بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹرصبیحہ بلوچ پرجوش تقریر کے دوران غلطی سے اپنی دل کی بات الفاظوں میں بیان نہیں کر سکی۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسان وقتاً فوقتاً گفتگو کرتے ہوئے غلطی سے کچھ کہہ دیتا ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں ہم غیر دانستہ طور پر کچھ الفاظ بیان ایسے کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے کبھی کبھار تنقید کا نشانہ بنتے ہیں مگر یہاں زیر بحث موضوع یہ ہے کہ سننے والا کون ہے اس کی اپنی تربیت کیسے کی گئی ہے۔ آیا وہ لا علم ہے یا آ ٹے میں نمک کی برابر ۔اس نے کچھ نہ کچھ علم حاصل کی ہے جو اپنی ذہنی ہم آہنگی صلاحیت کی وجہ سے دوسرے انسان کے منہ سے نکلنے والی باتوں کا تشریح کیسے اور کس الفاظ میں کریں۔
عموماً مثبت سوچ رکھنے والے غلطی کو نظر انداز کر کے سمجھ لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصد کیا ہے۔ عموماًمنفی سوچ رکھنے والے انسان غلطی کو بڑا چڑھا کے پیش کرنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ حقیقت کچھ اور ہے شاید وہ کسی کے اشاروں پر ناچنے کا شوق رکھتا ہے یا کسی طاقتور کی رکھوالی کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
یہاں کچھ مثالیں دینا لازمی سمجھتا ہوں، پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار تقریر کے دوران غلطی سے “حضرت عیسیٰ علیہ سلام” (عیسیٰ) کو “حضرت یوسف” (جوزف) کہا جو آج بھی مختلف پلیٹ فارم پر موجود ہے جس کو بحث بنا کر مذہبی حلقوں نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
دوسری جانب تبلیغی رہنما مرحوم جنید جمشید نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں غلطی سے اپنی انداز بیان نہیں کر سکا جس کو چند عناصر نے بحث بنا کر ان پر تنقید کا جواز بنایا۔
ایسی ایک اور مثال، مولانا طارق جمیل نے 2020 میں ایک ٹی ویژن کہ انٹرویو کے دوران کہا کہ وباہ بیماری یعنی کرونا وائرس COVID-19 کی پھلنے کی وجہ معاشرے میں بے حیائی کا عام ہونا ہے ۔ اکثر خواتین اور نے ان پر تنقید کی کیونکہ کہ ان کے کہنے کا مقصد ہمارے ہاں خواتین صرف بے حیائی میں پائے جاتے ہیں ۔ اور خواتین نے اس بات پر اعتراض کیا کہ ہر گناہ کی وجہ خواتین کو بنانا نا انصافی ہے۔ اس ردعمل نے انہیں کو معافی مانگنے ہر مجبور کیا ۔
یہ واقعہ ایک مثال کے طور پرلیا گیا ہے،کہ کس طرح ممتاز مذہبی شخصیات بھی ایسے غلطیاں کر سکتے ہیں۔ جن کو غلطیوں یا غلط تشریحات کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جیسا کہ سیاسی رہنما جذباتی تقریروں کے دوران کرتے ہیں ۔ ایک واضح مثال میں اوربیان کرتا چلوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری وقتاً فوقتاً اپنے تقاریر کے دوران غلطیاں کرتے ہیں جس کی واضح مثال اپنے تقریر میں عرصہ پہلے انہوں نے کہا تھا کہ جب پانی آتا ہے تو بارش ہوتی ہے جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح کا کچھ الفاظ انہوں نے غلطی سے کہہ دیے اور پاکستان میں بالخصوص میڈیا نے اسے مسئلہ بنا کر بڑا چڑھا پیش کیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ایک سرکردہ رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کو ان ریمارکس پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ، جس نے تقاریر کے دوران پیغمبر الفاظ کو درست ادا کرنے میں شاید دشواری ہو گئی۔ ایک دین دار مسلمان کی اولاد ہوتے ہوئے ڈاکٹر صاحبہ کے پس منظر کو دیکھا جائے تو وہ نمازوں کی پابندی کرتی ہے ، اور ایک پرہیزگار عورت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلامی تعلیمات بھی حاصل کی، ان کی مسلمانیت اور ایمان پر شک کرنا میرے خیال سے ضروری نہیں۔ ڈاکٹر صبیحہ اپنے اسلامی عقائد میں جڑی بلوچ عوام کے حقوق خود مختیاری اور قومی تشخص کے لیے ہمیشہ ایک آواز رہی ہیں۔ ان کی تقریر پر ردعمل ریاست اور اس کی مشینری بلوچستان کو درپیش حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے اور اپنے عوام کے لیے پرعزم رہنما کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ حربہ اس ریاست کی تاریخ میں نیا نہیں ہے، جہاں حقیقی مذہبی یا اخلاقی مقاصد کے بجائے سیاسی مقاصد کے لیے اسلام کا نام کثرت سے کیا گیا۔
یاد رہے کہ اس تقاریر کے بعد عوامی اعتراضات کی رد عمل میں ڈاکٹر صاحبہ نے ایک نیوز نیٹ ورک کو اپنی لکھی گئی آرٹیکل / تحریر ارسال کیا جہاں انہوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ انبیاء کے خلاف گستاخی کریں۔ محترمہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ میری زبان پھسل گئی جس کی وجہ سے میں الفاظ ادا نہیں کر سکی۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ میں اپنے اس کیے ہوئے پر معافی مانگتی ہوں جو کہ میں نے غیر دانستہ طور پر کی اور انہوں نے امید بھی ظاہر کی ہے کہ امید ہے کہ خدا اور اس کی مخلوق کی دل آزاری ہوئی ہو تو مجھے معاف کریں گے کیونکہ خدا خود فرماتے ہیںکہ میں معاف کرنے والوں میں سے ہوں ۔ واقعی اللہ بے نیاز اور مہربان ہیں ۔
ڈاکٹر مبارک علی اپنے کتاب میں ریاست کے حواریوں کے بارے میں تفصیل سے لکھتا ہے سیاست میں مذہب کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ ہم اگرتاریخ میں نظر دوڑائیں تو ہمیں بے شمار ایسے مثال ملیں گے جہاں حکمرانوں نے مذہب کا سہارا لیتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالی کی سیاست میں مذہب کا استعمال کس طرح کیا گیا جو کہ آج تک کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اسلام کو سیاسی کنٹرول کے لیے بطور آلہ استعمال کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ریاست مذہب کی بنیاد پر بنائی گئی تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، اس نے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے اور اپنے اختیارات کا نا جائزاستعمال کیا بلکہ اکثر مذہبی جذبات کا استحصال کیا گیا۔
1971 کی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران، پاکستانی فوج نے بنگالی مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ہولناک مظالم کے باوجود اپنی وحشیانہ مہم کو اسلامی ریاست کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے “جہاد” کا لیبل لگا کر جواز بنا کر پیش کیا گیا۔ اسی طرح، ضیاء الحق کے دور میں، شرعی قوانین اور حدود آرڈیننس کا تعارف حقیقی مذہبی عقیدت کم اور طاقت کو مضبوط کرنے اور سیاسی مخالفت کو دبانے کے بارے بے شمار مثالیں ملتی ہیں ۔ اکثر اسلام کے تحفظ کی آڑ میں ریاست اختلاف رائے کی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے مذہبی جذبات کو ہتھیار بناتی ہے، جیسا کہ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کی تقریر کے ردعمل میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ریاست نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی مذہبی جذبات سے کھیل کر ایک بلوچ قوم پرست اور سوشل ایکٹیوسٹ خواتین رہنما کی سیاسی ساک کو نقصان پہنچانے کے لیے، ایک بار پھر یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ کس طرح اقتدار میں رہنے والوں کے مفادات کے لیے اسلام کو زیر بحث بنا کر سیاسی مفادات حاصل کیے جائیں تاکہ عوام کو انتشار کی طرف دھکیل کرپرامن سیاسی ورکروں کو دیوار سے لگایا جائے۔
پاکستان کی تاریخ ہے کہ اسلام کا نام اپنے سیاسی اہداف کوپورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جو کہ ایک الگ بحث ہے۔ مگر یہاں یہ ذکر کرنا لازمی ہے کہ جب سوویت یونین افغان جنگ کے دوران پاکستان نے امریکہ اور دیگر مغربی اتحادیوں سے اربوں ڈالر کی امداد اور فوجی امداد حاصل کرنے اور کمیونزم کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست کے طور پر اپنےمفادات حاصل کرنے کے لیے “جہاد” کی تعلیمات پر زور دیا۔ اس نام نہاد “جہاد”کے لیے جنگجوؤں کو بھرتی کیااور بین الاقوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے فروغ دیا گیا۔ فائدہ اٹھانے والے اکثر فوج کے اعلیٰ افسران اور سیاسی اشرافیہ تھے جنہوں نے بیرونی وسائل کی آمد سے فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح، پاکستان نے مذہبی یکجہتی کی آڑ میں خیرات اور امداد عاصل کرنے کے لیے اسلام کے نام کا استعمال کیا گیا۔2007 میں لال مسجد کا المناک واقعہ منافقت کو مزید بے نقاب کرتا ہے جبکہ ریاست اپنی مرضی سے مذہب کا سرٹیفکیٹ دینے میں کوئی عرض نہیں کرتا، اس نے مسجد شریف اور مدرسہ میں اپنے ہی محسوس شہریوں کے خلاف وحشیانہ طاقت کا استعمال کیا ، جہاں بے گناہوں کی قتل عام کیا گیا ، جو کہ تاریخی میں سیاہ باب کی مانند تصور کیا جاتا ہے۔