جمعه, آوریل 26, 2024
Homeخبریںمرکزی کمیٹی رکن سمیت مزید 7 زو ن کا بی ایس او...

مرکزی کمیٹی رکن سمیت مزید 7 زو ن کا بی ایس او آزاد کی موجودہ قیادت سے بائیکاٹ کا اعلان

کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی کمیٹی کے رکن مزار خان بلوچ نے 7 زونوں سمیت مرکز سے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے نا م پر ایک گروہ اپنی من مانی قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جوکے تنظیم کی حقیقی قیادت کی حیثیت نہیں رکھتے۔مرکزی کمیٹی کے ممبر مزار خان بلوچ اور7زونوں نے جن میں شہید قمبر چاکر زون ، شہید سنگت ثناء زون ، نوشکی زون، دالبندین زون ، ڈیرہ مراد جمالی زون ، ڈیرہ اللہ یار زون اور مچھ زون شامل ہیں نے اپنے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بی ایس او آزاد کی تاریخی جد و جہد اور قربانیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ تنظیمی پروگرام کو عوام میں پھیلانے کیلئے سرگرم رہے ہیں۔بی ایس اوآزادکو حاصل عظمت اور نام ان کارکنان کی جد وجہد اور قربانیوں کی بدولت ہے جنہوں نے سخت حالات میں نہ صرف پارلیمنٹ پرستوں اور بی ایس او کے نام کو استعمال کرنیوالے ان کے گماشتوں کے خلاف جدو جہد کی بلکہ ریاستی جبر اور زندان میں بھی ازیتیں برداشت کرتے رہے آج انہیں قربانیوں کی وجہ سے ہر بلوچ کے دل میں بی ایس او آزاد کیلئے محبت اور حمایت موجود ہے ہم نے اسی عوامی حمایت اور جدو جہد کے تسلسل کو جاری رکھنے کیلئے اپنے دن رات ایک کیئے لیکن گزشتہ وقت سے بی ایس او آزاد کے اندر سے انتشار اور بحرانوں کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا جس کے حوالے سے بلوچ عوام سمیت تنظیم کے کارکنان بھی شدیدتشویش کا شکار ہیں بی ایس او آزاد جو کہ خود بی ایس او کے نام کو پارلیمانی سیاست اور مفاد پرستی کیلئے استعمال کرنے والے گروہوں کے خلاف جد و جہد کرتی آرہی ہے اس کے اندر سے ہی بحران پیدا ہونا کارکنان اور عوام کیلئے ایک افسوس ناک امر ہے لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک تنظیم کی قیادت کے دعویٰ کرنے والے لوگوں کی کارکردگی ہے جو اتنی مدت میں بھی نہ تنظیم کے اندر انتشار اور بحران کو ختم کر پائے ہیں اور نہ ہی عوام اور کارکنوں کو کوئی مثبت جواب دے پائے ہیں بلکہ اس بحران کے ذمہ دار مکمل طور پر قائم مقام چیئر پرسن بانک کریمہ بلوچ سمیت پوری کابینہ ہے جنہوں نے اس مقدس تنظیم کو اپنے گروہی مفادات کے بجاآوری کیلئے ایک مخصوص تنظیم کا باجگزار بنا دیا ہے اور تنظیم کے نام کو غنیمت جان کر اس پر اپنے ایک مخصوص لابی کا تسلط قائم کیئے رکھنے کیلئے گذشتہ تین سال سے اختلاف رکھنے والے اور سوال کرنے والے ہر ممبر و ذمہ دار کو با جنبش قلم فارغ کرتے رہے یا پھر اپنے آمرنہ روش سے انہیں اس حد تک مجبور کرتے رہے کو وہ تنظیم سے کنارہ کش ہوتے گئے، ہم بحیثیت تنظیم کے کارکنان اس دوران بارہا ان افراد سے وضاحت کے انتظار میں رہے ہیں تا کہ جس طرح میڈیا میں مرکزکے نام سے بیان جاری کر کے ان بحرانوں سے انکار کیا جاتا ہے اسی طرح ہمیں بھی ٹھوس وضاحت دی جائے لیکن مرکزی کمیٹی کے نام کو استعمال کرتے ہوئے چند افراد اپنی نہ صرف تنظیم کے مسائل کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے بلکہ انہوں نے ان تمام آوازوں کی خاموش کرنے کابھی فیصلہ کیا ہے جو کہ تنظیم کو کمزور کرنے والے اس گروہ کیخلا ف اٹھ رہے ہیں۔ ہمیں محسوس ہورہا ہے کہ بی ایس او آزاد کو اسی سطح پر لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جہاں پجار اورمحی الدین موجودہیں فرق صرف یہ ہے پجار اور محی الدین کو پارلیمنٹ پرستوں کا پاکٹ ونگ بنایا گیا تھا اور بی ایس او آزاد کے ساتھ وہی سلوک کچھ آزادی پسند گروہ کررہے ہیں ۔اب تک ہماری نظریں مرکزی کمیٹی پرتھیں کیونکہ وہی تنظیم کا آئینی ادارہ ہے جو کہ ان حالات میں کوئی اقدام اٹھا سکتا ہے لیکن جو سلسلہ گزشتہ سالوں سے عام ممبران سے شروع کیا گیاتھا اب وہ مرکزی کمیٹی تک پھیل چکا ہے جہاں نہ کارکنان کے مسائل زیر بحث ہوتے ہیں اور نہ ہی وہاں بیٹھے افرادکوئی مثبت فیصلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں البتہ ایک ایک کر کے مخلص ممبران کو مرکزی کمیٹی سے باہر کر کے وہاں اپنے من پسند افراد کو چور دروازے سے داخل کیا گیا ہے تاکہ وہ چند لوگ جومیڈیا میں تصویری نمائش کے بعدخود کو تنظیم کے خود ساختہ لیڈر قرار دے رہے ہیں ان کی لیڈری برقراررہے۔صرف اس امر پر غور کیا جائے کہ بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کی تعداد آئینی طور پر دس ہوتی ہے اور اس مرکزی کمیٹی سے ابتک 13 رکن استعفیٰ دے چکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ابتک استعفیٰ دینے والے زونوں کی تعداد ایک درجن سے زائد ہوتی ہے اور مستعفی کارکنان کی تعداد سینکڑوں میں ہیں اگر دیکھا جائے تو بی ایس او آزاد کو تباہی کے اس دہانے پر پہنچانے اور اکثریتی کارکنان و عہدیداران کے نکل جانے کے بعد موجودہ کابینہ و سینٹرل کمیٹی کے پاس کوئی بھی اخلاقی و سیاسی جواز نہیں بچتا کہ وہ مزید تنظیم کی قیادت سنبھالے لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ موجودہ قیادت کے مقررہ میعاد 2 سال کو پورا ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ گذرچکا ہے لیکن یہ کسی آمر کی طرح کونسل سیشن کی طرف جانے سے بھی انکاری ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کسی ڈکٹیٹر کی طرح پھیلے سارے مخالفین کو تنظیم سے فارغ کرکے پھر ایک نام نہاد سا کونسل سیشن منعقد کریں اور اسی خواہش میں وہ تنظیم کو بد ترین بحران سے دوچار کررہے ہیں اور اس بد ترین بحران کے باوجود افسوسناک حد تک بانک کریمہ ، کمال بلوچ سمیت پوری کابینہ کا طرز عمل غیر سنجیدہ ہے ، اور اتنے بحرانوں کے بعد بھی اسی غیر سنجیدگی کا مظاھرہ گذشتہ دنوں اسی ٹولے نے چار ماہ پہلے مستعفی ہونے والے رکن مرکزی کمیٹی میران بلوچ اور ستار بلوچ پر کرپشن کا الزام لگا کر فارغ کرنے سے کیا ، یہ پہلا موقع نہیں کے کارکنان اور عہدیداران پر اختلاف رکھنے پر ایسے بیہودہ الزامات لگا کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کی گئی ہو ۔ اس سارے بحرانی صورتحال ، تنظیم کے روش پر تنقید ، استعفوں کے باوجود ہم تنظیم کے اداروں کے اندر رہتے ہوئے سوال کرتے رہے اور اس بحران کو حل کرنے پر دباو ڈالتے رہے لیکن اس نام نہاد قیادت نے نا صرف کبھی بھی ہمارے سوالوں کو در خور اعتناء سمجھا اور نا ہی کبھی بھی بحرانوں کو حل کرنے میں سنجید ہ رہی بلکہ جن اداروں یعنی سینٹرل کمیٹی سے ایک امید وابسطہ تھی اس کو بھی محض اپنے کٹ پتلی منظور نظر لوگوں کے حد تک محدود کردیا ۔ مرکزی کمیٹی کے رکن مزار خان بلوچ اور زونوں نے مشترکہ بیان میں مزید کہا کہ ان چند افراد اور ان کے ساتھ موجود ہ مرکزی کمیٹی اپنا وقار اور حیثیت کھوچکی ہے اور اب صرف اپنی گناہوں کو چھپانے کیلئے کچھ علاقوں تک خود کو محدود کرتے ہوئے تصوریروں اور اخباری نمائش کے سہارے اپنی سیاست زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ تنظیم کے سینکڑوں کارکنان اور زون اس بحرانی حالت میں گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں جس سے تنظیم کے مستقبل کے حوالے سے تشویش مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ موجودہ حالات میں تمام زون اور وہ عہدیدار جو تنظیم سے حقیقی وابستگی رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ اس نام نہاد قیادت کے خلا ف آوازاٹھائیں اپنے اسی زمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مرکزی کمیٹی کے ممبر اور زونوں نے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور جلد ہے اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کرینگے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز