ہفتہ, مئی 18, 2024

بلوچ قوم دوست رہنما اور فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیار مری کا آن لائن ویب سائیٹ The Tilak Chrinicle کے ساتھ انٹ رویو کا اردو ترجمہ ہمگام قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

حیربیار مری بلوچ قوم پرست رہنما ہیں اور بلوچ کمیونٹی میں موثر ترین شخصیت ہیں۔ وہ اس وقت لندن میں رہتے ہیں، نواب خیر بخش مری کے پانچویں صاحبزادے ہیں اور حیربیار مری فری بلوچستان موومنٹ کے بانی رہنما ہیں۔ اس سیاسی پارٹی کا مقصد آزاد بلوچستان کا حصول ہے۔ بلوچ رہنما نے ہندوستان کے ایک آن لائن ویب سائٹ The Tilak Chronicle مارک کنرا کے کے ساتھ، بلوچستان کی آزادی، بی ایل اے کے بابت، چائنا کی بلوچستان میں موجودگی، ہندوستان سے بلوچوں کے توقعات اور جنوبی ایشیا کے حالات پر اپنے ماہرانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔

سوال: آپ نے بلوچستان کب اورکیوں چھوڑا تھا؟
جواب: میں اپنے نجی کام کے سلسلے میں دسمبر 1999کو لندن آیا تھا۔ اس وقت پاکستان کے جنرل پرویز مشرف نے میرے اور میرے خاندان کے افراد کے خلاف بکوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس قتل سے ریاست نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس قتل کے بنیادی مقاصد میں یہ تھا کہ انہوں نے اس سے قبل میرے والد نواب خیربخش مری (مرحوم) سے رابطہ کرکے بلوچستان کے مری علاقے سے تیل و گیس نکالنے میں مدد چاہی تھی، جو کہ ہم نے مسترد کردی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی سرزمین اور اس کے اندر معدنیات بلوچ قوم کی ملکیت ہیں۔ پاکستان کی پیشکش مسترد کئے جانے کی وجہ سے انہوں نے ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات دائر کئے۔ انہوں نے 500مری قبیلے کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا، اور میرے والد کو 18ماہ تک جیل میں قید رکھا گیا۔ معاشی فوائد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے ہمیں اجتماعی سزائیں دیں۔ ہمارے خلاف تیز ترین مقدمہ کہلائے جانے کے باوجود 21 سال گزر گئے لیکن پاکستانی عدالتیں اس کیس کا فیصلہ صادر نہ کرسکیں۔
اس اثنا میں انہوں نے میرے خلاف دو سے تین درجن کیسز دائر کئے، پھرہٹائے، یہ بلیک میلنگ تھی، وہ مجھے حکومت کا حصہ بن جانے اور عہدہ دینے کی پیشکش کرتے، تاکہ میں اپنے سیاسی موقف سے پیچھے ہٹ جاؤں، میں ان کی یہ پیشکش مسترد کرتا ہوں وہ مقدمات دائر کرتے ہیں اور پھر صلاح کے لئے رابطہ کرتے، میں پھر ان کے آفر کو مسترد کردیتا ہوں۔ پاکستان نے مجھے دھمکیاں دیں، لندن میں میرے خلاف انٹرپول کے ذریعے ریڈ نوٹس جاری کئے مجھے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں لے جانے کی کوشش کی گئی، پاکستان نے اپنی پوری کوشش کی کہ مجھے بلیک میل کرے لیکن شکر ہے کہ میں اب تک اپنے مقصد سے جڑا ہوں، اپنے موقف پر کھڑا ہوں، اپنی آزادی کے لئے، اپنے حقوق کے لئے، اپنی عوام کے لئے کام کررہا ہوں۔
سوال: آپ گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان نہیں لوٹے ہیں؟
بلوچ رہنما حیربیار مری: میں 1999سے بلوچستان نہیں گیا ہوں، میرا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے میں بلوچستان کا باشندہ ہوں اگر گیا تو بلوچستان جاوں گا۔
سوال: بلوچستان کی آزادی کے لئے برسرپیکار بہت سی مسلح تنظیمیں ہیں لیکن امریکہ نے صرف بی ایل اے کو کیوں دہشت گرد قرار دیا ہے؟
بلوچ رہنما حیربیارمری: 1996-1997کے آس پاس جب بلوچستان کی آزادی کی سوچ زور پکڑ رہی تھی تو یہ بی ایل اے تھی جس نے ہر ایک کو منظم کرنے میں اور بلوچستان کی آزادی کے لئے کام کیا، پاکستانی بی ایل اے کی عوام کے ساتھ جڑت اور مضبوط جڑ کی وجہ سے بی ایل اے سے خوفزدہ ہیں۔ 2000؁ ء میں پاکستان نے برطانیہ کے ذریعے بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دلوایا۔ پاکستان اور امریکیوں کو اس بات کا ادراک ہے۔ پاکستان نے طالبان کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھایا، طالبان پاکستان کے خاصم خاص ہیں، انہوں نے امریکہ پر دباؤ ڈالا۔ امریکہ کے افغانستان کے حوالے سے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے برملا کہا تھا کہ بلوچوں کو مدد نہیں کرنی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچوں کو کوئی مدد نہیں پہنچ رہی ہے اور اگر افغانستان اور امریکہ بلوچوں کی مدد کرتے تو چیزیں آگے بڑھ سکتی تھیں۔
میں نے امریکہ کی بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کئے جانے کے حوالے سے ایک ٹوئیٹ بھی کیا تھا کہ امریکہ طالبان کی نہ سنے، لیکن امریکہ نے ایک سیکولر، برداشت رکھنے والی، اور بلوچستان کی آزادی میں برسرپیکار تنظیم کو نظر انداز کردیا جو کسی زبان، کسی طبقہ یا مذہب کے کبھی خلاف نہیں رہا، انہوں نے بلوچوں کی ان تمام خصوصیات کے برخلاف، طالبان کی سنی، جو مختلف زبانوں، اور طبقوں کے خلا ف ہیں، جو تاجک کو تاجک کی بنیاد پر قتل کرتے ہیں، شیعہ کو شعیہ ہونے پر قتل کرتے ہیں، ہندؤں اور سکھوں کو ان کی مذہب کی وجہ سے قتل کرتے ہیں۔ امریکہ نے پاکستانی جرنیلوں کی بات سنی ہے جنہوں نے طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ سے پیسے لئے اور پھر ان کے سپاہی قتل کئے، لیکن امریکہ نے بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ یہ بد قسمتی ہے اور ان کو طویل المدتی قوت میں اس کے نتائج جھیلنے پڑیں گے۔
سوال: بلوچستان کی تحریک کو عالمی مدد نہیں مل رہی شائد اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بلوچ منتشر ہیں، ان کے پاس مہاتما گاندی جیسا رہنما نہیں ہے جو انہیں ایک مضبوط محاذ پر اکھٹا کرپائے، اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
بلوچ رہنما حیربیار مری: دشمن (پاکستانی اسٹیبلشمنٹ) نے اس نااتفاقی کو پیدا کیا ہے۔ اس کام کے لئے انہوں نے اربوں ڈالر خرچ کئے، لوگوں کو مضبوط عہدے اور زمین دینے کے لئے رشوت دی بالکل اسی طرح جس طرح سے برطانیہ نے ہندوستان کے لوگوں کو دو صدیوں تک غلام بنانے کے لئے انہی کی دولت کو ان کے خلاف استعمال کیا۔ مہاتما گاندی ہندوستان کی تاریخ کا اکیلارہنما نہیں تھا، وہ باقی رہنماوں میں سے ایک تھے۔ بھگت سنگ، سبھاش چندرا بوس اور جواہر لال نہروں بھی تھے۔ صرف گاندی کی نہیں بلکہ ان سب کی کاوشوں اور دوسری جنگ عظیم نے ہندوستان کو آزادی دلائی۔
کچھ دراڑیں دشمن نے پیدا کیں اور باقی بد قسمتی سے ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔کچھ بیرونی کرداروں نے بلوچستان کو بڑ ےاور سٹریٹیجک حوالے سے دیکھا تو انہوں نے بلوچوں کے دماغوں میں تقسیم کے بیج بو دیئے۔ جب ہندوستان کے سیاستدان اور صحافیوں نے ’عام بلوچ‘ اور ’بلوچ اشرافیہ‘ جیسے اصطلاع استعمال کرنا شروع کردیے وہ اصل میں جانے یا انجانے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی مدد کررہے ہیں اور بلوچ کمیونٹی میں مزید دراڑیں پیدا کررہے ہیں۔ میں اپنے ہندوستانی دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ خاص اور عام والے خیال کو ہماری عوام کے اندر برآمد نہ کرے۔ بلوچ سماج کی مختلف سماجی ھیت اور طرز زندگی ہے، مہربانی کرکے اسے پہلے سمجھیں۔ ہم ایران اور پاکستان کے ذریعے قبضہ کئے گئے ہیں، خاص اور عام ہم سب ایرانیوں اور پنجابیوں کے غلام بنائے گئے ہیں۔آپ ہمارے اندر یہ تفریق لارہے ہیں جبکہ ہم دونوں اپنی غلامی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ آزادی کی جدوجہد ہے، ہم یہاں روسی کمیونسٹوں کی طرح کوئی سماجی تبدیلی نہیں لارہے۔
سوال: کیا بلوچستان کی آزادی کے لئے عدم تشدد والی جدوجہد زیادہ موثر نہیں ہوتی؟

بلوچ رہنما حیربیار مری: کیا ہماری آزادی پر امن طریقے سے چھینی گئی تھی؟ یا یہ جیٹ، ٹینکس، اور بندوق جو بھاری جانی نقصانات اور تباہی لانے کی وجہ ہیں کے ذریعے ہمارے وطن پر قبضہ ہوا۔ اگر قابض پر امن ہوتا تو ہم بھی پر امن طریقے سے حل تلاش کرتے۔ ہم تشدد کا استعمال نہیں کررہے، ہم تشدد نہیں چاہتے، ور ہم نے کبھی کسی کے خلاف تشدد اختیار نہیں کی۔ عالمی قانون میں ایک شق ہے جو ہمیں اپنی دفاع کا حق دیتا ہے۔ امریکہ نے عراق پر پیشگی دفاعی طور پر حملہ کیا حالانکہ انہیں اس کا پتہ نہیں تھاکہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں بھی کہ نہیں۔ انہوں نے افغانستان پر کاروائی کی۔ بڑے ملکوں کے لئے یہ مدافعانہ اور قابل قبول عمل ہے لیکن بلوچ جیسے چھوٹے اور کمزور عوام کے لئے یہ جرم اور تشدد ہے۔ بلوچ تشدد کے خلاف ہیں لیکن اپنے حقوق کی تحفظ، اپنے دفاع اور اپنی زندگیوں کو بچانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

**جاری ہے**
یہ بھی پڑھیں

فیچرز