جمعه, آوریل 26, 2024
Homeآرٹیکلزآزادی کے دیوانوں کا مکالمہ 6:تحریر:مھراب مھر

آزادی کے دیوانوں کا مکالمہ 6:تحریر:مھراب مھر

آنکھوں میں آنسو لیے وہ اپنی ماں کو یاد کر رہاتھا اس کے زہین میں اسکی ماں کی ہر بات پتھر کے لکیر کی طرح نقش تھا وہ خیالوں میں اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ نہ مجھے ماں کی میت کا دیدار نصیب ہوا اور اس ضعیفی میں باپ کی خدمت کا موقع ملا جسے آج میری ضرورت ہے وہ میرے بغیر کس حال میں ہوگا جب سے میں اس راستے کا ہمسفر بنا ہوں نہ میں نے گھر کی دہلیز دیکھی ہیں اور نہ ہی شہری زندگی کے رونقیں. ماں کی موت کا ذمہ دار میں ہی ہوں کیونکہ وہ اکثر مجھے کہا کرتا تھا کہ بیٹا یہ پُر خطر راستہ ہے اور ہمارا کوئی نہیں ہمارا وارث تم ہی ہو. خدا نہ کرے تمھیں کچھ ہو تو ہمارا کیا ہوگا ماں کی بہتے آنسوؤں کی پرواہ کرتا تو فرض سے بیگانہ ہوتا نہ کرتا تو کیا کرتا. ایک طرف ماں کی امیدیں کہ اس نے نو مہینے پیٹ میں سنبھالنے کے بعد پال پوس کر بڑا کیا اور اپنی زندگی کی ہر خواہش قربان کرتا رہا کہ بیٹا بڑا ہو کر میرا آسرا بنے گا ہر وہ چیز جو بچپن سے لیکر جوانی تک میں نے مانگا وہ مجھے بتائے بغیر اپنے سونے بیچ کر میرے لیے خریدتا رہا اپنی زندگی کی راتیں مجھے پالنے پوسنے کھلے آنکھوں کے ساتھ گذاری اور مجھے بھی بچپن سے ہی بیماری نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا اور ماں کی قسمت میں نیند کھبی آئی ہی نہیں لیکن وہ اپنے لخت جگر کے لیے نہ رات و دن کی پرواہ کی اور نہ ہی کسی تکلیف کی وہ بے غرض ہو کر مجھے سنبھالتا رہا اور میں بڑا ہو گیا ہوں نوجوانی میں قدم رکھ چکا ہوں اور وہ مجھ سے اپنا آسرا بننے کی امید کر رہا ہے اور بیٹے کی حیثیت سے میرا فرض کیا بنے اس کشمکش میں اس نے فیصلہ کرلیا ماں تیرا آسرا نہیں بن سکتا. تو نے مجھے پیدا کیا اپنی زندگی میرے نام کردی اور اپنی زندگی کی ہر خواہش میرے خواہشوں کے تابع بنا دی دنیا کی ہر حسین نعمت سے آنکھیں چرا کر میرے پاؤں پر ڈھیر کردی بزگی و غریبی میں میری ہر خواہش پوری کرتے رہے اگر میں تجھے سو سال تک اپنے کاندھوں پر اٹھا کر بلوچستان کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک و حسین پہاڑوں پر چڑھ کر آپ کو بلوچ سرزمین کا سیر کرا دیتا پھر بھی تیرے حقوق کا ازالہ نہیں کر سکتا اور ایک ماں کے حقوق اتنے ہیں کہ کسی بھی حال میں پورے نہیں ہوسکتے. لیکن ماں میں کیا کروں تم نے مجھے پیدا کیا ایک نام دیا عزت و احترام دیا میری ضرورتیں پوری کی. لیکن ماں اس زمین پر ھم کھڑے ہیں جانتے ہو کہ اس نے ہمیں کیا دیا ہے اس نے ہمیں سانس دی اس نے ہمیں شناخت دی اگر شناخت مٹ جائے تو ہم کیا رہیں گے؟ اس سرزمین کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی ہے اور اس سرزمین کو اپنی ماں کہتے ہیں اور ہم مٹی سے پیدا ہوئے اور جائیں گے مٹی میں. ہم مٹی ہیں مٹی ہی بنیں گے جب کائنات میں پہلی بار زراعت سامنے آئی تو یہ عورتوں کی ہی مرحوم منت ہے کہ انھوں نے کاشت کاری کو ایجاد کیا اسی وقت سے لیکر زمین ماں کہلاتی ہے اب ماں تم ہی بتاؤ کہ ایک طرف تم ہو تو دوسری طرف پوری قوم کی ماں ہے تم نے مجھے دودھ پلایا جبکہ وطن نے مجھے شناخت دی. آج وطن کی آبرو خطرے میں ہے تو میں تمھارے پہلو میں بیٹھ کر تمھاری خدمت کرو میں جانتا کہ تمھارے حقوق انگنت ہیں لیکن سرزمین کے فرائض اس سے زیادہ ہیں اور ہم دونوں کو اسی مٹی میں جانا ہے. ماں سسکتی ہوئی اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی وہ بولنے کی سکت نہیں رکھتی تھی وطن کے حالات نے اس چہرے پر شکنیں پیدا کردی تھی وہ اپنے ماں کی سسکتی آواز کو محسوس کر رہا تھا وہ بے جان ہوچکا تھا اس میں ہمت ختم ہوچکی تھی دور پہاڑوں کے سمندر کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ماں نہ جانے میں نے صحیح کیا یا غلظ. لیکن میں نے اپنی انفرادی زندگی کو قوم کے لیے قربان کر دیا ہے آپ کے دودھ کا حق تو میں ادا نہیں کر سکتا لیکن اپنی بساط کے مطابق مٹی کا حق ادا کرونگا ماں میں یہ بھی اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ جب تم مجھے جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے ابو دور کھڑکی سے روتے آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا ابو خود کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن حقیقتا وہ انتہائی نازک دل ہیں وہ میرے دونوں فرض کے بیچ فیصلہ نہ کر پائے وہ مجھے روکنا بھی نہیں چاہتے تھے اور میرے جانے پر بھی راضی نہ تھے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ میرے فیصلے کے راستے میں رکاوٹ بنے. لیکن وہ میرے جانے پر ٹوٹ چکے تھے ویسے وہ کیوں نہ ٹوٹے اسکی زندگی کا آسرا میں ہی تھا اسکی امیدیں مجھ سے تھے وہ زندگی کو میرے کندھوں پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن ماں اگر ابو اپنی جوانی میں وطن کے لیے اپنی ذمہ داریاں پورے کرتے اور اس وقت کے نوجوان وطن کی آزادی کے لیے جہد کرتے تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے. آگر ہر نسل اپنی ذمہ داری ایمانداری و خلوص کے ساتھ نبھاتے تو بحثیںت قوم ہمیں یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے اب گلے شکووں کا وقت نہیں اب ہر نوجوان کو اپنی ذمہ داری و فرض نبھانا ہے جس سرزمین پر فخر کرتے ہیں اپنے قوم پر فخر کرتے ہیں اپنے کلچر و تاریخ پر تو فخر کرتے ہیں لیکن خود فخر کرنے کے لیے ہم قوم وطن کو کیا دے رہے ہیں ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم ہمیشہ وطن سے خواستگار ہیں تحریک سے خواستگار ہیں کہ ہمیں عزت شہرت نام نمود آسائش و آرام دہ زندگی دے لیکن ہم نے قوم کو کیا دیا ہے؟؟ آج ہم جس تاریخ پر فخر کرتے ہیں اس میں ہمارا تو کوئی کردار نہیں ان پر فخر کرنے سے موجودہ دور میں ہماری زندگی تو نہیں بدلے گی یا بڑے شلوار و عید پر بلوچی چوٹ پہننے سے بلوچی کلچر دنیا میں متعارف نہ ہوگی یا عید پر یا کسی یونیورسٹی یا کالج میں بلوچی دو چاپی و سہ چاپی سے بلوچ قوم غلامی سے نکل نہیں سکتی. ہم ہمیشہ اپنے تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر نورا مینگل میر علی دوست بلوچ خان نوشیروانی کی داستانیں سنتے ہیں سناتے ہیں اور اڑب و جنگ گنبد کے انگریز کے تاریخی شکست پر فخر کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اور تھے ہم نہیں. ان پر فخر کرنا ضروری ہے ہر قوم کے لوگ جب اپنی تہذیب کلچر تاریخ پر فخر کرنے کے ساتھ محبت کرتے ہیں لیکن فخر کرنے ساتھ کچھ قومی فرائض بھی ہوتے ہیں کہ انھیں پورا کرنے کے بعد آپ اس قوم کے حقیقی فرزند کہلانے کے مستحق ہونگے جس طرح آپ کسی سیاسی سماجی یا ادبی ادارے سے منسلک ہوتے ہیں تو اس ادارے کی عزت و احترام و اسکی حفاظت کی ذمہ داری تمھاری ہوتی ہے اور اس ادارے کے ہر نفع و نقصان کا اثر تم پر پڑتا ہے اسی طرح قوم کی ہے کہ آپ اس قوم کی و اسکی زمین کے حقیقی فرزند اس وقت کہلائے جائیں گے جب اس قوم و وطن کی عزت و آبرو کا خیال رکھیں گے اسکی حفاظت کرینگے لیکن ہمارے یہاں قوم کا نام استعمال کرکے اپنے مفادات بٹورنے کے بعد قوم کے خلاف کام کرنا و وطن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ہر ممکن کوشش میں دشمن کا ہم رکاب بنا تو ایسے لوگ قوم و وطن کا نام استعمال کرکے حقیقا قوم کے خلاف دشمن کے ہم رکاب ہوتے ہیں ویسے بھی تعلیم یافتہ طبقہ جو ہر حوالے سے باشعور ہوتا ہے انھیں دنیا کی تحریکوں و دنیا کے قوموں کے بارے میں معلومات ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک قوم کی ہستی کا دارومدار اسکی سرزمین ہے کیونکہ سرزمین کے بغیر قوم قوم نہیں رہ سکتا بلکہ وہ خانہ بدوش قبائل بن جاتے ہیں اور ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان باشعور ہونے کے بعد اپنی بے شعوری کے ساتھ زندہ رہتے ہیں بحثیںت ایک بلوچ ہونے کے ناطے وہ اپنے قومی فرائض سے ناآشنا ہوتے ہیں کیونکہ وہ وقت کے تحت بلوچ بنتے ہیں اور ضرورت کے بعد وہ پاکستانی بن جاتے ہیں ایسے لوگوں کی بلوچیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آج وطن کو ہماری ضرورت ہے اسکی آبرو کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے بلوچ ہونے پر فخر کرنے کے لیے وطن کی حفاظت کرنا لازم ٹھہرتا ہے ماں آج تم جس دس من مٹی تلے دفن ہو یہ زمین ان سورماؤں کی مرحوم منت ہے جو اپنے کردار و عمل سے بلوچ قوم کو قابل فخر بنایا آج وہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے کہ ہم ان فرائض کو خلوص کے ساتھ پورا کریں ماں تمھاری عزت میرے قومی کردار میں ڈھکی چھپی ہے ماں سسکتی آنکھوں کے ساتھ بیٹے کے باتوں کو سنتے ہوئے کہتی رہی. بیٹا سب کچھ درست ہے لیکن تو نہ جا اس قوم کے لاکھوں فرزند ہیں وہ قوم کی آبرو کا خیال رکھیں گے ماں تو درست فرماتا ہے اس قوم میں لاکھوں فرزند موجود ہیں جو وطن کے لیے مرمٹنے کے لیے تیار ہیں لیکن ان لاکھوں یا ہزاروں بلوچوں کے بھی مائیں ہوتی ہیں اور دنیا کی تمام مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں ماں کی محبت بے غرض ہے اس وجہ سے انکی مائیں بھی یہی کہتے ہونگے کہ بیٹا تو نہیں کوئی اور چلا جائے اس طرح وہی لوگ ہی آزادی کے لیے آ سکیں گے جو یتیم ہوں نہ دیگر ہر ایک باپ بھائی بہن و رشتے داروں کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اسطرح پھر وطن کی آزادی کیسے ممکن ہو سکتی ہے ماں بلوچ وطن کے ہر جوان کو چاہیے کہ وہ وطن کی آزادی میں اپنا کردار ادا کرے یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ ہم اپنے وطن کی حفاظت کریں گھر کی دہلیز سے وہ پرخار و پرکھٹن راستے پر جانا شوق نہیں میرا فرض ہے اگر ہم وطن کی آزادی کے لیے نہیں لڑیں گے جہد نہیں کریں گے تو کون آکر ہمیں اس عذاب سے نکالے گا؟ اپنے گھر کی حفاظت ہماری ہوتی ہے ماں اگر ہمارے گھر کو کوئی نظر بد سے دیکھے یا ہمارے گھر پر حملہ کرے ہم پر کیا فرض بنے گا؟ کہ میں انتظار میں رہوں کہ کوئی ہمسایہ یا عزیز آکر ہماری حفاظت کرے گا اسطرح ممکن نہیں جب ہم خود ہمت کرکے بڑے ظالم و طاقتور کے خلاف اٹھیں گے تو کوئی ہمسایہ یا عزیز ہماری مدد پر ضرور آئے گا ماں بلوچستان ہمارا گھر ہے اسکی حفاظت ہمارے کندھوں پر ہے جانتے ہو ماں ہم صرف زندہ ہیں کھا پی رہے ہیں ہم جانور جیسے ہیں جانور بھی ہم سے اچھے ہیں اپنے ہم نسل جانوروں کے ساتھ اتحاد کے ساتھ رہتے ہیں اور مشترکہ طور ایک دوسرے مدد کرتے ہیں ہم تو باشعور اشرف المخلوقات ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچتے رہتے ہیں ہماری تربیت ہی اسی غلامی میں ہوئی ہے ہم بدنیت بدعمل مفاد پرست موقع پرست بن چکے ہیں اور یہ ہمارے غلامانہ سماج میں غلامانہ تربیت کا نتیجہ ہے آج خاندانی طور پر بھی ہم ایک دوسرے کے خلاف کمربستہ ہیں سیاسی حوالے سے بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں ماں ہمیں اس مزاج کو اپنے عمل سے تبدیل کرنا ہے ان لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا ہے جو آج ہمارے خلاف ہے یا قومی و ذاتی مفادات کے فرق کو نہیں سمجھتے ماں وطن کی آبرو کے لیے قربان ہو جاؤنگا میرے موت پر رونا مت. مجھے قمبر کے والدہ کی طرح عزت و احترام دینا میری موت پر ماتم کدہ نہ ہونا اور ماں میں بھی تمھارے حقوق کے بوجھ تلے دب چکا ہوں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ماں کی محبت کیا ہوتی ہے جب تک وہ زندہ ہے تو اسکی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن اسکے جانے کے بعد دل ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے زندگی بوجھ بن جاتی ہے ایسے لگتا ہے جیسے زندگی بے معنی ہوگئی ہے جب سے تمھارا سایہ چھن چکا ہے میرے لیے دنیا عذاب بن چکی ہے لیکن تم خود سوچ لو. کہ مجھے تمھارے جانے کی اتنی تکلیف ہے تو سوچ لو کہ بلوچ وطن قابض کے نرغے میں ہے اور آہستہ آہستہ وطن کا خون چوس کر قابض موٹا ہوتا جارہا ہے اگر وطن میں ہماری پہچان ختم ہوگئی اور ہم قومی حوالے سے نیست نابود ہوگئے تو پھر سوچ لینا کہ ہماری زندگی کا مقصد بھی ختم ہو جائے گا تمھاری موت پر زندگی بے معنی سی لگتی ہے تو وطن کے نیست نابود ہونے پر مجھ سمیت میرے دوستوں کا کیا حال ہوگا اس وجہ سے ماں میں کہتا ہوں کہ اول قوم وطن ہے کیونکہ ہماری پہچان یہی ہے اسکے بعد دیگر رشتے آتے ہیں میں جانتا ہوں ماں تم میرے لیے دعا کر رہے ہو اور اس وقت میری باتوں کو سن رہے ہو مجھے اپنے حقوق سے آزاد کر دینا جھنیں میں پورا نہ کرسکا اس بزرگی میں مجھے تمھارے ساتھ رہنا تھا لیکن قومی فرائض تلے میں نے تمھیں قربان کردیا مجھے معاف کرنا اور اس امید کے ساتھ کہ ہم اپنی ماں کی عزت و آبرو کو بچانے میں سرخرو ہونگے..

یہ بھی پڑھیں

فیچرز