ہوتے ہوئے وہ آزادی کی منزل تک پہنچ گئے ۔حیربیار مری نے بھی بلوچ قومی جدوجہد میں ژانانا گوژماو کی طرح اصولوں اور،اخلاقیات کو جدوجہد کے لیے معیار بنایا ہوا ہے ،حیربیار مری نے بلوچ قومی تحریک میں مورال اتھارٹی کا ایک ایسا مینار کھڑا کردیا ہے جس کو سر کرنا کسی بھی باقی ماندہ لیڈر کی بس کی بات نہیں ہے ،حیربیار مری واحد بلوچ قومی لیڈر ہے کہ جس نے مورال اتھارٹی کو بلوچ سیاست میں جنم دیا ہے ۔حیربیار مری نے قومی سیاست میں ژانانا گوژماو کی طرح مورال اتھارٹی کو اپنی ترجیحات کی لسٹ میں اوپر رکھا ہے ۔حیربیار مری بے اصولی ہجوم کے بجائے چندلوگوں کے ساتھ اصولی سیاست کو ترجیح دے رہا ہے ،اس نے اپنے مورال اتھارٹی سے قوم کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ایک بھروسہ اور اعتماد بحال کیا ہوا ہے ،انھوں نے قومی آزادی جہد کو پاکستانی جوڑ تھوڑ اور فراڈی دھوکہ دہی کی سیاست سے الگ کیا ہوا ہیں۔ اور قومی آزادی کے فارمولہ کے تحت یہ جدوجہد کررہا ہے ،یہ تمام جدوجہد کا اصول رہا ہے کہ جو لیڈر مورال اتھارٹی کے مطابق چلے وہ اپنی منزل کو پہنچ گئے۔ اور جو لیڈر مورال اتھارٹی کے برعکس پاکستانی سیاست کے ساز بازی اور دھوکہ دہی اور فریب کے راستے پر چلے وہ تاریخ کے کتابوں میں سکول کے بچوں کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز