شنبه, آوریل 27, 2024
Homeخبریںبی ایس او آزاد کا 8جون کوبلوچ لاپتہ افراد کی مناسبت سے...

بی ایس او آزاد کا 8جون کوبلوچ لاپتہ افراد کی مناسبت سے منانے کا اعلان

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے 8جون کو تنظیم کے سابقہ سینئر وائس چیئرمین زاکر مجید بلوچ کی گمشدگی کو 8سال مکمل ہونے پر ہر سال اس دن کو بلوچ مسنگ پرسنز کی مناسبت سے منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف بلوچ قوم کا نہیں بلکہ انسانیت کا درد دل میں رکھنے والے تمام ممالک کا مسئلہ ہونا چاہیے۔بلوچستان میں ریاست کی خفیہ ایجنسیوں اور ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے ہزاروں کارکن مہینوں و سالوں سے لاپتہ ہیں۔ 28جون2009کو اغواء ہونے والے بی این ایم کے رہنماء ڈاکٹر دین محمد ،18مارچ2014کو اغواء ہونے والے چیئرمین زاہد بلوچ، 4اکتوبر2016کو اغواء ہونے والے بی ایس او آزاد کے انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ،25جولائی 2010کو اغواء ہونے والے رمضان بلوچ سمیت سینکڑوں سیاسی لیڈران ریاستی فورسز کی خفیہ اذیت گاہوں میں بند ہیں۔ سیاسی کارکنوں کا اغواء اور انہیں عدالتوں میں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہ دینا انصاف کے عالمی قوانین کے کھلی خلاف ورزی ہے، لیکن ریاست مجوزہ عالمی قوانین کو بلوچستان میں روزانہ پاؤں تلے روند رہی ہے۔ ہزاروں لاپتہ افراد کو سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر حراست میں قتل کیا جا چکا ہے۔ جن کے بارے میں اقوام متحدہ سمیت کسی مہذب ملک نے اب تک کوئی مناسب ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، جو کہ افسوسناک ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، جس کو ریاست طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی کوشش کرتی چلی آرہی ہے۔ لیکن تاریخ یہ ثابت کرچکی ہے کہ طاقت کے زور پر دو مختلف کلچر، زبان اور تاریخ رکھنے والی قوموں کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچ قوم اپنی شناخت اور خوشحالی کی جنگ لڑ رہی ہے جو کہ عین عالمی اصولوں کے مطابق ہے، اس کے برعکس ریاست کی کاؤنٹر پالیسیاں شدید ترین اور وحشیانہ ہیں، ریاست کی کاروائیوں کا مقصد عام لوگوں کو خوف زدہ کرنا ہے تا کہ حقوق و آزادی کے حصول کی جدوجہد میں کوئی فرد شامل نہ ہو۔ گزشتہ سال کی سرکاری رپورٹس کے مطابق بلوچستان سے دوسالوں کے دوران بیس ہزار کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، لیکن گرفتار ہونے والے ان افراد کی تفصیلات اب تک نہ میڈیا میں شائع کیے جاچکے ہیں اور نہ ان کے لواحقین کو اپنے گرفتار ہونے والے فرزندوں کے حوالے سے کچھ بتایا جارہا ہے، البتہ لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں تسلسل کے ساتھ رونما ہورہی ہیں۔ پاکستان کے تمام ادارے فورسز کی پے رول پر ہیں اس لئے لاپتہ افراد کے لواحقین پاکستان کے نام نہاد انصاف کے اداروں سے بھی مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کے بزرگ کارکن ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوئٹہ تا اسلام آباد ایک تاریخی احتجاجی لانگ مارچ کیا، اس کے باوجود نہ صرف لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری ہے بلکہ لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہورہی ہیں۔بی ایس او آزاد کے ترجمان نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے جبری گمشدگی اور کمیٹی اگینسٹ ٹارچر سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد گمشدگی اور تشدد سے اُن کی ہلاکت کے واقعات کی تحقیقات کے لئے فیکٹ فائنڈنگ مشن بلوچستان بھیج دیں۔ تاکہ وہ خود بلوچستان کی سنگین صورت حال کا جائزہ لے کر ریاستی فورسز کو بلوچستان میں بربریت روکنے پر دباؤ ڈال سکیں۔ علاوہ ازیں بی ایس او آزاد نے زاکر مجید بلوچ سمیت دیگر لاپتہ بلوچوں کی عدم بازیابی کے خلاف جون کو عالمی سطح پر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مظاہروں کی شیڈول جلد میڈیا کو جاری کیے جائیں گے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز