شنبه, آوریل 27, 2024
Homeآرٹیکلزریاستی جبر:تحریر: مہراب مہر

ریاستی جبر:تحریر: مہراب مہر

جس دن سے طاقتور ظالم حاکم دشمن آپکے مقبروں سے ڈرنے لگا اس دن جان لینا کہ آپ کے مقبرے جس سوچ کے تحت زندہ انسان بن گئے تو سمجھ لینا کہ آپکی اجتماعی سوچ زندہ ہوگئی ہیں اور کامیابی کی طرف پر پھیلائے اڑ رہی ہے کیونکہ وہ مر گئے وہ جنت یا دوزخ میں ہے وہ نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی کو فائدہ دے سکتے ہیں وہ تو زمین کے ہو کر رہ جاتے ہیں لیکن انکے کردار و عمل سے زندہ لوگ متاثر ضرور ہوتے ہیں ویسے دکھ و خوشی کے ملے جلے کیفیت کے ساتھ وہ تصاویر سامنے آتے ہیں جب دژمن مقبروں پر حملہ آور ہوتا ہیں ان مقبروں کو توڑتا ہے جو تین چار سال پہلے وطن کے لیے اپنی جان قربان کر چکے ہیں اب ان مقبروں پر حملہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے سوچنے کے ساتھ دشمن کا یہ حملہ حوصلہ کا سبب بنتا ہے میرا دشمن میرے قوم کے
 مقبروں سے اتنا خوفزدہ ہوتا ہے کہ وہ ان پر حملہ کرکے انھیں قتل کرتا ہے یہ تو عظمت کی نشانی ہے کہ آج وطن کے مقبرے دشمن کے لیے زندہ انسانوں سے زیادہ خوف کا سبب بنتے ہیں یہ خوشی کا لحمہ ہے دکھ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ پتھر و مٹی کو فتح کرنا زخمی کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیونکہ پتھر سمیت کوئی بھی بے جان چیز اس وقت تک کوئی حرکت نہیں کر سکتا جب تک اسے کوئی بیرونی طاقت حرکت نہ دے. اب یہ مقبرے تو حرکت نہیں کر سکتے تو یہ فوج جو پاکستان کی ہے جو اپنے تہی یہ داستان لیے ہر وقت بیان کرتے نہیں تکتا کہ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار ہوتا اور پاکستان ایٹمی طاقت ہے جانباز و بہادر سپاہی وطن کی حفاظت کے لیے ہر وقت میدان عمل میں ہیں سنتے ہوئے کان پک گئے ہیں دنیا کی طاقتور فوج کا لیبل لیے بلوچستان کے رکھوالوں سے اتنا خوفزدہ ہے کہ رات کی تاریکی میں اپنے کیمپ سے نہیں نکلتے اور دلیری کی مثال یہ ہے کہ معصوم بلوچوں کے دیہاتوں پر حملہ آور ہو کر معصوم بچوں جانوروں کو قتل کرتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتے اور عورتوں و بزرگوں و بچوں کو گرفتار کر کے لے جاتے ہیں خوشی ہے کہ میرے دیس کے معصوم ان پڑھ عورتوں سے ریاست کو اتنا خوف ہے کہ کئی یہ عورتیں اس ریاست کے دیواروں کو نہ گرا دیں اور دلیری کی انتہا یہ کہ شہداء کے مقبروں پر فوجی آپریشن کرکے انھیں توڑ کر ریاست اپنی بچی کچی ساکھ کو سہارا دینے کی کوشش میں ہے جب کسی ریاست کے فوج مظلوم قوم کے مقبروں سے ڈرنے لگے تو سمجھ لینا کہ آپ نے اپنے منزل کو پا لیا ہے جب کوئی فوج بے جان اشیا سے ڈرنے لگے تو اسکی کھوکھلے بنیادوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں. گزشتہ چار پانچ سالوں سے ریاست کی ظلم و بربریت اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے بلوچ نوجوانوں کی اغوا و انکی مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ نہ رکنے کے ساتھ تا حال جاری ہے لیکن ریاست کی اس بربریت سے بے خوف بلوچ نوجوان اپنے فکر و کمٹمنٹ کے ساتھ اپنے سوچ پر قائم رہے ریاست اپنی اس پالیسی کے تحت اتنا خوف پیدا کرنا چاہتا تھا کہ لوگ آزادی کے نام سے ڈرنے لگے ریاست نے اتنا خوف پیدا کیا کہ لوگ کچھ وقت تک فوج کے نام سے ڈرنے لگے ڈر جب حد سے تجاوز کرتا ہے تو وہ ڈر ڈر نہیں رہتا پھر اس ڈر سے موت قریب تر ہو جاتا ہے لوگ اس خوف سے اتنے بار ملے کہ اب خوف خوف نہ رہا بلکہ اب یہ لوگوں کی عادت بن چکی ہے اب یہی خوف ریاست کے فوج میں آہستہ آہستہ منتقل ہو چکی ہے کہ وہ اتنے خوف کا شکار ہیں کہ بلوچ شہداء کے قبروں کو توڑ کر اپنے خوفزدہ دل کو تسکین دینے کی کوشش کرتے ہیں ریاستی بربریت جبر کا عالم یہ ہے کہ معصوم بلوچ عورتوں کو بلوچستان کے مختلف علاقوں مکران بولان و ڈیرہ بگٹی سے اغواء کرکے دیگر لوگوں پر خوف پیدا کرنا چاہتا ہے عورت کے عزت و احترام کے حوالے سے بلوچ کلچر میں انتہائی سخت رویے پائے جاتے ہیں لیکن عورتوں کی گرفتاری پر کافی عرصے سے خاموشی دیکھنے کو ملی ہے وجہ ریاست کی بربریت و جبر ہے یا وہ بے حسی ہے کہ جسکی بنیاد پر عورت کو عزت و غیرت جان کر اس پر مرنے سے نہیں کترائے آج جب بنت حوا دشمن کی کال کوٹھڑیوں میں بند ہیں معصوم بچے ماں کو سینے سے لگائے بلک بلک کر رو رہے ہیں تو اس پر پارلیمان پرست بلوچوں کے ساتھ ہر قبائلی و نیم قبائلی سیاسی سماجی لوگ ادیب دانشور طلباء سبھی بلوچوں کی غیرت کو کونسا زنگ لگ گیا کہ وہ عزت سمجھنے والے ان بلوچ عورتوں کے اغوا پر خاموش بن کر اپنے دیوانوں میں تبصرے کرتے ہیں جبکہ سیمیناروں میں بڑے بڑے مقالے عورتوں پر لکھتے نظر آتے ہیں یہ علمی بے حسی کا دارو مدار کیا ہے؟ فیض جیسے لکھنے والے شاہد پیدا ہوں لیکن وقت کے حاکم کے خلاف ڈٹ کھڑے ہونے والے شاعر نہ ہوں ہماری ادیب جیسے حساس طبقہ بلوچستان میں ظلم و بربریت پر خاموشی کا روزہ کر اپنے دن بتا رہا ہے لیکن قندیل بلوچ کے مسئلے سبھی نے زبان پالی لیکن بولان و مکران و ڈیرہ بگٹی کے بلوچ خواتین کے اغوا پر اتنی خاموشی کیوں؟ کیا غیرت کا معیار اپنے حالات کے تحت کیا جائے گا؟ یا اپنے مفادات کے تحت. ریاستی ظلم و جبر تسلسل کے ساتھ برقرار ہے اور ریاستی ظلم کا عالم یہ ہے کہ وہ شہداء کے مقبروں کو نہیں بخشتا لیکن دوسری طرف ہزاروں لوگ بے پرواہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں آئے روز قتل عام و ریاستی جبر و بربریت پر بلوچ سماج کے ہر طبقے میں خاموشی ہے بے حسی ہے ایسی بے حسی کا احساس صرف مردوں کو دیکھنے کے وقت ہو سکتا ہے دشمن تو ان اشخاص کے مزاروں کو توڑ رہا ہے جبکہ زندوں پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا ایسے ماحول میں یہ سمجھنا مشکل نہیں جو مر چکے ہیں وہ زندہ ہیں جو  زندہ ہیں وہ مر چکے ہیں ایک بلوچ ہونے کے ناطے ہر پارلیمانی و غیر پارلیمانی ریاستی و غیر ریاستی بلوچ کا کیا فرض بنتا ہے؟ جدوجہد آزادی ہو یا جہد پارلیمانی ہو. بلوچ تو اپنی پہچان بلوچ کے تشخص سے کر رہا ہے اب آزادی پسندوں کے بچے خواتین اغوا ہونگے تو پارلیمانی پرست اس پر خوشی کا اظہار کرینگے یا ماتم کرینگے. بلوچ ثقافت میں عورت عزت کی علامت رہی ہے قطع نظر کچھ واقعات کے. اب ان حالات میں جہاں ریاست اپنی بربریت کی انتہا کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے جس سے بلوچ ننگ و ناموس پر ہاتھ پہنچ چکی ہے اور اس بیچ بلوچ وہ ادیب جو ریاستی اداروں و اکیڈمیوں یا وہ بلوچ جو بیوروکریسی میں یا ریاستی سیاست میں دوڑ رہے ہیں کیا وہ ان خواتین کی اغوا پر خاموش رہ کر اپنی ریاستی مشینری سے مضبوط تعلق کو ثابت نہیں کر رہے ہیں؟ کیا وہ مجبوری و خوف کے اس سطح تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے انھیں کچھ دیکھنے سمجھنے و سوچنے کا اختیار نہیں. جب وہ اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں تو کیا ان کے بلوچ ہونے پر سوال اٹھانا ناجائز ہے؟ کیا اس ریاستی بربریت میں انکی خاموشی خود ریاستی تشدد کا حصہ نہیں کہلایا جا سکتا ناانصافی جبر بربریت پر خاموشی تشدد ہی کہلاتا ہے تشدد صرف ریاست کی طرف سے نہیں ہورہا بلکہ وہ خاموش حساس طبقہ جو خود کو شاعر و ادیب کہتا ہے اسکی خاموشی از خود تشدد نہیں اگر بلوچ خواتین کی گرفتاری پر وہ خاموش رہیں گے تو کل وہ بلوچ ہونے کے ناطے بلوچوں کے کن سیاسی ادبی معاشی و ثقافتی مفادات کی دفاع کر سکیں گے. شاہد اس پر وہ آزادی پسند کسی سے توقع نہ رکھیں لیکن مجموعی ناانصافی و جبر پر خاموشی ہزاروں سوالات کو جنم دیتا ہے کہ ایک بلوچ ہونے کے لیے صرف بلوچی و براہوئی زبان میں بات کرنا نہیں بلکہ بلوچوں کے ثقافتی تاریخی سماجی و سیاسی مفادات کی دفاع کرنا بھی ہے غرض سیاسی نقطہ نظر و نظریہ جدا ہوں لیکن ریاستی جبر معصوم بلوچوں پر و بلوچ خواتین کی اغوا زبان کھولنا یا میدان عمل میں ریاست کے ان کارروائیوں پر ردعمل کرنا ضروری ٹھہرتا ہے یہ ردعمل کسی مخصوص سوچ کی دفاع نہیں بلکہ بلوچ ہونے کے ناطے ہر بلوچ خواتین کا احترام بلوچ معاشرے کی دین رہی ہے لیکن آج کے سیاسی حالات و معاشی حالات نے ادیب کو حساسیت سے کوسوں دور کسی گہرے کنویں میں ڈال دی ہے اور سول سوسائٹی تو خواب خرگوش میں اپنے اجتماعی موت کا انتظار کر رہی ہے اور سیاسی لوگ اپنی مفادات کے لیے اس حد تک گر چکے ہیں کہ وہ اجتماعی موت کے لیے ریاست کا ہاتھ بٹھا رہے ہیں جو تاریخ کے پیچیدہ صفحات میں سیاہ ابواب میں موت کے روشن ستارے بن کر چمکتے رہیں گے وہ موت جو مقبروں کو نہیں آتی لیکن زندہ لوگ اسکی لپیٹ میں ہیں
یہ بھی پڑھیں

فیچرز